فرانز فینون: جائزہ اور افادہ، وفات کے ساٹھ برس بعد (آخری قسط)

ڈاکٹر اختر علی سید

تیسری قسم کے امراض اس عقوبت کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں جو استعماریت کا خاصا ہے۔ عقوبت خانوں میں استعمار کے خلاف جدوجہد کرنے والے جس طرح ٹارچر کا نشانہ بننے کے بعد بے بسی، غصہ، اداسی اور دیگر جسمانی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں فینون ان کی وضاحت کرتا ہے

چوتھی قسم ان عام جسمانی امراض کے بیان پر مبنی ہے جو حقیقت میں جسمانی نہیں بلکہ نفسیاتی اسباب سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس طرح کے امراض کا استعماری نظام سے تعلق عام آدمی تو کجا ماہرین بھی نہیں دیکھ پاتے۔ 2015 میں شائع ہونے والے مضامین کے مجموعے میں فینون کے وہ مضامین بھی شامل ہیں جو اس نے ذہنی صحت کے موضوعات پر تحریر کیے تھے۔ 27 مضامین مختلف امراض، ان کی تفصیلات اور ان کے علاج پر تحریر کیے گئے ہیں

مینونی نے جس گفتگو کا آغاز کیا تھا اس باب میں فینون نے اس گفتگو میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ تاہم فنون کے ساٹھ سال بعد آج یہ بیان انتہائی ابتدائی درجے کا محسوس ہوتا ہے۔ اس کی وجہ استعماری نظام میں آنے والی تبدیلیاں اور اس سے پیدا ہونے والے نفسیاتی امراض کی پیچیدگی ہے۔ مثال کے طور پر استعمار اب ایک ناقابل مشاہدہ اور ناقابل شناخت اکائی بن چکا ہے۔ لیکن ایک عام محکوم فرد کے لیے یہ جس عقوبت کا سبب بن سکتا تھا وہ بہرحال جاری ہے۔ مگر اس عقوبت کا تعلق اب استعمار سے جوڑنا آسان نہیں رہا۔ پاکستان کی سڑکوں اور گلیوں میں ہونے والی 80 ہزار سے زائد افراد کی ہلاکت کس طرح پاکستانی معاشرے کے لیے نفسیاتی صدمے کا سبب بنی ہے اس کو آج کی تاریخ تک نہیں دیکھا جا سکا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جو استعماری نظام ان ہلاکتوں کا سبب بنا وہ اب قابل شناخت نہیں ہے۔ قابل شناخت استعمار کے مظالم برداشت کرنا اور اس کے نفسیاتی صدمے سے نمٹنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ لیکن اگر مظالم اسی طرح جاری ہوں مگر انسان ظلم ڈھانے والے ہاتھ نہ دیکھ سکے تو نفسیاتی طور پر یہ صدمہ جھیلنا بے حد مشکل ثابت ہوتا ہے۔ فینون نے استعماریت کا یہ مظاہرہ نہیں دیکھا تھا جو آج کے انسان کے مشاہدے میں ہے

اس باب کے آخر میں فینون ایک مرتبہ پھر اس بات کی نفی کرتا ہے کہ محکومین کی ذہنی حالت، غصہ، جارحیت یا کمتری کا احساس ان کی جینیاتی تشکیل کا حصہ ہے۔ اس کے خیال میں یہ تمام پیچیدگیاں استعمار کی پیدا کردہ ہیں۔ اس طرح فینون کی یہ آخری کتاب1952ءمیں شائع ہونے والی اس کی پہلی کتاب ”سیاہ جلد سفید نقاب“ کی تائید پر ختم ہوتی ہے۔

