ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا کیوں سنائی گئی اور اس فیصلے کو ’عدالتی قتل‘ کیوں قرار دیا جاتا ہے؟

ویب ڈیسک

’کیہ جناب (کیا جناب)؟ حیرت سے یہ کہتے ہوئے (لاہور کے) اچھرہ تھانے کے ایس ایچ او انسپیکٹر عبدالحئی کے ہاتھ سے قلم گر گیا۔‘

سنہ 1974 میں 10 اور 11 نومبر کی رات کے آخری پہر ہونے والے اس مکالمے کے راوی اور تب قومی اسمبلی کے رکن اور تحریکِ استقلال کے سیکرٹری اطلاعات احمد رضا قصوری کے مطابق انہوں نے اپنی بات دہرائی

احمد رضا قصوری، ان کی والدہ اور خالہ چند گھنٹے پہلے ہوئے اس حملے میں بچ گئے تھے، جس میں ان کے والد شدید زخمی ہوئے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا انہیں کسی پر شک ہے تو انہوں نے اُس وقت پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا نام لیا

گزشتہ سال ایک یوٹیوب چینل ٹی سی ایم کو انٹرویو میں احمد رضا قصوری نے بتایا کہ وہ ابھی پولیس سے یہی لکھوانے کی کوشش کر رہے تھے کہ لاہور کے یونائیٹڈ کرسچین ہسپتال کے سرجن نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ ان کے والد نواب محمد احمد خان اب اس دنیا میں نہیں رہے

احمد رضا قصوری نے اس حملے کا ہدف خود کو قرار دیتے ہوئے پولیس کے سامنے اپنے بیان میں الزام ذوالفقار علی بھٹو پر دھرا تھا

احمد رضا قصوری کے مطابق انہوں نے فرد بیان کے ذریعے بھٹو کو اپنے والد کے قتل میں نامزد کر دیا اور اسی کی بنیاد پر ایف آئی آر درج ہوئی۔

اس وقت کے پنجاب پولیس کے سربراہ راؤ عبدالرشید کے مطابق احمد رضا قصوری کی طرف سے قتل کی ایف آئی آر میں بھٹو کا نام شامل کرنے کا مطالبہ انہوں نے تسلیم کیا

ان کے مطابق ”اگر یہ کوئی سازش ہوتی اور بھٹو نے کی ہوتی تو کیا ہم احمد رضا قصوری سے کہتے کہ جو چاہو ایف آئی آر دے دو“

 روٹی کپڑا مکان کا نعرہ

بھٹو اس وقت کے ڈکٹیٹر ایوب خان کی کابینہ میں شامل تھے۔ سنہ 1966ع میں جب وہ کابینہ سے مستعفی ہو کر ٹرین سے واپس لاڑکانہ جاتے ہوئے لاہور آئے تو ان کا استقبال کرنے والوں میں احمد رضا قصوری نمایاں تھے

قصوری کہتے ہیں کہ لاہور ریلوے اسٹیشن ہی پر بھٹو کے سیلون میں ان سے ملاقات ہوئی اور دوستی کا آغاز ہوا۔ پھر بھٹو کو قصور آنے کی دعوت دی گئی ”پہلے میں انہیں بابا بلھے شاہ کے مزار پر لے گیا، جہاں دستار بندی ہوئی۔ حویلی کی جانب واپسی کے دوران میں نے بھٹو سے پوچھا کہ کیا وہ ان بزرگ کے بارے میں جانتے ہیں جن کے مزار پر میں انہیں لے کر گیا تھا

بھٹو نے جواب دیا: ’بہت کم۔‘

”میں نے کہا یہ پنجاب کے بہت بڑے انقلابی تھے۔ تین سو سال انھوں نے سٹیٹس کو توڑا، ان کا کلام بہت پاورفل ہے۔ انھوں نے ایک نعرہ بلند کیا تھا کہ منگ اوے بندیا اللہ کو لوں جلی، گلی، کلی“

”بھٹو نے پوچھا اس کا کیا مطلب ہے؟ میں نے کہا: جلی ہے کپڑا، گلی روٹی ہے اور کلی مکان۔“

”بھٹو نے کہا: کیوں نہ ہم اسے اپنے منشور کا حصہ بنا لیں۔ تو یہ نعرہ قصور سے لیا گیا۔ حضرت بابا بلھے شاہ سے۔ روٹی، کپڑا اور مکان“

