امریکہ کے سلیکون ویلی اور سگنیچر بینک کے دیوالیہ ہونے کی رام کہانی

ویب ڈیسک

گزشتہ دنوں امریکہ کے قرض دینے والے سیلیکون ویلی بینک (ایس وی بی) اور سگنیچر بینک دیوالیہ ہو گئے، جس کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے بینکنگ سسٹم کی حفاظت کے لیے ’تمام ضروری اقدامات‘ کرنے کا وعدہ کیا ہے، لیکن اس یقین دہانی کے باوجود سرمایہ کاروں کو خدشہ ہے کہ دوسرے بینک بھی دیوالیہ پن کی اس لہر کا شکار ہو سکتے ہیں۔ انہی خدشات کی وجہ سے عالمی سطح پر بینکوں کے شیئرز کی قیمتوں میں بھی تیزی سے کمی واقع ہونے لگی ہے

واضح رہے کہ ٹیکنالوجی کی کمپنیوں کو قرض دینے کے لیے عالمی سطح پر معروف سلیکون ویلی بینک کو امریکی حکام نے جمعہ کے روز بند کر دیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ اس بینک کے اثاثے بھی ضبط کر لیے گئے تھے۔ سنہ 2008ع کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد یہ کسی امریکی بینک کی سب سے بڑی ناکامی تھی

یہ بینک زیادہ سود کی شرح سے ہونے والے نقصان کو پورا کرنے کے لیے اپنے اثاثوں کی فروخت سے رقم اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بینک کے معاشی پریشانیوں میں گھرنے کی بات سامنے آئی تو صارفین نے بینک سے اپنے فنڈز کو نکالنے کے لیے دوڑ لگا دی، جس سے بینک میں نقدی کا بحران پیدا ہو گیا

اتوار کے روز امریکی حکام نے نیویارک میں سگنیچر بینک کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا، جس کے بہت سے کلائنٹس کرپٹو کرنسی کے لین دین میں شامل تھے اور اسی وجہ سے اسے سب سے زیادہ خطرے والے ادارے کے طور پر دیکھا جا رہا تھا

اعتماد بحال کرنے کی ایک کوشش کے طور پر امریکی ریگولیٹرز نے بینکوں کے لیے بحران میں ہنگامی فنڈز لینے کے ایک نئے طریقے کو بھی متعارف کرایا ہے

اس کے باوجود یہ تشویش اپنی جگہ برقرار ہے کہ گذشتہ ہفتے ایک اور امریکی قرض دہندہ ’سلور گیٹ بینک‘ کے بیٹھ جانے کے بعد جو مشکلات سامنے آئی ہیں، وہ دوسری فرموں کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہیں

کیپٹل اکنامکس کے پال ایش ورتھ نے اس صورتحال پر دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہا ”امریکی حکام نے اس چھوت کی بیماری (دیوالیہ پن) کو پھیلنے سے روکنے کے لیے جارحانہ انداز میں کام کیا ہے۔ لیکن متعدی بیماری ہمیشہ ہی غیر معقول خوف کی وجہ بنتی ہے۔ اس لیے ہم اس بات پر زور دیں گے کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ یہ اقدامات کافی ہوں گے“

اسٹاک بروکرز اے جے بیل کے مالیاتی تجزیہ کار ڈینی ہیوسن کہتے ہیں ”راحت کی پہلی لہر کی جگہ ان خدشات نے لے لی ہے کہ زیادہ شرحوں کا دور کچھ بینکوں کے لیے ہضم کرنا زیادہ مشکل ہو سکتا ہے، جتنا پہلے سوچا گیا تھا“

سیلیکون ویلی بینک کی ناکامی نے دوبارہ اس قسم کے مباحث کو جنم دیا ہے جو سنہ 2008 کے مالیاتی بحران کے بعد چھڑ گئے تھے۔ اور یہ مباحث اس بارے میں ہیں کہ حکومت کو بینکوں کو ریگولیٹ کرنے اور ان کی حفاظت کے لیے کیا کرنا چاہیے

امریکی فیڈرل ریزرو کے سربراہ جیروم پاول کا کہنا ہے کہ بینک کے اس طرح سے بیٹھ جانے کا مکمل اور شفاف طور پر جائزہ لیا جائے گا

صدر بائیڈن نے سخت قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ سرمایہ کاروں اور بینک رہنماؤں کو بخشا نہیں جائے گا

امریکی صدر نے کہا ”انہوں نے جان بوجھ کر خطرہ مول لیا۔۔۔ اور سرمایہ داری تو اسی طرح کام کرتی ہے“

اس کے باوجود ریپبلکن سینیٹر ٹم اسکاٹ نے، جنہیں 2024 میں ممکنہ صدارتی امیدوار کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اس بچانے والے اقدام کو ’پریشان کن‘ قرار دیتے ہوئے کہا ”حکومتی مداخلت کا کلچر مستقبل کے اداروں کو ضرورت سے زیادہ خطرات مول لینے کے بعد حکومت پر انحصار کرنے سے روکنے کے لیے کچھ نہیں کرتا“

شمالی امریکہ میں بزنس کی نمائندہ میشیل فلیوری کا اپنے تجزیے میں کہنا ہے: ایک بار پھر لوگ بینکوں کو لے کر پریشان ہیں۔ ایک بار پھر بیل آؤٹ کے بارے میں شدید بحث چھڑ گئی ہے۔ لیکن یہ سنہ 2008 نہیں ہے۔ 2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد بینکوں کی اصلاح پر توجہ مرکوز کی گئی تھی اور اس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ ’یہ اتنا بڑا ہے کہ ناکام نہیں ہو سکتا۔‘ آج مسائل درمیانے اور چھوٹے سائز کے بینکوں کے گرد مرکوز ہیں

