پھر سے۔۔۔

شاہین کمال (کیلگری، کینیڈا)

آج میں نے صبح تڑکے بچوں کو اسکول روانہ کرتے ہی دن کے کھانے کی تیاری شروع کر دی کہ مصمم ارادہ یہی تھا کہ دنوں سے ٹلتے افسانے کو پایہ تکمیل تک پہنچاؤں۔ آج آسانی یوں بھی تھی کہ بختیار کا آفیشل ڈنر ہے، سو میٹھا پکانے کی چھٹی۔ کھانے کہ ہم دونوں میاں بیوی شوقین اور بلا کے چٹورے بھی۔ میرے حالات تو خیر اور بھی مخدوش کہ تلی اور بیکری کی اشیاء از حد مرغوب، نتیجتاً گوشت کی تہوں میں ناک نقشے سب رپوش۔ شادی کی دسویں سالگرہ پر جب ہم دونوں پہ کوئی لباس نہ جچا اور میڈیکل رپورٹ بھی زور شور سے خطرے کی گھنٹی بجانے لگی تو ہوش کے ناخن لیے اور سنجیدگی سے وزن کم کرنے کے متعلق سوچا۔ بختیار کہ صاحب اختیار ٹھہرے سو فٹ سے جم جوائن کر لی۔

میرے لیے یہ امر قدرے مشکل کہ میں بیک وقت کئی رول نبھا رہی تھی اور میرا سب سے زیادہ وقت تو ڈرائیوری لے رہی تھی۔ دونوں بچوں کا اسکول سے پک اینڈ ڈراپ اور پھر ہفتے میں دو دن تیراکی کلاس، ایک دن جوڈو اور ایک دن انسٹرومنٹیل کلاس تو گویا مجھ سے سڑکیں ہی نپوایا کرتے تھے۔ میری بچوں کے معاملے میں حد سے بڑھی ہوئی احتیاط مجھے کسی پر بھروسہ نہیں کرنے دیتی اور وجہ میرے اپنے بچپنے کے کچھ تلخ تجربات تھے۔ بچپن کی وہ خوفناک یادیں اب بھی کبھی کبھار میری نیندیں اڑانے کا باعث بنتی ہیں۔ اسی لیے میرے گھر کوئی کل وقتی ملازم نہیں۔ اس حفاظتی پیش بندی کے چکر میں، اپنے آپ پر میں نے اپنی استطاعت سے کہیں زیادہ بوجھ لاد لیا ہے اور مجھے کھل کے سانس بھی میسر نہیں۔
لو بات کدھر سے کدھر چلی گئی۔ میں اپنے دبلے اور اسمارٹ ہونے کا احوال بتا رہی تھی۔ یہ تو طے ہے کہ ڈائٹنگ میرے بس کا روگ نہیں سو میں نے آسان ترین حل نکالا یعنی واک، کھانے میں پورشن کنٹرول اور ایک گلاس پانی میں آدھ چائے کا چمچہ چیا سیڈ رات کو بھگو کر صبح نہار منہ پی لینا۔ اس کار دشوار کی شرط اولیں ہے مستقل مزاجی اور اسی مستقل مزاجی کے سبب اپنی شادی کی بارویں سالگرہ پر میں اپنے ولیمے کے جوڑے میں دوبارہ با آسانی سما گئی۔ یہ بہت بڑی کامیابی تھی اور حقیقت تو یہ ہے کہ اس معاملے میں بختیار باوجود جم کے،کہیں پیچھے رہ گئے تھے۔ میں اپنے آپ کو دوبارہ کھونا نہیں چاہتی تھی، لہزا بہت محتاط رہتی، کھاتی سب کچھ مگر بھوک رہتے ہوئے ہاتھ کھینچ لینا میرا اصول ہے۔

