بلوچستان میں چھاتی کا کینسر: آگاہی کی کمی اور سہولیات کی عدم دستیابی خواتین کی زندگیاں نگل رہی ہے!

ویب ڈیسک

اکتوبر کے مہینے کو چھاتی کے کینسر کی آگاہی کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔ دیگر سہولیات کی طرح پسماندہ بلوچستان اس مرض کے علاج کی سہولیات کے لحاظ سے بھی نظر انداز کیے جانے کے رویے کا شکار ہے، جس کا اندازہ نصرت بی بی کی المناک روداد جان کر ہوتا ہے

یہ نومبر 2020ع کی بات ہے، جب نصرت بی بی کی والدہ کا انتقال ہوا۔ وہ فاتحہ خوانی میں مصروف تھیں کہ انہیں سینے میں کچھ چبھن اور پھر درد محسوس ہوا۔ درد سینے سے اٹھ کر بغل تک جا پہنچتا

پریشان حال نصرت بی بی نے جب کراچی میں اپنا معائنہ کروایا تو لیڈی ڈاکٹر نے انہیں یہ طفل تسلی دے کر گھر واپس بھیج دیا کہ یہ عام سا درد ہے۔ نصرت بی بی کراچی سے اپنے گھر کوئٹہ چلی آئیں، جہاں انہوں نے امراض قلب کے وارڈ سے انجیوگرافی کروائی

نصرت بی بی کے بیٹے، جو خود بھی ڈاکٹر ہیں، انہیں والدہ کی بیماری کو دیکھ کر شک ہوا کہ کہیں والدہ کو چھاتی کا کینسر نہ ہو۔ کوئٹہ کے سول ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر نے معائنے کے بعد کینسر کے چند ٹیسٹ کروانے کا کہا اور پھر پتہ چلا کہ نصرت بی بی واقعی چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہیں

پچپن سالہ نصرت بی بی کی چودہ سال کی عمر میں شادی ہوئی تھی۔ وہ پانچ بچوں کی ماں ہیں۔ ماہرینِ صحت چھاتی کے کینسر کی ایک وجہ کم عمری کی شادی کو بھی قرار دیتے ہیں۔ نصرت بی بی کے گھر والوں نے ان کا فوری طور پر آپریشن کروانے فیصلہ کیا۔ قریب چار گھنٹے چلنے والے آپریشن کامیابی کے ساتھ مکمل ہوا

کوئٹہ کے بولان میڈیکل کمپلیکس میں چالیس بستروں پر مشتمل صوبے کا واحد کینسر وارڈ ہے۔ اس وارڈ میں آپریشن کے بعد فالو اپ چیک اپ کے لیے موجود نصرت بی بی نے بتایا ”میں خوش قسمت ہوں کہ میرے مرض کی تشخیص جلد ہوئی۔ بدقسمتی سے میری دو نندیں کینسر کی تشخیص دیر سے ہونے کی وجہ سے انتقال کر گئیں‘‘

نصرت بی بی کو ہر اکیس روز بعد کینسر کا مقابلہ کرنے والا انجیکشن لگتا ہے۔ نصرت بی بی نے پانچ انجیکشن اپنے پیسوں سے لگوائے ہیں۔ بقایا انجیکشنز وہ صوبائی حکومت کی جانب سے اس موذی مرض کے لیے مختص کردہ فنڈز سے لگوا رہی ہیں۔ اس انجیکشن کی پاکستان میں قیمت پچاس ہزار ہے۔ کینسر کے مریض کو سترہ بار یہ انجیکشن لگانے پڑتے ہیں

گزشتہ پچیس برس سے کینسر کے مریضوں کا علاج کرنے والے اس کینسر یونٹ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر زاہد محمود کہتے ہیں ”چالیس بستروں پر مشتمل اس یونٹ میں مریضوں کا اتنا رش ہوتا ہے کہ اکثر مریضوں کا علاج نہیں ہو پاتا۔ مشینوں کی کمی کی وجہ سے مریضوں کو ریڈی ایشن کے لیے سینار ہسپتال منتقل کرنا پڑتا ہے۔ ادویات نہ ہونے اور آگاہی کی کمی کی وجہ سے اکثر مریض ہسپتال کا اس وقت رخ کرتے ہیں، جب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے‘‘