پھر پیپلز پارٹی کے باقاعدہ قیام سے تین دن پہلے قصور میں ان ہی کی رہائش گاہ پر بھٹو نے اعلان کیا کہ وہ ایسا کرنے جا رہے ہیں

  بھٹو پر الزام کیوں لگا ؟

دسمبر 1970 میں احمد رضا قصوری پاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر قصور سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے

انتخابات کے کچھ عرصہ بعد پارٹی کے چیئرمین سے احمد رضا قصوری کے اختلافات کا آغاز بھٹو کے اس اعلان سے ہوا کہ وہ تین مارچ 1971 کو ڈھاکہ میں بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے نہ ہی کسی اور رکنِ اسمبلی کو ایسا کرنے دیں گے۔ بعض اخباروں نے لکھا کہ ایسا کرنے والوں کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔

احمد رضا قصوری اس اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکہ پہنچ گئے لیکن یہ اجلاس منعقد نہیں ہوا۔ یہیں سے بھٹو اور قصوری کے درمیان فاصلے بڑھنے شروع ہو گئے

عقیل عباس جعفری کی تحقیق کے مطابق، جب قصوری واپس آئے تو بھٹو نے پارٹی پالیسی سے اختلاف کرنے پر قصوری سے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ طلب کر لیا لیکن قصوری نے انکار کر دیا

ان کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے یہ نشست پیپلز پارٹی کی بدولت نہیں بلکہ اپنی مقبولیت کی بنیاد پر جیتی ہے

”بھٹو نے معراج خالد، حنیف رامے اور یعقوب خان کے الزامات کی روشنی میں احمد رضا قصوری کو پارٹی رکنیت سے معطل کر دیا۔ اگلے دن قصوری نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھٹو کو پیپلز پارٹی کی چیئرمین شپ سے برطرف کرنے کا اعلان کر دیا“

”چھ جون 1971 کو پیپلز پارٹی کی مجلس عاملہ نے قصوری کو باضابطہ طور پر پارٹی کی رکنیت سے خارج کر دیا اور یوں بھٹو اور قصوری کے درمیان اختلافات کی خلیج مزید گہری ہو گئی“

 ’بھٹو، میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں‘

1972 میں جب قومی اسمبلی کے اجلاس شروع ہوئے تو احمد رضا قصوری نے پی پی پی کے حوالے سے جیتی نشست چھوڑے بغیر تحریک استقلال میں شمولیت کا اعلان کر دیا

1973 کا آئین منظوری کے لیے ایوان میں پیش ہوا تو قصوری ان تین افراد میں شامل تھے، جنہوں نے اس پر دستخط نہیں کیے۔ اسمبلی میں قصوری کی بھٹو اور پیپلز پارٹی کے خلاف تقاریر جاری رہیں

چار جون 1974 کو بھٹو نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا ”آئین پر حزب اختلاف کا شور اور واویلا بلاجواز ہے کیونکہ حزب اختلاف کے تمام ارکان نے آئین پر دستخط کیے ہیں اور یہ ایک متفقہ آئین ہے“

اس پر قصوری نے اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ”فاضل مقرر غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ میں نے آئین پر دستخط نہیں کیے۔ اس کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ پھر یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آئین پر سب نے دستخط کیے ہیں اور یہ متفقہ آئین ہے؟“

اس مداخلت اور ان ریمارکس پر بھٹو طیش میں آ گئے اور انہوں نے قصوری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چلاتے ہوئے کہا ”میں نے اس شخص کو بہت برداشت کر لیا ہے۔ یہ مجسم زہرِ قاتل ہے۔ اب ہم اس کو قطعی برداشت نہیں کریں گے“

قومی اسمبلی میں بھٹو کی اس تقریر کے کوئی پانچ ماہ بعد 11 نومبر 1974 کا واقعہ پیش آ گیا

اگلے روز یعنی 12 نومبر کو انگریزی روزنامہ ڈان کی خبر تھی کہ ’تحریک استقلال کے سربراہ اصغر خان نے لاہور میں (سیاست دان اور انسانی حقوق کے وکیل) میاں محمود علی قصوری کی رہائش گاہ پر ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ قاتلوں نے احمد رضا قصوری کو ہلاک کرنے کی کوشش کی تھی اور اس سے پہلے بھی ان پر تین بار حملہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ اب تک چوبیس سیاسی لیڈروں اور کارکنوں کو قتل کیا جا چکا ہے، جن کے قاتلوں کا سراغ نہیں ملا“