زندگی بگولے کی طرح سب اڑائے لیے جا رہی تھی اور میں گن چکر بنی وقت کے تعاقب میں ہانپ رہی ہوں۔ طالب علمی کے دوران جم کے اردو ادب پڑھا اور دبا کے لکھا۔ شادی گھر اور بچے مجھے میرے جنون سے بھی پرے کر گئے۔ شروع کے چھ سال تو بختیار کے ساتھ کی مدہوشی اور پھر دونوں بچوں کی دیکھ رکھ نے دیوانہ بنائے رکھا۔ بچوں کے بعد تو میرے پاس بختیار کے لیے بھی وقت نہیں تھا۔ دونوں بھائی بہن جوڑواں اور پیدائش بھی سی سیکشن سے، مجھے تو صحیح معنوں میں دن میں تارے نظر آنے لگے تھے۔ ماں باپ سے بغاوت کر کے شادی کی تھی سو میکے اور سسرال سے سفارتی تعلقات بھی ٹھنڈے ٹھنڈے سے۔ وہ بڑے مشکل دن تھے، بختیار کی نوکری کے اوقات بھی سخت اور مالی آسودگی بھی نہیں۔ بختیار نے بڑا ساتھ نبھایا، دن میں دفتر اور رات رات بھر کبھی بیٹے تو کبھی بیٹی کو گود میں لیے رہتے کہ میرے ٹانکوں میں پس پڑ گئے تھے، خیر وہ کٹھن وقت بھی گزر گیا۔

ہماری پہلی ملاقات کا قصہ بڑا دلچسپ ہے۔ میں تازہ تازہ شعبہ صحافت کی پوسٹ گریجویٹ تھی اور نئ نکور نوکری کا پہلا اسائمنٹ ملا ۔ مجھے جانے مانے مصنف کی کتاب کی تقریب رونمائی میں شرکت کرنی تھی اور تقریب کے احوال کے ساتھ ساتھ مصنف، جن کی یہ تیسری کتاب تھی، ان کا غیر روایتی سا انٹرویو بھی کرنا تھا۔ میں کافی پر اعتماد ہوں پر شاید کوئی کوئی دن منفی توانائی کے زیر اثر ہوجاتا ہے۔ اس دن بھی کراچی میں گرج برج کے برستی بارش تھی لہذا سڑکوں کا پوچھنا ہی کیا؟ طرفہ مصیبت کہ گاڑی کے کاربوریٹر میں پانی چلا گیا اور گاڑی صاحبہ روٹھی ہوئی محبوبہ کی طرح منہ بسور کر عین ایم اے جناح روڈ کے وسط میں کھڑی ہو گئیں۔ اطراف سے گزرتی گاڑیوں کے ہارن کا بے ہنگم شور اور گاڑی کا بونٹ کھولے گھٹنے تک پانی میں شرابور ہونق لڑکی یقیناً تفریح طبع کا باعث تھی۔ خیر اسی افراتفری میں ایک ڈیشنگ نائنٹ Knight گھوڑے پر تو نہیں البتہ اپنی پھٹپھٹی ہنڈا 50 پر جلوہ افروز ہوئے اور لوگوں کے ساتھ مل ملا کر میرے سفید ہاتھی کو دھکا لگا کر سڑک کے کنارے لگایا اور کمال شیولری سے میرے لیے ٹیکسی بھی روک دی۔ میں لشٹم پشٹم تقریب میں قدرے تاخیر ہی سے سہی پر پہنچ گئی۔ بارش کی وجہ سے تقریب میں زیادہ لوگ نہیں تھے۔ مصنف موصوف کی شان میں تقاریر ہوتی رہی اور وہ ہیلیئم بھرے غبارے کی طرح اوپر اور اوپر مائل پرواز رہے۔ میں نے انٹرویو کی کوشش تو کی مگر مصنف صاحب کے چہرے پر پھیلی رعونت میرے ارادے کے آڑے اتی رہی۔ بوریت کو کم کرنے کے لیے میں نے چائے کی کپ اٹھائی اور ساتھ ہی کپ اٹھاتا ہوا جو دوسرا ہاتھ نظر آیا اسے دیکھ کر ایک انجانی سی خوشی محسوس ہوئی اور
بے اختیار میرے منہ سے نکلا آپ؟؟؟

