سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط63)

شہزاد احمد حمید

جیرو سائیں پچاس پچپن برس کا باریش ہنس مکھ سندھی ہے، جو اپنے بچپن سے ہی سیاحوں اور زائرین کو سادھ بیلو لا لے جا رہا ہے۔ پہلے کشتی پر باپ کا مدد گار تھا، اب خود دیسی موٹر بوٹ چلاتا ہے اور اس کے بیٹے اب اس کے مدد گار ہیں۔ اس کے منہ سے سندھی زبان اور بھی میٹھی لگتی ہے۔ لال پیلے رنگوں اور نقلی چمک دار ہاروں سے سجی اس کی بَیڑی (کشتی) ’بیلو ماہی‘ دراصل ایک دیسی موٹر بوٹ ہے۔ اس کا انجن مقامی طور پر تیار کردہ ہے جس کے شور میں آپس کی بات مشکل سے ہی سنائی دیتی ہے۔ اس موٹر بوٹ کو موڑنے اور کنٹرول کرنے کے لئے ہینڈل بھی دیسی ہے، شاید کسی ٹرک یا بس کا۔۔ جیرو نے مجھے بتایا، ”سائیں! میری بَیڑی میں پیٹر انجن لگا ہے اور ہینڈل بیڈ فورڈ ٹرک کا ہے۔ یہ بڑی بیڑی ہے جن میں چالیس پچاس مسافر ایک وقت میں بیٹھ سکتے ہیں۔ فی مسافر کرایہ 20 روپے ہے۔میلے کے دنوں میں خوب کمائی ہوتی ہے البتہ برسات کے دنوں میں دھندا مندا رہتا ہے۔ سائیں! سات آٹھ سو سال پہلے ایک سادھو یہاں اترا تھا۔ چالیس (40)سال تک یہاں پوجا پاٹ کرتا رہا۔ ان چالیس برسوں میں بیس (20)سال تا لپوروں کی حکومت تھی اور بیس(20) سال انگریز کی۔ یہیں شادی کی، اولاد ہوئی۔ہندو دھرم میں اس جگہ کو بڑی اہمیت ہے۔ یہاں بڑی تعداد میں ہندو ہر طرف سے آتے ہیں۔ سائیں! سندھو بادشاہ سکھر کے قریب سادھو بیلہ کے چاروں طرف چکر لگا کر جہاں چکر ختم کرتا ہے، اس مقام پر گھاٹ بنایا گیا ہے، جس کانام ’دکھ پنجنی گھاٹ‘ ہے۔ یہاں سندھو کا پانی اندر تک آتا ہے، یہاں اشنان کرنے سے ان کے عقیدے کے مطابق دکھ ختم ہو جاتے ہیں۔“

میں نے کہا، ”جیرو چاچا کچھ سندھی کے فقرے تو بولو۔“ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کہنے لگا، ”جناب! میں تو کوئی پڑھا لکھا نہیں ہوں لیکن آپ کے کہنے پر دل کی بات آپ سب سے کہہ دیتا ہوں.۔۔ اسان سندھی ماڑھوں ڈاڈا پیار اَئیں محبت کرنڑ وارا آھیوں، اساں بیشک غریب آھیونلں، پر دل جا امیر آھیوں۔ ھی دھرتی درویشن صوفین جی آھے۔ ھِتاں جا ماڑھوں ڈاڈا مھمان نواز آھن۔۔“

ہمارے پوچھے بنا ہی بولا؛ ”سائیں! امید ہے میرے کہے یہ چند فقرے آپ کو اچھے لگیں گے، اس کا مطلب کچھ یوں ہے؛ ہم سندھی لوگ بہت پیار اور محبت کرنے والے ہیں۔ ہم بے شک غریب ہیں پر دل کے امیر ہیں۔ یہ دھرتی درویشوں اور صوفیوں کی ہے۔ یہاں کے لوگ بڑے مہمان نواز ہیں۔“

جیرو کا کہا بے شک سو فی صد درست ہے۔ اس کی بات ختم ہوئی تو بیڑی بھی سادھ بیلو کے ڈیک پر آن لگی ہے۔