خبر کے مطابق ”محمود علی قصوری نے حکومت پر الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ اب تک قومی اسمبلی کے رکن ڈاکٹر نذیر احمد، خان عبدالصمد اچکزئی، مولانا شمس الدین، خواجہ محمد رفیق اور دوسرے (سیاسی رہنما) قاتلوں کی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سیاسی قتل کا سلسلہ بند کیا جائے“

قصوری اپنے والد کے قتل کے نو دن بعد 20 نومبر 1974 کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں سرخ رنگ کے سیال کی ایک بوتل سمیت آئے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اس بوتل میں ان کے والد کا خون ہے۔ وہ ایک خون آلود قمیض بھی ساتھ لے کر آئے اور اعلان کیا کہ حکومت کے ارکان پارلیمنٹ پر قاتلانہ حملوں کو بے نقاب کیا جائے گا

یوٹیوب چینل ٹی سی ایم کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں قصوری نے بتایا کہ انہوں نے اسمبلی میں کہا تھا کہ ’بھٹو، میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں، کیفرِ کردار تک پہنچاؤں گا۔“

پنجاب کے وزیر اعلیٰ حنیف رامے نے اس سے پہلے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے مشورے سے جسٹس شفیع الرحمٰن کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے واقعے کی تحقیقات پر مامور کیا تھا۔ اس ٹربیونل نے 26 فروری 1975 کو اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کر دی لیکن حکومت نے وہ رپورٹ منظر عام پر نہیں آنے دی اور اکتوبر 1975 میں ہی مقدمے کو قاتلوں کا سراغ نہ ملنے پر داخل دفتر کر دیا گیا

 احمد رضا قصوری کی پیپلز پارٹی میں واپسی

عقیل عباس جعفری لکھتے ہیں ”احمد رضا قصوری نے ٹربیونل میں بیان حلفی میں تسلیم کیا کہ یہ ضروری نہیں کہ حملہ وزیراعظم کے ساتھ ان کی دشمنی کے نتیجے میں ہی ہوا ہو“

”جونہی ٹربیونل کی رپورٹ مکمل ہوئی، قصوری نے وزیراعظم سے ملاقات کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔ انہیں علم تھا کہ قصور پیپلزپارٹی کا مضبوط گڑھ ہے اور وہ پیپلزپارٹی کی مدد کے بغیر انتخابات میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ بھٹو نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا“

”قصوری نے وزیراعظم کو رقت آمیز خطوط لکھے۔ وزیراعظم نے آخرکار قصوری کو پارٹی کی صفوں واپس لینے پر رضامندی کا اظہار کر دیا“


”چھ اپریل 1976 کو انھوں نے بیگم نصرت بھٹو سے ملاقات میں ان سے درخواست کی کہ وہ پارٹی میں ان کی واپسی کے موقعے پر اپنی موجودگی سے عزت بخشیں“

”اگلے دن انھوں نے اپنی ماڈل ٹاؤن لاہور کی قیام گاہ پر کارکنوں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی میں اپنی دوبارہ شمولیت کے فیصلے کا اعلان کر دیا“

”اس استقبالیے میں انھوں نے وزیراعظم کی بے حد تعریف کی۔ ان کی والدہ (بیگم نواب محمد احمد خان قصوری) نے سر عام اعلان کیا کہ وہ وزیراعظم پر اپنے تمام بیٹے قربان کر دیں گی کیونکہ وزیراعظم بھٹو کے بغیر پاکستان باقی نہیں رہے گا“

قصوری نے جنوری 1977 میں قومی اسمبلی میں وزیراعظم کی زرعی اصلاحات کی بھی تعریف کی

بہرحال مارچ 1977 کے انتخابات کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی نے احمد رضا قصوری کو ٹکٹ نہیں دیا۔ پارٹی کے پارلیمانی بورڈ نے ان کو ’متلون مزاج‘ قرار دیا۔

 بھٹو کو کس مقدمے میں سزا ہوئی؟

پانچ جولائی1977 کو جنرل ضیاءالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا

احمد رضا قصوری کے مطابق انہوں نے لگ بھگ ایک ہفتے بعد لاہور کے سیشن جج کی عدالت میں نواب محمد احمد قصوری کے قتل کا استغاثہ دائر کر دیا ”کچھ دنوں بعد میں نے ہائی کورٹ میں درخواست دی کہ ملزمان طاقتور ہیں، اس لیے عدالت اپنی اوریجنل کریمینل جوریسڈکشن میں اس مقدمے کو اپنے پاس ٹرانسفر کر لے“

”ہائیکورٹ نے ساتھ ایف آئی آر لگی دیکھ کر ایڈووکیٹ جنرل کو بلایا۔ ان کی بجائے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل راشد عزیز خان پیش ہوئے جنہوں نے اپنے کلائنٹ، پنجاب حکومت، سے رہنمائی لینے کے لیے پندرہ دن کی مہلت مانگی۔ پندرہ دن بعد انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ہم کیس لے کر آ رہے ہیں۔ تو ہم نے اپنا استغاثہ اس میں ضم کر دیا“

ذوالفقار علی بھٹو کو 3 ستمبر1977کو پہلی مرتبہ تعزیراتِ پاکستان کے تحت ’قتل کی سازش‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن دس روز بعد ان کی ضمانت ہو گئی

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس کے ایم صمدانی نے 13 ستمبر کو ثبوتوں کو ’متضاد اور نامکمل‘ قرار دیتے ہوئے بھٹو کی درخواست ضمانت منظور کی

17 ستمبر کو نواب محمد احمد قصوری کے قتل میں انہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا لیکن اس بار مارشل لا قوانین کے تحت اور پھر ایک ماہ بعد بھٹو کے ٹرائل کا آغاز کیا گیا

 بھٹو کو سزا سنانے والے جج، جو متنازع بنے

صحافی سید صفدر گردیزی کی تحقیق ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے اس وقت کے قائم مقام چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین نے اپنی سربراہی میں جسٹس ذکی الدین پال، جسٹس ایم ایس ایچ قریشی، جسٹس آفتاب حسین اور جسٹس گل باز خان پر مشتمل پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا اور بھٹو کو ضمانت پر رہا کرنے والے جسٹس صمدانی کو بینچ سے باہر رکھا گیا

ماہرِ قانون حامد خان ایڈووکیٹ اپنی کتاب ’پاکستان کی آئینی و سیاسی تاریخ‘ میں لکھتے ہیں ”مولوی مشتاق نے بینچ کا انتخاب بہت احتیاط سے کیا۔ ذکی الدین پال بھٹو کے سخت مخالف تھے۔ آفتاب حسین، مولوی مشتاق کے منظورِ نظر تھے اور انہوں نے ان ہی کے مطابق چلنا تھا۔ باقی دو ججز اختلافی فیصلے نہ لکھنے کی وجہ سے مشہور تھے“

حامد خان ایڈووکیٹ کے مطابق ”مولوی مشتاق کا بھٹو سے ذاتی عناد اور نفرت ڈھکی چھپی نہ تھی۔ ان کے دور میں لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بننے کی جنون کی حد تک خواہش میں انہوں نے سپریم کورٹ کا جج بننا بھی قبول نہ کیا۔ بھٹو کی حکومت نے ان سے آٹھ سال جونیئر جسٹس اسلم ریاض کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بنایا“

انھوں نے استعفیٰ نہ دیا مگر بھٹو کے خلاف دل میں مستقل عناد پال لیا۔ ضیاءالحق نے اس ذاتی رنجش کا فائدہ اٹھانے کے لیے انہیں قائم مقام چیف جسٹس بنایا۔ بھٹو ان کی نفرت سے واقف تھے، اس لیے انہوں نے ٹرائل کورٹ کا بائیکاٹ کر دیا۔ مقدمے کی منتقلی کی ان کی درخواست کو بھی مولوی مشتاق نے اپنے چیمبر میں سماعت کے بعد مسترد کر دیا

فیڈرل سکیورٹی فورس کے دیگر چار اہلکاروں کا ٹرائل بھی اسی مقدمے میں ہو رہا تھا۔ ابتدا میں کورٹ کی کارروائی عام لوگوں کے لیے کھلی تھی مگر 25 جنوری 1978 کے بعد اسے خفیہ قرار دے دیا گیا

18 مارچ 1978 کو ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں تمام ملزمان کو مجرمانہ سازش اور قتل کے الزام میں سزائے موت سنا دی

