پو پھٹنے تک (اردو ادب سے منتخب افسانہ)

اقبال متین

راملو کی چھوٹی سی کٹیا میں آٹھ زندگیاں سانس لیتی تھیں۔ اسی کٹیا میں انکیا کا بچپن جوانی سے جا ملا تھا۔ اسی کٹیا میں ملیا کی مسیں بھیگی تھیں۔ اسی کٹیا میں پوچی نے شرمانا سیکھا تھا۔۔ اور پھر اسی کٹیا میں انکیا کی بیوی نے دو بچے بھی جنے تھے۔۔۔ اور اب یہی بچے دن دن بھر کٹیا کے باہر ننگ دھڑنگ کھیلا کرتے تھے۔ راملو نے اسی کٹیا میں خوشیاں دیکھیں، غم سہے۔۔

دن تو کسی نہ کسی طرح گزر ہی جاتا۔ رات کو راملو اپنی بوڑھی بیوی کے ساتھ ایک کونے میں پڑ رہتا۔ دوسرے کونے میں انکیا اور اس کی بیوی اپنے دونوں بچوں کے ساتھ چمٹے رہتے۔ تیسرے کونے میں ملیّا اور پوچی اپنے سر جوڑ لیتے۔ پیٹھ کے بھائی بہن ہونے کی وجہ سے ملیا اور پوچی میں بہت پیار تھا۔ چوتھے کونے میں جہاں چولہا تھا، ایک دو مٹی کی ہانڈیاں پڑی رہتیں، جہاں آس پاس کے مریل کتے موقع پا کر پہنچ جاتے۔

راملو کے آٹھ افراد پر مشتمل خاندان کو اس کٹیا سے کوئی شکایت نہ تھی اور اگر شکایت تھی تو اس میں کٹیا کا کیا دوش تھا۔۔ دوش تھا تو راملو کا، اس کی بیوی کا، جنہوں نے ایک نہیں دو نہیں آٹھ بچوں کو اسی کٹیا میں جنم دیا تھا۔ وہ تو اللہ کی کرنی ایسی ہوئی کہ ہیضہ پھوٹ پڑا تو ایک ہی سال میں راملو کے پانچ بچے اسی کٹیا میں مر گئے۔ تین بچ گئے تو راملو اور اس کی بیوی نے پیٹ کاٹ کاٹ کر ان کو پروان چڑھایا۔ انہیں اس قابل بنایا کہ اب وہ بھی اسی کٹیا میں بچے جَن سکیں۔ ہیضے کی وبا نہ پھوٹتی اور راملو کے پانچ بچے نہ مرتے تو اسی کٹیا میں آج تیرہ زندگیاں سانس لیتیں یا سانس لینے کی خواہش میں سسکتی رہتیں۔ راملو کا دم گُھٹ جاتا۔ وہ اپنی بیوی کو افیون کھلا کر اور خود کھا کر سو رہتا یا بوکھلا کر کسی گھنے درخت کے سائے میں پناہ لیتا یا نہیں معلوم اور کیا ہوتا۔۔ یہ بھی تو عین ممکن تھا کہ اتنے افراد اس کٹیا میں سانس لیتے تو ان کی سانسوں کی گرمی ہی سے اس کٹیا کو آگ لگ جاتی اور اگر آگ نہ لگتی تو چھپر اڑ جاتا۔ راملو کے بھگوان کی کرپا تھی جو اس کے پانچ بچے ہیضے کا شکار ہو گئے اور آج راملو اپنے خاندان کے سات افراد کے ساتھ اس کٹیا میں سانس لینے کے لیے زندہ رہ گیا۔

