اس ہفتے کی تصاویر

 

یہ تصویر حفیظ بلوچ نے بھیجی ہے، جو ملیر کے علاقے کاٹھور میں لی گئی ہے، جب دھرتی نے بارشوں کے بعد سبزے کی چادر اوڑھ لی ہے۔۔ بارشوں کے بعد یہ دھلا آسماں، یہ سبز چادر اوڑھے پاک زمیں، یہ پرندوں کی مستیاں اور خوشی سے ادہر ادہر گھاس چرتے مویشی ارض ملیر کی دلکشی کا خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔

 

ملیر: جنڈ ( بلوچی میں کہیر، سندھی میں کَنڈی) کی یہ تصویر عومر درویش نی بیجھی ہے۔ جنڈ ملیر کے علاقے میں نہ صرف مویشیوں کے چارے کا ایک بڑا ذریعہ ہے بلکہ اس میں لگنے والی کچی پھلیوں کا سالن بھی ذائقے میں اپنی مثال آپ ہے۔۔ لیکن بدقسمتی سے کراچی کے نواح میں بڑھتی ہوئی ہاؤسنگ سوسائٹیز اور جنگلات کی تیزی سے کٹائی کی وجہ سے یہ درخت معدوم ہوتا جا رہا ہے

 

 

یہ تصویر گڈاپ سے امر گل نے ارسال کی ہے۔ جب آسمان زمیں پر مہربان ہوتا ہے تو زمین خوش ہو کر زمین پر رہنے والوں کو تحفے دیتی ہے۔۔ قدرت کے انہی خوبصورت اور ذائقہ دار تحفوں میں سے ایک کمبھی ہے۔ کھمبی پکا کر کھائی جاتی ہے، جو ذائقے میں بے مثال اور طبی فوائد کے اعتبار سے لاجواب خصوصیات کی حامل ہے ۔

 

 

یہ تصویر ملیر کراچی سے عومر درویش نے بیجھی ہے ۔ عومر درویش لکھتے ہیں ”ملیر میں جنگلات اور چراہ گاہیں محدود ہوتی جا رہی ہیں۔ ان جنگلات پر بھی بلڈرز کی نظر ہے، جہاں انڈسٹریل زون تعمیر ہونے جا رہا ہے۔

 

یہ تصویر ہمیں ارسال کی ہے ملیر سے سلمان بلوچ نے۔۔ ملیر میں ایک طرف جہاں بے دریغ طور پر غیر قانونی ہاؤسنگ پروجیٹکس کھیرتھر نیشنل پارک کے خوبصورت مناظر کو ہڑپ کر رہے ہیں، وہیں کراچی سے نزدیک ملیر کا بچا کھچا گرین بیلٹ ملیر ایکسپریس وے کی زد میں ہے۔۔۔ یہ ملیر کے ایک ایسے ہی باغ کی تصویر ہے، جس کا مستقبل ان گنت خدشات میں گھرا ہوا ہے۔

 

 

 

بچپن کے وہ دن ، جب بادلوں سے زمین کی طرف لپکنے والے ابتدائی قطروں سے ہی جستی چادروں کی چھتوں پر جلترنگ بجنا شروع ہوجاتے اور لوگ خوشی سے جھومتے ہوئے کمروں سے نکل کر کھلی جگہوں کی طرف لپکتے۔ بچے زور زور سے تالیاں بجاتے شور مچاتے دروازوں سے باہر نکل کر گلیوں اور میدانوں کی طرف دوڑ لگا دیتے۔۔

’اللہ میاں پانی دے، سو برس کی نانی دے‘

بارشیں برستیں اور خوب برستیں۔ کئی کئی دن تک جھڑی لگی رہتی اور جل تھل ایک ہوجاتا۔

برسات کے بعد بچے کھیل کود اور سیر و تفریح کے لیے دُور دُور جاتے۔ بارش کے بعد ہلکی سی دھوپ نکلتے ہی ہم میدانوں میں بیر بہوٹیاں پکڑنے نکل جاتے۔ زمین پر نگاہیں جمائے بچے بار بار صدا بلند کرتے:

’بلبوٹی بلبوٹی۔۔۔۔!
پنجے کھول تیرا ماموں آیا‘

سرخ رنگ کی مخملی بیر بہوٹی یہ سنتے ہی شرما کر اپنے کھلے پنجے بھی بند کر لیتی۔ تھوڑی ہی تگ و دو کے بعد ہر بچہ اپنے پاس موجود ماچس کی ڈبیوں میں کئی بیر بہوٹیاں پکڑ کر اپنے گھر لے آتا تھا اور سب کو فخر سے اپنا یہ مخملیں شکار دکھاتا۔
تصویر: امر گل
سطور: عبداللہ کیہر

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close