پینٹاگون لیکس: سنسنی خیز انکشافات کے بعد امریکہ مشکل میں پڑ گیا۔۔

ویب ڈیسک

یوکرین کے فضائی دفاع سے لے کر اسرائیل کی جاسوس ایجنسی موساد تک نیز چین، مشرق وسطیٰ اور افریقہ وغیرہ سے متعلق امور کی تفصیلات پر مشتمل خفیہ دستاویزات کے آن لائن شائع ہونے پر امریکہ مشکل میں پڑ گیا ہے۔ اور امریکی حکام ان لیکس/افشا کے مآخذ کا پتہ لگانے اور اپنے اتحادیوں کو مطمئن کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں

اس معاملے نے امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگان کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور وہ اتحادیوں کو یقین دلانے اور لیکس کا جائزہ لینے میں مصروف ہے

متعدد سلائیڈز پر مبنی ان معلومات نے یوکرین کے فضائی دفاعی صلاحیتوں میں ممکنہ خطرات کو عام کر دیا ہے، جب کہ انٹیلیجنس معاملات پر اتحادیوں کے نجی جائزے بھی سامنے آ گئے ہیں

ان لیکس کے بعد یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ آیا یہ لیکس امریکہ کے ساتھ معلومات کے تبادلے میں اتحادیوں کے اعتماد کو ختم کر دیں گی یا اس موسمِ بہار میں روس کے خلاف لڑائی کو تیز کرنے کے یوکرین کے منصوبے کو متاثر کریں گی؟

پینٹاگان کے ایک ترجمان نے پیر کو ان لیکس کو ‘قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا ہے

افشا ہونے والے ان خفیہ دستاویزات میں روسی افواج کے خلاف یوکرین کی جنگ کے متعلق خفیہ معلومات کے علاوہ امریکی اتحادیوں کے بارے میں خفیہ جائزے بھی شامل ہیں۔ ان میں کچھ انتہائی حساس نوعیت کے ہیں، جن میں یوکرین کی فوجی صلاحیتوں اور کمیوں کا ذکر ہے

دستاویزات کی درجنوں تصویریں، جن میں سے کچھ اسرائیل اور جنوبی کوریا سمیت اتحادیوں اور شراکت داروں کی امریکہ کی جانب سے جاسوسی کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں، ٹویٹر، ٹیلی گرام، ڈسکارڈ اور دیگر ویب سائٹوں پر گردش کر رہی ہیں۔

ان افشا دستاویزات میں مبینہ طور پر سیول کی امریکی نگرانی کی تفصیلات تھیں اور یوکرین کو براہ راست گولہ بارود فراہم کرنے کے متعلق جنوبی کوریا کے تحفظات کا انکشاف ہوا تھا

ان دستاویزات کے افشا کے مضمرات کافی اہم ہو سکتے ہیں اور ممکنہ طورپر امریکی انٹیلیجنس ذرائع کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں

درجنوں خفیہ امریکی دستاویزات کے آن لائن لیک ہونے کے بعد ان میں موجود حساس معلومات انٹرنیٹ پر سرعام دستیاب ہیں، جن سے یوکرین کی جنگ کی مفصل تصویر اور چین اور مغربی اتحادیوں کے بارے میں نئی معلومات سامنے آ رہی ہیں

بہت ساری دستاویزات اب سوشل میڈیا سائٹس پر دستیاب نہیں ہے، جہاں پہ پہلی مرتبہ نمودار ہوئی تھیں اور امریکہ انہیں مبینہ طورپر ہٹانے کے لیے مسلسل کام کر رہا ہے

پینٹاگون کے حکام کے مطابق یہ دستاویزات اصلی ہیں اور کئی خبر رساں اداروں نے چند دستاویزات کا جائزہ لیا ہے، جس کی بنیاد پر اہم نکات سامنے لائے جا رہے ہیں

دستاویزات میں کیا ہے؟

خفیہ دستاویزات میں یوکرینی فوج کی پوزیشن کے نقشوں سے متعلق بریفنگ سلائیڈز سے لے کر یوکرین کے لیے عالمی حمایت کے جائزوں اور دیگر حساس موضوعات شامل ہیں

