گھوٹکی میں پولیس پر کچے کے ڈاکوؤں کی جانب سے حملہ۔۔۔ معاملہ کیا ہے؟

ویب ڈیسک

”ہر طرف سے گولیوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ ہم ایک کمرے میں زمین پر لیٹ گئے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد دھماکہ بھی ہوتا تھا۔ اسی کی روشنی میں ہمیں ایک دوسرے کا چہرہ دکھائی دیتا۔ ہمارے ایک ایس ایچ او نے ہاتھ ہوا میں اٹھا کر سرینڈر کرنے کا بھی کہا لیکن فوراً ہی انہوں نے دوسرا راکٹ فائر کر دیا۔۔ ایسا لگ رہا تھا کہ بس آخری وقت آ گیا ہے۔۔ تمام گھر والوں کے چہرے میرے سامنے آ رہے تھے“

یہ الفاظ سندھ کے ضلع گھوٹکی کے اوباوڑو تھانے کے ایک اہلکار کے ہیں، جو 5 نومبر کو رونتی میں کچے کے علاقے میں اس پولیس آپریشن میں شریک تھے، جس کے دوران ڈاکوؤں نے اچانک حملہ کر کے ایک ڈی ایس پی اور دو ایس ایچ اوز سمیت پانچ اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرنے والے اس پولیس اہلکار نے اس رات پیش آنے والے واقعے کے کئی حقائق سے آگاہ کیا، جو حیران کن ہیں اور پولیس کے سرکاری مؤقف سے متضاد بھی

واضح رہے کہ آئی جی سندھ پولیس کے مطابق یہ حملہ اس وقت کیا گیا، جب پولیس کی ٹیم نے کچے کے ڈاکوؤں کے ایک اہم کمانڈر کے گھر پر چند مغویوں کی بازیابی کے لیے چھاپہ مارنے کے بعد اس کو اپنا کیمپ بنایا اور رات میں راکٹ لانچر سے لیس ڈاکوؤں نے ان پر حملہ کر دیا

تاہم مذکورہ پولیس اہلکار کے مطابق پولیس کو ڈاکوؤں نے چکمہ دے کر اس مقام پر بلایا، جس کا مقصد سلطان عرف سلطو شر نامی ڈاکو کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کا بدلہ لینا تھا

مذکورہ اہلکار کے بقول اوباڑو تھانے کی نفری کو ہفتے کے روز ہی بتا دیا گیا تھا کہ اتوار کو کچے کے علاقے میں جانا ہوگا ”ہمارے پوچھنے پر بتایا گیا کہ کچھ مغویوں کو ڈاکووں سے واپس لے کر آنا ہے“

بی بی سی کے مطابق انہوں نے بتایا ”اتوار کی صبح جب نفری تھانے پہنچی تو ڈی ایس پی عبدالمالک بھٹو اور تین تھانوں کے ایس ایچ اوز نفری لے کر بکتر بند گاڑیوں میں روانہ ہوئے“

واضح رہے کہ کچے کا یہ علاقہ سندھ اور پنجاب کی سرحد پر واقع ہے، جہاں پولیس نے چند عارضی چوکیاں قائم کر رکھی ہیں، جن کی مدد سے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کیے جاتے ہیں

پولیس اہلکار کے بقول ”پولیس کے ایک بیس کیمپ پر چند منٹ کے لیے بکتر بند گاڑیاں رکیں، جہاں ڈی ایس پی صاحب نے نفری دیکھی اور اس کے بعد پھر ہماری بکتر بند گاڑیاں کچے کے علاقے کی جانب چلنا شروع ہو گئیں۔۔ ہم کچے کے ڈاکو راہب شر کے چچا راجو شر کے گھر پہنچے۔ چین والی بکتر بند گاڑیوں کی رفتار کم ہوتی ہے، اس لیے ہمیں تین گھنٹے لگ گئے“

