روزے کا اصل مقصد تقویٰ: رمضان تیاری کیسے کریں؟

احمد دین حداد / حفصہ عبدالقیوم

ہم میں سے بے شمار لوگوں نے گزشتہ زندگی میں بیسیوں دفعہ ماہِ رمضان کے روزے بھی رکھے ہوں گے اور اس کی بابرکت راتوں میں قیام کی سعادت بھی حاصل کی ہوگی۔

یقیناً وہ مسلم خواتین اور حضرات نہایت خوش قسمت ہیں جو اِس مرتبہ بھی رمضان کے ایمان افروز لمحات سے لطف اندوز ہوں گے، ان شاء ﷲ، مگر سوچنے کی اصل بات یہ ہے کہ ہم میں سے کتنے حقیقی خوش بخت قیام و صیام کے اصل اور بنیادی تقاضوں سے عہدہ برآ ہو کر اس خداداد تربیّتی و تعمیری سیشن کے مطلوبہ مقاصد حاصل کر پاتے ہیں۔ واضح رہے کہ خداتعالیٰ کی علیم و خبیر اور لطیف و حکیم ذات اپنے دستِ قدرت کی تخلیق حضرتِ انسان کو خواہ مخواہ بھوکا پیاسا اور پابند رکھنے کی مشقت میں ڈالنا پسند نہیں کر سکتی، کیوں کہ اُس بے مثال اور لاشریک حکیم کا کوئی بھی حُکم اور امر بے پناہ حکمتوں سے خالی نہیں ہے۔

اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے بھی محض بھوک اور پیاس برداشت کرنے کو روزے سے تعبیر کرنے کی نفی فرمائی ہے، جب کہ قرآن حکیم میں تقوٰی کو روزے کا مقصودِ حقیقی قرار دیا گیا ہے۔ ایک حدیث نبویؐ کے مفہوم کے مطابق تقوٰی، قلب میں خدا پرستی سے پیدا ہونے والی ایک خاص باطنی کیفیت کا نام ہے، مگر لازم ہے کہ وہ باطنی تاثیر اِس قدر قوی اور مؤثر ہو کہ جس کے اثر سے انسان کے ظاہر و باہر میں مثبت تبدیلیاں رُونما ہوں اور اس متّقی پر الٰہی رنگ پوری طرح غالب ہو۔

تقوٰی اپنے دامن کو ضلالت و گم راہی کی خاردار جھاڑیوں سے بچانا ہے۔ کیا ان خاردار جھاڑیوں سے مراد وہ خواہشاتِ نفسانی و خواہشاتِ حیوانی نہیں ہیں جن کے زور پر اشرف المخلوقات اور احسنِ تقویم انسان اسفل السافلین کی رذالت و ذلالت میں جاگرتا ہے؟ اور جہاں گرتے ہی یہ مسجودِ ملائکہ اس حد تک متکبّر، ظالم، جابر اور سرکش بن جاتا ہے کہ ایک طرف خدا کی قدرت و قوّت حقیقی کو چیلنج کر بیٹھتا ہے تو دوسری طرف خلقِ خدا کے حقوق سلب کرکے عذابِ خداوندی کو دعوت دینے پر تُل جاتا ہے۔

الفاظ و عبارات کا جامہ مختلف ہونے کے باوجود معانی و تعبیر کی وحدت و یک سانیت کے ساتھ شیخ المشائخ حضرت عبدالقادر جیلانیؒ تقوٰی سے عدل مراد لیتے ہیں اور وہ یہ تشریح بجا طور پر تفسیرِ قرآن باالقرآن کے اصول پر فرماتے ہیں۔ کیوں کہ قرآن حکیم میں ارشادِ حق تعالٰی ہے کہ عدل کرو یہ تقوٰی کے قریب تر ہے۔ تقوٰی کے اصل مفہوم کا تعیّن کرنے کے بعد ایک دفعہ پھر روزے کے فلسفے و مقصود کی طرف لوٹ جائیے۔

سورۂ بقرہ میں فرمایا گیا، مفہوم: ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، جیسے پہلے لوگوں پر فرض تھے تاکہ تم تقوٰی اختیار کرو۔‘‘ گویا تقوٰی کی تعریف کے مطابق خواہشاتِ حیوانی سے پرہیز کرتے ہوئے حضرت شیخ جیلانیؒ کے مطابق عدل کو بہ ہر صورت لازم پکڑنا ہوگا۔

