رام مندر اور پرن پرتشٹھا: ایک بُت کو’بھگوان‘ کیسے بنایا جاتا ہے؟

ویب ڈیسک

بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ایودھیا میں رام مندر کا باقاعدہ افتتاح کر دیا ہے۔ پیر کو مندر میں بھگوان کی مورتی کی رونمائی کی تقریب ’پران پرتشٹھا‘ کے موقع پر آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت سمیت کئی اعلیٰ شخصیات موجود تھیں۔

سنہرے رنگ کے روایتی لباس میں مودی نے 50 میٹر (160 فٹ) طویل مندر کے وسط میں ہندو دیوتا رام کی سیاہ رنگ کے پتھر سے بنی مورتی کی نقاب کشائی کی۔ یہ مورتی اس مقام پر بنائی گئی ہے جہاں صدیوں تک مسجد کا وجود رہا، جسے ان کی پارٹی کے انتہا پسندوں نے اکسائے جانے پر 1992 میں منہدم کر دیا۔

مندر کے افتتاح کے موقعے پر اس کے باہر سڑکوں پر موجود موجود ہزاروں ہندوؤں نے جھنڈے لہرائے اور مذہبی نعرے لگائے۔ اس موقعے پر سَنکھ اور ڈھول بھی بجائے گئے۔ فوجی ہیلی کاپٹروں نے آسمان سے پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں۔

تقریب میں اتر پردیش کے وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور دیگر سیاسی رہنماؤں سمیت بالی وڈ کی کئی مشہور شخصیات نے ’پران پرتشٹھا‘ میں شرکت کی۔ جبکہ ہندووں کے چار شنکر آچاریہ، جنہیں مذہبی امور میں سپریم اتھارٹی کا درجہ حاصل ہے، نے پران پرتشٹھا کی مخالفت کی تھی اور وہ اس تقریب میں شامل نہیں ہوئے

اس موقعے پر ایودھیہ کی مسلمان برداری کے چند ارکان بھی سڑکوں پر دکھائی دیے جب کہ حزب اختلاف کے رہنماؤں نے مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت نہیں کی۔

وزیرِ اعظم مودی نے رام مندر کے افتتاح کے موقع پر رام کی مورتی کی آنکھوں پر بندھی پٹی ہٹائی، مورتی کے پیر چھوئے اور پوجا کی۔

یاد رہے کہ مورتی رام کی پانچ سال کی عمر کی بنائی گئی ہے۔ اسے سونے چاندی اور جواہرات سے سجایا گیا ہے۔

بھارت میں پارلیمانی انتخابات سے تقریباً تین ماہ قبل وزیرِ اعظم مودی نے ایودھیا میں رام مندر کا افتتاح کیا ہے۔

انہوں نے اپنی تقریر میں سپریم کورٹ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ رام مندر کی تعمیر عدالتی حکم سے ہو رہی ہے اور عدالت نے اس مندر کے حق میں فیصلہ دے کر انصاف کا سربلند کیا ہے۔

واضح رہے کہ سولہویں صدی میں اس مقام پر بابری مسجد تعمیر کی گئی تھی اور ہندوؤں کا دعویٰ تھا کہ مسجد کی جگہ اصل میں رام کی جائے پیدائش ہے۔

کئی برسوں تک ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان یہ معاملہ تنازع کا باعث رہا اور 1992 میں ایک ہجوم نے بابری مسجد پر حملہ کر کے اسے منہدم کر دیا تھا۔

نومبر 2019 میں بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ فیصلے میں اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے بابری مسجد کی اراضی کو رام مندر کے لیے دے دیا تھا، جس کے بعد مندر کی تعمیر کا راستہ ہموار ہوا تھا۔

حالانکہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر کہا تھا کہ بابری مسجد کے نیچے کسی مندر کی باقیات یا کسی مندر کو توڑ کر مسجد کی تعمیر کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

عدالت نے بابری مسجد کے انہدام کو آئین و قانون کے منافی قرار دیتے ہوئے اسے ایک جرم قرار دیا تھا۔