مذکورہ پولیس اہلکار کے مطابق ”ہم وہاں پہنچے تو گاؤں والوں نے دوپہر کے کھانے کا انتظام کیا۔ وہ گھر ہمارا عارضی بیس کیمپ بن گیا۔ افسران اندر کمرے میں مکان میں موجود افراد کے ساتھ تھے اور ہم باہر ڈیوٹی دے رہے تھے“

پولیس اہلکار کے بقول ”ڈیوٹی کے دوران پتا لگا کہ ہم یہاں چند دن قبل پنہور برادری کے اغوا ہونے والے تین بچوں کی رہائی کے لیے آئے ہیں، جن کو کچے کے ڈاکوؤں نے اغوا کر لیا تھا۔۔پولیس افسران نے کچھ مقامی شخصیات سے مل کر ان بچوں کی بازیابی کے لیے ڈاکوؤں سے مذاکرات کیے، جس کے بعد ڈاکو بچوں کو حوالے کرنے پر رضامند ہو گئے“

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر آپریشن میں شامل پولیس اہلکار نے بتایا ”کچھ دیر کا انتظار گھنٹوں میں بدل گیا.. سورج بھی غروب ہونے کے قریب تھا۔ سب یہ سوچ رہے تھے کہ بچے آ جائیں تو ہم یہاں سے نکلیں۔ ہمارے ساتھی اس دوران کمرے کے اندر گئے تو انہوں نے افسران کو فون پر بات کرتے ہوئے ہی دیکھا۔۔ ہم اپنے آپ کو اس مقام پر محفوظ سمجھ رہے تھے۔ گھر کے آس پاس مٹی کے ٹیلے تھے۔ ہم سوچ رہے تھے کہ یہاں کون سے ڈکیت آئیں گے۔۔ ایسے میں اچانک گولیوں کی آواز آئی۔ ڈی ایس پی صاحب اور دیگر افسران کمرے سے نکل کر باہر آئے اور کہا ڈرنا نہیں، تم بھی جواب دو۔ پھر ہم نے بھی جوابی فائرنگ کی“

پولیس اہلکار کے مطابق ”پھر انہوں نے فائرنگ روک دی۔ ہم بھی رک گئے۔ ہمیں انتظار تھا کہ کب افسران اشارہ کریں گے اور ہم واپسی کے لیے نکلیں گے۔ اسی دوران ایک راکٹ ہمارے بلکل قریب مارا گیا۔۔ اب افسران سمجھ گئے تھے کہ یہ کوئی بچوں کے حوالگی کی ڈیل نہیں بلکہ پولیس کے لیے جال بچھایا گیا ہے“

مذکورہ پولیس اہلکار کے مطابق ”ہم سب بکتر بند گاڑیوں سے باہر تھے۔ جس کو جہاں جگہ ملی اس نے وہاں پوزیشن سنبھال لی۔ ڈاکوؤں کو پتا تھا کہ ہم کس گھر میں موجود تھے۔ وہ بڑے ہتھیاروں سے فائرنگ کر رہے تھے۔ دور تک اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ ایسے میں کلاشنکوف کی گولی نکلتے وقت کی چنگاری ہمیں نظر آتی تھی“

پولیس اہلکار کے بقول ”ڈی ایس پی عبدالمالک بھٹو صاحب نے کہا کہ فائر مت روکو، جواب دیتے رہنا۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے پہلے وائرلیس پر حملے کی اطلاع دی، پھر موبائل فون نکالا اور مزید نفری بھیجنے کا کہا۔۔ لیکن اس بار ڈکیتوں نے فائرنگ کا ایسا سلسلہ شروع کیا کہ اس میں وقفہ نہیں آ رہا تھا۔ ہمیں اتنا موقع بھی نہیں مل رہا تھا کہ ہم کسی طرح بکتر بند تک پہنچ سکیں“