جواب میں اس نائنٹ نے ہنستے ہوئے کہا
"ارے آپ یہاں بھی؟”
اور ہم دونوں ایک ساتھ ہنس پڑے اور ساتھ ہی ابر بھی کھلا اور شفاف بڑی کھڑکی سے قوس قزح نے مسکرا کر آنکھ جھپکی۔ چائے ٹھنڈی اور انتہائی بد مزہ تھی سو میں نے کپ آہستگی سے ٹبل پر دھر دی اور وہ میرے چہرے کے بگڑے زاویے دیکھ کر بے ساختہ مسکرانے لگا۔ حال احوال ہوا تو میں نے بتایا کہ بس مصنف کا انٹرویو رہ گیا باقی تقریب کی تفصیل اور مہمانوں کے تاثرات میں رقم کر چکی ہوں ۔ کہنے لگا پھر دیر کیسی چلیے۔ وہ مصنف سے بڑھ کر ملا اپنا تعارف اور کسی کا حوالہ دیا اور ساتھ ہی میرا تعارف بھی کروا دیا اور بات سے بات نکلتی چلی گئی اور یوں میرا شاندار سا غیر رسمی انٹرویو تیار ہو گیا۔ کیا جادوگر تھا وہ نائیٹ بھی۔ وآپسی میں ہم ساتھ ہی نکلے۔ مجھے پانچ منٹ رکنے کا کہہ کر قریبی گلی میں کہیں تیزی سے چلتا ہوا غائب ہو گیا اور ترنت ہی گرما گرم بھاپ اڑاتی چائے لے کر بوتل کے جن کی طرح حاضر۔ اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی اس چائے کی خوشبو اور ذائقہ جوں کا توں میرے ذہن و دہن میں موجود ہے اور یقین کیجیے اس سے اچھی چائے میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں پی۔ شادی کے بعد میں نے کئی بار اسی ڈھابے سے چائے پی مگر اس پہلی چائے جیسا سواد پھر نہیں ملا۔ یہ یقیناً اس کی ہمراہی کا سحر اور میرے دل کی کارستانی کا اثر تھا۔
میں اتنا جلدی کسی سے متاثر نہیں ہوتی مگر اس کے ساتھ تو واقعی ایسا لگا کہ بیک گراؤنڈ میں موسیقی بج رہی ہے، ڈوپٹہ ہوا میں اڑتا جا رہا اور بال لہرانے لگے ہیں بلکہ میرا دل تو مور کی طرح ناچنے کا چاہ رہا تھا۔ اس نے مجھے ٹیکسی میں بٹھایا، ٹیکسی کا نمبر نوٹ کیا اور اپنا سیل نمبر دیا کہ بس گھر پہنچ کر "ریچ” کا میسج کر دیجیے گا۔ آہا اسمارٹ موو۔ میں دل ہی دل میں مسکرائی کہ چلو شکر آسانی سے نمبر مل گیا کہ مجھے اس سے نمبر مانگتے جھجک محسوس ہو رہی تھی پر دل کا اصرار بھی شدید تھا ۔ میں اپنے جذبات سمجھنے سے بالکل قاصر تھی۔ نہ میں ٹین ایجر تھی اور نہ ہی کوئی شرم و حیا کی پتلی۔ میں نے مخلوط درس گاہوں میں تعلیم حاصل کی تھی اور میرے حلقے میں میرے لڑکے دوست بھی شامل تھے مگر تئیس سال، چار مہینے اور چھ دن میں دل پہلی بار ایسے مچلا تھا۔ دل کا جانا مجھے بہت بھایا اور ٹیکسی میں چلتا گانا "آج کل پاؤں زمین پر نہیں پڑتے میرے” لگا کہ میرا ہی ترجمان ہے، میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے کہا، بھیا ذرا آواز تو اونچی کر دو اور جی چاہا کہ کھڑکی سے سر نکال کر مست بھیگی ہوا سے لطف اندوز ہوں مگر گھٹنے گھنٹے پانی میں ڈوبی سڑک پہ یہ رومانوی عیاشی ممکن نہیں تھی۔