پران پرتشٹھا کا عمل ہوتا کیا ہے؟

ایودھیا کے مندر میں رام کی مورتی کی ’پران پرتشٹھا‘ کردی گئی ہے، یعنی مجسمہ اب ’بھگوان‘ بن گیا ہے

اگرچہ ’پران پرتشٹھا‘ کا آسان سا مطلب ہے، بت میں جان ڈالنا، لیکن یہ ایک پیچیدہ اور طویل عمل ہوتا ہے اور اس میں ہندووں کی مقدس کتابوں وید اور پران سے ماخوذ کئی رسومات پر عمل کیا جاتا ہے، جن میں سے ہر ایک کی اپنی اہمیت بتائی جاتی ہے۔

لیکن یہ پران پرتشٹھا ہے کیا اور اسے کیسے انجام دیا جاتا ہے؟ آخر ایک عبادت گذار اپنے معبود کو ‘پران’ یعنی زندگی کیسے عطا کرسکتا ہے؟ ہندو مذہبی رہنماوں کا دعویٰ ہے کہ متعدد ہندو رسومات کے ذریعہ ایسا ممکن ہوتا ہے۔

ہندووں کا دعویٰ ہے کہ پران پرتشٹھا سے ایک بت دیوتا میں تبدیل ہو جاتا ہے، جو اسے دعائیں قبول کرنے اور نعمتیں عنایت کرنے کا اہل بناتا ہے۔ اس کے لیے مجسمے کو مختلف مراحل سے گزارا جاتا ہے۔ پہلا مرحلہ شوبھا یاترا یا مجسمے کو جلوس کی شکل میں لے جانے کا ہوتا ہے۔ اس دوران عقیدت مند اس کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ان کے اندر مجسمے کو بھگوٹ ماننے کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے۔

مجسمے کو واپس مندر میں لانے کے بعد منتروں کے جاپ شروع ہو جاتے ہیں۔

اس حوالے سے دہلی میں لال بہادر شاستری نیشنل سنسکرت یونیورسٹی میں شعبہ وید کے پروفیسر ڈاکٹر سندر نارائن جھا کہتے ہیں ”جب منتروں کا جاپ شروع ہوتا ہے تو اس کے ذریعے مجسمے کو زندگی دینے اور دوسرے کو زندگی عطا کرنے، دونوں کے لیے ہی تیار کیا جاتا ہے، تاکہ اگر اس مخصوص مجسمے کو کوئی نقصان پہنچ جائے تو اس کی جگہ دوسرے مجسمے کو نصب کیا جاسکے اور زندگی پہلے مجسمے سے دوسرے میں منتقل ہو جائے۔“

مجسمے کو اس کے بعد مختلف اشیاء سے غسل دیا جاتا ہے، جسے ادھیواس کہتے ہیں۔ اسے ایک رات پانی میں رکھا جاتاہے، جسے ’جَل ادھیواس‘ کہا جاتا ہے۔ پھر اناج میں رکھا جاتا ہے، جسے ’دَھن ادھیواس‘ کہتے ہیں۔

پروفیسر جھا اس کی معنویت بتاتے ہوئے کہتے ہیں ”مجسمے کو تراشنے کے دوران سنگ تراش کے اوزاروں سے مختلف ’زخم‘ آ جاتے ہیں۔ ادھیواس ایسے تمام زخموں کو مندمل کرنے کے لیے ہیں۔“

ہندو دھرم کے ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر مجسمے میں کوئی خامی ہو یا پتھر کی کوالٹی اچھی نہیں ہو تو مختلف اشیاء میں ڈبونے سے اس کا پتہ چل جاتا ہے۔

بُت یا مجسمے کو اس کے بعد رسمی غسل دیا جاتا ہے۔ جسے ’جل ابھیشیک‘ کہتے ہیں۔ اس دوران بُت کو 108قسم کی مختلف چیزوں سے غسل دیا جاتا ہے۔ ان میں پانی سے لے کر شہد اور دودھ سے لے کر پھولوں کے عرق وغیرہ شامل ہیں۔

