گلزار کو اردو شاعری نہیں آتی بھائی!

حسنین جمال

میں جب بھی کبھی زندگی میں بہت خوش ہوا ہوں یا بہت غمگین رہا تو میں نے گلزار کو بے شمار یاد کیا۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ بے پناہ کو بے شمار لکھنے کا حوصلہ بھی گلزار ہی نے دیا۔ گلزار نے سکھایا کہ زبان کچھ نہیں ہے، ذرہ ہے، جذبہ آفتاب ہے۔

گلزار نے سکھایا کہ شاعری کچھ نہیں ہے، لفظ وقت کے جیسے ہیں، دل پہ چھپ گئے تو زندہ باد ورنہ ابھی یہ پل ہے ابھی دوسرا ہو گا۔ گلزار نے سکھایا کہ گانا بیٹ میں ہونا ضروری نہیں، گانا تو بغیر موسیقی کے بھی چل سکتا ہے، بس دل کو ٹچ کرنا چاہئیے۔ وہ کیا تھا یار ۔۔۔ پتھر کی حویلی کو، شیشے کے گھروندوں میں، تنکوں کے نشیمن تک۔۔۔

کیا ہے؟ یہ شاعری ہے؟ یہ گانا ہے؟ کوئی ردم ہے اس میں؟ پھر بھی ایسا لگتا ہے جیسے کہیں آبشار گر رہا ہے، پانی ہے جو بس بہتا چلا رہا ہے، نغمہ ہے کہ جس کا پھیلاؤ پوری کائنات پر ہے، کیا ہے؟ گلزار آپ کے ساتھ وہ کر جاتا ہے جس کے بعد آپ کو ایک عمر تک اندازہ نہیں ہوتا کہ واردات ہوئی کیا ہے۔ مطلب یار وہ کوئی گانا ہے، چپہ چپہ چرخہ چلے؟ کیا ہے، شاعری کیا ہے؟ کوئی وزن ہے؟ لیکن پھر آپ کی آنکھیں بھیگ کیوں جاتی ہیں جب آپ سنتے ہیں کہ بیبا تیری یاد نہ ٹلے! کیوں ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی ململ کے دوپٹے کو کیکر کے درخت میں الجھا کر بے دردی سے کھینچ لیا گیا ہے، اور ساتھ میں ساری جان بھی نکل کر ساتھ چلی گئی ہے؟

وہ، اس کی بات کر لیں، تیری کمر کے بل پہ، ندی مڑا کرتی تھی۔ یہ کوئی شاعری ہے، کون سا شاعر ایسا ہے جو کمر کے بل پہ ندی مڑوا دے؟ یہ تپڑ پنجاب کا ایک جٹ شاعر ہی رکھ سکتا ہے جسے اندازہ ہو کہ کمر ہوتی کیا ہے اور اس کے بل پہ کیا کیا قربان کیا جا سکتا ہے۔ گلزار نے ورتا ہے، گلزار نے جھلیجا ہے، گلزار نے بھگتا ہے، گلزار نے بیلنے میں سے گنے کی طرح گزر کے یہ گانے لکھے ہیں، وہ ڈرائنگ روم کا شاعر نہیں ہے وہ زندگی جھیل کر بارہ بجے والے سورج کی تپش میں ننگے پاؤں سڑک پہ چل کر شاعری کرنے والا انسان ہے۔ وہ کیا تھا، ایک سو سولہ چاند کی راتیں، ایک تمہارے کاندھے کا تل، لاحول ولا اوہ، اسے کون شاعری کہے گا؟ گیلی مہندی کی خوشبو، جھوٹ موٹ کے وعدے سب، اس سارے میں کیا ربط ہے؟ کدھر چاند کی راتیں کہاں کندھے کے تل، کہاں گیلی مہندی، کہاں ایویں کے دو نمبر وعدے اور کہاں ان سب کو ملا کر ایسا ظالم گانا بنا دینا کہ بندہ جب بھی سنے روئے بغیر آسرا نہ ہو۔

