سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط47)

شہزاد احمد حمید

”لو میں کوہ سلیمان کے سلسلے میں پہنچ گیا ہوں۔ بارش برس جائے تو اس پہاڑی سلسلے کے ندی نالوں اور رودکوہیوں میں طغیانی آجاتی ہے، بعض تو ایسے بپھرتے ہیں کہ سب کچھ بہا لے جاتے ہیں۔ جب یہ طغیانی سے لدے مجھ میں اترتے ہیں تو میں بھی پرجوش ہو جاتا ہوں۔ خوب غصہ دکھاتا، تباہی مچاتا ہوں۔ مقامی لوگ مجھ سے پناہ مانگتے ہیں اور میرے پرسکون رہنے کے لئے دعائیں بھی، لیکن میں من موجی ہوں“ داستان سنائی جا رہی ہے اور میں کئی دنوں سے لکھتا جارہا ہوں۔ نہ سندھو تھکا ہے اور نہ میں ہی اکتایا ہوں۔

”ڈیرہ اسماعیل خاں میں ہر سال 12 جون کو ’میلہ اسپن‘ لگتا ہے۔ ہزاروں لوگ قبائلی علاقوں، بلوچستان، خیبر پختوں خوا کے مختلف اضلاع اور پنجاب سے اس میں شرکت کے لئے آتے ہیں۔ یہ میلہ تفریح بھی ہے اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بھی۔ یہ اس خطے کی ثقافت کا عکاس، مویشیوں کی خرید و فروخت کا مرکز اور مقامی کھیلوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع بھی ہے۔2007ء میں دہشت گرد حملوں کے بعد یہ میلہ اگلے 9 سال تک منعقد نہ ہو سکا اور 2016؁ء میں دوبارہ شروع کیا گیا تو پھر کووِڈ کی وبا نے اس کے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ 2021ء میں یہ میلہ پھر سے سجنے لگا ہے۔ یہ میلہ مختلف، قبائل، رنگ و نسل، ثقافت میں بٹے لوگوں کو اکٹھا کر کے بہترین تفریحی مواقع میسر کرتا ہے۔ یہ میلہ امن کے پیغام اور بھائی چارے کی فضا ء قائم کرتا ہے۔“

میلہ کی شام سے ہی سندھو میں لاتعداد جھلملاتی متحرک روشیناں تیرنے لگتی ہیں۔ ان تیرتی روشنیوں کو دیکھ کر نین نے سندھو سے پوچھا؛ ”سائیں! یہ دئیے کیسے ہیں۔“ ہلکا سا تبسم اس کی لہروں پر پھیلا اور بتانے لگا؛ ”آج ہی کے دن لہہ (لداخ) میں لداخی ’سندھو درشن میلہ’ مناتے ہیں۔ ہر سال یہ میلہ 12 تا 15جون 3 دن منعقد ہوتا ہے۔ ریگ وید کے مطابق ”یہ بڑا متبرک میلہ ہے“ 1997ء سے پہلے تک یہ میلہ صرف ایک دن کا ہوتا تھا لیکن اس سال سے 3 دن کا کر دیا گیا ہے۔لداخ میں پورنماشی (چودھویں کا چاند) کی رات دور نزدیک سے پجاری میرے کنارے جمع ہونے لگتے ہیں۔ آج کل ملکی اور غیر ملکی سیاح بھی بڑی تعداد میں اس میلے کو دیکھنے آتے ہیں۔ یہ میلہ دراصل مجھے نذرانہ ہے، میری عظمت کا اعتراف ہے۔ یہ سب کچھ میرے کنارے آباد مقامی قبائل قدیم زمانے سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ میلہ لوگوں (کمیونٹی) کی آپس میں محبت اور ثقافتی وسعت کا عکاس بھی ہے۔ ’گرو پورنیما، اوتار‘ ریگ وید کی کہانیاں اور بھجن اس میلے کی خصوصی سرگرمیاں ہیں۔ لداخ کے اسی سندھو درشن میلہ کی ایک جھلک ڈیرہ اسماعیل خاں میں بھی نظر آتی ہے۔ دراصل یہ میلہ لداخ کے میلے کی یاد میں ہی منایا جاتا ہے۔ ہندو آج بھی مجھے دیوتا مانتے ہیں اور عقیدت کے طور پر دئیے میری سطح پر اتار دیتے ہیں۔ میں ان جلتے دئیوں کو ڈبونے نہیں دیتا ہوں بلکہ اپنے پانیوں پر بہاتا دور تک لے جاتا ہوں۔ دیکھنے والا محسوس کرتا ہے جیسے میری سطح پر جھلملاتے تارے اترے ہوں۔ میں اس کے بدلے سیلاب کے موسم میں ان کا خیال کرتا ہوں۔“

