دل زندہ رہے (اردو ادب سے منتخب افسانہ)

رشید امجد

بہت دنوں سے یوں لگ رہا ہے جیسے میرے آس پاس سب طوطوں میں تبدیل ہو گئے ہیں، یا یوں ہوا ہے کہ ظاہری ہیئت تو آدمیوں جیسی ہے لیکن باطن طوطے کا ہو گیا ہے۔ ٹی وی، ریڈیو، اخباروں، کتابوں اور رسالوں میں سے ایک ہی آواز ابھرتی ہے۔۔۔ ’’میاں مٹھو‘‘

ایک کورس میں جواب آتا ہے۔۔۔ ’’جی‘‘

’’چُوری کھانی ہے؟‘‘

’’کھانی ہے۔‘‘

اور چُوری کھانے کے لیے سب درختوں سے نیچے اتر کر پنجروں میں داخل ہو جاتے ہیں۔

کنٹرول روم میں بیٹھا ہوا شخص مسکراتا ہے۔۔۔ ’’یہاں کوئی جبر نہیں، کوئی زبردستی نہیں، سب اپنی مرضی سے پنجرے میں آئے ہیں، دراصل انہیں درخت اب اچھے نہیں لگتے، اس لیے بہتر ہے کہ انہیں کٹوا ہی دیا جائے۔‘‘

پنجروں میں چُوری کھاتے طوطے خوشی سے ٹیں ٹیں کرتے ہیں، پروں کو پھیلاتے اور پھڑپھڑاتے ہیں۔۔۔ ’’ہم کوئی قید تو نہیں، ہمارے پَر سلامت ہیں اور یہ چُوری۔۔۔‘‘

ٹیں ٹیں اور پروں کی پھڑپھڑاہٹ سے پنجرے کی تیلیاں ہلتی ہیں اور چُوری کے برتن پانی کے برتنوں سے جا ٹکراتے ہیں۔

شہر کی درس گاہوں، گھروں اور محفلوں میں طوطے بنانے کا کام تیزی سے ہو رہا ہے۔ ریڈیو، ٹی وی، اخبار، رسالے اور درسی کتابیں، سب اس کام میں ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ درخت تیزی سے کٹ رہے ہیں اور پنجرے کا سائز بڑھ رہا ہے، حتیٰ کہ پورا شہر ایک پنجرہ بن گیا ہے، ایک ہی عمل۔۔۔ طوطے بنانے کا عمل کئی برسوں سے جاری ہے، صرف کنٹرول کرنے والے کی آواز اور چہرہ بدلتا ہے۔۔۔

ان طوطوں کے درمیان، میں بھی ایک طوطا ہوں، لیکن ذرہ سا مختلف۔۔۔

’’میاں مٹھو چُوری کھانی ہے؟‘‘

’’کھانی تو ہے لیکن تھوڑی سی اڑنے کی اجازت بھی۔۔‘‘

ایک ہُدہُد دورانِ سفر ایک رات پریوں میں پھنس گیا اور ان کے نشیمن میں اتر آیا۔ ہدہد حدتِ نظر کے لیے مشہور ہے اور پریاں اپنی کمزور بینائی کے لیے۔ اس رات ہدہد نے اپنا آشیانہ ان کے نشیمن میں بنایا۔ انہوں نے اس سے مختلف خبریں پوچھیں۔ رات تمام ہوئی تو ہدہد نے رختِ سفر باندھا اور سفر پر روانہ ہونے لگا۔ پریوں نے پوچھا، ’’اے مسکین! تو نے یہ کیا بدعت شروع کر دی ہے کہ تو دن میں عازمِ سفر ہوتا ہے؟‘‘

ہدہد نے جواب دیا، ’’یہ عجب بات ہے کہ تمام کام دن ہی میں عمل میں آتے ہیں۔‘‘

پریوں نے کہا، ’’شاید تو دیوانہ ہے، جب طلسماتی دن میں سورج خود ظلمت پذیر ہو جاتا ہے تو کسی چیز کو تو کیسے دیکھ سکتا ہے؟‘‘