بختیار سے میسجز کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ دراز ہوا اور معاملہ کھٹاک سے شادی تک جا پہنچا ۔ اپنے اور بختیار کے معاشی تفاوت کی وجہ سے راہ کی کٹھنائیوں کا اندازہ مجھے تھا مگر میں یہ بھی جانتی تھی کہ یہ ہٹیلا دل اب پیچھے ہٹنے والا نہیں۔ گھر میں شدید کشیدگی رہی کہ ممی فارن آفس میں تعینات اپنے بھتیجے کو چھوڑ کر ایک معمولی بینک آفیسر سے میری شادی کے حق میں نہیں تھیں اور بختیار کے گھر میں خاندان سے باہر شادی کا رواج نہیں تھا۔ عجیب گنجلک صورت حال تھی مگر وہی بات جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی؟
کیوپڈ کے ساتھ ساتھ قسمت کی دیوی بھی مہربان تھی سو یہ سنجوگ ہو کر رہا۔ ممی میری فطرت سے واقف تھیں، انہیں علم تھا کہ مجھے دیوار سے لگانے کا انجام کورٹ میرج کی صورت میں سامنے آئے گا سو دونوں گھرانوں نے اوپری دل سے ہماری شادی کروا دی اور ساتھ ہی لاتعلقی کا کھلا سگنل بھی دے دیا

میں بختیار کو پا کر بے انتہا خوش تھی۔ مجھے تنگی ترشی کی بھی شکایت نہیں تھی۔ بختیار کا ساتھ میرے لیے حیات بخش جام تھا۔ دونوں بچوں کی پیدائش کے بعد میرے لیے کام جاری رکھنا ممکن نہ تھا کہ میں بچوں کے لیے کسی قیمت پر بھی آیا یا ڈے کیئر کے حق میں نہ تھی۔ وہ میری زندگی کا مشکل ترین دور تھا۔ مالی تنگی تو تھی ہی مگر اب بچوں کی مصروفیات نے میری معاشرتی زندگی کو بالکل جامد اور زنگ آلود کر دیا تھا۔ بڑھتے ہوئے اخراجات پہ دسترس کے لیے بختیار نے اپنے آپ کو کام کی مشین بنا لیا۔ ہم دونوں ہی اپنے اپنے محاذ پر ان تھک محنت کر رہے تھے مگر ساتھ ہی ساتھ غیر محسوس طریقے سے ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے تھے۔ ہفتے گزر جاتے ہم لوگوں کو ایک ساتھ معیاری وقت بتائے۔

عرصے بعد بختیار کی ان تھک محنت سوارت ہوئی اور ان پر ترقی کے دروازے کھلتے چلے گئے۔ ہمارا معیار زندگی اب بہت بہتر تھا مگر میں اپنے بچوں کا سارا کام اب بھی خود ہی کرتی اور باز کی طرح ان کی نگرانی بھی۔ بچوں کا باقاعدہ اسکول اور ان کی اپنی روٹین تھی۔ اس سبب قدرے فرصت میسر آنے پر میرا پرانا لکھنے کا شوق پوری شدت سے عود آیا مگر لکھنے کے لیے جس یکسوئی اور وقت کی ضرورت تھی وہ تا حال مفقود ۔ اب میں تھکنے لگی تھی اور یہ تھکن میرے وجود اور رویے سے ہویدا تھی۔ بختیار ہمارے درمیان بڑھتے فاصلے کو ماپے بغیر ترقی کی منزل پر منزل مار رہے تھے، یہ جانے بنا کہ اس تیز تر سفر کے اڑتے بگولوں میں ان کے ہم سفر گرد میں اٹے کہیں پیچھے ہی نڈھال رک گئے ہیں۔

بختیار کے پاس بچوں کے لیے اور میرے لیے بالکل وقت نہیں تھا۔ مجھے تو اب یاد بھی نہیں کہ وہ کون سی آخری تقریب تھی جسے ہم چاروں نے اکٹھے منایا تھا۔ بچوں کی پیرنٹ ٹیچر میٹنگ ہو یا اسپورٹس ڈے یا بچوں کی کی کامیابیوں کا جشن یا ان کی سالگراہیں، بختیار کہیں موجود نہیں ہوتے۔ یہی حال شادی کی سالگرہ کا تھا، وہ تحفے میں مجھے چیک یا ATM کارڈ پکڑا دیتا اور میں اس حقیر کاغذ کے ٹکڑے کو ہاتھوں میں پکڑے پکڑے ٹکر ٹکر اسے دیکھتے ہوئے سوچتی رہ جاتی کہ بختیار یہ کیسے بھول گیا کہ میں تو اس کے ساتھ ڈھابے کی چائے پی کر ہی خوش ہو جاتی تھی۔ میں تو بچپن ہی سے معاشی آسودگی سے آسودہ تھی ، اگر وہی طرز زندگی میرا پسندیدہ ہوتا تو میں اپنے فارن آفس میں تعینات کزن پر اسے ترجیح کیوں دیتی؟

