ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم، پرویز الہیٰ وزیراعلیٰ پنجاب قرار: سپریم کورٹ

ویب ڈیسک

سپریم کورٹ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دیتے ہوئے، پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار چوہدری پرویز الہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب قرار دے دیا ہے

چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میں گیارہ صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ سنایا

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی رولنگ کے خلاف چوہدری پرویز الہیٰ کی درخواست پر منگل کی شام سماعت مکمل کی تھی جس کے بعد پہلے پانچ بج کر پینتالیس منٹ پر فیصلہ سنانے کا کہا تھا، مگر اس کے بعد وقت تبدیل کیا گیا اور ساڑھے سات بجے کا وقت دیا تھا تاہم مقررہ وقت میں مزید تاخیر دیکھی گئی اور یہ فیصلہ تقریباً رات پونے نو بجے کے قریب سنایا گیا

ڈپٹی اسپیکر پنجاب دوست مزاری کی وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق رولنگ کے خلاف پرویز الہی کی درخواست پر دفاع کے وکلا کے دلائل مکمل ہو گئے ہیں جس کے بعد عدالت نے کہا ہے کہ فیصلہ شام پونے چھ بجے سنائیں گے

واضح رہے کہ رولنگ کے خلاف حکومتی اتحاد اور فریقین نے دلائل نہیں دیے اور بائیکاٹ کیا جس پر چیف جسٹس نے کارروائی کا بائیکاٹ کرنے والوں کو ’دل بڑا کرنے اور کارروائی سننے‘ کا کہا تھا

وقفے کے بعد سماعت کا احوال

وقفے کے بعد ڈھائی بجے سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ خط پولنگ سے پہلے پارلیمنٹری پارٹی کے سامنے پڑھا گیا تھا یا نہیں۔ عدالت کے سامنے سوال یہ بھی ہے کہ فیصلے کو ٹھیک سے پڑھا گیا یا نہیں

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نکتہ یہ ہے کہ دوسرے فریق سن رہے ہیں لیکن کارروائی میں حصہ نہیں لے رہے۔ اس وقت ان کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے اقوام متحدہ میں مبصر ممالک کی ہوتی ہے

اسی دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک سے کہا کہ ’نائیک صاحب اگر کچھ بہتری آ سکتی ہے تو عدالت سننے کے لیے تیار ہے۔ اس پر فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ان مقدمات میں ہم پارٹی پالیسی کے پابند ہوتے ہیں

بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کے کردار پر قائل کرتے ہوئے کہا کہ ’پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کو ہدایات دے سکتا ہے لیکن ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا۔ ووٹ کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی نے کرنا ہے۔‘

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ تو واضح ہے کہ اگر کسی ممبر کو ضمیر کے مطابق پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ نہیں دینا تو استعفی دے کر دوبارہ آ جائے

دلائل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنرل کی عدم موجودگی ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کے سامنے چند گزارشات پیش کیں

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 2015ع کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ہدایت دے سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر جب تک نظر ثانی نہ ہو اس پر عملدرآمد لازمی ہے۔ فیصلے موجود ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے ہرعدالت کے لیے بائنڈنگ ہیں

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے مطابق پارلیمانی پارٹی کو اختیار دینا ضروری ہے۔ پارلیمانی پارٹی کو مضبوط کرنا پارلیمانی جمہوریت کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ سپریم کورٹ کے ہر فیصلے پر عملدرآمد لازمی نہیں، آپ کی دلیل عجیب و غریب ہے

انہوں نے مزید کہا کہ وہاں اس کیس میں تو ووٹنگ کا سوال ہی نہیں تھا

چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم سب کے شکرگزار ہیں جنہوں نے عدالت کی معاونت کی۔‘

عدالت نے کہا کہ ہم ابھی وقفہ کر رہے ہیں پونے چھ بجے آ کر فیصلہ سنائیں گے

’بائیکاٹ کرنے والے تھوڑا دل بڑا کریں‘

اس سے قبل عدالت میں پرویز الٰہی کی درخواست پر منگل کو سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ بائیکاٹ کرنے والے گریس کا مظاہرہ کریں۔ ’عدالت کا بائیکاٹ کرنے والے تھوڑا دل بڑا کریں اور کارروائی سنیں۔‘