ہدہد نے کہا، ’’تمہارا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اس جہاں میں جو نور ہے، وہ نورِ خورشید کے طفیل ہے اور تمام تر روشنی اکتسابِ نور و اقتباسِ ضُو پر مبنی ہے۔‘‘

پریوں نے یہ سن کر اس پر الزام لگایا کہ وہ غلط بیانی سے کام لے رہا ہے اور یہ کہ دن میں کسی شے کو کیوں کر دیکھا جا سکتا ہے۔

ہدہد نے جواب دیا، ’’ہم قیاس کے ذریعے مختلف چیزوں کو اپنا احاطۂ وجود میں لاتے ہیں۔ ہر کوئی ہر روز دیکھتا ہے اور دیکھو میں بھی دیکھ رہا ہوں۔ میں اپنے آپ کو عالمِ شہود میں پاتا ہوں۔‘‘

پریوں نے جب یہ بات سنی تو وہ آہ و بکا پر اتر آئیں اور ایک حشر برپا کر دیا۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا۔۔۔ ’’یہ دن میں روشنی کا مدّعی ہے جب کہ آنکھوں کا مظنہ یہ ہے کہ اس وقت بینائی نہیں رہتی۔‘‘

انہوں نے فوراً ہدہد کی آنکھوں پر حملہ کر دیا۔

ہدہد نے یہ صورت دیکھ کر سوچا کہ اگر میں اپنے مسلک سے نہیں ہٹتا تو یہ مجھے مار ڈالیں گی۔ ان کا حملہ میری چشم پر ہے اور موت اور کور چشمی بیک وقت واقع ہوں گی۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور کہا، ’’دیکھو میں نے تمہارا درجہ دریافت کر لیا ہے اور کور چشم ہو گیا ہوں۔‘‘

اڑنے کی مشروط اجازت!

’’میاں مٹھو۔۔۔ بےشک اڑو، یہ پنجرہ بہت بڑا ہے۔ تم اس کے اندر آسانی سے اُڑ سکتے ہو۔‘‘

پنجرے کی فضا تو آسمان جیسی ہے۔

اور آسمان کا دائرہ بھی تو کناروں ہی میں محدود ہے اور اڑان کی خواہش، جسم کی اڑان تو اس پنجرے کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ہے، لیکن یہ اندر جو شے چھپی بیٹھی ہے، یہ کوئی لمبی زقند بھرنا چاہتی ہے۔۔

ایک درویش نے دوسرے سے کہا، ’’آؤ جلتے تنور میں کودیں، دیکھیں باہر کون نکلتا ہے؟‘‘

دوسرا مسکرایا اور بولا، ’’تم جلتے تنور میں سے زندہ نکلنا چاہتے ہو۔ میں نیستی کے سمندر میں غوطہ لگا کر باہر آنا چاہتا ہوں۔‘‘

تو یہ گریہ کس لیے، زقند نہ لگا سکنے کی مایوسی یا زقند لگانے کی اجازت نہ ملنے کا دکھ۔۔۔

اور یہ زقند بھی کیا چیز ہے۔۔۔ کیا خواہش ہے؟

دن کو زقند کا معاملہ ہی اور ہے۔۔۔ صبح سویرے کنٹرول روم میں بیٹھا ہوا وہ ریڈیو، ٹی وی اور اخباروں کے ذریعے دن بھر کے معمولات طے کرتا ہے۔

’’طوطے ایک قطار میں کھڑے ہو جائیں اور چُوری کھانے کے لیے باری باری اپنی جگہ سے زقند بھریں اور اپنے اپنے پنجرے میں آ جائیں۔‘‘

طوطے ٹیں ٹیں کرتے زقندیں بھرتے اپنے اپنے پنجرے میں آتے ہیں، گرم گرم چُوری سے اٹھتی مہک انہیں مدہوش کئے دے رہی ہے۔

اوپر خالی آسمان بانہیں پھیلائے پکارتا ہے مگر وہ نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔

کنٹرول روم میں بیٹھا وہ مسکرائے جاتا ہے۔

سارے شہر میں ڈر کا سماں ہے۔

ایک دو تین چار۔۔۔ ایک دو تین چار!