مجھے تو اس کی حس مزاح اور نچھاور ہو ہو جانے والی محبت نے اسیر کیا تھا۔ مجھے اس کا چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنا ہی تو بھاتا تھا۔ رات میں میرے بیڈ سائڈ پر ڈھانپ کر پانی کا گلاس رکھنا۔ مجھے نیند مکمل اندھیرے میں آتی ہے، اس لیے میری نیند کے خیال سے بختیار رات میں باتھ روم کی لائٹ نہیں جلاتا تھا بلکہ اس نے غسل خانے کے پلگ میں نائٹ بلب لگایا ہوا تھا۔ برسات اور سردیوں میں میری پہلی چھنک کے ساتھ ہی ادرک کا قہوہ حاضر ہوتا۔ اسے بچوں اور میری سالگرہ ہمیشہ یاد رہتی تھی اور بختیار ہر خوشی کو دل سے اور بڑے اہتمام سے مناتا تھا۔ جب تو ہم لوگوں کے پاس گاڑی بھی نہیں ہوا کرتی تھی پر ہم ہر ہفتے بائیک پر ساحل سمندر کے مزے لیتے اور کراچی کی سڑکیں ناپا کرتے۔ گھر کے بنے بن کباب اور بھنے چنے منو سلویٰ سے بھی اعلیٰ لگتے تھے۔ زندگی تو وحید مراد اور زیبا کی فلم جیسی حسین اور رومانی تھی۔

میں، جس نے آسائشوں میں آنکھیں کھولی تھیں بالکل متوسط طبقے کی سگھڑ بیوی کے سانچے میں ڈھل چکی تھی۔ میرے لیے پالر، ہوٹلنگ اور بڑے برینڈ کے کپڑے اور میک کا سامان قصہ پارینہ تھے۔ میں نہایت لو مینٹیننس بیوی تھی جو اس کی ہمراہی میں ڈھابے کی چائے اور بہادرآباد کی چاٹ پہ خوش ہو جاتی تھی۔ اپنی بچت سے اپنے لیے کچھ لینے کے بجائے مجھے بختیار کے لیے ڈریس شرٹ یا اچھا جوتا لینا محبوب تھا۔ میں کم میں خوش اور آسودہ تھی، بس ضرورتیں پوری ہوتی رہیں اور کیا چاہیے مگر جانے کیوں بختیار اس دولت کی دوڑ میں شامل ہو گیا؟ پھر ہمارے گھر سب کچھ بدل گیا، نہ وہ قہقہے رہے اور نہ وہ رونقیں۔
مجھے آج بھی وہ دن اپنی تمام تر جزیات کے ساتھ یاد ہے وہ بچوں کی دسویں سالگرہ تھی گو کہ تقریب بڑے پیمانے پر نہیں تھی مگر مہمان سارے موجود تھے اور بختیار کا
” آدھ گھنٹے میں پہنچ رہا ہوں ” ڈھائی پونے تین گھنٹے پر محیط ہو چکا تھا اور گہری شام کے سرمئی سائے تلے مہمانوں میں واضح اضطراب محسوس کرتے ہوئے میں نے ناچار کیک کٹوا دیا تھا۔ دونوں بچے باپ کی غیر موجودگی سے اس قدر دل شکستہ تھے کہ انہوں نے اپنے تحائف بھی کھولنے کی زحمت نہیں کی اور منہ بسورے بسورے سو گئے۔
اس دن میری بختیار سے شدید لڑائی ہوئی تھی اور میں نے اسے صاف صاف بتا دیا تھا کہ مجھے پر تعیش زندگی نہیں چاہیے کہ میرے لیے اس کا ساتھ ہی مقدم ہے۔ مگر بختیار کی سوئی اسی بات پر اٹکی رہی کہ میں جو کچھ بھی کر رہا ہو تم ہی لوگوں کے آرام و آسائش کے لیے تو کر رہا ہوں۔ جانے کیوں بختیار نے پیسے کو اپنا نعم البدل جانا جبکہ ہم تینوں کے لیے بختیار کا وجود اور اس کا دیا گیا ترجیحی وقت ہی اہم تھا۔ بچے تو پھر بھی کسی حد تک اس کی غیر حاضری کے عادی ہو گئے مگر میرا دل کسی بھی قیمت پر اس عدم توجہی کو سہار نہیں پا رہا تھا۔ نتیجتاً ہمارے درمیان سرد مہری کی دبیز چادر تن گئی تھی۔ میری پوری کوشش ہوتی تھی کہ میسر مختصر ترین وقت خوشگوار ہی رہے مگر اکثر کوئی نہ کوئی بات بد مزگی اور تنازع کا باعث بن ہی جاتی۔ میرا دل تب بری طرح ٹوٹا جب بختیار میری پہلی کتاب کی تقریب رونمائی میں مہمانوں کے رخصت ہونے سمے پہنچنے والا میزبان تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس دن اتنی بڑی خوشی پا کر بھی میرا دل بجھا ہوا اور اداس تھا۔ گو کہ کتاب کا چھپنا میرا دیرینہ ارمان تھا پر اب ایسا لگ رہا تھا کہ کیوں؟ کس لیے؟