روس کے صدر ولادی میر پوٹن کن حالات میں جوہری ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں، اس کی تفصیلات بھی دستاویزات کا حصہ ہیں

لیکس میں یہ سامنے آیا ہے کہ امریکہ کتنے قریب سے یہ نگرانی کرتا ہے کہ اس کے اتحادی اور دوست کس طرح روس اور چین سے بات چیت کر رہے ہیں۔ کئی مممالک کے حکام نے لیکس ریکارڈ کو مسترد یا الزامات کی تردید کی ہے

ایسوسی ایٹڈ پریس نے رپورٹ کیا تھا کہ امریکی انٹیلیجنس کو روسی اہلکاروں کے دعووں کا پتا چلا کہ وہ متحدہ عرب امارات سے قریبی تعلقات قائم کر رہے تھے۔ یو اے ای نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہیں ’واضح جھوٹ‘ قرار دیا ہے

اس بارے میں کوئی واضح جواب نہیں ہے کہ کتنی دستاویزات عام ہوئی ہیں، مگر خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے تقریباً پچاس دستاویزات دیکھی ہیں، جب کہ کچھ اندازوں کے مطابق دستاویزات کی مجموعی تعداد سینکڑوں میں ہے

یوکرین میں مغربی سپیشل فورسز کی موجودگی کا انکشاف

پینٹاگون کی خفیہ دستاویزات کی مدد سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ روس کے خلاف جنگ میں مغربی فوج کی سپیشل فورسز زمین پر یوکرین کی مدد کر رہی ہیں جن میں سب سے زیادہ تعداد برطانوی اسپیشل فورسز کی ہے

یاد رہے کہ گذشتہ ایک سال سے یہ موضوع افواہوں کا مرکز تھا، تاہم اب مغربی اسپیشل فورسز کی موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے

پینٹاگون کی لیک ہونے والی دستاویزات میں سے ایک کے مطابق، جس پر 23 مارچ کی تاریخ درج ہے، یوکرین میں مغربی ممالک کی اسپیشل فورسز موجود ہیں

اس رپورٹ کے مطابق اسپیشل فورسز کے فوجیوں میں سب سے زیادہ تعداد پچاس برطانوی فوجیوں کی ہے جبکہ لیٹویا کے سترہ، فرانس کے پندرہ، امریکی چودہ اور نیدرلینڈز کی اسپیشل فورسز سے تعلق رکھنے والا ایک فوجی یوکرین میں موجود ہے

مغربی حکومتیں عام طور پر ایسے حساس معاملات پر بیان دینے سے گریز کرتی ہیں، تاہم امکان ہے کہ روس اس معاملے کا فائدہ اٹھائے گا، جو حالیہ مہینوں میں اصرار کرتا رہا ہے کہ اس مقابلہ صرف یوکرین سے نہیں بلکہ نیٹو سے بھی ہے

دیگر دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب یوکرین فوج کے درجنوں نئے بریگیڈ ایک نئے حملے کے لیے تیار کیے جا رہے تھے تو ان کو مغربی اتحادیوں نے کس طرح ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں اور توپ خانے سے لیس کیا

انہی دستاویزات میں مشرقی یوکرین میں بہار کے موسم میں زمینی حقائق کا جائزہ بھی لیا گیا ہے

واشنگٹن پوسٹ اخبار کے مطابق فروری کی ایک دستاویز میں یوکرین کے جوابی حملے کی کامیابی کے امکانات سے متعلق خدشات کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ ناکافی فوج کی وجہ سے زیادہ رقبے پر قبضہ نہیں کیا جا سکے گا

ان دستاویزات میں یوکرین کے فضاعی دفاع میں پیش آنے والی مشکلات کا احاطہ بھی کیا گیا ہے۔ فروری میں تنبیہ کی گئی کہ یوکرین کے پاس اہم میزائل کم پڑ رہے ہیں

ان دستاویزات سے جنگ میں ہلاکتوں سے متعلق مغربی اعداد وشمار کا بھی پتہ چلتا ہے۔ ایک سلائیڈ پر درج ہے کہ روس کے دو لاکھ تیئیس ہزار فوجی ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں جبکہ یوکرین کے ہلاک اور زخمی ہونے والے فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ اکتیس ہزار بتائی گئی ہے

