سنگاپور کے جنگل میں زندگی گزارنے والا شخص، جس نے تیس سال بعد ٹیلی ویژن دیکھا

ویب ڈیسک

سنگاپور – یوں تو سنگاپور ایک ایسے شہر کے طور پر جانا جاتا ہے ، جہاں ہر طرف فلک بوس عمارتیں اور لگژری اپارٹمنٹس نظر آتے ہیں، لیکن اتنے بڑے شہر میں ایک شخص کو رہنے کی جگہ نہ مل سکی اور اس نے اسی ملک کے جنگلات میں اپنی جھونپڑی بنا لی

اوہ گو سینگ سے ملتے ہوئے سب سے پہلی چیز جو آپ کو متوجہ کرتی ہے، وہ ہے ان کی آنکھوں کی چمک ہے۔ اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ زندگی کے اناسی سال انہوں نے بہت ہی سکون میں گزارے ہیں، شاید اسی لیے وہ اپنے سے آدھی عمر کے بہت سے لوگوں سے کہیں بہتر نظر آتے ہیں

اس مہینے کے اوائل میں جنگل میں رہنے والے اوہ کی کہانی سنگاپور میں وائرل ہوئی، جسے جان کر ملک میں بہت سے لوگ حیران رہ گئے

اوہ کے بارے میں میڈیا میں خبریں آنے کے بعد جہاں کچھ لوگوں نے ان کی مدد نہ کیے جانے کے متعلق سوال کیا اور کہا کہ آخر کیوں ان کی مدد نہیں کی گئی، وہیں بہت سے لوگ یہ جاننا چاہتے تھے کہ انہوں نے کسی کی نظروں میں آئے بغیر تیس سال تک جنگل میں زندگی کیسے گزاری

اس کہانی سے پردہ تب اٹھا جب کرسمس کے دن حکام نے اوہ کو روکا اور انہیں معلوم ہوا کہ وہ بغیر لائسنس کے کاروبار کر رہے تھے۔ کووڈ کی وجہ سے ان کی بازار میں پھول بیچنے والی نوکری ختم ہو گئی تھی، لہٰذا وہ خود اگائی ہوئی سبزیاں اور مرچیں بیچ رہے تھے

اوہ کا خیال ہے کہ ایک ناراض گاہک، جس نے سبزی کی ایک ڈالر (0.55 پاؤنڈ) قیمت پر ان سے بحث کی تھی، اسی نے حکام کو ان کے متعلق اطلاع دی

جس وقت اوہ حکام سے بات کر رہے تھے، اسی وقت خیراتی ادارے کے لیے کام کرنے والی سیک خاتون وہاں سے گزر رہی تھیں. خاتون نے دیکھا کہ جو اہلکار اوہ سے بات کر رہے ہیں، انہوں نے ان کی سبزیاں بھی ضبط کر لی ہیں۔

خیراتی ادارے میں کام کرنے والی ویوین پین کہتی ہیں ”مجھے یہ منظر دیکھ کر غصہ آیا، میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ اس دن خالی ہاتھ گھر جائیں۔ لیکن میں جانتی ہوں کہ قانونی لحاظ سے وہ سڑک پر سبزیاں فروخت نہیں کر سکتے“

انہوں نے اس واقعے کی وڈیو بنا کر اسے فیسبک پر پوسٹ کیا، جہاں یہ وائرل ہو گئی۔ اور بالآخر اوہ کے حالات مقامی رکنِ پارلیمنٹ کی نظر میں آئے

لیکن پھر ایم پی لیانگ اینگ ہوا کو معلوم ہوا کہ غیر قانونی طور پر سبزیاں بیچنے والے اس بوڑھے اوہ کی کہانی میں تو اور بھی بہت کچھ ہے۔ وہ کسی کی نظروں میں آئے بغیر تیس سال سے جنگل میں رہ رہے تھے