مطلب حد ہے یار، یہ کوئی انسانیت ہے؟ گلزار کو فلم انڈسٹری سے ہی بین کر دینا چاہئیے۔ نہ شاعری ڈھنگ کی، نہ اردو ڈھنگ کی، نہ گانا بنانا آئے، نہ کوئی راگ ہو کہ جس پر گانا پورا اترے اور سننے والا چونچ اس پہ پتہ نہیں کیا کیا یاد کر کے آنسو بہاتا پھرے۔ کیا مرد کیا عورت مطلب پوری دنیا گلزار کی زبان سمجھے اور نہ سمجھے تو وہ سکہ بند شاعر ادیب کہ جس کی ٹکسال کی مہر لگے تو گلزار کو شاعری کی سند عطا ہو، تف ہے!
اس کی بات کر لیتے ہیں، دور کیا جائیں، وہ جو ابھی کچھ سال پہلے گرو فلم کا گانا آیا تھا، اے حیرت عاشقی، جگا مت، پیروں سے زمیں، زمیں لگا مت، کیا مطلب ہے اس کا؟ کون سا شاعر ان لفظوں کی تشریح کر سکتا ہے؟ پھر بھی چوبیس گھنٹے آپ کی گاڑی میں کیوں یہ گانا بجتا رہا؟ کبھی جھانکو میری آنکھیں، سنائیں اک داستاں، جو ہونٹوں سے کھولو نا۔۔۔ کیا ہے یہ؟ پھر بھی آپ سنتے جاتے ہیں اور جھومتے جاتے ہیں۔ ابے یار یہ منتر ہوتا ہے۔ یہ گانا نہیں ہوتا۔ یہ کوئی اور چیز ہے۔ جو کہے کہ گلزار اردو نہیں جانتا، گلزار شاعری نہیں جانتا اس کو بولو کہ نہیں جانتا، گلزار ہمارے دل کے تار پکڑ کر انہیں بے دردی سے بجانا جانتا ہے، انہیں جھنجھوڑنا جانتا ہے۔ یا تو اس کے ساتھ وہ سب ہوا ہے جو ہم نے بسر کیا یا وہ گنی ہے بھائی۔ وہ کچھ ہے۔ وہ جادوگر ہے، طبیب ہے،پیر ہے، مرشد ہے، وچ ڈاکٹر ٹائپ کچھ ہے، کچھ تو ہے اور جو بھی ہے اس میں شدید ہے!

چھئی چھپا چھئی، چھپا کہ چھئی؟ پانیوں پہ چھینٹے اڑاتی ہوئی لڑکی، دیکھی ہے ہم نے آتی ہوئی لہروں پہ جاتی ہوئی لڑکی، ڈھونڈا کریں گے تمہیں ساحلوں پہ ہم، ریت پہ یہ پیروں کی مہریں نہ چھوڑنا، کون اسے گانا کہے گا، کون اسے گائے گا، کون اس کے اندر میوزک فٹ کرے گا اور کون اسے فلم کے اندر چلانے کا رسک لے گا؟ وہی ہے بھائی، پوری دنیا میں ایک، جو سب کچھ ایسے فٹ بٹھاتا ہے کہ آپ بال نوچیں یا الجھن میں ٹاپتے پھریں، وہ اپنا کام کر کے سکون سے ایک اور گانا یادوں کے کھانچے میں فٹ کر کے رفو چکر ہو جاتا ہے۔ تم باپ ہے گلزار دادا! میوزک والے کیا اور شاعر لوگ کیا!

ایسی الجھی نظر ان سے ہٹتی نہیں، دانت سے ریشمی ڈور کٹتی نہیں، عمر کب کی برس کے سفید ہو چکی، کاری بدری جوانی کی چھٹتی نہیں۔ کیسا منحوس گانا ہے؟ کتنے سال کے ہیں آپ؟ پچاس، پچپن، پینسٹھ، پچھتر؟ دل کالا اور بال سفید ہیں؟ یہی سارا چکر ہے۔ گلزار بڑا چتر آدمی ہے بھائی، وہ بھیدی ہے، وہ لنکا ڈھائے اور منٹ نہ لگائے۔ وہ سو شاعروں کا آئی جی ہے! آپ وہاں پہنچ نہیں سکتے جہاں سے وہ بات کرتا ہے۔ چھوڑیں یار جانے دیں۔ اب آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ اس بندے نے کتنا چڑھا دیا ہے گلزار کو۔ ایویں اتنا زیادہ امپریس ہوا پھر رہا ہے۔ ایک سے ایک بڑھ کے شاعر پڑا ہے دنیا میں۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں اس بندے کو ادب میں کودے اور پھر یہ صحافت کا کونا مل کے بیٹھ گیا ہے، اس گھاس کھودنے والے کو پتہ کیا ہے ادرک کا سواد کیا ہوتا ہے؟ ہے نا؟

جان دیو مرشدو۔ میاں محمد بخش نے کہہ دیا تھا خاصاں دی گل نئیں مناسب عاماں اگے کرنی۔ یہ تو بات ہی عاموں کی ہے، فقیروں کی ہے، اسیروں کی ہے، یہ تو بھائی زمین کی خوشبو کی بات ہے، دھرتی سے جڑت کی بات ہے، بارش کی مہک کی بات ہے، تپتی دوپہر کی لو اور اس کے بعد ٹھنڈی رات کی بات ہے، یہ بات سردیوں کی شام کی ہے، یہ بات گرمیوں کے آم کی ہے، یہ بات تو بس وہ ہے جو ہر کوئی کر سکتا ہے، جو ہر کوئی محسوس کر سکتا ہے، نہیں کر سکتا تو آپ۔ جو شاعر ہیں، ادیب ہیں، نقاد ہیں، اردو دان ہیں، فلسفی ہیں، ذوق عالیہ رکھتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ گلزار کو نہ شاعری آتی ہے نہ اردو زبان۔ آپ کو وہ سب دیوان مبارک جن کے جرمانے پہ میر نے کچھ کہا تھا، اپن لوگ گلزار کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھتے ہیں، عیش کرتے ہیں۔ سلام علیکم!

انڈپینڈنٹ اردو کے شکریے کے ساتھ شایع کیا گیا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close