 متنازع فیصلہ

عدالتی تاریخ میں یہ فیصلہ قانونی تضادات کا مجموعہ تھا۔

سزا کے اعلان کے بعد کسی مصنف کے نام کے بغیر ’نیشنل کمیٹی کراچی‘ کی جانب سے ’بھٹو دور حکومت اور مقدمہ کے حقائق‘ کے عنوان سے 82 صفحوں پر مشتمل ایک کتابچہ شائع کیا گیا

کتابچے کے تعارف میں لکھا گیا کہ اس کے پہلے حصے میں ’بھٹو کے دور اقتدار کی چند جھلکیاں ہیں تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ ان کی نظر میں قانون، اداروں اور لوگوں کے شہری اور بنیادی حقوق کی کیا وقعت تھی‘ اور دوسرے حصے میں ’ان فوجداری کے عام قوانین اور ضابطوں کا ذکر ہے جن کے تحت کارروائی کی گئی۔‘

کتابچے کی زبان اور ترتیب صاف بتا رہی تھی کہ اسے فیصلے اور سرکار کے دفاع اور تحسین کی غرض سے چھاپا گیا

ملک اور بیرونِ ملک کئی ملکوں کے سربراہوں کی جانب سے رحم کی اپیلوں کے تناظر میں 26 مارچ 1978 کو روزنامہ ’دی سن‘ میں سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے حوالے سے ’بیوہ کی اپیل‘ شائع کی گئی

راولپنڈی ڈیٹ لائن سے یہ خبر یوں تھی: ”نواب محمد احمد خان کی بیگم نے آج ایک اپیل جاری کی ہے، جس کا عنوان ہے ’انصاف ہی رحم ہے۔ انصاف سے روگردانی رحم نہیں۔‘ اس کا آخری جملہ تھا: ’خدا کے واسطے اس بدی کا خاتمہ کر دو تاکہ قانون کے پابند شہری امن اور سکون سے زندہ رہ سکیں۔“

سپریم کورٹ نے 6 فروری 1979 کو چار اور تین کے تناسب سے منقسم فیصلے میں ہائی کورٹ کی سزا کو بحال رکھا

اس فیصلے سے تین ججوں جسٹس کرم الٰہی چوہان، جسٹس محمد اکرم اور جسٹس نسیم حسن شاہ نے اتفاق کیا جبکہ جسٹس صفدر شاہ، جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس محمد حلیم نے اختلافی نوٹ لکھے۔ جسٹس انوارالحق نے کاسٹنگ ووٹ کا حق استعمال کرکے فیصلے پر عملدرآمد کی راہ ہموار کر دی

فیصلہ دینے والا بینچ ابتدا میں نو ججوں پر مشتمل تھا لیکن تکنیکی انداز میں دو ججوں کو مطلوبہ فیصلے کی راہ ہموار کرنے کے لیے بینچ سے الگ کر دیا گیا

حامد خان کے مطابق ’ایک جج جسٹس قیصر خان کو مقدمے کی سماعت تک بینچ میں ایڈہاک جج کے طور پر شامل رکھا جانا چاہیے تھا۔ ہمارا آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ ایسا نہ کرنے کی وجہ دورانِ سماعت ٹرائل کورٹ کے بارے میں ان کے مخالفانہ خیالات کا اظہار تھا۔‘

حامد خان لکھتے ہیں ”بیماری سے صحتیابی کے باوجود دوسرے جج جسٹس وحید الدین کو بینچ میں شامل رہنے کی اجازت نہ دی گئی حالانکہ انہوں نے اس کی استدعا بھی کی تھی۔ چیف جسٹس نے ان کا ارادہ جان لیا تھا کہ وہ بھٹو کی رہائی کے حق میں ووٹ دیں گے“

جیو نیوز کے پروگرام ’جوابدہ‘ کے لیے سابق جسٹس نسیم حسن شاہ کا انٹرویو کرنے والے صحافی افتخار احمد بتاتے ہیں ”جسٹس نسیم حسن شاہ کا موقف یہ تھا کہ بھٹو صاحب کی لیگل ٹیم نے پوری محنت نہیں کی ہوئی تھی اور اسی بنا پر وہ یہ مقدمہ ہار گئے۔ عمومی طور پر انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ جج دباؤ میں تھے“