مصر کا خفیہ طور پر روس کو میزائل فراہم کرنے کا منصوبہ

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کو ایک ایسی دستاویز تک بھی رسائی ملی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصر روس کو خفیہ طور پر چالیس ہزار راکٹ فراہم کرنے کا ارادہ رکھتا تھا

اخبار نے کہا ہے کہ مصری صدر عبدالفتح سیسی نے حکام کو کہا کہ وہ پیداوار اور رسد کا منصوبہ خفیہ رکھیں تاکہ مغرب سے مسائل پیدا نہ ہوں

ایک مصری عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے اخبار نے کہا ہے کہ اس عہدیدار نے کہا کہ وہ اپنے لوگوں کے کام کے اوقات میں تبدیلی کر دے گا کیوں کہ مصر روس کی جانب سے مدد کا جواب دینے کے لیے اتنا تو کر ہی سکتا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ روس کی جانب سے مصر کی کس قسم کی مدد کا ذکر کیا گیا ہے

جنوری میں خبر رساں ادارے روئٹرز نے خبر دی تھی کہ روس نے مصر کو گندم کی برآمد میں اضافہ کیا ہے اور غالباً یہ ایک وجہ ہو سکتی ہے

تاہم یہ واضح نہیں کہ مصر نے روس کو یہ راکٹ مہیا کیے یا نہیں۔ یہ بھی غیر واضح ہے کہ آیا امریکہ نے مصر کو اس بارے میں کوئی تنبیہ کی تھی۔ یاد رہے کہ امریکہ مصر کو دفاعی مد میں خطیر امداد دیتا ہے، جو سالانہ تقریباً ایک ارب ڈالر کے قریب ہے اور اسی وجہ سے امریکی انتظامیہ کو مصر پر کافی اثر و رسوخ حاصل ہوتا ہے

ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مصری چینلز کو بتایا کہ دستاویزات میں جو الزام لگایا گیا ہے، وہ بے بنیاد ہے اور قاہرہ نے یوکرین جنگ میں کسی کی طرف داری نہیں کی

جنوبی کوریا میں یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے پر ہچکچاہٹ

ان دستاویزات میں سے ایک کے مطابق جنوبی کوریا میں یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے کے لیے ہچکچاہٹ پائی جاتی تھی

خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر درج معلومات میں جنوبی کوریا کے سکیورٹی مشیران کے درمیان گفتگو ریکارڈ کی گئی، جن میں یہ بحث تھی کہ امریکی دباؤ پر یوکرین کو اسلحہ فراہم کیا جائے یا ملک کی اس پالیسی پر عمل پیرا رہا جائے، جس کے تحت کسی جنگ میں شامل ممالک کو اسلحہ فراہم نہیں کیا جاتا

ایک مشیر نے مشورہ دیا کہ گولے پولینڈ بھجوا دیے جائیں تاکہ یہ تاثر قائم نہ ہو کہ جنوبی کوریا امریکی دباؤ میں آ گیا

گذشتہ سال ایک معاہدے کے تحت جنوبی کوریا نے اصرار کیا تھا کہ امریکہ گولے یوکرین کو فراہم نہیں کر سکتا

خیال کیا جاتا ہے کہ جنوبی کوریا روس کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا، تاہم حالیہ لیکس نے جنوبی کوریا میں سکیورٹی خدشات کو جنم دیا ہے، جہاں اپوزیشن سیاستدان یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ امریکہ نے اعلیٰ سطحی عہدیداران کی گفتگو کیسے حاصل کی؟

چین نے فروری میں ہائپر سونک ہتھیاروں کا تجربہ کیا

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے یہ بھی دریافت کیا ہے کہ امریکہ کو علم ہوا تھا کہ چین نے فروری میں ایک تجرباتی میزائل، ہائپر سونک گلائیڈ ویہیکل، کا تجربہ کیا تھا

دستاویزات کے مطابق یہ میزائل بارہ منٹ میں اکیس سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر لیتا ہے

پوسٹ اخبار کے مطابق یہ تجرباتی میزائل امریکہ کے میزائل دفاعی نظام کو بھی شکست دینے کی صلاحیت کا حامل ہو سکتا ہے