اوہ اپنے خاندان کے ساتھ ایک مقامی گاؤں سونگی تنیگا میں پلے بڑھے۔ تاہم 1980ع کی دہائی میں ایسے کئی دیہات کو مسمار کر دیا گیا، تاکہ نئی بلند و بالا عمارتوں کے لیے جگہ بن سکے

ان دیہات میں رہنے والے زیادہ تر لوگوں کو حکومت کی طرف سے نئے مکانات دیے گئے، لیکن بدقسمتی سے اوہ اپنے لیے گھر لینے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ تاہم ان کے بھائی کو ایک سرکاری فلیٹ مل گیا اور انہوں نے اوہ کو رہنے کے لیے اپنے پاس بلا لیا۔ لیکن چونکہ اوہ بھائی کے خاندان پر بوجھ نہیں بننا چاہتے تھے، لہٰذا ایک دن خوددار اوہ نے وہ فلیٹ چھوڑ دیا

وہ جنگل کی طرف چل دیے، وہیں، جہاں کبھی ان کا پرانا گھر ہوا کرتا تھا

وہاں انہوں نے لکڑی، بانس اور ترپال سے ایک جھونپڑی بنائی اور وہیں راتیں گزارنے لگے

اب اگر آپ جھونپڑی کے قریب پہنچیں تو آپ کو راکھ نظر آتی ہے، اوہ یہیں لکڑیاں جلا کر اپنا کھانا پکاتے ہیں۔ جھونپڑی کے درمیان میں ان کے سامان کا ڈھیر پڑا ہے اور پچھلے حصے میں وہ سوتے ہیں

اس جھونپڑی کے قریب وہ باغ ہے، جہاں وہ اپنی سبزیاں اگاتے تھے۔ یہاں سبزیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک باڑ لگائی گئی ہے

اوہ کہتے ہیں کہ ان کی جھونپڑی کے ساتھ لگا جیک فروٹ کا درخت کافی سایہ دار ہے، اور سنگاپور کی تیز گرمی سے انہیں بچائے رکھتا تھا

اوہ کہتے ہیں ”تنہائی کبھی بھی مسئلہ نہیں بنی۔“ انہوں نے خود کو اپنے باغ کی دیکھ بھال میں مصروف رکھا

وہ کہتے ہیں کہ یہاں سبزیاں آسانی سے اگ جاتی ہیں، جس نے چیزوں کو آسان بنا دیا تھا۔ جس چیز نے انہیں تنگ کیا، وہ چوہے تھے۔ وہ ان کی جھونپڑی میں گھس آتے اور ان کے کپڑوں میں سوراخ کر جاتے

سبزیاں بیچنے کے علاوہ جب کبھی موقع ملا اوہ نے کئی دوسرے کام بھی کیے۔ جو پیسے وہ کما پاتے، ان سے انڈونیشیا کے ایک چھوٹے سے جزیرے باٹام تک جانے والی فیری کا کرایہ ادا کر دیتے۔ یہیں پر ان کی ملاقات تاچی سے ہوئی، ان دونوں کی ایک بیٹی بھی ہے

ہر ہفتے کے آخر میں وہ باٹام جاتے تھے، اور پھر واپس سنگاپور کے جنگل میں بنی اپنی جھونپڑی میں آ جاتے

سنگاپور میں اوہ کے خاندان کی طرح ان کی اہلیہ اور بیٹی، جو کہ اب سترہ سال کی ہیں، کا کہنا ہے کہ انہیں کبھی پتا نہیں چل سکا کہ اوہ کیسے اور کہاں رہ رہے ہیں

ایک رشتہ دار کا کہنا ہے کہ وہ اپنی رہائش کے بارے میں ہمیشہ یہی کہتے کہ ’میں باغ میں رہتا ہوں۔‘

کووڈ کے بعد سے اوہ باٹام نہیں جا سکے، کیونکہ وبا کے بعد سے سنگاپور نے اپنی سرحدیں بند کر دیں تھیں اور صرف ان لوگوں کے لیے سفر کی اجازت دی جو قرنطینہ اور کووڈ ٹیسٹ کے لیے ادائیگی کر سکتے تھے