انکیا کی بیوی آنے والی تھی، ساس سسر متفکر تھے کہ اس کٹیا میں کس طرح گزر بسر ہوگی۔۔ لیکن انکیا کی بیوی آئی تو وہ بھی نہ سوچ سکے کہ کس طرح گزر بسر کر رہی ہے اور اس نے دیکھتے ہی دیکھتے اسی کٹیا میں دو بچے جن دیے۔ اب راملو اور اس کی بیوی کے لیے بیٹے اور بہو کا کٹیا میں رہن سہن کوئی مسئلہ ہی نہ رہا۔ لیکن آج راملو اور اس کی بیوی زیادہ پریشان تھے۔ ملیا کی ننھی منی گھر والی پھوٹ پھاٹ کر اب جوان ہو گئی تھی۔ ملیا ان تبدیلیوں سے واقف تھا، اس لیے وہ اپنی جروا کو جلد ہی اپنے ساتھ لے آنا چاہتا تھا۔

پوچی نے اپنی ماں سے کئی بار کہا بھی تھا کہ ’’ملیا راتوں کو سوتا نہیں بلکہ آگ پر لوٹتا رہتا ہے، میں اس کے بستر پر آگ کی چنگاریاں ڈھونڈھتی ہوں، نوک دار کانٹے تلاش کرتی ہوں لیکن کچھ بھی تو نہیں ملتا۔ یہ چنگاریاں، یہ کانٹے ملیا کے جسم میں اندر ہی کہیں چھپے ہوئے ہیں۔ تم رامی کو بلانے کے لئے کب جا رہی ہو ماں۔‘‘

راملو کی بیوی ٹکر ٹکر بیٹی کو دیکھتی رہ جاتی۔ اس کو سنائی دیتا جیسے پوچی کہہ رہی ہے کہ ملیا کے ساتھ میں بھی تو آگ پر لوٹ رہی ہوں اور میرے بدن میں بھی سوئیاں ٹوٹ رہی ہیں۔ لیکن راملو کی بیوی کے لیے فی الوقت پوچی کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ راملو کو گھر لے آنا تھا تا کہ ملیا آگ پر نہ لوٹے۔ اور پھر ملیا نے ابھی اپنی برہمی دبا رکھی تھی۔ دو ایک بار بس یونہی کہہ دیا تھا کہ رامی کو اب لاتے ہی بنے گی۔

پچھلے روز جب وہ اس سے ملنے گیا تھا تو اس کی ساس اس کی بے اعتنائی کا شکوہ کر رہی تھی، بے رخی پر گالیاں دے رہی تھی۔ ملیا کی ماں جانتی تھی کہ ملیا اب زیادہ دیر تک انتظار نہیں کرے گا۔ کوئی بات ہوتی تو پہلے پہل پوچی کے ذریعہ کانوں میں ڈ لوا دیتا۔ شنوائی نہ ہوتی تو پھر خود ہی آندھی اور طوفان بن کر گرجنے لگا کرتا اور اسی لیے راملو اور اس کی بیوی آنے والی آندھی سے سہمے ہوئے تھے۔ آج بھی راملو کی بیوی نے ٹکر ٹکر بیٹی کو دیکھا تو اس نے کہا، ’’ماں پیپل تلے سو رہیں گے ہم۔‘‘

راملو کی بیوی نے پلٹ کر یہ نہیں پوچھا کہ پیپل تلے کتنی راتیں کٹیں گی اور کس طرح کٹیں گی۔ وہ چپ چاپ راملو کے پاس چلی گئی جو کٹیا کی پچھلی باڑھ میں جگہ جگہ سے ہٹے ہوئے پورکوں کو ٹھیک سے جما رہا ہے۔

راملو نے اپنا کام جاری رکھتے ہوئے بے دلی سے اپنی بیوی سے کہا کہ پوچی کی ماں تُو تو بالکل سٹھیا گئی ہے۔ بہو گھر کو آئے گی تو کیا ہم اپنی بیٹی کو بے آسرا کر دیں گے۔ پیپل تلے جوان بیٹی کو ساتھ لے کر کتنی راتیں باہر گزار سکیں گے اور پھر اب برسات بھی شروع ہونے والی ہے۔۔

لیکن پوچی کی ماں راملو کی ان باتوں سے مرعوب نہ ہوئی۔ وہ زیادہ تجربہ کار تھی۔ وہ سمجھتی تھی کہ کٹیا کے باہر رات گزارنی پڑے یا اندر، رامی کو بہرحال جتنا جلد ممکن ہو، اپنے ساتھ لے آنا ہے، ورنہ ان کے پہل کرنے سے پہلے ہی رامی اس کٹیا میں آ براجے گی اور اس کے ہمراہ ملیا چھوٹی چھوٹی آندھیاں بھی لے آئے گا جو کٹیا کو ہلا دیں گی۔

