اسرائیل: عوام کے مظاہرے، حکومت پر دباؤ، حکام میں حکمت عملی پر اختلافات۔۔

ویب ڈیسک

تقریباً چار ماہ کی بے رحم جارحیت کے بعد، غزہ پر اسرائیل کی ظالمانہ بمباری میں 25 ہزار سے زائد فلسطینی جان سے جا چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے اور تقریباً بیس لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کے ماتحت ایجنسی کہہ چکی ہے کہ غزہ جنگ کے سب سے زیادہ متاثرہ خواتین اور بچے ہیں۔ ایجنسی کا کہنا ہے کہ جنگ میں اب تک 16 ہزار سے زائد بچے اور خواتین کی اموات ہوئی ہیں۔

دوسری جانب اسرائیلی فوج اب بھی طے کردہ اہداف حماس کا مکمل خاتمہ اور 100 یرغمالوں کی بازیابی میں کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ تاہم اسرائیلی حکام مسلسل کہہ رہے ہیں کہ حماس کے خلاف جنگ کئی ماہ تک جاری رہ سکتی ہے۔

اسرائیلی کی انتہائی سست پیش رفت اور غزہ میں عسکری تنظیموں کے ہاتھوں یرغمال افراد کی بازیابی نہ ہونے کے سبب اسرائیل میں عام شہریوں اور ان کے رہنماؤں میں بھی پالیسی پر تقسیم نظر آتی ہے اور اب یہ منقسم رائے اختلافات کا روپ دھار رہی ہے۔

امریکہ اسرائیل کی سفارتی سطح پر بھر پور حمایت کے ساتھ ساتھ اس کی عسکری مدد بھی کر رہا ہے۔ البتہ وہ اسرائیلی حکام کو عام فلسطینیوں کے جانی نقصان اور غزہ میں زیادہ سے زیادہ امداد کی فراہمی کے لیے اسرائیل کو قائل نہیں کر سکا ہے۔

اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ اور عالمی برادری کے دو ریاستی حل کو مسلسل مسترد کرتے رہے ہیں۔

غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک اسرائیلی فوج کے مطابق 500 سے زائد اہلکار ہلاک ہوئے ہیں جن میں 195 اہلکار زمینی کارروائی شروع ہونے کے بعد مارے گئے ہیں۔

غزہ جنگ طویل ہونے اور یرغمالوں کی عدم بازیابی کے ساتھ ساتھ اسرائیل میں حکومت سے مستعفی ہونے اور نئے انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ بھی سامنے آ رہا ہے۔

حماس پہلے ہی اعلان کر چکی ہے کہ وہ مکمل جنگ بندی تک مزید کسی یرغمالی کو رہا نہیں کرے گی۔

اسرائیلیوں کی ایک بڑی تعداد کی جانب سے حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ حماس سے اسرائیلی جیلوں سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے یرغمالوں کی واپسی کا معاہدہ کرے۔ اسی طرز کا عارضی معاہدہ نومبر میں بھی کیا گیا تھا۔

ہفتے کو اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں ہزاروں افراد نے مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ سے قیدوں کی واپسی اور اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کو معزول کرنے کے لیے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کیا۔

مظاہرین نے شہر کے ہبیما اسکوائر کی طرف مارچ کیا، کچھ نے نتن یاہو کو ’برائی کا چہرہ‘ قرار دیتے ہوئے ’فوری انتخابات‘ کا مطالبہ کیا۔

قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین حیفہ اور مقبوضہ بیت المقدس میں وزیراعظم کی رہائش گاہ کے باہر بھی جمع ہوئے۔

حماس کی جانب سے پیر کو مزید دو قیدیوں کی موت کے اعلان کے بعد نتن یاہو پر شدید دباؤ ہے کہ وہ سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے قیدی بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کو واپس لائیں۔

اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں مارے گئے قیدی ایلون شمریز کے والد اوی لولو شمریز نے تل ابیب میں اے ایف پی کو بتایا کہ نیتن یاہو کی جنگی کابینہ تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔

انہوں نے کہا ”جس طرح ہم کر رہے ہیں، تمام قیدی مر جائیں گے. انہیں رہا کرانے میں ابھی بھی تاخیر نہیں ہوئی۔“

مظاہرے میں شامل ایک اور شخص یل نیو نے کہا کہ اسرائیل کو ملک کی سمت درست کرنے کے لیے ایک نئی حکومت کی اشد ضرورت ہے۔

مظاہرین میں شامل ایک وکیل، ڈور اینڈوف نے کہا کہ جنگ روکنی اور قیدیوں کو واپس لانا چاہیے۔

اینڈوف نے نیتن یاہو کے بارے میں کہا ”وہ واقعی چاہتے ہیں کہ یہ جنگ جاری رہے۔ ہم جنگ سات اکتوبر کو پہلے ہی ہار چکے ہیں جب ان لوگوں کو قیدی بنایا گیا تھا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا خاندان، ہمارے قیدی کیے ہوئے لوگ گھر واپس آئیں۔“

مظاہرے میں شریک 69 سالہ یائر کاٹز کا کہنا تھا، ”ان کے زہریلے اتحاد کے علاوہ ملک میں ہر کوئی جانتا ہے کہ ان کے فیصلے ملک کی بھلائی کے لیے نہیں ہیں، وہ صرف عہدے پر رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ م سب چاہتے ہیں کہ وہ استعفیٰ دیں لیکن وہ کبھی بھی اپنے طور پر ایسا نہیں کریں گے۔“

دوسری جانب وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی حکومت میں شامل قدامت پسند اتحادی ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کو غزہ سے کہیں اور منتقل ہونے کے لیے کارروائی تیز کریں جب کہ غزہ میں بھی یہودیوں کی آباد کاری کے لیے نئی بستیاں بنائی جائیں۔

جبکہ نتن یاہو کی اتحادی حکومت کو جنگ سے نمٹنے کے طریقہ کار پر حریف سیاست دانوں اور ناقدین کی جانب سے مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اعلیٰ اسرائیلی عہدیداروں کے درمیان اب اس بارے میں اختلافات ابھر کر سامنے آ رہے ہیں کہ غزہ میں عسکریت پسند گروپ حماس کے خلاف جنگ کس طرح لڑی جائے۔

اسرائیل کی جنگی کابینہ کے ایک رکن نے یرغمالوں کو رہا کرانے کے لیے اختیار کی جانے والی حکمت عملی کے بارے میں شک و شبہے کا اظہار کیا ہے۔

اسرائیل کی جنگی کابینہ کے چار ارکان میں سے ایک، سابق فوجی سربراہ گاڈی آئیزن کوٹ نے جمعرات کو دیر گئے کہا کہ صرف جنگ بندی کے سمجھوتے کے ذریعے ہی ان درجنوں یرغمالوں کی رہائی حاصل کی جا سکتی ہے، جن کو اب بھی حماس نے غزہ میں رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے ان دعوؤں کو خام خیالی کہہ کر مسترد کر دیا کہ یرغمالوں کو دوسرے طریقوں سے بھی آزاد کرایا جا سکتا ہے۔

یہ اس مسئلے پر آئیزن کوٹ کا پہلا پبلک بیان تھا، جو اعلیٰ اسرائیلی عہدیداروں کے درمیان حماس کے خلاف جنگ کے طریقہ کار اور اس کی سمت کے تعین کے بارے اختلافات کی جانب تازہ ترین اشارہ ہے۔ یہ جنگ اب چوتھے ماہ میں داخل ہو چکی ہے۔

دریں اثناء علاقے میں مواصلات کا بلیک آؤٹ جمعے کو ساتویں دن میں داخل ہو گیا۔ یہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک کا طویل ترین بلیک آؤٹ ہے۔