انہوں نے بتایا ”نفری طلب کیے ہوئے بھی چالیس منٹ سے زیادہ کا وقت گزر چکا تھا لیکن کوئی پولیس نفری وہاں مدد کو نہ آئی۔۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس علاقے تک بغیر چین والی بکتربند کے، پولیس موبائل میں مزید نفری بھیجنا خطرناک تھا۔ اس علاقے میں ٹائر والی بکتر بند کا کوئی کام نہیں“

وہ بتاتے ہیں کہ ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ڈاکوؤں کی جانب سے فائرنگ اچانک رک گئی۔ اب رات کے بارہ بج چکے تھے

”افسران کو لگا شاید ڈکیت چلے گئے ہیں۔ نفری بھاگتی ہوئی بکتر بند گاڑیوں میں سوار ہونے لگی۔ ابھی چند اہلکار ہی بیٹھے تھے کہ پھر گولیاں چلنے لگیں۔ جو بیٹھ سکا وہ بیٹھ گیا، باقی کمرے میں رہ گئے“

پیچھے رہ جانے والوں میں ڈی ایس پی عبدالمالک، ایس ایچ او میرپور ماتھیلو عبدالمالک کمانگر، ایس ایچ او دین محمد لغاری، اوباوڑو تھانے کے اہلکار سلیم چاچڑ اور میرپور ماتھیلو تھانے کے اہلکار جتوئی پتافی شامل تھے

پولیس اہلکار کے مطابق اسی دوران ڈاکوؤں کی جانب سے ایک اور راکٹ داغا گیا، جس سے کمرے میں موجود ڈی ایس پی سمیت تمام افراد زخمی ہو گئے۔ بکتر بند میں مجھ سمیت کئی اہلکار زخمی تھے۔ ہمیں وہاں سے بکتر بند کو بھگانا پڑا

اس اہلکار کے مطابق وہ اس اثنا میں بے ہوش ہو چکے تھے ’جب ہوش آیا تو ہسپتال میں تھا۔ پتا چلا کہ کمرے میں رہ جانے والے پولیس والوں کو کچے کے ڈاکوؤں نے قتل کردیا۔ انہوں نے گھر کو گھیرے میں لے کر ان پر گولیاں برسائیں۔‘

مقامی افراد کے مطابق پولیس نے ڈاکوؤں سے ہلاک ہونے والے پولیس افسران و اہلکاروں کی لاشوں کی بازیابی کے لیے مقامی شخصیات سے رابطہ کیا، جس کے بعد ڈاکوؤں کی جانب سے ایک مقام پر لاشیں حوالے کر دی گئیں

دوسری جانب ایک مقامی صحافی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ حملے کے چوبث گھنٹے کے بعد تک ڈاکو ہلاک ہونے والے ڈی ایس پی عبدالمالک بھٹو کا موبائل فون استعمال کرتے رہے اور ان کے واٹس ایپ سے مختلف وڈیوز مقامی صحافیوں کو بھیجتے رہے

اس دوران ہلاک ہونے والے ڈی ایس پی کے فون پر کئی بار واٹس ایپ کا اسٹیٹس بھی تبدیل کیا گیا اور اس میں ڈاکو اپنی وڈیوز لگاتے رہے

ڈی ایس پی کے اپنے افسران کو کیے گئے وائس نوٹ بھی ڈاکوؤں کی جانب سے جاری کیے گئے اور بعد ازاں اس کے اسکرین شارٹس بھی سوشل میڈیا پر شیئر کیے گئے

ڈاکوؤں کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ایک وڈیو میں سنا جا سکتا ہے کہ وہ ایس ایس پی گھوٹکی تنویر حسین تنیو کو دھمکیاں دے رہے ہیں

ایک وڈیو میں ڈاکو کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ پانچ پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کا یہ سبق پولیس سال 2099 تک یاد رکھے گی

ڈاکو نے کہا کہ ’ہم نے پولیس پر بڑا احسان کیا ہے کہ ہم نے لاش کو خراب نہیں کیا اور ٹھیک حالت میں پولیس کے حوالے کی۔‘