اس کتاب کے نتیجہ کلام کے طور پر فینون اپنے دوستوں اور محکوموں کو یاد دلاتا ہے کہ انھیں اپنے ماضی سے نجات پانا ہو گی۔ اور یاد رکھنا ہو گا کہ یورپ نے کس طرح دوسروں کو غلام بنا کر ان کی ترقی کو صدیوں تک منجمد رکھا۔ یورپ نے یہ سب کچھ دنیاپر حکومت کرنے کے خبط، دوسروں پر طعنہ زن ہونے کی اپنی عادت، اور تشدد کی صلاحیت کے زور پر حاصل کیا ہے۔ وہ محکومین کو یاد دلاتا ہے کہ ہمارے پاس یورپ کی پیروی کرنے کے علاوہ بھی اور بہت سے بہتر کام کرنے کے لیے ہیں۔ ہم نے یہ دیکھ لیا ہے کہ یورپ کی نقالی کرنا کتنا گمراہ کن ہو سکتا ہے۔ یورپ کی ترقی، رہن سہن، اور ٹیکنالوجی سے ہمیں گمراہ نہیں ہونا چاہیے۔ امریکہ کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ ایک محکوم معاشرہ یورپ کی پیروی کے نتیجے میں خود یورپ سے بڑا عفریت بن کے ابھرا ہے۔ اس لیے یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ ترقی کی جنگ نہیں ہے کہ جس میں ایک دوسرے سے مقابلہ کیا جائے۔ اگر ہمیں اپنے لوگوں کی توقعات پوری کرنا ہے تو یورپ کے علاوہ ہمیں صرف اور صرف اپنی جانب دیکھنا ہو گا۔ اپنے لیے، انسانیت کے لیے، اور خود یورپ کی بہتری کے لیے دوستو، ہمیں ایک نئی شروعات کرنا ہوں گی، سوچنے کا ایک نیا طریقہ سوچنا ہو گا اور اپنی تخلیق نو کرنا ہوگی

فینون کے خیالات، نظریات، اور تجزیہ پر ہر طرح کا تبصرہ اور تنقید کی جا سکتی ہے۔ لیکن محکومین کے ساتھ اس کی گہری وابستگی ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ گو وہ خود سیاہ فام نسل سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے سیاہ فاموں کی جانب سفید فام افراد کا متعصبانہ رویہ صرف دیکھا ہی نہیں بلکہ بھگتا بھی تھا۔ لیکن الجیریا کے عوام کے ساتھ اس کی وابستگی میں ذاتی تعصب کو ڈھونڈنا ناممکن ہے۔ یہ وا بستگی خالصتاً انسانی بنیادوں پر استوار ہوئی تھی اور اس کی آخری سانس تک باقی رہی۔ اس وابستگی کو اس نے اپنے خالص علمی کام، پیشہ ورانہ ذمہ داریوں، اور سیاسی سرگرمیوں کا اس طرح حصہ بنایا کہ ایک کو اب دوسرے سے الگ کر کے دیکھنا ممکن نہیں رہا

گزشتہ صفحات میں ہم نے فینون کی تین کتابوں کا ایک اجمالی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان تین کتابوں کے علاوہ فرانز فینون کے متفرق مضامین کے دو مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ پہلا مجموعہ ”افریقی انقلاب کی جانب“ اس کی وفات کے صرف تین سال بعد 1964ء میں شائع کر دیا گیا تھا۔ جبکہ دوسرا مجموعہ ”بیگانگی اور آزادی“ کے نام سے فرانسیسی زبان میں 2015ء میں شائع کیا گیا۔ اس جائزے کو بوجوہ ان تین کتابوں تک محدود رکھا گیا ہے جو فینون کی زندگی میں شائع ہوئی تھیں