اس کے ساتھ ساتھ افتخار احمد کا کہنا تھا ”ہمیں اس ٹرائل میں جسٹس مشتاق حسین اور جسٹس انوار الحق کے بھٹو کے خلاف عناد کو سمجھنا ہوگا

”مولوی مشتاق حسین سمجھتے تھے کہ جسٹس ریاض حسین کی بجائے انہیں چیف جسٹس بننا چاہیے تھا اور بھٹو صاحب نے ان کے ساتھ زیادتی کی

”اسی طرح بھٹو صاحب نے چھٹی آئینی ترمیم کے ذریعے جسٹس محمد یعقوب علی خان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی تھی، جس کی بنا پر جسٹس انوار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نہ بن سکے

”اس کا انہیں بہت دکھ ہوا۔ جب بھٹو کی حکومت ختم ہوئی تو ضیاءالحق نے جسٹس یعقوب کو جبری ریٹائر کر کے انہیں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا۔ سپریم کورٹ میں بھٹو صاحب کی اپیل جس بینچ نے سنی اس کی سربراہی چیف جسٹس انوار کر رہے تھے“

ذوالفقار علی بھٹو کے وکیل یحییٰ بختیار کی نظر ثانی کی اپیل بھی مسترد کر دی گئی، تاہم اس میں صدر کے پاس رحم کے اختیار کو استعمال کرنے کا راستہ دکھایا گیا

رحم کی درخواست کے بارے میں اس وقت کے سیکریٹری برائے امورِ داخلہ روئیداد خان اپنی کتاب ’پاکستان انقلاب کے دہانے پر‘ میں لکھتے ہیں ”یکم اپریل 1979 کو وزارت قانون کے جوائنٹ سیکریٹری ارشاد خان اور جنرل کے ایم عارف بھٹو کیس کی سمری لے کر ضیاءالحق کے پاس گئے“

روائیداد خان کے مطابق ارشاد خان نے انھیں بتایا ”جب وہ سمری لے کر صدر کے پاس گئے تو صدر نے رحم کی عرضداشت کو پڑھنا تک گوارا نہیں کیا اور بغیر پڑھے ہی مسترد کر دیا“

ملک کے پہلے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 4 اپریل 1979 کو رات کے دوسرے پہر پھانسی دے دی گئی

سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق اس تناظر میں کہ ’اگر بھٹو صاحب اپنی مقبولیت کے بل پر دوبارہ آگئے تو آئین میں بغاوت کی شق، آرٹیکل چھ، کے تحت ضیا الحق کا ٹرائل کریں گے، یہ کہا جاتا تھا کہ قبر ایک ہے اور بندے دو ہیں۔‘

’چنانچہ یہ سزا اس طور سے طے شدہ تھی کہ ضیا الحق نے یقینی بنایا کہ بھٹو کو سزا ہو تاکہ وہ خود بچ جائیں اور ان کا اقتدار بھی بچ جائے۔‘

افتخار احمد پیپلزپارٹی کے بانی اراکین میں سے ہیں۔ اس سزا سے ان کے خیال میں ’جمہوری عمل رک گیا۔ اس سیاسی پارٹی کو بدترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے کارکنوں کو جیلوں میں جانا پڑا، تشدد گاہوں میں جانا پڑا، کوڑے کھانا پڑے۔ بہت سے کارکنوں کو ملک چھوڑنا پڑا اور یہ پاکستان میں جمہوری عمل کے خلاف ایک بڑی گھناؤنی سازش کا آغاز تھا۔‘

سیاسی تجزیہ کار ماجد نظامی کے مطابق اس کے بعد ملک میں سیاست یکسر تبدیل ہو گئی ’سیاسی جماعتوں کے مابین نفرتوں میں شدت آ گئی۔ بھٹو اور اینٹی بھٹو دو کیمپ بن گئے اور ریاست کو بطور ِتاوان پانچ مرتبہ صوبائی حکومت اور تین مرتبہ وفاقی حکومت پیپلزپارٹی کو دینا پڑی۔‘

بھٹو کیس: صدارتی ریفرنس کب دائر ہوا، اس میں کیا استدعا کی گئی؟

سپریم کورٹ کے اصل فیصلے کو بعد کے کسی بھی مقدمے میں نظیر کے طور پر پیش نہیں کیا گیا۔ سزا پر عمل درآمد کے تقریباً 32 سال بعد سنہ 2011 میں اس وقت کے صدر اور پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ایک ریفرنس میں بھٹو کے ٹرائل اور پھانسی پر نظرثانی کے حوالے سے عدالت سے رائے طلب کی گئی۔