ڈاکو یہ بھی کہتا ہے کہ ’ہم لاش کی تذلیل نہیں کرتے لیکن پولیس ہمارے لوگوں کی لاشیں پیسے لے کر دیتی ہے۔‘

سلطو شر ڈاکو کون تھا؟

21 ستمبر کو ایس ایس پی گھوٹکی تنویر حسین تنیو نے دعویٰ کیا کہ ان کی ٹیم سے مقابلے میں کچے کا اہم ڈاکو سلطان عرف سلطو شر مارا گیا ہے، جو ایک گروہ کا سرغنہ بھی تھا

یہ مقابلہ گھوٹکی کے اسی علاقے رونتی میں ہوا تھا، جہاں بعد میں پولیس پر بڑا حملہ کرکے ڈی ایس پی سمیت پانچ افسران و اہلکار کو ہلاک کیا گیا

پولیس کے مطابق سلطان عرف سلطو شر تین ایس ایچ اوز سمیت بارہ پولیس افسران و اہلکار کے قتل میں ملوث تھا اور اس پر سندھ میں قتل، ڈکیتی، رہزنی سمیت اٹھانوے مقدمات درج تھے۔ پولیس کے مطابق سندھ حکومت نے اس کی گرفتاری یا مقابلے میں مارے جانے پر ایک کروڑ روپے انعام کی سفارش کر رکھی تھی

تاہم پولیس کے اس دعوے کے برخلاف مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ سلطان عرف سلطو شر کو پولیس نے خود ایک مقام پر بلایا، جہاں اس کو مار دیا گیا

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سندھ کے مقامی صحافی محمد سلیم نے بتایا کہ سلطو شر ایک وقت تک پولیس اور عوام کے لیے خوف کی علامت اور علاقے میں جرم کی دنیا کا بادشاہ سمجھا جاتا تھا۔

سلطو شر کی دستیاب پروفائل کے مطابق گھوٹکی پولیس نے ان کے سر کی قیمت دو کروڑ مقرر کر رکھی تھی

سلطو کے خلاف پولیس اہلکاروں کے اغوا، قتل، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان، زمینوں پر قبضے اور بھتہ خوری کے بے شمار پرچے درج ہیں جن کے مطابق 2005 سے 2020 تک سلطو شر نے آٹھ پولیس والوں کو قتل کیا اور اٹھارہ کو شدید زخمی کیا تھا

دستیاب ڈاکومنٹس کے مطابق سلطو شر نے بیس عام افراد کا قتل کیا تھا جبکہ مختلف اوقات میں ڈھائی سو سے زیادہ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں بھی کیں

ان میں سے اکثر کیسز میں ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی کیونکہ تاوان کی رقم براہ راست مغویوں سے وصول کر لی گئی تھی

پولیس ریکارڈ کے مطابق سلطو کے خلاف پولیس پر ستر سے زیادہ حملوں کے مقدمات درج ہیں، تاہم سندھ کے مقامی صحافی محمد سلیم نے دعویٰ کیا کہ بیس سال کے بعد اس نے جرم کی دنیا سے کنارہ کشی کر لی اور ایک مخبر کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا، جس سے تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار ملتے رہتے تھے

ان کے مطابق ”ایک ماہ پہلے اس کی والدہ کو پولیس نے اٹھا لیا تھا، جس پر سلطو شر نے پھر سے بندوق اٹھا لی۔ اس کے دو دن بعد وہ جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا“

مقامی افراد کے مطابق یہ مقابلہ نہیں بلکہ پولیس نے بہت چالاکی سے سلطو شر کو ایک دعوت پر بلا کر قتل کیا

مقامی افراد کا دعوٰی ہے کہ سلطو شر اور پولیس کے درمیان ایک اعتماد قائم ہوچکا تھا اور ایسے میں ایک پولیس اہلکار نے سلطان عرف سلطو شر کو دعوت میں بلایا اور وہاں اسے اور عیسو شر کو قتل کیا