حکمران اتحاد نے کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا ہے کیونکہ تین رکنی بینچ نے اس کے مطالبے کے مطابق فیصلہ سنانے کے لیے فل بینچ تشکیل نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا

سماعت کے آغاز میں ہی اتحادی حکومت، حمزہ شہباز، ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی اور پیپلز پارٹی سمیت فریقین کے وکلا نے رولنگ کے حوالے سے دلائل دینے سے معذرت کر لی اور موقف اپنایا کہ چونکہ عدالت فل کورٹ نہیں بنا رہی اس لیے ہم عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پھر نشست پر بیٹھ کر عدالتی کارروائی سنیں

ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر نے عدالت سے کہا کہ ملک میں عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ چل رہا ہے وہ فل کورٹ کے حوالے سے فیصلے پر نظرثانی دائر کریں گے

چیف جسٹس نے وکلا کے بائیکاٹ کے بعد کہا کہ اصل سوال تھا کہ ارکان کو ہدایات کون دے سکتا ہے۔ آئین پڑھنے سے واضح ہے کہ ہدایات پارلیمانی پارٹی نے دینی ہیں۔ اس سوال کے جواب کے لیے کسی مزید قانونی دلیل کی ضرورت نہیں۔ یہ ایسا سوال نہیں تھا جس پر فل کورٹ تشکیل دی جاتی

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ فریقین نے وکلا کو بتایا تھا کہ آئین گورننس میں رکاوٹ کی اجازت نہیں دیتا۔ صدر کی سربراہی میں 1988 میں نگران کابینہ سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دی تھی

عدالت کا موقف تھا کہ وزیراعظم کے بغیر کابینہ نہیں چل سکتی۔ فل کورٹ کی تشکیل کیس لٹکانے سے زیادہ کچھ نہیں تھا، جبکہ ستمبر کے دوسرے ہفتے سے پہلے جج بھی دستیاب نہیں ہیں

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ گورننس اور بحران کے حل کے لیے جلدی کیس نمٹانا چاہتے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ دلائل کے دوران اکیسویں ترمیم کیس کا حوالہ دیا گیا۔ اکیسویں ترمیم والے فیصلے میں آبزرویشن ہے کہ پارٹی سربراہ ووٹ دینے کی ہدایت کر سکتا ہے۔ آرٹیکل 63 اے کی تشریح میں کون ہدایت دے گا یہ سوال نہیں تھا۔ تشریح کے وقت سوال صرف منحرف ہونے کے نتائج کا تھا

چیف جسٹس نے فل کورٹ تشکیل دینے اور نظرثانی کے سوال پر کہا کہ کیا سترہ میں سے آٹھ ججز کی رائے کی سپریم کورٹ پابند ہو سکتی ہے؟ فل کورٹ بینچ کی اکثریت نے پارٹی سربراہ کے ہدایت دینے سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ عدالت کے سامنے آٹھ ججوں کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا۔ آرٹیکل 63 اے سے متعلق آٹھ ججز کا فیصلہ اکثریتی نہیں ہے۔ جس کیس میں آٹھ ججز نے فیصلہ دیا وہ سترہ رکنی بینچ تھا۔ آرٹیکل 63 اے پر فیصلہ نو رکنی ہوتا تو اکثریتی کہلاتا

چیف جسٹس نے قانونی سوالات پر پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر کو عدالت کی معاونت کرنے کا کہا اور یہ بھی کہا کہ سب کے بائیکاٹ کرنے کے بعد دوسرا راستہ ہے کہ ہم بینچ سے الگ ہو جائیں

اس کے بعد درخوست گزار کے وکیل نے ڈپٹی سپیکر دوست مزاری کی رولنگ کے خلاف دلائل دینا شروع کیے

علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا: ’اکیسویں ترمیم کے خلاف درخواستیں 13/4 کے تناسب سے خارج ہوئی تھیں۔ درخواستیں خارج کرنے کی وجوہات بہت سے ججوں نے الگ الگ لکھی تھیں۔ اکیسویں ترمیم کیس میں جسٹس جواد خواجہ نے آرٹیکل 63 اے کو خلاف آئین قرار دیا تھا۔ جسٹس جواد خواجہ کی رائے تھی کہ آرٹیکل 63 اے ارکان کو آزادی سے ووٹ دینے سے روکتا ہے۔ جسٹس جواد خواجہ نے فیصلے میں اپنی رائے کی وجوہات بیان نہیں کیں لیکن میں جسٹس جواد خواجہ کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا۔‘

چیف جسٹس نے علی ظفر سے سوال کیا کہ آئین کیا کہتا ہے کہ کس کی ہدایات پر ووٹ دیا جائے۔ علی ظفر نے جواب دیا کہ آئین کے مطابق ووٹ کی ہدایات پارلیمانی پارٹی دیتی ہے

چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ کیا پارلیمانی پارٹی، پارٹی سربراہ سے الگ ہے؟

علی ظفر نے جواب دیا کہ پارلیمانی جماعت اور پارٹی لیڈر دو الگ الگ چیزیں ہیں

اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئین کے تحت پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کے فیصلے پر عملدرآمد کراتا ہے۔ ’چیف جسٹس نے کہا پارلیمانی جماعت اپنے طور پر تو کوئی فیصلہ نہیں کرتی۔ سیاسی جماعت کا فیصلہ پارلیمانی جماعت کو آگاہ کیا جاتا ہے جس کی روشنی میں وہ فیصلہ کرتی ہے۔‘

جسٹس منیب اختر نے بھی نکتہ اٹھایا کہ پارٹی سربراہ کی کیا تعریف ہے؟ کیا پارٹی سربراہ صرف سیاسی جماعت کا سربراہ ہوتا ہے؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی سوال کیا کہ پارلیمانی لیڈر والا لفظ کہاں استعمال ہوا ہے؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ 2002 میں سیاسی جماعتوں کے قانون میں پارلیمانی پارٹی کا ذکر ہوا۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کی جگہ پارلیمانی لیڈر کا لفظ محض غلطی تھی

منگل کی سماعت ساڑھے گیارہ بجے شروع ہوئی۔ پیر کی نسبت منگل کو سپریم کورٹ میں اتنا رش نہیں تھا اور نہ ہی سکیورٹی کی اتنی سختی کی گئی۔

معاملہ کیا ہے؟

پنجاب میں ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی جیت کے بعد 23 جولائی کو پنجاب میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کے دوران مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے اراکین کے نام لکھا گیا خط موصول ہونے پر ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے ق لیگ کے دس اراکین کے ووٹ گنتی میں شامل نہیں کیے تھے، جس کے باعث مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز دوبارہ وزیراعلیٰ قرار پائے

ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو پرویز الٰہی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا جس کے بعد سپریم کورٹ نے حمزہ شہباز کو عبوری وزیراعلیٰ بننے کا حکم دیتے ہوئے سپیکر کی رولنگ پر سماعت جاری رکھی تاکہ آرٹیکل 63 اے کے تحت مسترد شدہ ووٹوں کا فیصلہ کیا جا سکے۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پیر کو حکومتی اتحاد کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق کیس کی سماعت منگل کی صبح گیارہ بجے تک ملتوی کی تھی

اس سے قبل چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ ’فل کورٹ تب بنائی جاتی ہے جب بہت سنجیدہ نوعیت کا معاملہ ہو۔ یہ پیچیدہ کیس نہیں ہے، آرٹیکل 63 اے پر عدالت فیصلہ دے چکی ہے۔‘

کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومتی اتحاد نے تین رکنی بیچ کی سماعت کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا تھا

پی ڈی ایم کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پیر کی شب ایک پریس کانفرنس میں وزیر خارجہ اور پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعلیٰ پنجاب کیس میں فل کورٹ کے مطالبے سے پیچھے نہ ہٹنے کا اعلان کیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close