جسٹس نسیم حسن شاہ کے ججوں پر دباؤ کے بیان کو بنیاد بنا کر بھیجا گیا‏ یہ صدارتی ریفرنس پانچ سوالات پر مبنی تھا۔

پہلا سوال یہ تھا کہ کیا بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا؟

دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟

تیسرا سوال یہ تھا کہ کیا بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانبدارانہ نہیں تھا؟

چوتھا سوال یہ تھا کہ کیا بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟

پانچواں سوال یہ تھا کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟

اس صدارتی ریفرنس پر اب تک سپریم کورٹ میں چھ سماعتیں ہو چکی ہیں۔ پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو اور آخری 12 نومبر 2012 کو ہوئی۔

پہلی پانچ سماعتیں سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کیں جبکہ آخری سماعت 9 رکنی لارجر بینچ نے کی۔

ایڈووکیٹ بابر اعوان نے ابتدا میں وفاقی حکومت کی نمائندگی کی لیکن بعد میں عدالت کی تنقید کے باعث انھیں معطل کر دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے وکیل اعتزاز احسن بھی پارٹی رہنما اقبال حیدر کی نماز جنازہ کی وجہ سے آخری سماعت میں شریک نہ ہو سکے۔

سپریم کورٹ نے معاونت کے لیے کئی قانونی ماہرین کو بھی نامزد کیا تھا جن میں سے کچھ انتقال کر چکے ہیں۔

پیپلز پارٹی نے اس سزا کو ہمیشہ ہی ایک عدالتی قتل قرار دیا مگر اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔

ماجد نظامی کے مطابق ’پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے شاید اس لیے اس پر کارروائی نہیں کی کیونکہ اس کے ساتھ بہت سے اگر مگر وابستہ ہیں اور بنیادی سوال یہی تھا کہ اگر بھٹو کے کہنے پر یہ قتل نہیں ہوا تو کس کے کہنے پر ہوا اور اسے کیا سزا ملنی چاہیے۔ تو یہ مقدمہ ری اوپن ہو جانا تھا۔اور ری اوپن ہونے میں بہت سے مسائل تھے اور ہیں۔‘

’اکثر لوگ فوت ہو چکے ہیں، کئی اداروں کے لوگ متنازع ہو جانا تھے تو اس طرح کے کئی سوالات تھے۔ تو ایک لحاظ سے یہ ریفرنس پوائنٹ سکورنگ ہی تھا۔‘

بھٹو کے خلاف بنیادی مدعی احمد رضا قصوری نے کیس کو دوبارہ کھولنے کی مخالفت کی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ ماجد نظامی کا کہنا تھا کہ ’بھٹو کے دور میں قتل ہونے والے دیگر سیاسی رہنماؤں کی جماعتوں کی طرف سے بھی بیانات آنے لگے۔‘

’جب یہ ریفرنس فائل ہوا تو کہا گیا کہ سیاسی بنیادوں پر قتل کیے جانے والے رہنماؤں کے مقدمات بھی دوبارہ سنے جائیں۔ تو شاید اس وقت کی عدلیہ کے ذہن میں آیا ہو کہ پھر یہ تمام گڑے مردے پھر اکھاڑنا پڑیں۔‘

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل ایک نو رکنی بینچ نے 12 دسمبر کو ریفرنس کی سماعت کی، اگلی سماعت جنوری میں ہوگی۔

ماجد نظامی کے مطابق ’اگر اس ریفرنس پر فیصلہ ہوا تو اس کی حیثیت علامتی ہی ہوگی۔‘ افتخار احمد کا کہنا ہے کہ ’یہ تاریخ کی حقیقت کی درستی ہو گی‘ جبکہ سہیل وڑائچ مانتے ہیں کہ ’فیصلے کی علامتی اور تاریخی حیثیت ہو گی کہ عدلیہ پر سے سیاہ دھبہ دھل جائے گا۔‘

نوٹ: اس فیچر کی تیاری میں صحافی و محقق وقار مصطفیٰ کے بی بی سی اردو میں شائع ہونے والے ایک مضمون سے مدد لی گئی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close