انہوں نے دعویٰ کیا سلطو کی جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت پر شر برادری کے ڈاکوؤں نے بدلہ لینے کی ٹھانی

مقامی افراد کے مطابق کچے کے ڈاکوؤں نے سلطو شر کی ہلاکت کے بعد بدلہ لینے کی دھمکیاں سوشل میڈیا کے ذریعے بھی دیں

ان کا دعویٰ ہے کہ پولیس افسران کو دھوکہ دہی سے ڈاکوؤں نے مغوی بچوں کی حوالگی کے نام پر بلوایا، جس کے بعد ان پر حملہ کیا گیا

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے سندھ کی شر برادری کے ڈاکووں کے سوشل میڈیا اکاوئنٹس مانیٹر کیے، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک بڑی تعداد میں ان کی جانب سے اپ لوڈ کی جانے والی وڈیوز کو دیکھنے والے موجود ہیں

ڈی آئی جی سکھر جاوید جسکانی سے جب پوچھا گیا کہ ڈاکو سوشل میڈیا کا کھلے عام استعمال کر ہے ہیں تو پولیس کیوں ایکشن نہیں لیتی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ سائبر کرائم کا ایشو ہے، جس کو پولیس نہیں دیکھ سکتی۔ ’سائبر کرائم والوں کو چائیے کہ وہ ان کے فیس بک اکاونٹس اور پیجز بند کر دے۔‘

واضح رہے کہ کچے کے ڈاکوؤں کے تین گروہ اندرون سندھ میں موجود ہیں۔ گھوٹکی میں یہ گروہ جانو انڈھڑ، سمار شر چلاتے ہیں

ذرائع کے مطابق ان ڈاکوؤں کے پاس آر پی جی راکٹ لانچر موجود ہیں جبکہ 12.7 ایم ایم اینٹی ایئر کرافٹ گنز بھی ہیں، جن سے جہاز کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے

اس کے علاوہ ہیوی مشین گن، ہینڈ گرنیڈز، لائٹ ویٹ مشین گنز، جی تھری، ایس ایم جی، کلاشنکوف، بلٹ پروف جیکٹس، لائف جیکٹس بھی موجود ہیں

ایس ایس پی تنویر تنیو نے تصدیق کی کہ ’ڈاکوؤں کے پاس اتنا جدید اسلحہ ہے کہ وہ ٹینک کو ناکارہ بنا سکتے ہیں اورجہاز بھی گرا سکتے ہیں۔‘

تاہم تنویر حسین تنیو کے مطابق پولیس کا سب سے بڑا چیلنج ڈاکوؤں کی کمین گاہوں تک رسائی کا ہے۔ ان کے مطابق رونتی میں صرف ایک پولیس اسٹیشن ہے اور رونتی کی حدود پنجاب کے ضلع رحیم یار خان سے ملتی ہے

انہوں نے بتایا کہ ہر سال یہاں سیلاب آتا ہے اور جنگل بھی پھیلا ہوا ہے، جس میں ڈاکوؤں نے خندقیں کھود رکھی ہیں۔ ڈاکو بہترین قسم کے تیراک بھی ہیں، اس لیے پولیس کے لیے وہاں آپریشن کرنا ذرا مشکل ہوتا ہے

واضح رہے کہ اس حملے میں ڈاکوؤں نے جدید اور بھاری اسلحہ استعمال کیا، تاہم یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ ڈاکووں کے پاس یہ اسلحہ کہاں سے آتا ہے؟

ڈاکوؤں کی چند سوشل میڈیا وڈیوز میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ اسلحہ پولیس سے خریدا تاہم پولیس اس الزام کی تردید کرتی ہے

ایس ایس پی تنویر تنیو کا کہنا ہے کہ یہ سارا جدید اسلحہ افغانستان سے آتا ہے، جس میں اسلحے کے اسمگلرز مدد کرتے ہیں

