سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط27)

شہزاد احمد حمید

عالم گڑھ کا بیلی سسپنشن برج ایک سو بتیس (132) میٹر لمبا ہے۔ اسے ایک مقامی ٹھیکے دار ”سید عالم“ نے تعمیر کیا اور انہی کا نام اس کے نام کی نسبت بن گیا ہے۔ میں پانچ سو (500) میل کا سفر طے کر کے یہاں پہنچا ہوں۔ دریائے گلگت پر اب جدید پل بنا دیا گیا ہے، وہ پرانا چڑ چڑ کرتا لکڑی کے تختوں کا پل ٹریفک کے لئے اب استعمال نہیں ہوتا۔ پرانے پل پر یک طرفہ ٹریفک تھی۔ اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ نئے پل سے دوطرفہ ٹریفک گزرتی ہے۔ پل کراس کر کے ایک لمبے موڑ کے بعد شاہراہ ریشم خوش آمدید کہتی ہے۔ لازوال دوستی کی لازوال نشانی۔ اب سفر شاہراہ ریشم کے ساتھ ہو گا۔ سی پیک نے اس شاہراہ کی اہمیت میں اضافہ کر دیا ہے۔ تزئین و آرائش کے بعد اس شاہراہ پر سفر وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ ٓاسان اور آرام دہ ہو گیا ہے۔ سندھو بھی ساتھ ساتھ بہے گا، تھاکوٹ تک۔ تھا کوٹ سے سندھو شمالی سمت گھوم کر ہزارہ کی پہاڑیوں سے گزرتا تربیلا پہنچے گا۔ میں اس کے پیچھے ہی ہوں گا، مگر لمبے اور مختلف راستے سے۔

شاہراہ ریشم اب دریائے گلگت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ عالم گڑھ برج سے سات (7) کلو میٹر ڈاؤن اسٹریم دریائے گلگت سندھو میں گر کر اس کی رفتار میں کئی لاکھ کیوسک پانی کا اضافہ کرتا ہے۔

داستان گو بتاتا ہے ”دریائے گلگت اور میرا ملاپ انگریزی حرف Y (وائی) کی شکل میں ہے اور یہاں ہم پھیلے ہوئے بہتے ہیں۔ دریائے گلگت بھی بلند گلیشیرز اور پگھلتی برف کے پانی کو نچوڑ کر یہاں تک لاتا مجھ میں دائیں جانب سے آ کر ملتا ہے۔ دونوں دریا (سندھو اور گلگت) جب آپس ملتے ہیں تو کچھ دور تک ان کا پانی علیحدہ علیحدہ مگر ساتھ ساتھ ہی بہتا ہے۔ ان کا سنگم کوئی عام جگہ نہیں ہے۔اس سنگم کے قریب ہی دنیا کا وہ واحد مقام ہے، جہاں دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلے قراقرم، ہندو کش اور ہمالیہ آپس میں ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے کی دوری پر ملتے ہیں۔ سیاہی مائل اور سبزے سے محروم قراقرم، سرخی مائل اور بہت حد تک سرسبز ہندوکش اور سبزے سے ڈھکا ہمالیہ۔ شاہراہ ریشم کے کنارے ایک پلیٹ فارم نما اونچے چبوترے پر وہ کتبہ نصب ہے، جو ان پہاڑی سلسلوں کے ملاپ کی نشاندہی کرتا ہے۔ چند سیڑھیاں اُس چبوترے پر لے جاتی ہیں، جہاں ایک پتھر پر ان تینوں پہاڑی سلسلوں کے حوالے سے معلومات کندہ ہیں۔ہاں اگر تیز ہوا چل رہی ہو تو اس چبوترے پر کھڑا ہونا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ اڑتی مٹی ریت اور ہوا کا شور مل کر ڈرا دینے والی آواز پیدا کرتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو ضرور تجربہ کرکے اپنے جسم اور ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس کرکے میری اس بات کو یاد کر لیجئے گا۔ یہ اپنی نوعیت کا انسانی تاریخ اور جغرافیہ کا واحد مقام ہے جہاں دنیا کے یہ تین عظیم پہاڑی سلسلے ایک دوسرے سے ہاتھ ملا کر ہمیشہ کے لئے دور ہو جاتے ہیں پھر کبھی بھی نہ ملنے کے لئے۔“