”روہڑی اور سکھر کے درمیان واقع جزیرے پر قائم اس مندر میں پنڈت، جوتشی، جوگی، سیاح اور زائر کی رہائش اور لنگر کا بندوبست ہے۔ دراصل یہاں 2 مندر ہیں سادھ بیلو اور دین بیلو۔ سادھ بیلو زیادہ متبرک ہے۔ اسی مندر میں باورچی خانہ اور بڑا برآمدہ ہے جبکہ دین بیلو میں سمادھی، پارک اور رشی نال مندر ہیں۔ کہتے ہیں سادہ بیلو سات (700) سو سال پہلے 1320ء میں آباد ہوئی بابا بکھنڈی مہاراج یہاں آئے۔ وہ پندرہ (15) ورش کی عمر میں ”منت“ بنے۔ جب وہ یہاں آئے ان کی عمر ساٹھ (60) برس تھی۔ اس وقت سکھر اہم تجارتی مرکز تھا۔ انہوں نے ہی یہاں ایک دھونی sage of woods روشن کی، جسے آج تک بجھنے نہیں دیا گیا ہے۔بابا بکھنڈی کو ایک روز دیوی ’انو پورنا’ Annapurnaá (اناج کی دیوی) کا خواب میں درشن ہوا۔ انہوں نے بابا جی کو ایک کمنڈل دیا اور کہا؛ ’لوگ یہاں بڑی تعداد میں آئیں گے جب تک یہ کمنڈل ہے لوگوں کے کھانے کے لئے اناج کم نہ ہوگا۔“

ہندو روایت کے مطابق تب سے یہاں لنگر کا آغاز ہوا اور آج تک یہ لنگر کبھی بند نہیں ہوا ہے۔ یہاں انو پورنا، گنیش جی مہاراج، شو شنکر کی مورتیاں بھی ہیں۔ گرنتھ صاحب اور بھگوت گیتا پڑھنے اور سننے کا الگ الگ بندوبست ہے۔ جس جگہ سنگ مرمر کا سنگھاسن (تخت) ہے وہاں 3 بڑے سایہ دار درخت ہیں جو بابا نے خود لگائے تھے۔ یہ ترشول کی شکل میں لگائے گئے ہیں۔ ایک گدی کے مشرق کی طرف، دوسرا مغربی سمت اور تیسرا عین گدی کے سامنے۔ تقریباً 180 سال گزرنے کے باوجود یہ درخت قائم ہیں اور ان کے نام برہما، وشنو اور مہیش ہیں۔(جاری ہے)

بابا بکھنڈی مہاراج کے انتقال کے وقت یہ سب جگہ اور مندر کچے تھے جو بعد میں بابا کی وصیت کے مطابق پختہ کئے گئے۔ بابا بکھنڈی کی راکھ سندھو کے پانیوں کے حوالے کی گئی تھی۔ ان کے انتقال کے بعد ہی یہاں بھی گدی نشینوں کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ ان میں سوامی اچل پرشاد، سوامی موہن داس قابل ذکر ہیں۔ موجودہ گدی نشین گوری شنکر مہاراج اور ان کا خاندان1947ء کے بٹوارے پر ہندوستان چلا گیا اور ہر سال میلے کے دنوں میں اس خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد ضرور یہاں موجود ہوتا ہے اور میلے کے دن گزار کر نذر نیاز اکٹھی کرکے واپس چلا جاتا ہے۔ مسلمان درویشوں کے سالانہ عرس کی طرح یہاں بھی زائر ہزاروں کی تعداد میں آتے ہیں، نذر نیاز دیتے گدی نشینوں کے ”غلے“ نذرانوں سے بھر جاتے ہیں۔ بابا بکھنڈی مہاراج کا سالانہ میلہ ہر سال جون کے مہینے میں منعقد ہوتا ہے جس میں ہندوستان سے بھی یاتری آتے ہیں۔ اس مندر کا انتظام سندھ وقف املاک بورڈ کے پاس ہے۔ ساھو بیلہ کی اربوں کی جائیداد ملک اور بیرون ملک ہے۔ اس مندر اور بابا بکھنڈی کے چاہنے والوں نے کابل، کوئٹہ اور بھارت کے مختلف علاقوں میں میڈیکل کالج، ہستال، اسکولز، کالجز، دھرم شالہ اور درسگاہیں قائم کر رکھی ہیں۔

”دوست! روہڑی کے قریب حضرت خضر ؒ کی (دراصل ان سے منسوب) درگاہ بھی سندھو کے بیچ واقع ہے۔ مسلمان انہیں بزرگ ہستی اور ہندو انہیں دیوتا مانتے ہیں اور انہیں ’جھولے لال‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔“

انڈس کی بلائنڈ ڈولفن دنیا کی خوبصورت آبی جان داروں میں شمار ہوتی ہے۔ کہتے ہیں اس کی شکل عورت جیسی ہی ہے۔ اسے جل پری بھی کہتے ہیں۔ مقامی زبان میں یہ بل نٹ (bull net) بھی کہلاتی ہے اور بلھن بھی۔

