فرانز فینون: جائزہ اور افادہ، وفات کے ساٹھ برس بعد (8)

ڈاکٹر اختر علی سید

اس باب کا ایک حصہ ”تشدد عالمی تناظر میں“ کے عنوان سے تحریر کیا گیا ہے۔ آج شاید یہ کہنا آسان ہو کہ یہ حصہ بعد از استعماریت پیدا ہونے والی اس صورت حال کی پیش گوئی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے جس سے استعمار زدہ معاشرے اپنی آزادی کے بعد دو چار ہوئے۔ فینون دکھاتا ہے کہ ان ملکوں کے رہنما کس طرح عوام سے قربانیاں مانگتے ہیں۔ کبھی اقتصادیات کے حوالے سے اور کبھی ناخواندگی کے خلاف جہاد کے لیے۔ کبھی انھیں فوجوں کی شکست پر غیرت دلائی جاتی ہے اور کبھی ان کی فتح کا جشن منانے کے لیے کہا جاتا ہے۔ ہر رہنما اٹھتے بیٹھتے مغرب کی ترقی کی مثالیں دیتا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ ترقی کا صرف ایک ہی ماڈل ہے اور وہ مغرب کا ہے۔ یہاں فینون ”نیشنل بورژوازی“ کی اصطلاح متعارف کراتا ہے۔ اس اصطلاح کی وضاحت اس نے آئندہ آنے والے ابواب میں تفصیل سے کی ہے مگر یہاں فینون یہ بتاتا ہے کہ مغرب کی ترقی اس وقت ہوئی جب وہاں کی نیشنل بورژوازی نے اقتصادی معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ اس طبقے کا معاملات پر کنٹرول حاصل کرنا ترک استعماریت کے سلسلہ کا پہلا قدم ثابت ہوا۔ نیشنل بورژوازی کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ایک عالمی سرمایہ داری نظام کا آغاز ہوا جس کو استعمار زدہ معاشروں میں اپنی مصنوعات کے لیے منڈیوں کی ضرورت تھی۔ اور اس کے لیے اس استعماری نظام کا خاتمہ ضروری تھا جو اس وقت دنیا میں موجود تھا۔ فینون بعد از استعماریت اس صورت حال کو ناکافی سمجھتا ہے اس کے خیال میں یورپ نے اپنا قرضہ ابھی تک نہیں چکایا۔ جو دولت اس نے استعمار زدہ معاشروں سے لوٹی ہے۔ جو تمدنی اثاثے، ہیرے جواہرات، فن پارے، تصاویر، مجسمے اپنے یہاں منتقل کیے، یہ سب کچھ ان معاشروں کو اسی طرح واپس لوٹایا جانا چاہیے۔ ان معاشروں سے معذرت کی جانی چاہیے ان کے نقصانات کی اسی طرح تلافی کی جانی چاہیے جس طرح جرمنی نے یہودیوں سے کی تھی (یاد رہے کہ فرانس نے 2021ء کے اوائل میں الجیریا کے باشندوں سے معذرت کرنے سے ایک مرتبہ پھر انکار کر دیا) ۔ آزادی کا مطلب صرف پرچموں کی تبدیلی اور حکام کی استعمار زدہ ملکوں سے رخصتی نہیں ہونا چاہیے۔ ان استعماری ممالک کی دولت اصل میں محکوم ملکوں سے لوٹی گئی ہے۔ ”یورپ اصل میں تیسری دنیا کی تخلیق ہے“ ۔ یورپی ممالک کی جانب سے دی janay wali امداد haqeeqat میں لوٹی ہوئی دولت کے انتہائی معمولی حصے کی واپسی ہے

1961ء میں سرد جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے فینون اس کو نوآزاد مملکتوں کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ جنگ ختم کر کے اس میں صرف ہونے والی دولت کو غریب کر دیے جانے والے ممالک کی ترقی کے لیے استعمال ہونا چاہیے