فینون کی ان تین کتابوں اور آج تک شائع ہونے والے دیگر مضامین کا ایک عمومی جائزہ بھی اس سادہ اور واضح نتیجے تک پہنچانے کے لیے کافی ہے کہ فینون کی تحریروں کا مقصد استعمار اور محکوم کی وہ شناخت بیان کرنا ہے جو ان کے باہمی تعلق سے برآمد ہوتی ہے۔ یہی وہ شناخت ہے جو ان کی دو مختلف دنیاؤں کی تعمیر اور تشریح کرتی ہے۔ ان کے درمیان فاصلوں کی پیمائش کرتی ہے۔ استعمار ان فاصلوں کی بقا اور محکوم ان فاصلوں کو ختم کرنے کے لیے جن نفسیاتی، سماجی، اور سیاسی حربوں کا سہارا لیتے ہیں ان کی پہچان اس قدر جامعیت، حقیقت پسندی، اور صریح ابلاغ کے ساتھ اس سے پہلے کوئی اور نہیں کر سکا تھا۔ اور شاید یہ کہنا بھی درست ہو کہ اس کے بعد بھی اس تعلق کو فلسفیانہ مباحث میں الجھائے بغیر اس قدر صفائی سے کوئی اور بیان نہیں کر سکا

اس کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ استعمار اپنے اور محکوم کے درمیان اتنا فاصلہ پیدا کرتا ہے جتنا فاصلہ اچھائی اور برائی، علم اور جہالت، اور تہذیب اور بربریت کے درمیان ہوتا ہے۔ دنیا کی ہر اچھائی کا ارتکاز استعمار میں اور ہر برائی کا مرکز محکومین کو قرار دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے اس فاصلے کو برقرار رکھنے کے لیے استعمار کو لازماً تشدد کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس تشدد کے بغیر استعمار کا بیانیہ نہ استوار ہوتا ہے اور نہ قائم رہ سکتا ہے

محکومین اس فاصلے کو پاٹنے کے لیے کبھی استعمار کی شناخت اختیار کرتے ہیں، کبھی اس سے دوری اور کبھی اس سے آزادی کی جدوجہد کرتے ہیں۔ یہ تیسرا راستہ وہ ہے جسے فینون محکومین کے لیے تجویز کرتا ہے مگر وہ اس آزادی سے متنبہ کرتا ہے جو ذہنی غلامی سے نجات پائے بغیر حاصل کی جائے۔ اس لیے اس نے افتادگان خاک میں خصوصاً محکومین کے ان متوقع مسائل کو اپنے تجزیے میں اجاگر کیا ہے جو آزادی کے بعد ان میں پیدا ہونا تھے۔ آج بجا طور پر فینون کے تجزیے کی صداقت کا اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں ہے۔ اس کی وفات کے ساٹھ سال بعد بہت سے (خاص طور پر ہندوستان اور پاکستان کے ) معاشرتی مظاہر فینون کی تجزیاتی پیشگوئیوں کے بین ثبوت کے طور پر ہمارے سامنے ہیں

فینون کا یہ اصرار کہ سیاہ فام کے مسائل ایک سیاہ فام ہی سمجھ سکتا ہے پہلے 2014ء اور اس کے بعد حال ہی میں امریکہ میں ایک سیاہ فام جارج فلوائیڈ کی موت نے درست ثابت کیا۔ 2014ء میں مار دیے جانے والے ایرک گارنر اور فلوائیڈ کے آخری الفاظ تھے ”مجھے چھوڑ دو، میں سانس نہیں لے سکتا“ ۔ سیاہ جلد سفید نقاب میں فنون نے کہا تھا کہ ہم بغاوت اس وقت کرتے ہیں جب ہمارے لیے سانس لینا محال کر دیا جائے۔ امریکہ میں جاری اور میڈیا سے غائب ”بلیک لائیوز میٹر“ تحریک میں فینون کے ان الفاظ کی بازگشت لگائے جانے والے نعروں اور پلے کارڈز پر درج عبارتوں میں سنی جا سکتی ہے۔ فینون کے ساٹھ سال بعد اس کے الفاظ کا دہرایا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے کام کی افادیت یونیورسٹی کے پروفیسروں کے مقالات تک محدود نہیں ہے۔ اس کے الفاظ زندہ تحریکوں کے مظاہرین سڑکوں اور گلیوں میں آج بھی دہراتے ہیں۔ استعماریت پر لکھنے والے کسی مصنف کی یہ افادیت اور ملنے والی یہ پذیرائی نہ فینون سے پہلے کسی نے حاصل کی اور نہ بعد میں