سندھو بتاتا ہے ”میرے اُس پار روہڑی ہے۔ درمیان میں بکھرور کا جزیرہ۔ اس جزیرے کی عسکری اہمیت رہی ہے۔ ایک اور جزیرہ بھی ہے۔ سادھو بیلو۔ ہندؤں کا مشہور مندر۔ یہاں سے کچھ دور مجھ سے 7 نہریں بھی نکالی گئی ہیں۔ سکھر بیراج واقعی ہی متاثر کن ہے لیکن اس سے بھی متاثر کن چونے کی وہ تنگ گھاٹی ہے جس سے گزرتا میں بہتا ہوں۔ یہاں میری چوڑائی محض آدھ کلو میٹر کے لگ بھگ ہوگی۔ اس شگاف میں داخل ہونے سے پہلے میں تقریباً دس (10) کلو میٹر میں پھیلا بہتا ہے۔ میں تصدیق کرتا ہوں کہ پچھلے سات سو (700) سال سے بھی زیادہ عرصہ سے میں نے اپنی اسی گزرگاہ کو ہی برقرار رکھا ہے۔“

اراضی مطالعہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سندھو مختلف زمانوں میں سکھر کے شمال مغرب جبکہ روہڑی کے جنوب مشرق سے بہتا رہا ہے جہاں سے آج کل ”سندھ ڈھورو“ اور ”سندھ واہ“ گزرتے ہیں۔ قدیم وادی سندھ میں موئن جو دڑو کے علاوہ ”لوہم داڑو“، ”جانہوں جو دڑو“، ”کوٹ آسور“ وغیرہ بستیوں کا وجود ثابت ہوتا ہے۔ وادی سندھ کی ان بستیوں کی طرح ضروی نہیں سندھو ایک ہی بڑے دھارے کی طرح بہتا ہو۔ عین ممکن ہے کہ یہ درخت کی شاخوں کی طرح پھیلا بہتا ہو۔
سکھر بیراج سے تقریباً 40 کلو میٹر دور سندھو کے مشرقی کنارے پرانی ”خیر پور“ ریاست ہے جو اب پاکستان کا حصہ اور سندھ کا اہم شہر ہے۔ میروں کے قدیم محلات اور کھجور کی پیداوار کے حوالے سے اس شہر کی خاص پہچان ہے۔ یہ شہر ”میر سہراب خاں“ نے 1783ء میں آباد کیا اور تالپور خاندان کی حکومت کا پایہ تخت رہا جو کلہوڑوں کے بعد یہاں کے حکمران ہوئے تھے۔ پہاڑ کی چوٹی پر تالپور خاندان کا تعمیر کردہ ”کوٹ ڈیجی قلعہ“ خیرپور سے پچیس (25) کلو میٹر کی مسافت پر ہے۔ اس کے علاوہ شیش محل اور فیض محل کی پر شکوہ عمارتیں اس شہر کے شاندار ماضی کی گواہ اور اس ریاست کا ٹھاٹھ باٹ اور شان یاد دلاتی ہیں۔یہی شہر حروں کے روحانی پیشواہ ”پیر مردان شاہ“ المعروف پیر پگاڑا کا بھی مسکن ہے۔ ان کی درگاہ حروں کے لئے خاص طور پر اور عام آدمی کے لئے بڑی حرمت رکھتی ہے۔ لفط ”حر“کے معنی ہیں ”آزاد“۔ ان کے روحانی پیشوا ”پیر آف پگارا“ کہلاتے ہیں، ”پیر راشداللہ مجددی“ ان کے آٹھویں روحانی پیشوا ہیں۔ ان حروں نے اپنے چھٹے روحانی پیشوا ”پیر صبغت اللہ شاہ راشدی“ کی قیادت میں انگریز کے خلاف بغاوت کی، قید ہوئے اور انگریزوں نے انہیں 20 مارچ 1943ء کو پھانسی دے دی۔ ان کو کہاں دفن کیا گیا کوئی نہیں جانتا۔ سچل (سچل کا مطلب ہے ”سچا“) سرمست کی درگاہ بھی اسی ضلع میں ہے جس پر خیرپور کے رہنے والا ہمیشہ سے ہی ناز کرتے آئے ہیں۔ سچل سرمستؒ کا شمار سندھ کے ہی نہیں بلکہ پاکستان کے نامور صوفی شعراء میں ہوتا ہے۔ آپ نے 7 زبانوں فارسی، سرائیکی، سندھی، پنجابی، عربی، بلوچی اور اردو زبانوں میں قادر الکلام شاعری کی۔میر رستم خاں تالپور نے آپ کا مقبرہ تعمیر کروایا جو خیرپور شہر سے چالیس (40) کلو میٹر ساؤتھ ویسٹ میں ہے۔ سچل سرمستؒ کے ایک اردو شعر کا مطلب کچھ یوں ہے: ”جب عشق ظاہر ہوتا ہے تو آنکھ سے آنسو بہا دیتا ہے۔ یاد رکھو! عشق تسبیح پھیرنا نہیں سکھاتا۔“ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close