پہلے باب میں یہ واضح کرنے کے بعد کہ تشدد محکومین کا ایک فطری ردعمل ہے اور یہ محکومین کے دبے ہوئے محسوسات کو راستہ فراہم کرتا ہے اور محکومین کے مختلف گروہوں کو متحد کرتا ہے۔ یہ کہنے کے بعد دوسرے باب میں فینون اس فطری ردعمل کے بے ساختہ پیدا ہونے والے مظاہر کا ایک تفصیلی جائزہ لیتا ہے

استعماریت کی جانب محکومین کا بے ساختہ ردعمل اپنی نوعیت میں خام، ناپختہ اور غیر منظم ہوتا ہے۔ تشدد جو اس ردعمل کے اظہار کا ذریعہ بنتا ہے کبھی کسی گاؤں، کبھی کسی قصبے، اور کبھی کسی چھوٹے گروہ کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ محکومین کے اس اظہار کو ان کے دانش ور شکل، سمت اور تنظیم فراہم کرتے ہیں۔ لیکن محکوم معاشروں کے مغرب سے پڑھے ہوئے دانشور معاملے کی تفہیم کے لیے بھی اپنی مغربی تعلیم پر انحصار کرتے ہیں۔ مقامی سیاست کو مغرب کی سیاست کے حوالے سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فینون صاف لفظوں میں اس کو غلطی قرار دیتا ہے۔ مغربی ملکوں کی سیاست، اس کی حرکیات، اور اس میں افراد کی شمولیت، استعمار اور محکوم کی بنیادوں پر استوار نہیں ہوتیں اس لیے مغربی سیاست کا علم محکوم ریاستوں کے لیے دلیل اور حکم کا درجہ نہیں رکھتا۔ دوسرا اور زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ مغربی سیاست کس طرح مغرب کے استعمار سے نجات کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔ شاید یہی سبب ہے کہ مغرب سے تعلیم پا کر محکوم معاشروں میں سیاست کرنے والی اشرفیہ استعمار کو خوب راس آتی ہے۔ یہ اشرفیہ مغرب میں اس لیے مقبول ہوتی ہے کیونکہ یہ استعمار کے طے کردہ پیمانوں پر محکوموں کا تجزیہ کرتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ اشرافیہ محکومین میں بھی مقبول ہوتی ہے۔ اور اس کی وجہ فینون اپنی پہلی کتاب ”سیاہ جلد سفید نقاب“ میں بیان کر چکا ہے

فینون متنبہ کرتا ہے کہ یہ اشرافیہ محکوموں کو تقسیم کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر پاتی۔ یہ محکموں میں نہ پاٹے جا سکنے والی خلیج پیدا کرتی ہے۔ یہ تقسیم مراعات یافتہ اور محروم طبقات کے درمیان فاصلہ پیدا کرتی ہے۔ استعماریت کے زیادہ اثرات محکوموں کے انھی محروم ترین طبقات پر مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے اس کا ردعمل ( تشدد) بھی ان ہی کی جانب سے آتا ہے۔ یہ بے ساختہ رد عمل مراعات یافتہ aur شہروں میں مقیم دانش وروں کی جانب سے رد کیے جانے پر محروم طبقات کا ان سے دور ہو جانا اور ان کو اپنا ہمدرد نہ سمجھنا لازمی اور سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ کامیاب مزاحمت کی صورت میں یہ مراعات یافتہ طبقات اکیلے اور معاملات سے غیر متعلق ہوتے چلے جاتے ہیں ( بالکل اسی طرح جیسے پاکستانی ادیب اور دانش ور گزشتہ بیس سالوں میں ہو گئے ) مگر دوسری صورت میں استعمار ان دانشوروں (اور مذہبی راہنماؤں ) کے ذریعے استعماریت کے خلاف پیدا ہونے والے بے ساختہ ردعمل (تشدد) کا رخ محکوموں کے دوسرے گروہوں کی جانب کامیابی سے موڑ دیتا ہے۔ فینون وہ پہلا مفکر ہے جس نے وضاحت، صفائی اور تفصیل کے ساتھ استعمار کی اس حکمت عملی کو سمجھا اور بیان کیا ہے۔ اس کے سامنے امیر عبدالقادر کی ابتدائی کامیابیاں اور پھر حتمی ناکامی کی تفصیلات رہی ہوں گی۔ اس نے گو امیر عبد القادر اور ان کی مہمات کا ذکر نہیں کیا لیکن ان کی تفصیلات سے اس کی ناواقفیت قابل فہم نہیں ہے۔ ان تفصیلات کا مطالعہ فینون جیسے باریک بین مفکر کو ان نتائج تک بآسانی پہنچا سکتا تھا جو اس نے بعد ازاں بیان کیے ہیں