دیوالیہ ہونے والے دونوں بینکوں یعنی سیلیکون ویلی بینک اور سگنیچر بینک میں ایک ہی چیز مشترک تھی اور وہ ان کے کاروباری ماڈلز تھے، جو ایک شعبے کے گرد ہی بہت زیادہ مرتکز تھے اور وہ ایسے اثاثوں کے لیے زیادہ کمزور تھے، جن کی قدریں بڑھتی ہوئی شرح سود کی وجہ سے دباؤ میں آتی تھیں

ان پر تنقید یہ ہے کہ انہیں اس کا اندازہ ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ امریکی فیڈرل ریزرو کے سربراہ جیروم پاول نے شرح سود میں اضافے کے لیے فیڈرل ریزرو کے ارادے کا اشارہ دینے کے لیے کافی حد تک کام کیا ہے

چونکہ زیادہ تر بینک بہت زیادہ متنوع ہیں اور ان کے پاس کافی نقد رقم بھی ہے، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ باقی بینکنگ سیکٹر کے لیے خطرہ کم ہے۔ لیکن اس بات سے ریگولیٹرز یہ دیکھنے سے باز نہیں رہیں گے کہ کیا غلط ہوا اور کن اصولوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے

اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے بینکوں پر دباؤ ختم نہیں ہوا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی معیشت کے ساتھ کیا ہوتا ہے اور مہنگائی کے خلاف جنگ کا نتیجہ ابھی دیکھنا باقی ہے

یہ بینک دیوالیہ کیوں ہوئے؟

دنیا کے ترقی پذیر ملکوں کی طرح ترقی یافتہ ملکوں کی معیشت بھی دباؤ کا شکار ہے، لیکن ماہرین کے مطابق امریکی بینکوں کے دیوالیے کی خبر نے عالمی مالیاتی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے

امریکہ میں گزشتہ برس مہنگائی نے چالیس برس کے ریکارڈ توڑ دیے تھے جس کے بعد فیڈرل ریزرو بینک نے شرح سود میں متعدد بار اضافہ کیا اور اب یہ 4.75 فی صد تک پہنچ گئی ہے

ماہرین نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ شرح سود میں اضافے سے مہنگائی میں کچھ کمی آئے گی لیکن اس سے لامحالہ معاشی شرح نمو سست ہوگی

ماہرین کے مطابق سلیکون ویلی اور نیو یارک سگنیچر بینک بھی انہی وجوہات کی بنا پر متاثر ہوئے

خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق سلیکون ویلی بینک نے کسی بھی عام بینک کی طرح حالیہ برسوں میں صارفین کے ڈیپازٹس استعمال کرتے ہوئے کم شرح سود پر اربوں ڈالرز کے بانڈز خریدے۔ لیکن بعدازاں شرح سود بڑھنے کے بعد ان بانڈز کی قدر گر گئی اور صارفین نے گھبرا کر اپنی رقوم نکلوانا شروع کر دیں

ماہرین کے مطابق بینک کے زیادہ تر کھاتے دار اسٹارٹ اپس اور ٹیکنالوجی کمپنیز ہیں جنہیں گزشتہ برس معاشی کساد بازاری کی وجہ سے کیش کی ضرورت رہی اور بڑے پیمانے پر صارفین نے رقوم نکلوانا شروع کردیں۔

بینک کو اس وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب صارفین کی رقوم نکلوانے کی درخواستوں کو پورا کرنے کے لیے بینک کو اپنے اثاثے بھی فروخت کرنا پڑے۔

امریکہ میں ڈھائی لاکھ ڈالر تک کی رقوم بینک میں رکھنے پر حکومت ڈیپازٹس انشورنس دیتی ہے۔ لیکن سلیکون ویلی میں کئی کھاتے داروں کی رقوم اس سے زیادہ تھیں اور یہی وجہ تھی کہ بینک کی ناکامی کے خدشے پیشِ نظر کھاتے داروں نے رقوم نکلوانے کو ترجیح دی

مالیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دونوں بینک شرح سود میں اضافے سے متاثر ہوئے ہیں جس نے ان کے اثاثوں کے اہم حصوں کو ، مثلاً بانڈز اور ان سیکیورٹیز کو، جنہیں مارٹگیج کا تحفظ حاصل تھا، منفی طور پر متاثر کیا

ماہرین کا خیال ہے کہ سلکیون ویلی بینک کی ناکامی کے اثرات آنے والے دنوں میں بھی ظاہر ہوتے رہیں گے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اب کمپنیاں صرف ایک بینک پر انحصار کرنے کے بجائے اپنا سرمایہ مختلف بینکوں میں رکھنے پر ترجیح دیں گی

اسی طرح نیویارک کے سگنیچر بینک کے بھی زیادہ تر صارفین ٹیک سیکٹر ، خاص طور پر کرپٹو کرنسی کا کاروبار کرتے تھے۔ 100 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کے اس بینک کی ناکامی امریکی تاریخ کے تیسرے سب سے بڑے بینک کی ناکامی ہے

عالمی سطح پر اثرات

دو امریکی بینکوں کی ناکامی کے اثرات امریکہ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں سامنے آ رہے ہیں

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق منگل کو ایشیا کی اسٹاک مارکیٹس میں بھی مندی کا رجحان رہا جب کہ جاپان اسٹاک مارکیٹ میں بھی بینکنگ سیکٹر میں سسست روی رہی۔

یورپین منڈیوں میں بھی بینکنگ سیکٹر دباؤ میں ہے۔ پیر کو یورپین بینکنگ انڈیکس میں 5.7 فی صد جب کہ جرمنی میں 12.7 فی صد اور سوئس بینکنگ سیکٹر میں کاروباری حجم 9.6 فی صد تک کم رہا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close