عمران خان کا الزام، فوج کی تردید اور مائی جندو کیس

ویب ڈیسک

سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان پر لانگ مارچ کے دوران حملے کے ایک روز بعد تفتیش کار مزید دو افراد کو گرفتار کر چکے ہیں لیکن عمران خان کی جانب سے اس واقعے کے ذمہ داران میں وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے علاوہ ایک اعلیٰ فوجی افسر کا نام واپس لینے سے مبینہ انکار کے سبب ایف آئی آر کے اندراج پر تعطل برقرار ہے

اطلاعات ہیں کہ یہ صورتحال وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے لیے بھی ایک چیلنج بن چکی ہے کیونکہ عمران خان کی جانب سے ایف آئی آر میں فوجی افسر کو نامزد کرنے پر اصرار کیا جارہا ہے

معاملے کی سیاسی جہتوں کے حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ ’چوہدری پرویز الٰہی اس مقدمے میں سینیئر فوجی افسر کو نامزد کرنے کے خلاف ہیں، وزیراعلیٰ پنجاب اور پی ٹی آئی رہنماؤں نے اس معاملے پر کئی ملاقاتیں کی ہیں جن میں پرویز الٰہی نے انہیں فوجی افسر کا نام شامل نہ کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کی‘

دوسری جانب ڈی جی آئی ایس پی آر نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے ان الزامات کو مسترد کیا ہے، جن میں وہ خود پر حملے کا ذمہ دار وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے علاوہ خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے کاؤنٹر انٹیلیجنس شعبے کے سربراہ میجر جنرل فیصل نصیر کو قرار دیتے ہیں۔

آئی ایس پی آر کے مطابق فوج نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات کے ساتھ ساتھ ادارے اور اس کے سینیئر افسر کے خلاف ہتک عزت پر قانونی کارروائی کی جائے

ادھر سابق وزیر اعظم عمران خان، جو لانگ مارچ کے دوران وزیر آباد میں فائرنگ سے زخمی ہونے کے بعد لاہور میں زیرِ علاج ہیں، نے جمعے کی شب ایک وڈیو پیغام میں کہا ’تینوں کے استعفوں تک احتجاج جاری رہے گا۔‘ انہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ سے مطالبہ کیا کہ فوج میں ’کالی بھیڑوں‘ کی خلاف ایکشن لیا جائے

اس واقعے کی ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کے بعد عمران خان کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا ہے کہ ’ہم نے ایف آئی آر رجسٹر کرنے کی کوشش کی۔ سب ڈرتے ہیں۔ میں جنرل باجوہ سے پوچھتا ہوں کیا میجر جنرل فیصل کی تفتیش ہونے دیں گے آپ؟‘

انہوں نے اس حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان سے بھی انصاف یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے

ادہر پنجاب میں انسپکٹر جنرل پولیس کے دفتر میں موجود ایک افسر کے مطابق عمران خان فائرنگ کیس کی تمام تحقیقات کی ذمہ داری محکمہ انسداد دہشت گردی کو دے دی گئی ہے۔ اب پنجاب پولیس کا ان تحقیقات سے کوئی تعلق نہیں ہے

ایسے میں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کسی حاضر سروس فوجی افسر کے خلاف سنگین نوعیت کے کسی کیس میں قانونی کارروائی کے لیے پولیس کے پاس کیا اختیارات ہوتے ہیں اور آرمی ایکٹ کیا کہتا ہے؟

پاکستان کی فوج آرمی ایکٹ 1952 کے تحت کام کرتی ہے، جو دوران ڈیوٹی فوجی اہلکاروں کو تحفظ دیتا ہے۔ تاہم اگر کسی فوجی اہلکار یا افسر سے ذاتی حیثیت میں کوئی جرم سرزد ہوتا ہے، جس کا ان کی ڈیوٹی سے کوئی تعلق نہیں، تو پولیس ان کے خلاف ایف آئی آر درج کر سکتی ہے

کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم پاکستان فوج کی لیگل برانچ، جسے ’جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ‘ یا جیگ برانچ کہتے ہیں، سے منسلک رہے ہیں

ان کا کہنا تھا ’قانون کے مطابق کسی فوجی افسر کے خلاف اسی طرح مقدمہ درج ہو سکتا ہے جیسے کسی عام شہری کے خلاف ہوتا ہے‘

کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کہتے ہیں ’اگر کسی فوجی افسر کے خلاف مقدمہ درج ہوتا ہے تو پھر آرمی ایکٹ کے تحت فوجی افسران کیس کی تفتیش میں پولیس کے ساتھ تعاون کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔‘

تاہم، ان کے مطابق، کسی فوجی افسر کے خلاف پولیس کی تفتیش مکمل ہو جانے پر ادارہ (یعنی فوج) ضلعی پولیس افسر سے کہہ سکتا ہے کہ وہ خود اس افسر کا ٹرائل کریں گے۔ ’ایسی صورت میں فوج کی جانب سے اس مقدمے کا ریکارڈ اپنی تحویل میں لے لیا جاتا ہے اور اپنے قوائد و ضوابط کے مطابق اس افسر کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔‘

آرمی رولز اینڈ انسٹرکشنز کے مطابق پولیس کی جانب سے کسی مقدمے کی تفتیش میں کسی فوجی افسر کے پاس یہ اختیار نہیں کہ کسی ملزم کو حراست میں لینے میں رکاوٹ ڈالے