نین بولی؛ ”یہ میدانی علاقوں سے بہتے تمھارے بیچ اور کناروں پر جو بیلے ہیں، وہاں کیا ہوتا ہے؟ سنا ہے جرائم پیشہ لوگ رہتے ہیں ان میں۔ کیا ایسا ہی ہے سندھو جی؟“ سندھو نے اس کی طرف دیکھا، سنجیدہ ہوا اور کہنے لگا؛ ”جی یہ سچ ہے مگر نئی بات نہیں۔ ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ قدیم دور سے یہ بیلے ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ افراد کا مسکن رہے ہیں۔ یہاں بسنے والے قبائل نامور بادشاہوں کی سپاہ پر بھی شب خون مارتے رہے ہیں۔ سکندر اعظم کی فوج پر بھی انہوں نے حملے کرکے اُسے نقصان پہنچایا۔ محمود غزنوی کی سپاہ پر بھی ایسا ہی ہوا اور سلطان کو اُن کی سرکوبی کے لئے باقاعدہ مہم کا آغاز کرنا پڑا تھا۔ دور حاضر میں یہ جنگل بیلے مفرور، اشتہاریوں، ڈاکوؤں، لیٹروں، جرائم پیشہ افراد اور اغواء کاروں کی پناہ گاہیں ہیں۔ یہاں پنجاب، خیبر پختون خواہ کی سرحدیں ملتی ہیں۔ دونوں صوبوں کی پولیس کی ملی بھگت سے یہ جرائم پیشہ لوگ ان بیلوں کو اپنی آماجگاہ بناتے ہیں۔ ایسی ہی صورت حال سندھ، بلوچستان اور پنجاب کی سرحدوں پر بھی ہے۔ ان صوبوں کی پولیس کی بھی آپس کمال ہم آہنگی ہے، یہ ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے، نہ ہی ان مجرموں کی اطلاع ایک دوسرے کو دیتے ہیں اور نہ ہی ان کو پکڑتے ہیں۔ (ہاں تب تک، جب تک ان کا اپنا ہاتھ بیلنے میں نہ آئے۔) یہ جرائم پیشہ اسی ملی بھگت کے نتیجے میں با آسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ آتے جاتے ہیں، ٹھکانے بدلتے ہیں۔ یہ سب کرنے کی ایک ہی شرط ہے ’پولیس والوں کو نذر نذرانے باقاعدگی سے ادا کئے جاتے رہیں۔‘ پولیس والے بھی یہ نذرانے وصول کرتے نہ گھبراتے ہیں نہ شرماتے ہیں اور نہ ہی ڈرتے ہیں۔ ان بیلوں میں جرائم پیشہ افراد کی حکومت ہے اپنے علاقے ہیں اور اپنی اپنی سرداریاں۔ یہ بیلے ڈیرہ اسماعیل خاں سے شروع ہو کر کشمور اور میرے سمندر میں گرنے تک میرے مختلف حصوں میں موجود ہیں۔ یہ الگ دنیا ہے، جرائم کی دنیا۔۔ جس میں ہر ڈاکو اور ہر جرائم پیشہ گروہ کا اپنا اپنا سردار ہے۔ یہ بدقسمتی لیکن حقیقت ہے کہ مختلف وڈیرے اور سردار بھی ان کی سرپرستی کرتے ہیں۔ چند دہائیاں قبل تو ان جنگلوں کے ڈاکو اغواء برائے تاوان کا خطرناک کھیل بھی کھیلتے رہے ہیں اور ان کی وحشت، خوف اور دھاک ان بیلوں سے باہر بھی پہنچ گئی تھی۔ پھر حکومت نے حرکت کی اور ان کا قلع قمع ہوا۔۔ بہرحال آج بھی اکا دکا واقعات ہو ہی جاتے ہیں۔ پولیس بھی ان کے علاقوں میں جانے سے گھبراتی تھی اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ ان بیلوں میں مختلف قوموں اور قبیلوں کے لوگ آباد ہیں، جو خود بھی چھوٹے چھوٹے جرم کرتے رہتے ہیں اور ان ڈاکوؤں کی تابعداری بھی۔ ان کی عورتیں بھی مجرمانہ ذہنیت رکھتی ہیں۔ اکثر ان ڈاکوؤں کی داشتائیں بن کر زندگی بسر کرتی ہیں اور ان کے مرد ان سے ڈرتے ہیں۔ ایسی عورتوں کا اپنے مردوں پر رعب دیدنی ہے۔ یہاں عزت اور غیرت کی تعریف بھی مختلف ہے۔ اس تابعداری کے عوض یہ ڈاکو مقامی لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ وقتاً فوقتاً ان کی مالی امداد اور دوسری ضروریات کا بھی خیال کرتے ہیں۔ بدلے میں یہ لوگ بھی ان کی مخبری نہیں کرتے، اپنی عزت بھی ان کے حوالے کر دیتے ہیں اور دیگر ضروریات کا بھی خیال کرتے ہیں۔“