کتبہ والی چٹان کو چھوتا میرا دوست بڑی تیزرفتاری سے بہتا ہے۔ اس چبوترے پر ہمیں کھڑادیکھ کر وہ مسکرایا اور بولا؛ ”دیکھو میرے کنارے کیسے نظارے، تاریخ اور جغرافیہ کے کیسے کیسے مقام ہیں۔ یہ سب بھلا تمکیں اور کہاں ملیں گے؟

”میں جگلوٹ کی حدود میں پہنچا ہوں۔ میرے گرد چمکتی ریت کا گھیرا ہے۔جس طرح تمہارے گرد باس، مشتاق، بھائی جان قیس اور نین کا۔میرے ایک کنارے پر پاک فوج کی چھاؤنی جگلوٹ آباد ہے اور میں اس کی بغل میں پر سکون بہتا ہوں۔ شاید میں بھی فوج سے ایسے ہی ڈرتا ہوں جیسے اس ملک کے سیاست دان۔“ داستان گو داستان سناتا جارہا ہے

”اس سفر میں پہاڑی چٹانوں میں نظر آنے والے سوراخ دراصل کبوتروں کے گھونسلے ہیں، جو دو دریاؤں کے سنگم پر اچھلتے پانیوں کا نظارہ کرتے ہیں۔ فضاؤں میں اڑتے یہ کبوتر پانی میں ڈبکیاں بھی لگاتے ہیں اور اکثر سڑک کنارے بیٹھے نظر بھی آتے ہیں۔ ایسا ہی حال رام چکوروں کا بھی ہے جو شاہراہ ریشم پر آپ کو سڑک کنارے ضرور نظر آئیں گے۔ ان کو پکڑنے کی کوشش کرو تو پھر سے اڑ جاتے ہیں، عموماً ان کی اڑان دریا کی سمت ہی ہوتی ہے۔ خوبصورت رام چکور گلگت بلتستان کا قومی پرندہ ہے۔ سیٹی کی سی اس کی آواز اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ جسم بھورے، گردن اور دم سفید رنگ کی ہوتی ہے۔ یہ اونچے پہاڑوں پر رہتا ہے۔ خوش الحان اور خوبصورت پرندہ ہے۔ بہت خوش ہو تو ایسی آواز نکالتا ہے، جیسے بین بجائی جا رہی ہو۔ بلتستان کے مختلف علاقوں میں پائے جانے والے رام چکور بھی مختلف قسم کے ہیں۔“

ہمارا راستہ البتہ سڑک سے گزرتی بھیڑوں کے بڑے ریوڑ نے روک لیا ہے۔ ایسے ریوڑ اس سڑک کا خاصہ ہیں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں بلتی آباد ہیں

سندھو اور دریائے گلگت کے ملاپ سے پہلے اخروٹ، سیب، شہتوت اور خوبانی کے درختوں سے لدی ایک بڑی سایہ دار وادی ’بگروٹ‘ دریائے گلگت کے کنارے آباد دلکش مقام ہے۔ آپ ان علاقوں میں آئیں تو خوبانی ضرور کھائیں۔ یہاں ڈھلوانوں پر گندم جو اور باجرہ کے کھیت ہیں اور جہاں کچھ زمین ہموار ہے وہاں مکئی، آلو، شلجم، انگور اور خربوزہ کی فصل اگائی جاتی ہے

سندھو بتاتا ہے ”میرے ساتھ ساتھ ان چٹانوں پر مکڑی کی طرح پھیلے تنگ راستوں کا جال بنا ہے۔ قدیم زمانے میں ان راستوں پر لکڑی کی سیڑھیاں بنی تھیں اور کہیں لکڑی کی کھونٹیاں تھیں، جن کو پکڑ کر لوگ چلتے تھے۔ راستوں پر رسے کے بنے پل تھے۔ بید مجنوں کے رسوں سے بنے ان پلوں سے گزرنا خود اپنی جان لینے کے مترادف تھا۔ جھومتی رسیوں کو پکڑ کر مجھے کو پار کرنا بڑے دل گردے کا کام تھا۔ شاہراہ ریشم کی تعمیر نے یہ سفر آسان کر دیا اور اب سی پیک کا دور ہے راستے اور بھی محفوظ اور آرام دہ ہو گئے ہیں۔“ اگر داستان گومیرا ہمسفرنہ ہوتا، مجھ سے باتیں نہ کرتا تو میں یہ کہانی لکھ ہی نہ سکتا تھا۔ ہاں اگر لکھی بھی جاتی تو ہر گز اتنی دلچسپ نہ ہوتی