فینون کی وفات کے ساٹھ سال بعد محکومین کو تقسیم کرنے کی یہ حکمت عملی بہت سی ایسی شکلیں اختیار کر چکی ہے جو فینون کے سامنے نہیں تھیں۔ محکوم معاشروں کو تقسیم در تقسیم کے پیچیدہ مراحل سے گزارنے کے لیے ناقابل مشاہدہ طریقے کامیابی سے استعمال کیے جا چکے ہیں۔ ان طریقوں کے استعمال سے محکوموں کو یہ نقصان ہوا کہ ایک تو وہ استعمار کی کارگزاری کو نہ دیکھ سکے نہ سمجھ سکے۔ دوسرے اس سے نمٹنے کے لیے کوئی متفقہ حکمت عملی بنانے کے قابل بھی نہ ہو سکے۔ اب محکوم نہ ایک متفق طریقے سے استعمار کی شناخت کر سکتے ہیں اور نہ ترک استعمار کے ایک طریقے پر متفق ہو سکتے ہیں۔ آج محکومین کے ہر طبقے کا اپنا ایک الگ استعمار ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے اپنی ایک الگ حکمت عملی ہے۔ بلا کسی شک اور شبہ کے اس کو استعمار کی ایک بڑی کامیابی سمجھنا چاہیے

اس باب میں فینون نے مارکس کی ایک اصطلاح (lumpen proteleriat) استعمال کی ہے۔ فینون کے مطابق مزدوروں اور کسانوں کا یہ گروہ گو ترک استعماریت کی مہم میں بہت سرگرم ہوتے ہیں اور اہم کردار ادا کرتے ہیں، تاہم استعماریت کی پیچیدہ جکڑ بندیوں سے ان کی ناواقفیت اور لاعلمی کے سبب ان کا بے ساختہ رد عمل خود ان کے اپنے خلاف استعمال ہوتے ہوئے آج ہم روزانہ کی بنیادوں پر دیکھ سکتے ہیں۔ مزدوروں اور کسانوں (ورکرزکلاس) کا بے ساختہ رد عمل خواہ کتنا ہی فطری اور سچا کیوں نہ ہو اپنی معصومیت (جہالت) کے سبب محکومین کے اپنے خلاف استعمال ہونے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ اس طبقے کو آزادی کا ہراول دستہ سمجھنے کے باوجود فینون ان کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے

محکومین میں استعمار کے پیدا کردہ اختلافات کا ایک نتیجہ ایک منقسم ”قومی شعور“ کی صورت میں نکلتا ہے۔ جس کا جائزہ فینون نے اس کتاب کے تیسرے باب میں لیا ہے۔ گزشتہ باب کی گفتگو جاری رکھتے ہوئے وہ بتلاتا ہے کہ ترک استعماریت کی جدوجہد کوئی بے ساختہ شروع ہونے والی خود کار مہم کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ مسلسل اور تکلیف دہ کوشش سے عبارت یہ مہم انتہائی سوچے سمجھے اور بلند آدرشوں کے لیے محکومین کے ایک طویل مدتی منصوبے کا حصہ ہے