باس نے اس گفتگو میں مخل ہوتے پوچھا؛ ”میں نے تو سنا ہے کہ مقامی زمیندار بھی ان ڈاکوؤں کی میزبانی کرتے ہیں۔ کیا یہ بھی سچ ہے؟“ سندھو جھوٹ نہیں کہتا، بتانے لگا؛ ”جی باس! یہ بھی بدقسمتی سے درست ہے۔ سردار ان کی سرپرستی ہی نہیں کرتے بلکہ پولیس کی نقل و حمل سے بھی ان کو آگاہ رکھتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پولیس کو ڈاکوؤں کے علاقوں میں جانے بھی نہیں دیتے ہیں۔ ان سرداروں، زمینداروں اور وڈیروں کا پولیس پر بھی گہرا اثر رسوخ ہے۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ ان ڈاکوؤں اور ان کے سرپرستوں کا حلیہ اور لباس بھی اکثر ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ بڑی بڑی مونچھیں، لال موٹی موٹی آنکھیں، ڈھیلے ڈھالے لمبے کرتے، کھلی شلوار، سینے پر گولیوں یا کارتوسوں کی پیٹی، کندھے سے لٹکی یا ہاتھ میں پکڑی بندوق یا رائفل۔۔ مقامی زبان میں ہی بات کرتے ہیں اکثر کا لہجہ بھی تلخ ہوتا ہے لیکن یاری خوب نبھاتے ہیں۔“