امریکہ کی جانب سے مسئلے کے حل کے لیے فلسطینی ریاست کے قیام پر اصرار کے باوجود اسرائیلی وزیر اعظم دو ریاستی حل کی مخالفت پر قائم ہیں۔

نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوآو گیلانٹ کہہ چکے ہیں کہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک حماس کو کچل نہ دیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف فوجی کارروائی کے ذریعے ہی یرغمالوں کو رہا کرایا جا سکتا ہے۔

حماس، یرغمالوں کی رہائی پر بات کرنے سے قبل جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ یرغمالوں کی رہائی کے بدلے ان ہزاروں فلسطینیوں کو رہا کیا جائے جنہیں اسرائیل نے قید کر رکھا ہے۔

مبصرین نے یہ سوال اٹھانا شروع کر دیا ہے کہ کیا ایسے میں نیتن یاہو کے مقاصد حقیقت پسندانہ ہیں جب کہ جنگ کی رفتار سست ہے۔ عالمی سطح پر نکتہ چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی عالمی عدالت میں اسرائیل پر نسل کشی کا الزام عائد کیا گیا ہے

نیتن یاہو کے مخالفین، ان پر بعد از جنگ کے منظر نامے پر تبادلہ خیال میں تاخیر کا الزام عائد کرتے ہیں تاکہ حکومت کی ناکامیوں کے بارے میں منڈلاتی ہوئی تحقیقات سے بچ سکیں۔ اپنے اتحاد کو برقرار رکھ سکیں اور انتخابات کو ملتوی کر سکیں۔

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق نیتن یاہو کی مقبولیت میں، جن پر بدعنوانیوں کے الزامات میں مقدمہ چل رہا ہے، کمی ہوئی ہے۔

اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے فلسطینی ریاست کے تصور کی مخالفت دگنی کر دی، جس سے ان کے بین الاقوامی اتحادی جو بائیڈن کے ساتھ واضح اختلافات میں اضافہ ہوا ہے۔

فلسطینی ریاست کے مستقبل کے حوالے سے امریکی حکومت اور دنیا بھر کے اتحادیوں کے دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے نتن یاہو نے ہفتے کے آخر میں جو بائیڈن سے ٹیلی فون پر بات چیت کے بعد عوامی سطح پر ان سے اختلاف کیا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے اپنی بات چیت کے بارے میں مختلف خیالات کا اظہار کیا ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا، ’صدر بائیڈن کے ساتھ بات چیت میں وزیراعظم نتن یاہو نے اپنی اس پالیسی کا اعادہ کیا کہ حماس کے خاتمے کے بعد اسرائیل کا غزہ پر سکیورٹی کنٹرول برقرار رکھنا ضروری ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ غزہ اسرائیل کے لیے مزید خطرہ نہ رہے۔ یہ مطالبہ فلسطینی خودمختاری سے متصادم ہے۔‘

اس بیان سے چند گھنٹے قبل صدر بائیڈن کی جانب سے اسی بات چیت کے بارے میں کہا گیا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ نتن یاہو کی قیادت میں آزاد فلسطین کے قیام کا امکان موجود ہے۔

جمعے کو اپنی انتظامیہ کے موقف پر بات کرتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا کہ ’دو ریاستی حل کی کئی اقسام ہیں‘ اور جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا نتن یاہو کے دور اقتدار میں دو ریاستی حل ناممکن ہے تو بائیڈن نے جواب دیا کہ ’نہیں، ایسا نہیں ہے۔‘

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر ایک پوسٹ میں نتن یاہو نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اسرائیل کو ’اردن کے مغرب میں پورے علاقے پر سیکورٹی کنٹرول‘ برقرار رکھنا ہوگا۔ اس میں اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے کا علاقہ بھی شامل ہے۔

