کوئٹہ کینٹ میں جبری گمشدگی پر سیشن میں کیا باتیں ہوئیں؟

ویب ڈیسک

پاکستان فوج کے زیرِ اہتمام کوئٹہ بلوچستان میں جاری سیکیورٹی ورکشاپ کے دوران جبری گمشدگیوں کے حوالے سے منعقدہ سیشن میں پہلی بار ’وائس فار مسنگ پرسنز‘ کے نمائندے کو بلایا گیا اور اس موضوع پر شرکانے کھل کر اظہارِ خیال کیا

کوئٹہ کینٹ میں ہونے والی اس ورکشاپ میں سدرن کمانڈ کے کور کمانڈر لیفٹننٹ جنرل آصف غفور اور سول انتظامیہ کے افسران نے شرکت کی

اس موقع پر سینئر صحافی حامد میر اور ’وائس فار مسنگ پرسنز‘ کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے جبری گمشدگیوں کے حوالے سے بات کی

سیشن کے شرکا نے تند و تیز سوالات کیے اور دونوں جانب سے کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا گیا

ورکشاب کے دیگر شرکاء میں کمیشن برائے جبری گمشدگی کے رکن جسٹس ریٹائرڈ فضل الرحمٰن، قانونی ماہر بیرسٹر سعد رسول اور دیگر شریک تھے

ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے حامد میر نے کہا ”جب مجھے اس سیشن سے خطاب کی دعوت ملی تو میں نے اپنی شرکت کو مسنگ پرسنز کے نمائندے کو دعوت دینے سے مشروط کیا۔ اس کے بعد وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز کے نمائندہ نصراللہ بلوچ کو بلایا گیا۔“

حامد میر نے کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جبری گمشدگیوں پر ان کا اور نصراللہ بلوچ کا مؤقف ایک ہی تھا، جبکہ وہاں موجود دیگر افراد ان کی رائے سے متفق نہیں تھے۔ اس ورکشاپ میں شریک بیشتر لوگوں کا کہنا تھا کہ جو لوگ لاپتا ہوئے اس کی ضرور کوئی وجہ ہوگی

وائس آف مسنگ بلوچ پرسنز کے نمائندے اور ورکشاپ میں شریک نصراللہ بلوچ نے ورکشاپ کے حوالے سے بتایا کہ جبری گمشدگیاں انسانی حقوق کا مسئلہ ہے

نصراللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ اس ورکشاپ میں کورکمانڈر لیفٹننٹ جنرل آصف غفور نے ہم سے کہا کہ ہم اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ ہیں۔ اس مسئلے کو قانونی طریقے سے حل کیا جائے اور جو بھی کیس رپورٹ ہوں، ان کے بارے میں حکام کو مطلع کیا جائے تاکہ کسی کو شکایت کا موقع نہ ملے

نصراللہ بلوچ نے کہا کہ فوجی حکام کے پہلے اور اب کے موؐقف میں کافی فرق دیکھنے میں آیا ہے اور ہمیں لگ رہا ہے کہ اب واقعی فوج اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہے

نصراللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ ہم نے اس ورکشاپ کے ذریعے اس بات پر زور دیا کہ اگر کسی شخص پر کوئی الزام لگتا ہے تو اسے غائب نہ کردیا جائے بلکہ اس کو عدالتوں میں پیش کر کے اسے سزا دلوائی جائے۔ کیونکہ جب اسے غائب کر دیا جاتا ہے تو اس سے ایک پورا خاندان مسائل کا شکار ہو جاتا ہے

نصراللہ بلوچ نے کہا کہ ورکشاپ میں ہم نے بتایا کہ عدالتی رپورٹس موجود ہیں، جس کے مطابق مقتدر ادارے ان گمشدگیوں میں ملوث رہے ہیں۔ لیکن کمیشن کے احکامات اور عدالتوں کی طرف سے کہنے کے باوجود بھی لاپتا افراد کو عدالتوں میں پیش نہیں کیا جاتا

ورکشاپ میں شریک مقررین کی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ تقریب میں بیرسٹر سعد رسول نے دہشت گردوں کی عدالتوں سے رہائی کے معاملے پر بات کی۔ جس کے جواب میں حامد میر نے کہا کہ ایک دہشت گرد مسلم خان کو سوات سے گرفتار کر کے سزائے موت سنائی گئی، لیکن بعد میں صدر نے مسلم خان کو صدارتی معافی دے دی

حامد میر کے مطابق اس دوران بہت زیادہ سخت باتیں ہوئیں اور لیفٹننٹ جنرل آصف غفور نے کہا کہ تلخ باتیں ہوئی ہیں، لیکن ہم نے مل جل کر یہ مسئلہ حل کرنا ہے

اس ورکشاپ کے بارے میں بات کرتے ہوئے لاپتا کیے گئے ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی صاحبزادی اور انسانی حقوق کی کارکن سمی دین بلوچ نے کہا کہ ایسی ورکشاپ کا انعقاد خوش آئند ہے

اُن کا کہنا تھا کہ ہمارا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ ہمارے پیاروں پر اگر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے اور لواحقین کو غیریقینی کی صورتِ حال سے نکالا جائے۔ اس پر کہیں بھی بات ہو، ہم اسے اپنے مسئلے کے حل کے لیے بہتر سمجھتے ہیں

حامد میر کا کہنا تھا کہ ماضی میں وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز والے جب احتجاج کرتے ہوئے اسلام آباد آئے تو ہمیں کہا گیا کہ ان کا پروگرام نشر نہ کیا جائے لیکن ہم نے یہ پروگرام نشر کیا اور اس کے بعد ہی مجھ پر حملہ ہوا۔ لیکن اب دس سال کے بعد اسی تنظیم کے صدر نصراللہ بلوچ کو دعوت دے کر بلایا گیا اور بات کی گئی ہے

انہوں نے کہا کہ نصراللہ بلوچ کو بلا کر بات کرنے کا مطلب ہے کہ دس سال میں برداشت کا لیول بڑھا ہے۔ اس ورکشاپ کے لیے وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز والے بھی تذبذب کا شکار تھے لیکن بعد میں انہوں نے مشاورت کی اور اس سیشن میں شرکت کی

حامد میر نے کہا کہ ہم نے وہاں کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا اور مختلف واقعات کا حوالہ دے کر اداروں پر تنقید بھی کی لیکن یہ اچھی بات ہے کہ جبری گمشدگیوں اور ان کی وجوہ پر بات کی جارہی ہے

واضح رہے کہ پاکستان میں لاپتا افراد کا مسئلہ دو دہائیوں سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد آج بھی جاری ہے اور اس بارے میں قائم کمیشن کے مطابق اس وقت بھی لاپتا افراد کی تعداد ڈھائی ہزار سے زائد ہے، جبکہ اس بارے میں کام کرنے والی مختلف تنظیموں کے مطابق یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close