بدھاں بائی کی ’سہگل حویلی‘ سے شیخ رشید احمد کی ’لال حویلی‘ بننے کی کہانی

ویب ڈیسک

راولپنڈی کے بوہڑ بازار سے گزرتے ہوئے لال حویلی توجہ ضروری
کھینچتی ہے۔ اس حویلی کو شہر کی پہچان کہا جاتا ہے

واضح رہے کہ حال ہی میں ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر متروکہ وقف املاک راولپنڈی نے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کو سات روز میں لال حویلی خالی کرنے کے لیے نوٹس جاری کیا تھا، جس کے خلاف شیخ رشید نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ سے رجوع کیا ہے

عدالت نے سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی لال حویلی کو خالی کرنے کا نوٹس معطل کر دیا ہے

سیشن عدالت نے کہا ہے کہ ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر متروکہ وقف املاک کا لال حویلی خالی کرنے کا نوٹس معطل کیا جا رہا ہے۔ کیس عدالت میں زیر سماعت ہے، نوٹس کا اجرا درست نہیں۔ عدالت نے ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر متروکہ وقف املاک کو نوٹس جاری کرکے طلب بھی کر لیا ہے

یاد رہے کہ شیخ رشید کو ایسا ہی ایک نوٹس 2014ع میں بھی ملا تھا۔ اس وقت شیخ رشید کے بھتیجے شیخ راشد نے بتایا تھا کہ لال حویلی سے متصل محکمہ اوقاف کی جائیداد جو دراصل ایک مندر ہے, پچھلے پندرہ سے بیس سال سے عوامی مسلم لیگ کے زیر استعمال رہی ہے

شیخ رشید کے مطابق ”ہمارے پاس زمین نہیں، اوپر والا ڈھائی مرلے کا چوبارہ ہے، ہمارے علاوہ انیس دیگر لوگ بھی لال حویلی میں رہتے ہیں“

لال حویلی کے سامنے برسوں سے مقیم چاچا صادق کا کہنا ہے ”کبھی یہاں رات کے اندھیروں میں حسن و جمال کے مدح سراؤں کی بھیڑ لگا کرتی تھی، سر تال کی محفلیں سجتی تھیں۔ اب یہاں سیاسی شطرنج کی بساط سجتی ہے“

حویلی کے آس پاس دکانوں کے تھڑوں پر بیٹھے بزرگوں سے حویلی سے جڑی ماضی سے لے کر حال تک کئی داستانیں سننے کو ملتی ہیں

محکمہ اوقاف میں موجود اہلکاروں نے کچھ کاغذ الٹ پلٹ کر حویلی کے بارے میں بتایا ”حویلی کے کچھ حصے، جن میں مندر بھی شامل ہے، محکمے کے پاس ہیں، جبکہ ایک حصہ شیخ (رشید احمد) صاحب کا ہے“

حویلی اندر سے کیسی ہے؟ کیسے ایک حویلی میں محبت کے لیے بنائی گئی راہداریاں سیاست کی بھول بھلیوں کی نذر ہوئیں۔۔۔ کیا اس سے جڑی داستان کے کرداروں کو اب بھی حویلی کے اندر جا کر محسوس کیا جاسکتا ہے؟ یہ ایک ایسی کہانی ہے جس کا تعلق اس کی ملکیت سے جڑے قانونی تنازعے سے ہے

شیخ رشید احمد اپنی کتاب ’فرزندِ پاکستان‘ میں لکھتے ہیں:

”پاکستان بننے سے بہت پہلے کی بات ہے کہ جہلم کے ایک خوشحال ہندو گھرانے کے چشم و چراغ بیرسٹر دھن راج سہگل ایک شادی کی تقریب کے لیے سیالکوٹ گئے، جہاں انہوں نے بدھاں بائی کو محو رقص دیکھا۔ دھن راج کو بدھاں کے گھنگروؤں کی جھنکار اس قدر بھائی کے وہ اسے دل بیٹھے۔ محبت کی اسی کہانی نے ’لال حویلی‘ کی بنیاد رکھی۔ دھن راج بدھاں کو اپنے ساتھ راولپنڈی لے آئے اور بوہڑ بازار میں ایک شاندار حویلی بنوائی جو سہگل حویلی کے نام سے مشہور ہوئی

بدھاں بائی مسلمان تھیں اس لیے احترام میں دھن راج نے بدھاں کے لیے حویلی کے صحن میں مسجد اور اپنے لیے مندر بنوایا۔ دونوں اپنی اپنی عبادت گاہوں میں بنا کسی خوف کے عبادت کیا کرتے تھے مگر آج اسی مندر مسجد اور حویلی کے درمیان کئی گھر حائل ہیں“

آس پاس کے پرانے مکین بشمول چاچا صادق، چاچا امین اور چاچا رحمت بتاتے ہیں ”حویلی میں آنے کے بعد بدھاں صوم و صلوٰۃ کی پابند ہو گئی تھی۔ آہستہ آہستہ گانا سیکھنے والوں کی تعداد کم اور بدھاں سے اسلامی درس لینے والے بڑھتے گئے“

’فرزند پاکستان‘ کے کچھ اوراق بتاتے ہیں کہ ”بٹوارہ ہوا تو دھن راج نے حویلی بدھاں بائی کو سونپی اور خود خاندان کے ہمراہ بھارت چلا گیا۔۔۔ بدھاں یہاں اکیلی رہ گئی“

ادھر عدالت نے اس حویلی کو متروکہ ملکیت قرار دے دیا، جس کے بعد حویلی کے بیسویں حصے میں سے صرف وہی حصہ بدھاں بائی کو مل سکا، جو آج لال حویلی کہلاتا ہے