ڈاکٹر زاہد محمود کا کہنا ہے ”چھاتی کے کینسر کو بہت سے لوگ معیوب سمجھتے ہیں۔اس مرض کو چھپانے کی وجہ سے ہمارے پاس اکثر مریض تب آتے ہیں، جب کینسر پورے جسم میں پھیل چکا یعنی مرض تیسرے یا آخری اسٹیج پر ہوتا ہے‘‘

بلوچستان، پاکستان کا واحد صوبہ ہے، جہاں کینسر کے علاج کے لیے صوبائی سطح پر باقاعدہ ایک بھی ہسپتال قائم نہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ کوئٹہ کے بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال میں چالیس بستروں پر مشتمل کینسر یونٹ تو ہے، لیکن آلات کی کمی کے باعث یہاں آئے افراد کو کینسر کی تشخیص کے لیے نجی لیبارٹریوں یا دیگر صوبوں کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ کوئٹہ میں کینسر کے لیے وفاقی سطح پر اٹامک انرجی کی جانب سے سینار ہسپتال بھی قائم ہے، لیکن یہاں بھی کینسر کی تشخیص کرنے والی (پی ٹی اسکین) جیسی اہم مشین موجود نہیں

ڈاکٹر زاہد محمود بتاتے ہیں ”مرض کی تشخیص سے لے کر علاج تک اوسطاً تیس لاکھ کا خرچ آتا ہے۔ یونٹ کو ملنے والے سالانہ ایک کروڑ کی رقم سے چار مریضوں کا بھی علاج نہیں ہو پاتا۔ ہمارے پاس ایسے بھی مریض آتے ہیں، جن کے پاس پیسے نہ ہونے کی وجہ سے علاج ادھورا چھوڑنا پڑتا ہے‘‘

محکمہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر نور محمد قاضی کا بھی یہی کہنا ہے کہ کینسر کے یونٹ کے لیے ادویات کی مد میں ایک کروڑ کا فنڈ ناکافی ہے۔ ان کے بقول اس میں اضافہ کیا جا رہا ہے

بدقسمتی سے صوبائی محکمہ صحت کے پاس کینسر سے متعلق مجموعی اعداد و شمار ہی موجود نہیں۔ بولان میڈیکل کمپلیلس (بی ایم سی) کینسر یونٹ سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال اس ہسپتال میں تین ہزار جبکہ سینار کینسر ہسپتال میں چھاتی کے کینسر کے تین ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ رواں برس کے دوران ابھی تک بی ایم سی یونٹ میں یہ تعداد پندرہ سو کے لگ بھگ ہے

محکمہ صحت کے پاس کینسر کا ڈیٹا نہ ہونے کے سوال کے جواب میں محکمے کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر نور محمد قاضی کے مطابق ”ایک ایسا لائحہ عمل تیار کرنے پر کام جاری ہے، جس کے ذریعے بلوچستان بھر سے کینسر کے مریضوں مکمل ڈیٹا جمع کیا جا سکے‘‘

4 فروری 2020ع کو صوبائی حکومت نے ایک سو ساٹھ بستروں مشتمل کوئٹہ کے نواحی علاقے مستونگ روڈ پر کینسر کے ہسپتال کا سنگ بنیاد تو رکھ دیا، لیکن ڈھائی سال گزرنے کے باوجود ہسپتال کی عمارت تاحال زیر تعمیر ہے۔ حاصل کردہ ریکارڈ کے مطابق کینسر ہسپتال منصوبے کی کل لاگت ایک ارب سڑسٹھ کروڑ ہے، جبکہ منصوبے کے لیے اب تک تین مالی سالوں میں صرف ساٹھ کروڑ اَسی لاکھ روپے جاری کیے گئے ہیں

محکمہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر نور محمد قاضی نے اعتراف کرتے ہیں کہ کینسر ہسپتال کا منصوبہ تاخیر کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا ”ہم نے متعلقہ حکام کو لکھ دیا ہے کہ ہسپتال کی تعمیر کو جلد از جلد مکمل کیا جائے‘‘

سینار ہسپتال کے ڈاکٹر فیروز اچکزئی نے مریضوں میں آگاہی نہ ہونے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ”بلوچستان میں چھاتی کے کینسر کے اکثر مریضوں میں مرض کی تشخیص آخری اسٹیج پہ ہوتی ہے، جہاں مریض کے بچنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔‘‘سینار ہسپتال میں سالانہ اٹھارہ ہزار فالو اپ چیک اپس چل رہے ہوتے ہیں

کینسر کی علامات اور وجوہات

ماہرین کے مطابق وزن کا کم ہونا، سینے میں گلٹیوں کا بننا، مسلسل بخار، منہ سے یا پاخانہ میں خون آنا وہ علامات ہیں، جن کے ظاہر ہوتے ہی کسی اچھے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے

چھاتی کے کینسر کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر فیروز نے بتایا ”کم عمری کی شادی، ماں کا بچے کو دودھ نہ پلانا، کسی چوٹ کا لگنا، حمل ٹھہرانے والی ادویات کا استعمال اور خاندان کے کسی فرد میں کینسر کا ہونا چھاتی کے کینسر کا سبب ہو سکتے ہیں“

آگاہی کا نہ ہونا

ایسی ہی ایک کہانی امرت مراد کی بھی ہے، جو بلوچستان یونیورسٹی میں اردو کے شعبہ سے ایم فل کر رہی تھیں۔ امرت مراد کینسر کے علامات کا علم نہ ہونے کی وجہ سے شادی کے صرف تین ماہ بعد جنوری 2016ع میں چھاتی کے کینسر کے باعث انتقال کر گئیں

جب بلوچستان یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات میں زیر تعلیم طالبات سے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ کیا انہیں چھاتی کے کینسر کی علامات کا علم ہے؟ تو دس میں سے چار طالبات نے بتایا کہ انہیں علامات کا پتا نہیں۔ کم یا غیر تعلیم یافتہ خواتین میں چھاتی کے کینسر سے متعلق آگاہی اور بھی کم ہے

کینسر کے مریضوں کی مدد سمیت آگاہی مہم چلانے والے یونس زہری بتاتے ہیں ”مختلف موذی امراض کے لیے چھ ارب کا بلوچستان عوامی انڈومنٹ فنڈ نہ صرف کم ہے بلکہ اس کے لیے مریضوں کو ایک پیچیدہ طویل دفتری کارروائی سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ اس عمل میں کم از کم ایک سے دو ماہ کا عرصہ لگ ہی جاتا ہے۔ کینسر کے مریض کے لیے ایک ایک دن قیمتی ہوتا ہے‘‘

یونس زہری نے کہا ”حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے بلوچستان میں ہونے والی آگاہی مہم صرف کوئٹہ کے بڑے نجی ہوٹلوں یا یہاں کے ہسپتالوں کے اندر واک یا ریلی تک محدود ہے۔ اس طریقہ سے عام گھریلو خواتین کو آگاہی نہیں ملتی۔ آگاہی مہم ضلع، تحصیل اور یونین کونسلوں تک لے جانے کی ضرورت ہے‘‘

خوش قسمتی سے آپریشن کے بعد نصرت بی بی صحت یاب ہو رہی ہیں۔ ان کے شوہر جہانداد نے بتایا ”بیس سال قبل چھاتی کے کینسر کی وجہ سے ان کی ایک بہن کا جبکہ ایک اور بہن کا تین سال قبل یوٹیریس کے کینسر کے باعث انتقال ہو چکا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close