باس کہنے لگے؛ ”سندھو جی!یہاں کے چھوٹے بچے جو بچپن سے ہی ان کو دیکھتے ہیں، انہی سے متاثر بھی ہوتے ہوں گے اور ان جیسا ہی بننے کی خواہش بھی کرتے ہوں گے۔ نہ یہاں اسکول ہیں نہ بجلی ہے۔ نہ سڑکیں ہیں نہ ٹیلی فون ہے۔ نہ ہی کوئی کھیل کا میدان۔ ان کے کھیل بھی ڈاکو اور پولیس کا ہی ہوگا (بچپن میں ہم بھی چور سپاہی کا کھیل کھیلا کرتے تھے۔) اس ماحول میں شائد ڈاکو بننا آسان اور یوں اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا بدلا لینا بھی آسان ہو۔“ سندھو لمحوں کی خاموشی کے بعد کہنے لگا، ”باس، آپ کو سن کر حیرانی ہوگی کہ ان ڈاکوؤں لٹیروں کو ڈاکو لیٹرا بنانے میں ان کے ماں باپ پر ہونے والے ظلم زیادتی کا اہم اور مرکزی کردار ہے۔ یہ ڈاکو کیوں بنتے ہیں؟ ان کی بپتا سن کر آپ کے آنسو نکل آئیں گے۔ یہ بھی انسانی المیہ ہی ہے۔ موقع ملا تو کسی ڈاکو سے ملاؤں گا۔ حیران رہ جائیں گے ان کی باتیں سن کر آپ۔“

نین کہنے لگی، ”باس! آپ کی باتیں درست ہیں لیکن اب حالات کچھ بدل گئے ہیں۔ وڈیرے اور تگڑے زمیندار مقامی لوگوں کو جاہل ہی رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی غلامانہ ذہنیت برقرار رہے۔ بہرحال میڈیا، انسانی حقوق کی کچھ تنظیموں اور تعلیم نے مقامی لوگوں کو شعور دیا ہے، اس وجہ سے حالات میں کچھ بہتری آئی ہے۔ اب کچھ تبدیلی محسوس کی جا سکتی ہے۔ گو یہ سلو ہے مگر ہے ضرور۔“ سندھو کی ایک موج آئی، شاید یہ نین کی بات کی تصدیق ہی ہے۔

”میرے شمال میں تمہیں باریک لکیر سی جو نظر آ رہی ہے دراصل ’کوٹلہ جام‘ صوبہ پنجاب اور ڈیرہ اسماعیل خاں خیبر پختون خوا کو ملانے والا پل ہے۔“ سندھو کہانی جاری رکھے ہے، ”جب تم یہاں پہنچے تو گرمی کا آغاز ہو چکا ہے اور میرا پیندہ پھیلنے لگا ہے۔ ہر آنے والا دن اب پانی کی مقدار میں اضافہ کرے گا کہ تبت، کشمیر، ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم کے پہاڑوں کی برف پگھلنے کا وقت ہے۔ مون سون کا موسم بھی دور نہیں۔ مون سون کی بارشیں تو میرے پیندے کو اس قدر بھر دیں گی کہ میرے کنارے چھلکنے لگیں گے اور پانی دور دور تک پھیل جائے گا اور جب اترے گا تو پیچھے زرخیز مٹی چھوڑ جائے گا گو اس دوران میں بپھر جاؤں گا۔۔

”ڈیرہ اسماعیل خاں سے راستے شمالی وزیرستان کے صدر مقام ’ٹانک‘ (کبھی ٹانک بھی اسی ضلع کا حصہ تھا) اور دوسرے قبائلی علاقوں کو جاتے ہیں۔ ٹانک کا صدر مقام ’وانہ‘ خوبصورت اور پر کیف وادی ہے. اس وادی کی ہریالی اور شادابی کا راز وہ ندی نالے ہیں جو اس کے درمیان سے بہتے ہیں۔