عربی کے ایک مقولے کا مفہوم ہے کہ عدل یہ ہے کہ کسی چیز کو اُس کے اصل مقام پر رکھنا۔ اور جب اصل مقام سے کسی چیز کو ہٹا دیا جائے تو پھر یہ تعریف ظلم پر صادق آتی ہے۔ اسلام عملی طور پر دو دائروں پر محیط ہے جو کہ نظری و فکری لحاظ سے ایک ہی ہیں، خدا کے حقوق اور انسانوں کے حقوق۔ اسی طرح کائنات کی جملہ تخلیقات و مخلوقات کے بھی انسانوں کے اوپر حقوق عاید ہوتے ہیں لیکن یہ حقوق اﷲ اور حقوق العباد کے ضمن میں ہی آتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ کائنات کا ہر ذرّہ خالقِ ارض و سماء نے انسانیت کی بقاء و فلاح کے لیے امرِِ کُن سے تراشیدہ ہے۔

روزہ ہم سے واحد اور منفرد مطالبہ حصولِ تقویٰ اور بہ الفاظِ دیگر ہمہ جہتی و ہمہ وقتی قیام عدل کا کرتا ہے، چاہے وہ حقوقِ انسانی کی بابت ہو یا عبادتِ خداوندی کے باب میں۔ جہاں بھی عدل پامال ہوگا، وہاں ظلم و ستم سے سارا کچھ تباہ حال ہوگا۔ اگر انسانوں کی جان، مال اور آبرو کی بربادی ظلم ہے تو دوسری طرف اﷲ وحدہ لاشریک کے مقابلے میں دوسری قوتوں کی شرکت و بالادستی تسلیم کرنا بھی قرآن حکیم کی رُو سے ظلم و ناانصافی ہے اور بے شک شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔

اگر ہم روزے کا اہتمام کرتے ہیں تو پھر از روئے حدیث نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم ایمان و احتساب کو بھی بہ روئے کار لانا ہوگا اور روزے کے ذریعے جو تقوٰی اور خدا خوفی ہمارے قلوب و اذہان میں جاگزیں ہو جائے، اس کی تاثیر اس قدر مؤثر اور قوّی ہو کہ دیگر گیارہ مہینے ہم عدل کی روش کو لازم پکڑیں، مزید یہ کہ ظلم اور عدل میں شعوری تمیز کے ساتھ ظلم و استحصال اور فتنہ و فساد سے نفرت ہمارا ذاتی و اجتماعی منشور و دستور بن جائے۔

نماز اور روزہ تو ایمان و ایقان کی سطح کو بلند کرنے کے وسیلے و طریقے ہیں اور ایمان کا بلند ترین درجہ یہ ہے کہ معاشرے و سماج سے ظلم و بدی کا جڑ سے خاتمہ ممکن بنایا جائے، جب کہ ہم حکم رانوں سے لے کر عوام النّاس تک مِن حیث القوم روزے کی حالت میں قومی و اجتماعی اور انسانی مفاد پر ذاتی و خاندانی اغراض کو ترجیح دیتے ہیں

〰️〰️〰️〰️

ویسے تو الله تعالیٰ کے عطا کیے گئے تمام مہینے ہی بہترین ہیں مگر جو بات رمضان کی ہے وہ کسی مہینے کی نہیں ہے۔ رمضان درحقیقت الله تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لئے ایک انعام ہے، ایک تحفہ ہے کہ جس کے ذریعے الله تعالیٰ مسلمانوں کو نیکی کے کاموں کی طرف راغب کرتا ہے۔

یہ وہ پیارا مہینہ ہے کہ جس کی خواہش پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ رجب سے ہی کرنا شروع کردیتے تھے اور بارگاہ الہٰی میں سر جھکا کر یہ دعا کرتے تھے کہ:
”اے الله! ہمارے لئے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان نصیب فرما“

ماہ رمضان میں روزہ رکھنا ایک عظیم عبادت ہے جو ہر مومن مرد اور عورت پر فرض ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ؛
“اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا۔ جس طرح تم سے پہلی قوموں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ”( سورۃ ابقرۃ، آیت :183)

مذکورہ آیت میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تقویٰ اختیار کرنے میں روزے کا بڑا عمل دخل ہے کیونکہ روزہ اسلام کا ایک ایسا ارکان ہے جو انسان کے اندر موجود تمام نفسانی خواہشات کو کمزور کرتا ہے جس کی وجہ سے انسان کو تقویٰ اختیار کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔

روزہ ایک ایسی عظیم و خوبصورت عبادت ہے کہ جس کا بدلہ بندے کو خود الله تعالیٰ عطا فرمائیں گے۔

روزے کی تعریف کیا بیان کریں کہ روزے کا تھوڑا اجر تو الله تعالیٰ مومنین کو افطاری کی صورت میں عطا کردیتے ہیں جبکہ باقی کا اجر الله تعالیٰ خود قیامت کے دن دینگے۔

مومن روزے کو الله تعالیٰ کے لئے رکھتا ہے اور اُس کے اس عمل سے اللہ تعالیٰ اتنے خوش ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک روزے دار کے منہ کی بو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے ماہِ رمضان کی ترتیب کچھ اس انداز سے بنائی گئی ہے کہ جس پر عمل درآمد کرنے کے بعد ایک انسان کے لیے سال کے بقیہ ایام شریعت کے مطابق گزارنا آسان بن جاتا ہے۔ اس بابرکت ماہ کے ذریعے بندے کو باری تعالیٰ کی طرف سے اپنے گناہ بخشوانے اور نیکیاں کمانے کا موقعہ فراہم کیا جاتا ہے۔

ماہِ رمضان میں عبادت کا اجر و ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ ایک نفل کا ثواب فرض کے برابر اور ایک فرض کا ثواب ستر فرائض کے برابر کردیا جاتا ہے۔ لہٰذا ماہِ رمضان کی رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹنے کے لیے ضروری ہے کہ روزمرہ کی زندگی کے لیے اپنے نظام الاوقات کو ترتیب دیا جائے۔

فرائض، سنن و نوافل، تلاوتِ قرآن پاک اور ذکر و اذکار کا اہتمام کرنے کے لیے ایک نقشہ بنایا جائے یعنی اس ماہ سے بھرپور فائدہ حاصل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی جائے اور اسی کے مطابق اپنی روزمرہ کی زندگی گزارنے کی کوشش کی جائے۔

نیچے کچھ تجاویز ذکر کی جارہی ہیں جن پر عمل کرکے ماہِ رمضان کی فیوض و برکات کو حاصل کرنا آسان بن جائے گا۔

سحری کے لیے جلدی اٹھنا، تہجد کی نماز پڑھنا اور گھریلو کام کاج میں ہاتھ بٹانا۔ نمازِ فجر باجماعت ادا کرنا، تلاوتِ قرآن اور ذکرواذکار میں مشغول رہنا، اشراق اور چاشت نماز کا اہتمام کرنا کیونکہ نماز اشراق کا ثواب ایک مکمل حج یا عمرے کے برابر ہے۔

تمام نمازوں کو اُن کے وقت پر ادا کرنا اور فارغ وقت کو ضائع نہیں کرنا بلکہ اُس میں قرآن پاک کی تلاوت کرنا۔ پورا دن غیبت، جھوٹ، بہتان، چغلی، گالی گلوچ، حسد، کینہ، تکبر، بدنظری و دیگر بُرے اعمال سے اجتناب کرنا۔

افطاری سے پہلے دعا و استغفار کا خصوصی اہتمام کرنا کیونکہ افطاری کے وقت اگر دل سے دعا مانگی جائے تو اللہ تعالیٰ اُسے ضرور قبول کرتے ہیں۔ عشاء نماز باجماعت ادا کرنا اور مکمل تراویح پڑھنا بعدازاں عشاء کے بعد جلدی سوجانا اور پھر وقت تہجد میں اٹھ کر عبادت کا اہتمام کرنا۔

تمام مومنین یاد رکھیں کہ اس بابرکت ماہ کی برکات سے مستفید ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اپنا اکثر وقت عبادت میں گزارا جائے۔ تلاوت قرآن پاک کرنے سے پہلے یہ سوچنا کہ بس اتنا ہی پڑھنا ہے اُس سے زیادہ نہیں یا خود کو ذکر و اذکار کی چند تسبیحات تک محدود کردینا ایمان کی کمزوری کی علامت ہے لہٰذا کوشش کریں کہ اس ماہ رمضان کا بھرپور فائدہ اٹھائیں اور اپنی آخرت کو سنوارنے کی بھرپور کوشش کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close