گزشتہ باب کی طرح فینون اس باب میں بھی ایک اصطلاح کو تبدیل اور اس میں اضافہ کر کے استعمال کرتا ہے۔ اور یہ اصطلاح ہے ”قومی بورژوازی“ ۔ اس اصطلاح کو وہ ”استعماری بورژوازی“ کے مقابل استعمال کرتا ہے۔ استعماری بورژوازی تو استعمار کے ساتھ رخصت ہو جاتی ہے جس کے بعد محکومین کے طبقے سے یہ نیا گروپ جنم لیتا ہے۔ استعماری بورژوازی اپنی استعداد اور تجربے میں اس نئے گروہ سے کہیں بہتر ہوتی ہے۔ نئی قومی بورژوازی آزادی کے بعد ملک سنبھالتی ہے مگر ملک کی اقتصادی اور سماجی صورت حال میں خاطر خواہ بہتری لانے سے قاصر رہتی ہے۔ دیہاتوں میں مقیم اس groh کے نمائندے (پاکستان کی صورت میں بڑے جاگیردار) بھی کسانوں تک آزادی کے ثمرات پہنچانے سے قاصر رہتے ہیں بلکہ بعض صورتوں میں کسانوں تک آزادی کے ثمرات پہنچنے نہیں دیتے۔ نہ یہ جاگیردار زراعت کے نئے طریقے اختیار کرتے ہیں اور نہ کسانوں کے علم اور مہارت میں اضافہ ہونے دیتے ہیں۔ قصہ مختصر حالات جوں کے توں رہتے ہیں۔ نئی آزاد ریاست نئے دعویداروں کے ہاتھ میں کھلونا بن جاتی ہے۔ یہ دعویدار اپنے قبائل، گروہوں، خاندانوں اور مذہبی گروہوں کی بنیاد پر آزاد مملکت پر اپنا حق جتاتے ہیں۔ نتیجے میں نئی مملکت منتشر اور متفرق سماجی گروہوں پر مبنی ایک معاشرہ بن کر رہ جاتی ہے۔ کوئی قومی حکومت اس کو متحد نہیں کرسکتی۔ ایسے میں ایک مقبول قیادت کی تلاش شروع ہوتی ہے۔ اوریہ مقبول قیادت ایک دن ملک میں آمریت کا سبب بن جاتی ہے۔ یہ مقبول قیادت یا تو فوج سے آتی ہے یا فوجی حمایت سے۔ اور اس قیادت کے پیچھے تشدد کا عفریت کھڑا ہوتا ہے۔ اس قیادت کے ساتھ کھڑے ہونے والے محب وطن جب کہ مخالفین غدار قرار دیے جاتے ہیں۔ یہ قیادت ملک کو استعماریت کے مشابہ آمریت کی جانب لے جاتی ہے۔ استعماریت کی طرح یہ مقبول قیادت بھی مانویت پر مبنی اخلاقیات سیاست میں داخل کر دیتی ہے۔ فینون نے واضح لفظوں میں لکھا ہے کہ مقبول لیڈر کی پارٹی ایک سیاسی پارٹی کے بجائے کسی گینگ کی یاد دلاتی ہے۔ (Fanon، 2004۔ p۔ 118) یہ پارٹی استعماری حکومتوں کی طرح شہریوں کے رویے اور نظریات پر نہ صرف کڑی نظر رکھتی ہے بلکہ ان پر تنقید بھی کرتی ہے۔ اس مقبول لیڈر کی خصوصیات پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے فینون بتلاتا ہے کہ عوام میں سیاسی شعور کی بیداری کے لیے یہ لیڈر طنز، طعنہ، تشنیع اور تذلیل کو اپنی تقریروں میں ضروری خیال کرتا ہے۔ (Fanon، 2004۔ p۔ 138 ) کیوں کہ اس لیڈر کے خیال میں لوگوں کے نظریات کی تشکیل، تزئین اور تصحیح کی بجائے ان کے جذبات کو ابھارنا اور بھڑکانا زیادہ اہم ہوتا ہے۔ ایسی قیادت ملکوں اور معاشروں کو دوبارہ استعماریت کی جانب دھکیلنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی۔ اس باب کا اہم ترین پیغام یہ ہے کہ استعماریت کی رخصتی کو استعماریت کا خاتمہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ فینون اس کتاب کے پہلے باب میں واضح کر چکا ہے کہ استعماریت محکوموں میں وہ نفسیاتی عوارض پیدا کرتی ہے جو استعماری رویوں کے تسلسل کا سبب بنتے ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ فینون نے یہ سب کچھ حقیقت میں استعمار سے آزادی سے قبل دیکھا اور لکھا تھا۔ مابعد استعماریت معاشرے کس طرح تشکیل پاتے ہیں فینون نے یہ مشاہدہ اپنی بصارت سے نہیں بصیرت سے کیا تھا۔ اس کے تجزیے کی سچائی اور درستی آج ہمارے سامنے ہے۔ اس سے سیاسی مسائل کے نفسیاتی تجزیے کی وہ صداقت ابھر کر سامنے آتی ہے جو گزشتہ ساٹھ سالوں میں بتدریج نظر انداز کر دی گئی