امریکہ کا ردِعمل

پینٹاگان نے لیکس کے قومی سلامتی پر اثرات کا جائزہ لینے کے لیے اندرونی جائزے کا آغاز کر دیا ہے

ایک دفاعی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس کو ایک بیان میں بتایا کہ اس جائزے کی صدارت انٹیلیجنس اینڈ سیکیورٹی کے ڈپٹی انڈرسیکریٹری دفاع ملنسی ڈی ہیرس کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ ٹیم میں قانون سازی کے امور، عوامی امور، پالیسی، قانونی مشیر اور جوائنٹ اسٹاف کے دفاتر کے نمائندے شامل ہیں

ایک اور دفاعی عہدے دار نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پینٹاگان نے بریفنگ تک رسائی حاصل ہونے والے افراد کی تعداد کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے ہیں

اس کے علاوہ محکمۂ انصاف نے بھی معاملے کی کرمینل تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے کہ کس طرح سلائیڈز کو حاصل اور لیک کیا گیا

امریکہ کی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی یعنی سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز نے منگل کو ان لیکس کو انتہائی بدقسمتی قرار دیا

رائس یونیورسٹی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ وہ معاملہ ہے، جسے امریکی حکومت کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے۔ پینٹاگان اور محکمۂ انصاف نے بھی معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے تحقیقات شروع کر دی ہیں

روس کا کیا کہنا ہے؟

خفیہ دستاویزات کی حالیہ لیک کو سال 2013 میں وکی لیکس ویب سائٹ پر 7 لاکھ سے زائد دستاویزات، وڈیوز، سفارتی کیبلز سامنے آنے کے بعد سکیورٹی کی سب سے سنگین خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے

امریکی حکام نے کہا کہ تحقیقات اپنے ابتدائی مراحل میں ہیں اور تحقیقات کرنے والوں نے اس لیک کے پیچھے روس نواز عناصر کے ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا

دوسری جانب چند یوکرینی حکام نے ان لیکس کے بارے میں کہا ہے کہ یہ روس کی جانب سے ’غلط معلومات‘ پھیلانے کی کوشش کا حصہ ہو سکتی ہیں۔ تاہم یوکرین میں مایوسی اور غصے کا اظہار بھی کیا گیا ہے

یوکرینی صدر کے ایک مشیر نے سوشل میڈیا پر لکھا ’ہمیں لیکس پر کم سے کم غور کرنا چاہیے اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں پر غور کرنا چاہیے تاکہ جنگ کو ختم کیا جا سکے۔‘

روس نے اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہر چیز کے لیے ہمیشہ کریملن کو مورد الزام ٹھہرانے کا عمومی رجحان ہے

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف سے جب ان سے ان الزامات کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا اس لیک کا ذمہ دار روس ہو سکتا ہے، تو انہوں نے کہا ”میں اس پرکوئی تبصرہ نہیں کر سکتا۔ آپ اور میں جانتے ہیں کہ حقیقت میں ہر چیز کا الزام روس پر ڈالنے کا رجحان ہے، یہ عام طور پر ایک بیماری ہے“

امریکہ کی طرف سے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی جاسوسی کرانے کے متعلق ایک سوال کے جواب میں روسی ترجمان نے کہا کہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا مزید کہنا تھا ”یہ حقیقت کہ امریکہ مختلف سربراہانِ مملکت کی جاسوسی کر رہا ہے، خاص طور پر یورپی دارالحکومتوں میں یہ ایک طویل عرصے سے بار بار سامنے آ رہا ہے، جس کی وجہ سے مختلف خطرناک حالات پیدا ہو رہے ہیں“

دریں اثنا جرمن چانسلر کی سوشل ڈیموکریٹس پارٹی کے رکن ہولگر بیکر، جو پارلیمان کی ڈیجیٹل امور کمیٹی کے رکن بھی ہیں، نے کہا کہ یہ افشا واشنگٹن کے لیے "زیادہ شرمندگی کا باعث” ہے۔ لیکن اس سے موجودہ تعلقات کو نقصان نہیں پہنچے گا

بیکر نے تسلیم کیا کہ ’کچھ دستاویزات‘ اصلی تھیں، جب کہ دیگر کے ساتھ ’بظاہر چھیڑ چھاڑ‘ کی گئی تھی اور کچھ واضح نہیں تھیں کہ آیا وہ جعلی ہیں