رامی اپنے سسرال آ گئی تھی۔ بارش کا موسم شروع ہو چکا تھا۔ تاڑ اور کھجور کے پتوں کی فراہمی کے لیے راملو اور انکیا سرگرداں تھے۔ کٹیا کے اندر بچھے ہوئے بوسیدہ ٹاٹ اٹھا کر کٹیا کے چھپر پر اڑھا دیے گئے تھے کہ حتی المقدور ٹپکنے سے محفوظ رہ سکیں۔ کٹیا کو وسیع کرنے یا ایک اور چھوٹی سی کٹیا بنا لینے کی حسرت راملو کے دل میں بہت دنوں سے تھی، لیکن بارش کا مقابلہ کرنے کے لئے وہ اپنی موجودہ کٹیا ہی پر کچھ خرچ کرنے کی گنجائش اپنے میں نہ پاتا تھا تو دوسری حسرتوں کا کیا ذکر۔۔

اپنے میکے سے آتے وقت رامی نے آدھی ہنڈی پرال کی گھاس ساتھ لے لی تھی، جو پوری کٹیا میں بچھا دی گئی تھی تاکہ دیمک سے جہاں کپڑے اور بستر محفوظ ہو جائیں، وہاں سیلی ہوئی زمین کی ٹھنڈک سے کٹیا میں رہنے والے خود کو بچا رکھیں۔ رامی کو اپنے سے زیادہ اپنی ساریوں کی چنتا تھی۔ پوچی اور انکیا کی بیوی کو اس قسم کی کوئی چنتا نہ تھی کیونکہ ان کے پاس جو ساریاں تھیں، وہ ان کے بدن سے چمٹی ہوئی تھیں اور اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہ تھی، جس کے سبب انہیں دیمک کا ڈر رہتا۔

رامی کی بات جدا تھی۔ میکے سے وہ اپنی سسرال کو نئی نویلی آئی تھی اور اسی لیے اس کے پاس تین ساریاں بھی تھیں۔ شام کے وقت وہ سیوتی اور گڈیل کے پھول اپنے جوڑے میں سجا کر، ساری بدل کر خود کو کٹیا کی رانی محسوس کرتی اور ٹھمک ٹھمک کر اٹھلا اٹھلا کر وہ اپنی بقیہ دونوں ساریوں اور چولیوں کو کٹیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں لیے لیے پھرتی۔ اپنے ٹین کی صندوق کو سو سو جتن سے ادھر ادھر رکھتی پھرتی۔ جس میں اپنی ساریوں کے علاوہ اس نے ملیا کا ایک آدھ نیم آستین کرتہ، ایک آدھ پھٹی ہوئی دھوتی، اپنا تیل اور کنگھا بھی چھپا رکھا تھا۔۔۔ پوچی کو رامی کے بناؤ سنگھار سے خوشی نہ ہوتی تو غم بھی نہ ہوتا۔ لیکن انکیا کی بیوی رامی کو بناؤ سنگھار کیے دیکھتی تو اپنے بچوں کو چھوٹے چھوٹے قصور پر بھی مارپیٹ کرتی۔ ویسے رامی سے کبھی نہ الجھتی۔

دن دن بھر تو راملو اور اس کے دونوں لڑکوں کا وقت زیادہ تر باہر ہی گزرتا۔ اس کی بیوی بھی اپنی بڑی بہو کے ساتھ کچھ نہ کچھ محنت مزدوری کے لیے باہر چلی جاتی۔ کٹیا میں اکثر پوچی اور رامی ہی رہتیں۔ پہلے پہل تو انکیا کی بیوی کو اس پر کوئی اعتراض نہ تھا کہ رامی کیوں محنت مزدوری کے لئے باہر نہیں جاتی۔ لیکن جوں جوں دن بڑھتے گئے، اس نے دبے دبے احتجاج کیا اور جوں جوں دن بڑھتے گئے، رامی پرانی ہوتی گئی، اسی کٹیا میں نئی نویلی ہونے کے ناطے جو مراعات اس کو حاصل تھیں وہ آہستہ آہستہ اس سے چھن گئیں۔