سب کچھ ہی فضول اور بے معنی لگ رہا تھا اور دل ایک دم خالی خالی سا، تنہا اور اداس
پھر اس دن کے بعد سب کچھ بدل گیا اور ایک چھت کے نیچے دو اجنبی رہنے لگے۔ میں چاہتی تو میکے لوٹ سکتی تھی مگر میں بچوں سے ان کی چھت اور ان کے پیروں تلے سے مضبوط زمین نہیں چھینا چاہتی تھی سو بختیار کے گھر ہی رہی۔ عجیب بات کہ چاہتوں اور محبتوں سے بنایا سجایا گھر اب مجھے کاٹنے دوڑتا تھا اور میں بچوں کے علاؤہ ہر چیز سے بے نیاز ہو چکی تھی۔ وہ گھر جو کبھی بہت مہربان اور گرم جوش لگتا تھا اب بالکل اداس اور ساکت محسوس ہوتا۔ ہم لوگوں کی زندگی بالکل روبوٹک تھی اور میرا اور بختیار کا تعلق صرف ضروری گفتگو تک محدود رہ گیا تھا۔
بے رنگ و سپاٹ دن یکسانیت سے گزرتے چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج دونوں بچوں کے او لیول کے بہترین رزلٹ کے سلسلے سے مقامی کلب میں شاندار پارٹی ہے۔ بچوں نے دعوت نامہ بختیار کے آفس کے پتے پر پوسٹ کر دیا تھا۔ صبح اس کے دفتر نکلتے وقت نہ میں نے اس سے کچھ پوچھا اور نہ ہی پارٹی کے متعلق یاد دہانی کروائی۔ تقریب کی گہما گہمی اپنے عروج پہ تھی مگر بچوں کی باپ کے لیے بے چین اور منتظر نظریں میرے دل پر تازیانہ بن کر لگ رہی تھیں۔ یکایک بختیار تحائف سے لدے پھندے دروازے سے اندر داخل ہوتے نظر آئے۔ لپک کر بچوں کو لپٹا لیا۔ بچوں کی خوشی دیدنی تھی، ان کی بجھی آنکھوں میں خوشیوں کے دئیے روشن تھے۔
دونوں بچے بے ساختہ ہنستے ہوئے مجھ سے لپٹ گئے۔
رات دیر گئے کلب سے وآپسی ہوئی اور میرے گھر نے عرصے بعد بڑی گرم جوشی سے ہمارا سواگت کیا۔
جانے بیوی کا دل نرم ہوتا ہے یا ماں کے لیے بچوں کا تحفظ مقدم؟
میں نہیں جانتی کہ یہ بیوی کی کمزوری تھی یا ممتا کی مجبوری؟
اس سوال کا جواب تو میرے پاس نہیں،
ہاں مگر اتنا ضرور ہے کہ بختیار کی خلوص دل سے مانگی گئی معافی بشرط تلافی نے میرے دل کا سارا غبار صاف کر دیا اور زندگی ایک بار "پھر سے” سبک رفتار ہو گئی کہ توازن ہی زندگی کا حسن و جوہر ہے۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close