جہاں فینون کی تجزیاتی سچائیاں اور افادیت ہمارے سامنے ہے وہیں بہت سی زمانی تبدیلیاں ایسی ہیں جن کی وجہ سے فینون کے نظریات پر تنقید اور تحدید ضروری خیال کی جانی چاہیے۔ مثال کے طور پر استعمار کی تشکیل پاتی ہوئی نئی شناخت، نسل پرستی اور استعماریت کا نیا تعلق، تشدد اور کنٹرول کے نئے ڈیجیٹل طریقے، اور آج کی دنیا میں اس کام کے لیے میڈیا اور سوشل میڈیا کا تشکیل پاتا ہوا نیا کردار۔ یہ سب کچھ فینون کے سامنے نہیں تھا۔ تاہم اس کے بیان کردہ قومی بورژوازی کا کردار آج اس قدر واضح ہو کر ہمارے سامنے ہے جیسا فینون کے وقت میں نہیں تھا۔ قومی افواج، نئے دور میں بننے والے مسلح جتھے، بین الاقوامی مالیاتی ادارے، اور کثیرالقومی کارپوریشنز نے جس طرح استعمار گرد کا کردار اپنایا ہے اور مقامی سیاستدانوں نے استعماریت کی اس تشکیل نو میں جس طرح شراکت کاری کی ہے فینون کا بغور مطالعہ اس جانب اشارہ کرتا ہے لیکن وہ تفصیلات بیان نہیں کرتا جو آج ہمارے سامنے ہیں

اردو زبان میں ’افتادگانِ خاک‘ کا ترجمہ 1963ء میں ہو چکا تھا۔ پروفیسر خالد سعید کے مطابق یہ ترجمہ ڈاکٹر محمد اجمل کی تحریک پر ڈاکٹر محمد پرویز اور پروفیسر سجاد باقر رضوی نے کیا تھا۔ لیکن اس ترجمہ کے علاوہ فینون کے نظریات اور خیالات اردو زبان میں جستہ جستہ تذکروں کے علاوہ زیادہ رواج نہیں پاسکے۔ پاکستانی دانشوراقبال احمد نے اپنے ایک انٹرویو میں فینون سے اپنی دو ملاقاتوں اور الجیریا کی جنگ آزادی میں مل جل کر جدوجہد کا ذکر کیا ہے۔ (Barsamian، 2003) لیکن انھوں نے بھی فینون کے خیالات کو پاکستان میں ترویج دینے کے لیے کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں کی۔ حالانکہ اس پورے تجزیے سے جو بات ابھر کر سامنے آتی ہے وہ استعماریت کے نفسیاتی تجزیہ کی اصابت ہے۔ پاکستان میں میں نفسیاتی تجزیہ کی یہ روایت جڑ نہ پکڑ سکی۔ جبکہ فینون کا تجزیہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قومی اور سیاسی مسائل کی تفہیم میں نفسیاتی تجزیے کی عدم شمولیت مضر اور دیر پا منفی اثرات پیدا کرتی ہے

استعماریت کی موجودہ شکل پر فینون کے تجزیوں کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں یہ پیش گوئی کرنا تو مشکل ہو گا تاہم اس طرح کے تجزیے محکومین کو باہمی کشاکش سے نکال کر ان کی سمت درست رکھنے میں ضرور مدد فراہم کر سکتے ہیں

منصور کے قامت سے شناسا تو ہوئی خلق،
اے حرف سر دار یہ اعجاز ہے تیرا
(افتخار عارف)

اختتام۔

بشکریہ: ہم سب
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)


  1. فرانز فینون: جائزہ اور افادہ، وفات کے ساٹھ برس بعد (1)

  2. فرانز فینون: جائزہ اور افادہ، وفات کے ساٹھ برس بعد (8)


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close