”افتادگان خاک“ کا چوتھا باب قومی ثقافت کے عنوان پر ہے۔ یہ تحریر فینون نے 1959ءمیں روم میں منعقد ہونے والی سیاہ فام مصنفین اور فنکاروں کی ایک کانفرنس میں پیش کی تھی۔ اس کتاب میں یہ تحریر گزشتہ باب کا تسلسل محسوس ہوتی ہے۔ گزشتہ باب کی طرح یہاں بھی استعماریت کے شکار معاشرے کی آزادی کے بعد تشکیل پانے والی صورت حال کی نقشہ کشی کی گئی ہے۔ 1959ء میں فینون یہ بتا رہا ہے کہ ممکنہ آزادی کے بعد الجیریا کی ثقافت کا نقشہ کیا ہو گا۔ اس کو یہ تو معلوم نہیں تھا کہ آزادی کب ملے گی لیکن اس کو آزادی کے بعد ملنے والے معاشرے کی جزئیات معلوم تھیں

اس باب میں فینون ایک مرتبہ پھر استعماریت کے شکار معاشرے میں موجود دانشور کی مزید خصوصیات بیان کرتا ہے۔ خصوصیات سے زیادہ فینون ان دانشوروں کی تفہیم کی تشکیل کے مراحل گنواتا نظر آتا ہے۔ فینون کی سوانح عمری پر نظر رکھنے والے یہ اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں کہ اصل میں یہ وہ مراحل ہیں جن سے وہ خود گزرا ہے اور جن سے گزر کر اس کے خیال میں وہ ذہنی طور پر استعماریت کا رد کر سکا ہے

پہلے مرحلے پر استعماریت کے شکار معاشرے کا دانشور استعماری معاشرے اور معاشرت کی جانب کشش محسوس کرتا ہے۔ وہ استعماری معاشرے کے چال چلن، رہن سہن، بود و باش، اور طور طریقے اختیار کرتا ہے۔ اور اسے یہ محسوس کر کے اطمینان محسوس ہوتا ہے کہ وہ استعمار گرد کے لیے قابل قبول ہے

دوسرے مرحلے میں اپنے بعض تجربات کے نتیجے میں دانشور یہ محسوس کرتا ہے کہ محکوم ثقافت کے لیے استعماریت کی نظر اور دل میں نفرت، حقارت، اور شدید ناپسندیدگی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ ایسے میں یہ دانشور اپنی ثقافت کی جانب پوری شدت سے لوٹتا ہے۔ فینون نے اس کی مثال دیتے ہوئے نیگرو تحریک کا ذکر کیا ہے۔ اس تحریک نے افریقہ کے تمام سیاہ فام افراد کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا تھا۔ ان کے تمام قبائلی اور نسلی امتیازات ختم کر کے انھیں ایک دوسرے میں ضم کرنے کی کوشش کی تھی (پاکستان میں اس کی مثال کے طور پر مسلم امہ کی بحالی اور ہندوستان میں ہندوتوا کی تحریک کا ذکر کیا جا سکتا ہے) ۔ فینون یاد دلاتا ہے کہ دانشور کا اصل مقام اور کام معاشرے کو آزادی کی راہ پر ڈالنا ہے نہ کہ ثقافت کا احیاء کرنا۔ استعماریت پر لکھنے والے مصنفین نے دانشوروں کی اس روش کو جوہریت (essentialism) کا نام دیا ہے۔ (Ashcroft et al۔ 2007 ) اس سے ان کی مراد کسی ثقافت کی وہ امتیازی خصوصیات ہیں جو اسے دوسرے معاشروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ ثقافتیں اپنے ارتقاء میں ان امتیازی خصوصیات کو مستقل تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ لیکن اگر ثقافتیں آگے جانے کی بجائے ان امتیازات کی طرف واپس جانا شروع ہو جائیں تو اس کو جوہریت کہا جاتا ہے۔ فینون کے مطابق دانشور ان بنیادی امتیازی خصوصیات کی جانب لوٹنے کی کوشش کرتا ہے، استعمار بطور خاص جن کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتا ہے