جو بائیڈن اور نتن یاہو کی تقریباً ایک ماہ میں پہلی بات چیت کے بعد ان بیانات سے امریکہ اور برطانیہ کے ان اتحادیوں کے درمیان واضح دراڑیں نظر آتی ہیں جنہوں نے حماس کے خلاف جارحیت میں غزہ پر اسرائیلی فوج کی بمباری کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینیوں کی اموات کے بعد تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

برطانوی حکومت کے ایک ترجمان نے بھی نتن یاہو کے بیان کو ’مایوس کن‘ قرار دیا اور دو ریاستی حل کی حمایت کا اعادہ کیا۔

انہوں نے کہا، ’برطانیہ کا موقف بالکل واضح ہے۔ دو ریاستی حل، جس میں ایک قابل عمل اور خودمختار فلسطینی ریاست ایک محفوظ اسرائیل کے ساتھ ہو، پائیدار امن کا بہترین راستہ ہے۔‘

امریکی صدر جنہوں نے غزہ میں اسرائیل کی زمینی جارحیت کے آغاز سے ہی سب سے زیادہ غیر مشروط حمایت کی پیش کش کی اور تحمل کا مطالبہ کیا اور اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ غزہ کی تعمیر نو کا حل ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہونا چاہیے۔

یہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب نتن یاہو کو اندرون ملک دباؤ کا سامنا ہے کیونکہ ہزاروں اسرائیلی ہفتے کو تل ابیب کے وسطی چوک پر جمع ہوئے اور نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔

حماس سے اسرائیلی قصبے کو خالی کرانے کی کوشش میں ہلاک ہونے والے اسرائیلی فوجی کی بہن نوم ایلون نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’سات اکتوبر کو ہمیں تنہا چھوڑنے والی حکومت ہمیں، شمالی اور جنوبی (سرحدوں) سے نکالے گئے افراد، متاثرین کے اہل خانہ، محافظ، قیدیوں کو ہر روز تنہا چھوڑ رہی ہے۔‘

انہوں نے اسٹیج سے کہا، ’تبدیلی کی طاقت ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اس حکومت کو گھر جانا چاہیے۔ فوراً!‘

حماس اور دیگر عسکریت پسندوں کی قید میں موجود 100 سے زائد افراد کے اہلِ خانہ کے ساتھ بہت سارے دیگر لوگوں نے بھی وزیراعظم ہاؤس کے باہر مظاہرہ کیا۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ غزہ میں اسرائیلی فوجی تشدد سے قیدیوں کی زندگیاں مزید خطرے میں پڑ جائیں گی۔

اسرائیل کے شہر حیفا میں درجنوں جارحیت مخالف مظاہرین جمع ہوئے، جنہوں نے ’نسل کشی بند کرو‘ کے بینرز اٹھا رکھے تھے۔ پلے کارڈز کو ضبط کرنے کی کوشش کرنے والی پولیس کے ساتھ ان کی جھڑپیں بھی ہوئیں۔

جارحیت کے زمانے میں ان کی ’اتحادی‘ کابینہ میں بھی تقسیم واضح ہو گئی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ نتن یاہو حماس کے خلاف تنازع کو بڑھا کر اور غزہ میں جارحیت کے بعد کے منظرنامے کے بارے میں کابینہ کی سطح پر بحث ٹال کر اپنے دائیں بازو کے حکمران اتحاد کے ارکان کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تقریباً چار ماہ کی جارحیت کے بعد، غزہ پر اسرائیلی بمباری میں تقریباً 25 ہزار فلسطینی جان سے جا چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے اور تقریباً 20 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا ہے اور اب بہت زیادہ افراد والے کیمپوں میں بھوک اور بیماری پھیل رہی ہے۔

یہ جارحیت مشرق وسطیٰ میں بڑے پیمانے پر بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے اور دیگر عسکریت پسند گروہ امریکی اور اسرائیلی اہداف پر حملے کر رہے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close