اس کے مطابق اقدامِ قتل کے مقدمے میں کسی فوجی کو حراست میں لیے جانے کے 24 گھنٹے کے اندر اندر پولیس کے لیے اس اہلکار کے کمانڈنگ افسر کو مطلع کرنا ضروری ہے۔ تاہم اگر مقدمہ کسی اور نوعیت کا ہو، تو حراست میں لینے سے قبل اطلاع دینے کی کوشش کرنے چاہیے

ان قوانین میں یہ بھی درج ہے کہ مقدمے کا تفتیشی افسر اپنے علاقے کی حدود میں کسی فوجی کو طلب کر سکتا ہے لیکن اسے کسی دور دراز علاقے سے فوجی کو تفتیش کے لیے طلب کرنے کی اجازت نہیں۔ ایسے کیس میں تفتیشی پولیس افسر کو خود اس فوجی کے پاس جانا ہو گا یا پھر متعلقہ علاقے کی پولیس کے ذریعے رابطہ کرنا ہوگا

شاہ خاور سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایڈووکیٹ ہیں اور جج بھی رہ چکے ہیں، ان کا کہنا ہے ’کون کس عہدے پر ہے، اس سے فرق نہیں پڑتا۔۔۔ اگر فوجی افسر پر الزام ہے، تو ایف آئی آر تو ہو سکتی ہے۔‘

’لیکن اس کے بعد فوری طور پر قریبی ملٹری پولیس کے کمانڈر کو مطلع کیا جاتا ہے کہ آپ کے افسر کے خلاف پرچہ ہوا ہے۔‘

’آرمی ایکٹ کے مطابق ایسے افسر کے خلاف آرمڈ فورس کہہ سکتی ہے کہ ہم خود ٹرائل کریں گے۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’فوجی کمانڈر کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اس حق کو استعمال نہ کرے اور وہ پولیس کو کہہ سکتا ہے کہ آپ خود ٹرائل کریں۔ پھر پولیس مقدمہ چلا سکتی ہے۔‘

شاہ خاور نے ایک کیس کی مثال دی۔ ’میں نے ایک کیس لیا تھا جس میں ایئر فورس کے جے سی او کے اوپر قتل کا الزام تھا۔ ایئر فورس نے کہا کہ ہم پہلے خود کورٹ آف انکوئری بنائیں گے۔ انھوں نے نو ماہ تک ملزم پولیس کے حوالے نہیں کیا۔ پھر اپنی تفتیش مکمل کرنے کے بعد انھوں نے کہا کہ ہمارے حساب سے جس وقت قتل ہوا، اس وقت ملزم اس مقام پر ہی نہیں تھا۔ پھر انھوں نے پولیس کو اپنی انکوائری دی کہ اب آپ اپنا مقدمہ چلائیں۔‘

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا ان کی نظر سے کوئی ایسا مقدمہ گزرا جس میں ایک حاضر سروس جنرل رینک کے فوجی افسر کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ درج ہوا ہو، تو ان کا جواب نفی میں تھا

سابق آئی جی پولیس سرمد سعید کے مطابق ایسے کیسز میں مقدمہ درج کر کے عسکری حکام کو بتایا جاتا ہے۔ ’ہم مقدمہ درج کر لیتے تھے اور ملٹری پولیس کو مطلع کر دیتے تھے۔ عام طور پر حاضر سروس افسر کا کیس فوج خود ہی چلاتی ہے۔‘

سرمد سعید نے ایک کیس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اپنی سروس کے دوران ’میں نے ایک بار ایک میجر رینک کے افسر کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جس پر ایک پولیس ہیڈ کانسٹیبل کو زد و کوب کرنے کا الزام تھا۔‘

’جس افسر پر کیس ہوا، اس نے ہمیں کہا کہ میری سیٹلمنٹ کروا دیں، میری سروس کا سوال ہے۔‘

سرمد سعید کے مطابق ’فوج میں ایسے افسروں کی پروموشن نہیں ہوتی جن کے خلاف مقدمہ درج ہو جائے۔ کچھ بھی نہ ہو، تو ان کے ریکارڈ پر چیز آ جاتی ہے، یہ سب سے بڑی سزا ہوتی ہے۔‘

تاہم ان کے پاس بھی ایسی کوئی مثال نہیں تھی، جس میں کسی جنرل رینک کے افسر کے خلاف پولیس نے اقدام قتل کا مقدمہ درج کیا ہو

’میرے نوٹس میں ایسا کوئی کیس نہیں جہاں ایک حاضر سروس ٹو یا تھری سٹار پر اقدامِ قتل کا مقدمہ درج ہوا ہو۔‘

مائی جندو کے خاندان کے نو افراد کے قتل پر سزا

پاکستانی فوج میں کسی حاضر سروس افسر کے خلاف قتل کے مقدمے کی ایک بڑی مثال سندھ میں مائی جندو کے خاندان کے نو افراد کے قتل میں ملوث ایک میجر کو ہونے والی سزا کی ہے

1992 میں سندھ میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے دوران میجر ارشد جمیل اعوان کی سربراہی میں فوج کے ایک دستے نے دعویٰ کیا کہ فوج سے مقابلے میں نو ڈاکو مارے گئے

تاہم بعد میں یہ زرعی اراضی کا ذاتی تنازع ثابت ہوا جس پر میجر ارشد جمیل اعوان کو فوج سے برطرف کر کے اور اُن کے دستے کے ارکان سمیت گرفتار کر لیا گیا اور ان کا فیلڈ جنرل کورٹ مارشل شروع ہوا

’سانحۂ ٹنڈو بہاول‘ کا اعتراف اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز نے بھی کیا جس میں جی او سی حیدرآباد میجر جنرل سلیم الحق اور اُن کے نائب بریگیڈیئر کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا

28 اکتوبر 1996 کو میجر ارشد کو حیدرآباد کی سینٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close