معدے کے جراثیم اور ذیابیطس کے موضوع پر پاکستانی محقق کی سنگ میل کی حیثیت رکھنے والی تحقیق

ویب ڈیسک

حال ہی میں ایک پاکستانی محقق کا تحقیقی مقالہ معروف سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہوا ہے، جس میں اس بات کا احاطہ کیا گیا ہے کہ پیٹ کے جراثیموں سے ذیابیطس کے مرض کو لاحق ہونے سے روکنا ممکن ہے

یہ تحقیق ڈاکٹر محمد تنویر خان نے کی ہے۔ کراچی یونیورسٹی سے مائیکرو بیالوجی میں ماسٹرز اور پھر نیدرلینڈز سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے ڈاکٹر تنویر اس وقت سویڈن کی گوتھن برگ یونیورسٹی سے وابستہ ہیں اور مالیکیولر اور کلینیکل میڈیسنز کے شعبے میں سنگ میل ثابت ہونے والی ریسرچ کر رہے ہیں

اپنے تحقیقی مقالے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد تنویر خان نے کہا کہ آنتوں میں بسنے والے جراثیم ہماری صحت پر مثبت اور منفی دونوں طریقوں سے اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ خوشی، غم، اسٹریس، بھوک اور ایسے دیگر عوامل انہی جراثیموں سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔

معروف سائنسی جریدے ‘نیچر‘ میں شائع ہونے والی ان کی نئی تحقیق کے نتائج پر مبنی ایک رپورٹ کے مطابق پیٹ کے ان جراثیموں میں واقع ہونے والی تبدیلیاں نہ صرف بہت سی بیماریوں کی پیشگی اطلاع دے سکتی ہیں بلکہ ان کی شدت اور ادویات کے اثرات پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہیں۔

اس تحقیقی رپورٹ میں خاص طور پر ذیابیطس کے عارضے پر توجہ مرکوز رکھی گئی ہے، تاہم ڈاکٹر تنویر خان کہتے ہیں کہ دل کی بیماریاں بھی انی جراثیموں کی انسانی جسم میں تعداد سے جڑی ہوتی ہیں۔

اس تحقیق کے مطابق پیٹ میں ان جراثیموں سے جڑی تبدیلوں کا سراغ لگانے کے لیے جینوم سیکوئنسنگ (metagenome) کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر تنویر خان کہتے ہیں ”آنتوں میں بسنے والے جراثیموں کی تعداد ہمارے جسم کے خلیوں کی مجموعی تعداد سے بھی دس گنا زیادہ ہوتی ہے جبکہ ان میں موجود جینز کی تعداد تقریباً سوگنا زیادہ۔‘‘

ڈاکٹر تنویر خان نے اسی تناظر میں بتایا، ”ایک عام انسان دن میں تقریباً آدھا کلو فضلہ خارج کرتا ہے، جس کا نصف وزن انہی جراثیموں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ جراثیم انتہائی حساس ہوتے ہیں اور اکثر ہوا کے ساتھ رابطے میں آنے کے چند لمحوں میں ہی مرجاتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر تنویر کے مطابق آنتوں کی توانائی کا 60 فی صد بشمول وٹامنز، ہارمونز اور دیگر کمیائی اجزاء انہی جراثیموں سے حاصل ہوتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ اینٹی بائیوٹک کا استعمال کیا جاتا ہے تو اچھے جراثیم (جو ہمیں وٹامنز فراہم کرتے ہیں) مر جاتے ہیں اور اسی لیے وٹامنز کی گولیاں بھی تجویز کی جاتی ہیں۔

ڈاکٹر تنویر کے مطابق پری بائیوٹک نامی یہ گولیاں اصل میں وہ فائبر ہوتے ہیں، جو انسان ہضم نہیں کرتا بلکہ یہ انسانی جسم میں رہ کر اچھے جراثیموں کی تعداد بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔

تحقیق کے مطابق ذیابیطس سے قبل کچھ خاص قسم کے جراثیم جسم میں کم یا ختم ہو جاتے ہیں۔ اس تحقیق سے قبل تک ان جراثیموں کو محفوظ بنا کر کسی دوا کی شکل نہیں دی جا سکی تھی۔

ڈاکٹر تنویر خان کی ٹیم نے ان جراثیموں کو پیدا کرنے اور محفوظ بنانے کا طریقہ وضع کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ طریقہ ابھی پچاس افراد پر استعمال کیا گیا ہے اور اس کے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں۔ اب یہ تحقیق انسانوں کے ایک بڑے گروپ پر استعمال کی جا رہی ہے اور اس کے نتائج بھی جلد ہی شائع کیے جائیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close