دستاویزات کہاں سے آئیں؟

دستاویزات کہاں سے آئیں؟ یہ وہ سوال ہے، جس کا جواب اب تک کسی کے پاس نہیں۔ یہاں تک کہ پینٹاگان کے سربراہ کو بھی اس بارے میں معلوم نہیں

امریکی وزیرِ دفاع لائڈ آسٹن نے منگل کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا ہے کہ یہ دستاویزات ویب میں کہیں تھیں۔ یہ کہاں تھیں اور اُس وقت ان تک رسائی کسے تھی یہ معلوم نہیں

امریکی وزیر دفاع نے کہا ”ہم اس وقت تک ایک ایک کونہ چھان ماریں گے اور کوئی کسر باقی نہیں اٹھارکھیں گے جب تک کہ ہمیں اس کے مآخذ اور اس کی مکمل نوعیت کا پتہ نہیں چل جاتا ہے“

دستاویزات کی افشا ہونے سے متعلق ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ شاید اس کا آغاز ’ڈسکورڈ‘ کے پلیٹ فارم سے ہوا ہے

ڈسکورڈ ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے، جو آن لائن گیمز کھیلنے والے افراد میں زیادہ مقبول ہے۔ ڈسکورڈ گروپس کے لیے وائس، ویڈیو اور ٹیکسٹ چیٹس کی اجازت دیتا ہے

ڈسکورڈ چیٹ کے ایک رکن کے مطابق مختلف موضوعات پر بات چیت کے لیے بنائے گئے ایک فورم میں شامل افراد یوکرین میں جنگ پر بحث کیا کرتے تھے

ان کے بقول ایک نامعلوم صارف نے دستاویزات شیئر کیں، جس کے بارے میں صارف نے دعویٰ کیا کہ یہ ’کلاسیفائیڈ‘ یعنی خفیہ ہیں۔ صارف نے پہلے ان دستاویزات کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا، جس کے بعد چند ماہ قبل فولڈڈ پیپرز یعنی تہہ ہوئے کاغذات کی تصاویر اپ لوڈ کی گئیں

اس فورم کے رکن ہونے کے ایک دعویدار نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ایک اور شخص، جس کی آن لائن شناخت ’لوکا‘ کے نام سے ہوئی ہے، نے دستاویزات کو دوسرے ڈسکورڈ چیٹ میں شیئر کیا۔ وہاں یہ دستاویزات تب تک پھیلتی رہیں، جب تک یہ میڈیا تک نہیں پہنچ گئیں

خفیہ لیکس کے حوالے سے کئی اعلیٰ امریکی حکام بھی عوامی سطح پر یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ وہ ابھی جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں

ان لیکس کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟

ان لیکس کے بعد سے امریکہ کے سینئر فوجی رہنما اتحادیوں سے رابطے میں ہیں۔

امریکی وزیرِدفاع کے معاون کرس میہر کا کہنا ہے ان رابطوں میں اعلیٰ سطح کی کالز شامل ہیں، جس میں اتحادیوں کو انٹیلیجنس کے تحفظ اور سیکیورٹی پارٹنرشپ کے لیے ہمارے عزم کے بارے میں یقین دلایا گیا ہے

دوسری جانب یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکی حکام کو آئندہ ہفتے جرمنی میں ہونے والے کانٹیکٹ گروپ اجلاس میں زیادہ سوالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے

اس اجلاس میں پچاس سے زیادہ ممالک کے نمائندے یوکرین کے لیے ہتھیاروں اور امدادی تعاون کو مربوط کرنے کے لیے جمع ہوں گے

ایک سینئر دفاعی عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ان لیکس سے اجلاس یا اتحادیوں کی یوکرین کے لیے فوجی امداد کی فراہمی جاری رکھنے کی رضامندی پر اثر پڑنے کا امکان نہیں ہے

اٹلانٹک کونسل کے ’ٹرانس اٹلانٹک سیکیورٹی انیشی ایٹو‘ کے ڈائریکٹر کرس اسکالوبا کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں کئی اتحادی اس بارے میں زیادہ متجسس ہوں گے کہ یہ سب کیوں ہوا؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close