پھر گڈیل اور سیوتی کے پھولوں نے رامی کی زلفوں کی زینت بننے سے صرف اس لیے گریز کیا کہ رامی کے خوشبودار تیل کی شیشی خالی ہو چکی تھی، جس سے وہ اپنی زلفیں سنوارتی اور گڈیل اور سیوتی کے پھول اپنے پودوں سے ٹوٹ کر اس کی زلفوں تک پہنچ کر مسکراتے۔

اب رامی کو اس بات کی بھی فرصت نہ تھی کہ وہ اپنے ٹین کے صندوق کو سو سو جتن سے ادھرادھر کٹیا میں رکھتی پھرے، جس میں اس کی ساریاں محفوظ تھیں۔

رامی وہی تھی، کٹیا وہی تھی، سب کچھ وہی تھا۔ لیکن چھوٹی بہو کی حیثیت سے رامی نے اپنی ذمہ داریاں محسوس کرلی تھیں اور انکیا کی بیوی کے احتجاج پر برا مانے بغیر اپنا بوجھ خود اٹھا لینے کے لیے کٹیا سے باہر اپنا قدم نکال لیا تھا اور تیوری پر بل ڈالے بغیر عملی طور پر زندگی میں شامل ہو گئی تھی۔

شام ہوتے ہوتے سب کے سب تھکے ماندے اپنی کٹیا کو لوٹتے اور پھر رات ہوتے کٹیا میں گرم گرم سانسوں کی حدت سے جیسے دھیمی دھیمی سی آگ سلگنے لگتی۔

ایک رات طوفانی بارش تھی۔ سیلی ہوئی زمین، بھیگی ہوئی کچی دیواروں اور چھپر کے درمیان تیز تیز سانواں کی گرمی اور حدت بھی جیسے ٹھٹھر رہی تھی۔ بوسیدہ کمبلوں اور چیتھڑوں میں لپٹے ہوئے انسانی جسم ایک دوسرے میں اپنی حرارت منتقل کر کے سرد، ٹھنڈی اور یخ بستہ رات کو جھٹلانے کی ناکام کوشش میں اپنے گرم گرم جسم اور سانسوں کی حدت کے سہارے سیلی ہوئی زمین پر سکڑ رہے تھے اور رات آہستہ آہستہ بڑی گمبھیر ہوتی جارہی تھی۔

اور جب ڈھلے ہوئے صاف شفاف، نکھرے ستھرے سورج نے اپنی کرنیں، اپنی روشنی، اپنی حدت، اپنی تمازت دنیا بھر میں تقسیم کی تو بوڑھا راملو اور اس کی بیوی سسکیاں لے رہے تھے۔ کیونکہ بھائیں بھائیں کرتے ہوئے رات کے اندھیروں نے صبح ہوتے ہوتے کٹیا کی عزت اور آبرو کو چبا کر جیسے تھوک ڈالا تھا۔

انکیا رات ہی سے کہیں غائب تھا۔ جاتے وقت وہ بڑبڑا رہا تھا کہ ہم بے قصور ہیں۔ نردوش ہیں، لیکن اس زندگی سے موت بھلی ہے۔ ملیا کے مزاج کی تندی نے غصے اور نفرت کی آگ کٹیا بھر میں لگا دی تھی۔ بھیگی ہوئی کٹیا سورج کی کرنوں میں اس طرح نہار ہی تھی، جیسے اندھیرے اور اجالے سب اس کے لیے یکساں ہوں۔

لیکن کنواری پوچی کو معلوم ہو چکا تھا کہ رات کو اس کی بھابھیاں بدل گئی تھیں۔۔۔ وہ رات کو جن کے ساتھ سوئی تھیں، وہ ان کے اپنے شوہر نہ تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close