عدالت میں بدھاں بائی سے جج نے کہا کہ وہ بیان دے دیں کہ وہ ہندو ہو چکی ہیں یا دھن راج مسلمان ہو چکے تھے۔ اس دوران دو بار عدالت کی سماعت ملتوی ہوئی کہ بدھاں کو یہ بیان دینے پر قائل کیا جائے اور پوری حویلی صرف اسی کے حصے میں آئے۔ مگر اس نے عدالت میں کہا کہ ’وی ہیو شئیرڈ ایوری تھنگ ایکسیپٹ ریلیجن۔‘ (یعنی مذہب کے سوا ہم نے سب کچھ بانٹا)۔ یوں حویلی کا بڑا حصہ اس سے چھن گیا

بوہڑ بازار کی چھوٹی بڑی دکانیں اور گلیاں بھی کسی زمانے میں عمارت کے صحن کا حصہ تھیں

چاچا رحمت بتاتے ہیں ”محبت اور حویلی کی تقسیم ہوئی لیکن کرچی کرچی بدھاں بائی ہو گئی۔ محبت دور اور نشانی تقسیم ہوئی تو بدھاں کا وجود بھی بکھر گیا“

شیخ رشید بتاتے ہیں ”اسی حویلی میں چوری کی غرض سے آئے چوروں نے بدھاں بائی کے جوان سالہ بھائی کو بھی قتل کیا۔۔۔ طرح طرح کے لوگ اسے اکیلا پا کر حویلی میں جھانکتے۔ لوگ سمجھتے تھے کہ وہ بہت امیر خاتون ہے، جس کے پاس سونے چاندی کے زیورات ہیں مگر دامن میں ادھوری محبت اور اس کی منقسم نشانی کے سوا کچھ نہ تھا۔ ایک رات بدھاں بائی سہگل حویلی چھوڑ گئی اور کبھی نہ لوٹی۔ وہ کہاں گئی، کیوں گئی، کوئی نہیں جانتا مگر دوبارہ سہگل حویلی میں اسے کسی نے نہ دیکھا“

پھر سالوں یہ حویلی ویران پڑی رہی کوئی خوف کے مارے اسے خریدنے کو نہ بڑھتا۔۔

حویلی کے بالکل ساتھ والے مکان کی مکیں یاسمین کہتی ہیں ”وہ وقت بھی آیا، جب سہگل حویلی کو لوگ ’جنوں کی حویلی‘ کہنے لگے, کسی کو یہاں بجتی پائل سنائی دیتی تو کسی کو بدھاں کے قہقہے۔۔“

شیخ رشید صاحب حویلی خریدنے کے حوالے سے بتاتے ہیں ”کافی عرصہ گمنامی میں رہنے والی ’سہگل حویلی‘ کو کشمیر سے آئے ایک خاندان نے دو لاکھ اٹھارہ ہزار میں خریدا۔ پھر خریدنے والے نے شیخ رشید کو ساڑھے پانچ لاکھ میں حویلی بیچ دی۔ یوں سہگل حویلی کوڑیوں کے بھاؤ خرید لی گئی“

حویلی کو شیخ رشید نے سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا دیا۔ کئی ممتاز سیاستدانوں کو دعوت سخن دینے والی بالکنی بھی توجہ کا مرکز رہی۔ اسی بالکنی میں نوابزادہ نصر اللہ، نواز شریف اور الطاف حسین جیسے سیاستدانوں نے عوامی اجتماعات سے خطاب کیا

شیخ رشید نے حویلی کی تزئین و آرائش میں لال رنگ کی کشمیری لکڑی کا استعمال کیا۔ نئے رنگ روپ میں ڈھالنے کے بعد اسے نام بھی نیا دیا گیا ’لال حویلی‘۔ یہ نام بھی شیخ رشید احمد کا ہی دیا گیا ہے اور حویلی پر چسپاں اس نام کی تختی بھی سن 80 کی دہائی میں لگائی گئی تھی۔ یوں بدھاں بائی کی ’سہگل حویلی‘ شیخ رشید کی ’لال حویلی‘ بن گئی

شیخ رشید یہ بتاتے ہوئے جذباتی دکھائی دیے کہ ’بدھاں بائی کا رقص گھر آج بھی موجود ہے، جبکہ وہ دو کمرے، جن میں وہ رہا کرتی تھی، ان پر پرانے قفل پڑے ہیں۔‘ شیخ رشید صاحب نے بدھاں کا بیڈ، جس پر عدالت میں دیا جانے والا بیان کندہ ہے، اپنے کمرے میں سجا رکھا ہے

شیخ رشید نے اپنی کتاب فرزند پاکستان میں لکھا ہے: ایک بار کشمیر سے ایک افسر حویلی دیکھنے آیا وہ رو پڑا اور بولا ’یہ میری ماں بدھاں کی حویلی ہے‘ شیخ صاحب کہتے ہیں ’ہم نے اسے روکنا چاہا بدھاں کے بارے میں جاننا چاہا مگر وہ کچھ کہے بنا چلا گیا۔‘

بدھاں کے لیے بنوائی گئی مسجد اب بازار کے رہائشیوں کے استعمال میں ہے، جبکہ مندر کی حالت مخدوش تر ہے جس کا کوئی والی وارث نہیں

شیخ رشید کو حویلی چھوڑنے کے پھر سے احکامات ملے ہیں، لیکن وہ اپنی نجی اور سیاسی محفلوں میں ایک جملہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ ”اگر مجھے کبھی زندگی اور لال حویلی میں سے کوئی چننی پڑی، تو میں لال حویلی کو چُنوں گا“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close