میرا دوست سندھو بولے چلا جارہا ہے اور اپنے بھید کھولے چلا جا رہا ہے، ”سنو! میں ڈیڑھ پونے دو سو سال پہلے ڈیرہ اسماعیل خاں کو بہا لے گیا تھا۔ لوگ مجھ سے اتنا ڈرے کہ مجھ سے ہٹ کر نیا شہر آباد کیا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خاں اور ڈیرہ غازی خاں کے میدانوں میں تاریخ کی بہت سی نشانیاں، قلعے، وقت کے دھارے اور برساتی نالوں کے تیز پانیوں میں گم ہوتے جا رہے ہیں۔ تمھارے تاریخ دان تو ادھر آتے نہیں ہیں اور آثارِ قدیمہ والوں کو تاریخ اور قدیم نشانیوں سے اتنی ہی دلچسپی ہے جتنی کسی غریب کو مرسیڈیز کار سے۔۔ لہٰذا سب کچھ کھنڈر بنتا جا رہا ہے۔ یہی سرزمین لغاری، کھوسو، میرانی، قیصرانی، بزدار قبائل کا مسکن بھی ہے۔ دوسرے خطوں کی طرح اس خطے کی تاریخ بھی بہادروں اور غداروں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ یہاں آباد بڑے قبائل کی تاریخ انہیں انگریزوں کے حلیف اور مقامی لوگوں کو ایذا پہنچانے کے حوالے سے ہی یاد کرتی ہے۔ اپنے مفادات اور دولت کی خاطر ان سرداروں نے یہاں کے محب وطن اور انگریز مخالف لوگوں کو فرنگی کے حوالے کر کے جہاں انگریز سے اپنی وفاداری کو ثابت کیا، وہیں اُن کے مفادات کا تحفظ کرکے بدلے میں ان بڑے بڑے نامور سرداروں نے خوب دولت پائی، زمینیں حاصل کیں، انعامات پائے، رعایتیں سمیٹں، وظیفے لئے اور القابات سے نوازے گئے ہیں۔“

اٹک سے کالاباغ کے درمیان سو میل کے سفر میں سندھو گہری خندق کی طرح پتھریلے علاقے سے گزرتا ہے۔ یہ علاقہ یا تو بنجر ہے یا کہیں کہیں سبزہ۔ مغربی کنارے افغانستان سے اتری ’تراہ‘ کی پہاڑیاں ہیں۔ پتھریلی زمین پر چٹانیں سر اٹھائے نظر آتی ہیں۔ موسم بہار میں جہاں کہیں زمین ہموار ہے، سرسوں کے کھیت دور دور تک پھیلے شاندار نظارہ پیش کرتے ہیں۔ وادی کابل کے مقابلے یہ کم آباد خطہ ہے۔ اس سفر کے دوران سندھو کنارے گھاٹ اور کشتیاں نظر آتی ہیں۔ اسٹوپاز اور مندروں کے کھنڈر بھی دکھائی دیتے ہیں تو کچھ تباہ حال ٹوٹی عمارتیں بھی۔ سندھو اپنے منبع سے ہزاروں کلو میٹر دور میدانی علاقوں میں وسیع میدان میں چمکتا بہتا ہے۔

رمضان کی شام سہانی ہونے لگی ہے۔ دھوپ دن والی تپش کھو چکی ہے۔ شام کے سائے ہر طرف پھیلے ہیں۔آسمان پر بادل کا سفید ٹکڑا جو صبح سے ہماراہم سفر ہے اب سرمئی رنگ اختیار کر گیاہے۔ روزہ افطار ہونے میں زیادہ وقت نہیں۔ سڑک پر دوڑتی جیپ کو سنگ میل ’کالاباغ صفر‘ دکھا رہا ہے۔ ہماری آج کی منزل اور رات کی قیام گاہ نواب آف کالاباغ مرحوم ملک امیر محمد خاں کا ڈاک بنگلہ زیادہ دور نہیں ہے۔ یہاں ہمارے قیام کا بندو بست ہمارے دوست عارف طفیل، جو یہاں ڈپٹی ڈائریکٹر مقامی حکومت رہے ہیں، نے محمد اسماعیل سیکرٹری یونین کونسل کی وساطت سے کیا ہے۔

سندھو اس ڈاک بنگلے کے کناروں کو چھو تا بہتا ہے۔ یہاں پہنچے تو قریبی مسجد سے آنے والی اللہ اکبر کی صدا روزہ کھلنے کا اعلان بھی ہے۔”اے اللہ میں نے تیرے رزق سے روزہ رکھا اور تیرے رزق سے ہی افطار کر رہا ہوں۔“ پرتکلف افطاری نوابی میزبانی کی شایان شان ہے۔ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close