لیکن رات اپنی ہے۔۔۔ سر پر پھیلا آسمان، زقند بھرنے کی خواہش چٹکیاں لیتی ہے، لیکن یہ زقند پنجرے تک نہیں، کھلے آسماں میں دور تک جانے، نئے راستے تلاش کرنے کی خواہش ہے۔۔

میں کون ہوں؟

کیا میں پنجرے میں بیٹھ کر چُوری کھانے کے لیے ہی پیدا ہوا ہوں۔ کنٹرول روم میں بیٹھا یہ شخص۔۔۔ یہ شخص نہیں، اس کا کوئی چہرہ نہیں، یہ بھی ایک عمل ہے، جو کئی صدیوں سے یوں ہی جاری ہے۔۔ شہر کبھی آزاد ہوتا ہے، کچھ دیر کے لیے، پھر پابند ہو جاتا ہے یا یہ کہ وہ خود ہی کبھی کبھی پنجرے کو ظاہری طور پر غائب کر دیتا ہے اور کبھی وہ نظر آنے لگتا ہے۔۔۔ یہ آزادی، یہ پابندی۔۔۔ اور ان کے درمیان میں۔۔۔ میں کون ہوں؟

یہ میرے اندر کبھی کبھی کیا شے سرسراتی ہے، یہ نیلے آسمان میں زقند لگا کر گم ہو جانے کی آرزو کیا ہے؟

رات کی تنہائی میں جب چیزیں سو جاتی ہیں، میں اپنے وجود کی فصیل پر کھڑا ہو کر ایک لمبی زقند بھرتا ہوں۔ میرا اپنا آپ فضا میں اٹھ کر پھیلنے لگتا ہے۔ ایک بےکراں سمندر میرے چاروں طرف ہے، خاموش، پُر اسرار، وقت کی قید سے آزاد، اربوں شمسی سالوں کے فاصلوں پر پھیلی کائنات میرے چاروں طرف موجود ہے۔۔۔ ستارے ایک دوسرے سے آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔ میں انہیں اپنے اندر سمیٹنا چاہتا ہوں لیکن میرے دامن کے کناروں کی حدود۔۔۔ تو یہاں بھی وہی پابندی، یہ بھی ایک پنجرہ ہی ہے، میرے شہر کے پنجرے سے بڑا، فرق صرف چھوٹے بڑے ہی کا ہے۔

میں اس پراسرار کائنات میں زقند تو لگا سکتا ہوں، مستقل طور پر وہاں نہیں رہ سکتا، زمین مجھے اپنی طرف کھینچتی ہے۔۔

رات بیت گئی۔۔۔ دن چڑھتے ہی وہی کنٹرولڈ عمل۔۔۔

میری رات بھی محدود، دن بھی طے شدہ

تو زقند بھرنے کی خواہش کیا ہے؟

ایک درویش نے زنجیروں میں جکڑے شخص کو اس عالم میں دیکھا کہ وہ شور و غوغا کر رہا ہے۔ پوچھا کہ اتنی وزنی بیڑیوں کے باوجود تم شور مچا رہے ہو اور خاموشی اختیار نہیں کرتے۔ وہ بولا کہ بیڑیاں میرے پاؤں میں پڑی ہوئی ہیں نہ کہ میرے قلب میں!

دل زندہ رہا تو ایک دن میں بھی ایک لمبی زقند لگا کر کائنات میں ایسا گم ہو جاؤں گا کہ لوٹ کر نہیں آؤں گا!

بس چُوری کھانے کے باوجود دل زندہ رہے!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close