سندھو کی آواز پھر سے مجھے سنائی دی ہے، ”گلگت کے لوگوں کے لئے زندگی صرف کام سے ہی عبارت نہیں ہے۔ کسی دور میں گلگتی عمدہ انگور اگاتے اور شراب بھی کشید کرتے تھے لیکن اب صرف انگور ہی اگاتے ہیں۔ کبھی عقابوں سے شکار کرتے تھے اب عقاب کی جگہ بندوق نے لے لی ہے۔ سب سے بڑھ کر وہ پولو کا کھیل بھی خوب کھیلتے ہیں۔ اس کھیل کے ایران، وسط ایشیائی ممالک اور افغانستان موجد ہونے کے دعویدار ہیں لیکن میری وادیوں میں اس کھیل کا اپنا ہی رنگ اور جوش ہے۔ پولو میچ میں کھلاڑیوں کا ہوش اور تماشائیوں کا جوش ایسا سماں باندھتے ہیں، جس کی نظیر کم کم ہی ملتی ہے۔

”گلگت اور اس کے گردو نواح عرصہ دراز سے آباد قدیم مقامات ہیں۔ چٹانوں پر کندہ بدھ کے مجسمے، فرمان، مسلمان بزرگوں کے مقبرے، جنگ آزادی کے شہداء کی یادگاریں گزرے وقت کی نشانیاں ہیں۔ گھروں کی ہموار چھتیں سردیوں میں برف سے ڈھکی سفید نظر آتی ہیں تو گرمیوں میں ان پر سکھانے کے لئے رکھی سبز مرچ، پیلی خوبانی کی وجہ سے سرخ یا زرد دکھائی دیتی ہیں۔ ڈھیلے ڈھالے لباس میں ملبوس مرد آج بھی ویسے ہی نظر آتے ہیں، جیسے صدیوں قبل تھے۔ بدھ ازم آنے سے پہلے اور حضرت مسیح کی پیدائش سے تقریباََ سو (100) سال قبل تک یہاں کے باشندے مظاہر قدرت کے پجاری تھے یا آتش پرست تھے اور زرتشت کے ماننے والے۔ یہ بھی قیاس اور کچھ داستانیں ہیں کہ سکندری افواج کا گلگت کے کچھ علاقوں سے گزر ہوا۔ ثبوت کے طور پر اس قدیم اصطبل کے کھنڈر بیان کئے جاتے ہیں، جس کے بارے میں روایت ہے کہ سکندر اعظم کے گھوڑوں کے لئے بنا تھا۔ ایک دوسرا اور شاید ناقابلِ تردید ثبوت یہ ہے کہ ہندوستانیوں کے مقابلے میں گلگتی زیادہ صفائی پسند اور سرخ و سفید رنگت کے ہیں۔ یہی دونوں چیزیں انہیں باقی مقامی باشندوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ یونانی بھی اسی رنگت اور ایسے ہی صفائی پسند تھے“

”کیا تم جانتے ہو؟“ سندھو نے مجھ سے پوچھا اور میرا جواب سنے بغیر ہی بولنے لگا ہے؛ ”گلگتی ہمیشہ سے ہی کشمیریوں سے خوف زدہ رہے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ دنیا میں گلگتی اور تبتی فرشتوں کی اولاد ہیں اور جنت کے حق دار بھی۔ ان کے عقیدے کے مطابق جنت کا داروغہ بھی کشمیری ہے جو ان کو جنت میں داخل ہونے سے روک سکتا ہے۔ مہاراجہ کشمیر جب تک یہاں کا حکمران رہا تو بھی اُن کے نظریات میں تبدیلی نہ آسکی۔ 1877ء میں برطانوی حکومت نے ’گلگت ایجنسی‘ قائم کی، جس کا مقصد مہاراجہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا تھا۔ 1913 ء میں ’گلگت اسکاؤٹس‘ کا قیام عمل میں آیا، جو علاقے میں امن و امان کے ذمہ دار تھے۔ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close