تیسرے مرحلے پر یہ دانشور اپنی ثقافت سے محبت کو آزادی کی تحریک میں بدل دیتا ہے۔ فینون یہاں ایک ایسی بات کہتا ہے جو یقیناً قابل بحث ہے۔ اس کے مطابق قومیت کلچر سے نہیں بلکہ آزادی کے لیے کی جانے والی جدوجہد کے نتیجے میں تشکیل پاتی ہے۔ دانشوری کی اس سطح پر موجود افراد کی مثال دیتے ہوئے فینون گنی کے شاعر، ادیب، موسیقار اور سیاستدان کیٹا فودیبا (Keita Fodeba) (1921ء۔ 1969ء) کی ایک نظم کا ذکر کرتا ہے۔ اس نظم کا ذکر اس لحاظ سے حیران کن ہے کیوں کہ یہ نظم جس طرح کے تشدد کا ذکر کرتی ہے تشدد کا وہ تصور فینون کی تعریف سے مختلف ہے۔ لیکن یہ نظم اس ثقافتی تفاوت کا ذکر بہت خوبصورتی سے کرتی ہے جو فینون کا خاص موضوع ہے

مینونی (1956ء) نے استعماریت کے بارے میں بہت واضح لفظوں میں کہا تھا کہ نہ صرف یہ ایک مریضانہ عمل ہے بلکہ یہ مرض پیدا بھی کرتی ہے۔ فینون ”افتادگان خاک“ کے آخری باب میں اس امر کی وضاحت کرتا ہے کہ استعماریت کس طرح نفسیاتی عوارض کا سبب بنتی ہے۔ استعماریت کے سبب پیدا ہونے والی بیماریوں کو بیان کرتے ہوئے فینون اپنی پیشہ ورانہ زندگی کی جانب لوٹتا نظر آتا ہے اور روداد امراض (Case Histories) کے ذریعے وہ اپنا موقف بیان کرتا ہے۔ استعماریت کے پیدا کردہ نفسیاتی عوارض کا بیان ایک انتہائی مفصل موضوع ہے۔ اپنے زیر علاج مریضوں کے حوالے سے اس نے اس موضوع کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے

نفسیاتی عوارض کی پہلی قسم ان امراض کی ہے جن کو ہم آج ”پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر“ Post Traumatic Stress Disorder ) PTSD کے نام سے جانتے ہیں۔ استعماریت کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کے نتیجے میں صدمے کے شکار افراد نفسیاتی امراض کی مختلف علامات کو محسوس کرتے ہیں

دوسری قسم ان نفسیاتی امراض کی ہے جو استعماریت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عمومی سماجی صورت حال کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔ بے گھری، مہاجرت، تشدد، بے انصافی، معاشی ناہمواری، غربت اور غیر یقینی حالات محکومین میں نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ (جاری ہے)

بشکریہ: ہم سب
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)


  1. فرانز فینون: جائزہ اور افادہ، وفات کے ساٹھ برس بعد (1)

  2. فرانز فینون: جائزہ اور افادہ، وفات کے ساٹھ برس بعد (7)


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close