تاہم وہ پھر بھی اپنے خاندان کو ماہانہ پانچ سو سے چھ سو ڈالر تک کی رقم بھیجتے رہے

اوہ کی کہانی کا مزید ذکر آگے چل کر کریں گے، پہلے سنگاپور میں بے گھر لوگوں کے بارے میں مختصر طور پر جان لیں

سنگاپور میں کسی شخص کا بے گھر ہونا غیر معمولی ہے۔ یہاں دنیا کے امیر ترین لوگ آباد ہیں۔ عالمی بینک کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس شہر کی مجموعی قومی پیداوار ساٹھ ہزار ڈالرفی کس ہے

سنگاپور میں بڑے پیمانے پر ایک ہاؤسنگ سسٹم بھی موجود ہے اور تقریباً 80 فیصد رہائشی اسی ہاؤسنگ سسٹم کے تحت بنائے گئے گھروں میں رہائش پذیر ہیں۔ ان گھروں کی تعمیر اور انتظامات ہاؤسنگ ڈیولپمنٹ بورڈ کے پاس ہیں

اگرچہ شہر میں لوگ سڑکوں اور پلوں کے نیچے سوتے نظر نہیں آتے، مگر ایک اندازے کے مطابق تقریباً ایک ہزار سنگاپوری بے گھر ہیں

مقامی ایم پی کی ٹیم کی مدد سے رواں برس فروری میں اوہ کو رہنے کے لیے ایک نیا گھر دیا گیا ہے۔ لیانگ کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم ’اوہ کی مدد جاری رکھے گی‘ اور وہ کوشش کر رہے ہیں کہ انڈونیشیا میں موجود ان کی اہلیہ اور بیٹی سے انہیں ملوا سکیں

یہ ایک بیڈروم کا چھوٹا سا فرنشڈ فلیٹ ہے، جہاں ان کے ساتھ ایک اور شخص بھی رہ رہا ہے

فلیٹ میں ایک فریج، ٹیلی ویژن، کیتلی اور واٹر ہیٹر بھی ہے، جو خیر خواہوں نے انہیں عطیہ کیے ہیں

اوہ، واٹر ہیٹر سے بہت خوش ہیں۔ انہیں تو جنگل میں اپنی جھونپڑی کے ساتھ والے تالاب کے پانی سے نہانے کی عادت تھی اور یہاں کے نلکے کا پانی انہیں بہت ٹھنڈا لگا تھا

اب وہ ڈرائیور کی نوکری کر رہے ہیں، ان کا کام غیر ملکی ملازمین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا ہے۔ کبھی کبھی وہ باغبانی بھی کرتے ہیں

جس دن وہ اپنے نئے فلیٹ میں منتقل ہوئے اسی دن تیس سالوں کے بعد انہوں نے سنگاپور میں اپنے خاندان کے ساتھ نئے قمری سال کا جشن بھی منایا

انہوں ہنستے ہوئے بتایا ’میں نے بہت کھایا اور کئی کھانے تو ایسے تھے، جنہیں میں نے برسوں سے نہیں چکھا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’تیس سال سے بھی زیادہ عرصے کے بعد میں نے پہلی بار ٹیلی ویژن دیکھا۔ مجھے بہت مزا آیا۔‘

اگرچہ وہ اب بھی جنگل میں اپنی آزاد زندگی کو یاد کرتے ہیں، مگر ان کا کہنا ہے کہ ’وہ فلیٹ میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔‘

انہوں نے چینی زبان کا ایک محاورہ دہرایا ’میں وہاں بہت سالوں رہا، اسی لیے مجھے اس کی یاد آتی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں ”اب بھی مجھے جب وقت ملتا ہے، میں جنگل میں جاتا ہوں۔ میں صبح تین بجے اٹھتا ہوں اور کام شروع کرنے سے پہلے کپڑے وغیرہ تبدیل کر کے اپنی سبزیاں چیک کرنے جاتا ہوں“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close