انہوں نے کہا کہ علاقے کی جغرافیائی پوزیشن ایسی ہے کہ صوبہ پنجاب اور بلوچستان کی سرحد سے ملے ہونے کی وجہ سے سندھ میں داخل ہونا آسان ہے

دوسری جانب اس سلسلے میں ایک اہم بات کچے کے ڈاکوؤں کے اثر ورسوخ اور سیاسی پشت پناہی کے الزامات بھی ہیں۔ یاد رہے کہ 2020 میں اُس وقت کے ایس ایس پی شکارپور ڈاکٹر رضوان کی جانب سے سات صفحات پر مشتمل رپورٹ تیار کی گئی تھی، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ سندھ میں کچے کے ڈاکوؤں کو سیاسی شخصیات اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں

ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان نے تفتیش کے دوران کچے کے ڈاکوؤں کا موبائل فون ریکارڈ حاصل کیا اور ان کی رپورٹ میں ڈاکوؤں کے پیپلز پارٹی رہنما اور صوبائی وزیر امتیاز شیخ سے روابط کا ذکر کیا گیا

اس رپورٹ کو آئی جی سندھ پولیس کو ارسال کیا گیا تھا، تاہم امتیاز شیخ کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی گئی

حالیہ حملے کے متعلق آئی جی سندھ کا کہنا ہے کہ کچے کے ڈاکوؤں کا یہ حملہ کسی ڈیل کے دوران پیش نہیں آیا بلکہ پولیس کی ٹیم نے ڈاکوؤں کے اہم کمانڈر کے گھر پر مغویوں کی بازیابی کے لیے چھاپہ مارا تھا اور پھر اسی مقام کو اپنا بیس کیمپ بنا لیا تھا

ان کا کہنا ہے کہ اسی مقام سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر پولیس کی ایک پکی بیس کیمپ بھی تھی

ان کا کہنا تھا کہ اس علاقے سے واقف ڈاکوؤں نے اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر پولیس ٹیم پر حملہ کیا، جس کے دوران پندرہ سے بیس راکٹ پولیس پر فائر کیے گئے

انکوں نے کہا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مخبر کون تھا لیکن پولیس کے حوصلے بلند ہیں

آئی جی سندھ غلام نبی میمن کے مطابق کچے کے ڈاکوؤں کا حل بڑے آپریشن کا اعلان نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس کے نتائج حاصل نہ ہوں۔ ان کے مطابق یہاں انٹیلیجینس بیس آپریشن کرنے کی ضرورت ہے

آئی جی سندھ نے کہا کہ جغرافیائی لحاظ سے کچے کے علاقے میں پولیس کا آپریشن مشکل ہوتا ہے اور اس کے لیے ڈرون کیمروں کی ٹیکنالوجی بھی درکار ہے تاکہ آپریشن سے پہلے ڈاکوؤں کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جائے

ان کے مطابق سندھ پولیس کو کچے کے علاقے میں جدید اسلحے کی ضرورت ہے

’جن ہتھیاروں اور راکٹوں سے کچے کے ڈاکووں نے پولیس پر حملہ کیا، ان ہتھیاروں کا استعمال پولیس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔‘

ان کے مطابق کچے کے ڈاکوؤں کی گرفتاری یا مارے جانے پر پولیس ٹیم کے لیے بڑے انعام کا اعلان کرنے کی ضرورت ہے

اسی طرح کرمنلز کی سپلائی لائن کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ان کے پاس یہ خطرناک ہتھیار کہاں سے اور کیسے آ رہے ہیں

آئی جی سندھ نے کہا کہ انہوں نے ضلعی ایس ایس پی کو اس بات کی تحقیقات کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں کہ ڈاکوؤں کے پاس اسلحہ کہاں سے آتا ہے، جبکہ کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کو کراچی میں اسٹریٹ کرمنلز کو ملنے والے اسلحہ سے متعلق اس کا نیٹ ورک پتا کرنے کے احکامات بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close