اس کے بعد سب سے اہم تقریب ’نیترون میلن‘ یا چشم کشائی کی ہوتی ہے۔ چشم کشائی سے پہلے تک مجسمے کی آنکھوں پر پٹیاں پڑی رہتی ہیں۔ مختلف منتروں کے جاپ کے بعد آنکھیں کھولی جاتی ہیں، جسے بت کو جگانا کہتے ہیں۔ اس موقع پر سورج، چاند اور ہوا کے دیوتاوں سے مجسمے کو اپنی عنایات سے نوازنے کی درخواست کی جاتی ہے۔

چشم کشائی آخری عمل ہوتا ہے۔ اس میں دیوتا کی آنکھوں پر کاجل لگایا جاتا ہے۔ یہ عمل بت کے پہلو میں کھڑا ہو کر انجام دیا جاتا ہے کیونکہ ہندوؤں کا ماننا ہے کہ ’بھگوان‘ کے آنکھ کھلتے ہی کوئی شخص اس کی روشنی کی تاب نہیں لا سکتا۔

پروفیسر جھا کا کہنا تھا کہ اصلی کاجل تو کاکوڈ پہاڑ کے کالے پتھر سے تیار کیا جاتا تھا لیکن چونکہ یہ پہاڑ چین میں ہے، اس لیے گھی اور شہد کے ذریعہ تیار کیا جاتا ہے

انہوں نے کہا، ”ایک بار کاجل لگ جائے اور بت کی آنکھ کھل جائے تو پران پرتشٹھا کا عمل مکمل ہو جاتا ہے یعنی اس میں ’زندگی آ جاتی ہے‘ اور وہ عقیدت مندوں کی ’فریادیں سننے‘ لگتا ہے“

شنکر آچاریہ پران پرتشٹھا کے خلاف کیوں تھے؟

ہندوؤں میں چار شنکر آچاریہ ہیں، جنہیں مذہبی امور میں سپریم اتھارٹی کا درجہ حاصل ہے۔ چاروں شنکر آچاریوں نے پران پرتشٹھا کی مخالفت کی تھی اور وہ اس کی تقریب میں شامل نہیں ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ مندر مکمل ہوئے بغیر ایسا کرنا درست نہیں ہے۔

تاہم دلچسپ بات یہ کہ سوشل میڈیا پر ان شنکر اچاریوں کے خلاف زبردست مہم شروع ہو گئی۔ بعض لوگوں نے انہیں ہندووں کا دشمن اور ’جہادیوں کا دوست‘ تک قرار دے دیا۔

تین دن قبل ایک نیا تنازعہ اس وقت پیدا ہو گیا، جب رام کی مورتی کی تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دی گئی۔ جب کہ رام مندر کے چیف پجاری ستیندر داس کا کہنا تھا ”پران پرتشٹھا مکمل کیے بغیر بھگوان رام کی آنکھیں ظاہر نہیں کی جا سکتیں۔“ انہوں نے تصویر وائرل کیے جانے کی انکوائری کا بھی مطالبہ کیا۔

اور جب بھگوان رام کے بُت کو سردی سے بچانے کے لیے ہیٹر کا انتظام کیا گیا

دسمبر 2020 میں جب سردی میں اضافہ ہوا تو بھگوان رام کے آرام اور سہولت کا خیال رکھتے ہوئے ایودھیا میں پجاریوں اور حکام نے عارضی رام مندر میں ان کے بت اور دیگر بتوں کو سردی سے بچانے کے لیے کمبل سے ڈھانپ دیا اور گرمی پیدا کرنے کے لیے ہیٹر بھی لگا دیا۔

1992ء میں ایودھیا میں واقع بابری مسجد کے انہدام کے بعد یہ دوسرا موقع تھا، جب وہاں عارضی مندر میں رکھے گئے رام للّا (نوزائیدہ رام) کے بت کو ٹھنڈ سے بچانے کے لیے کمبل اور ہیٹر کا انتظام کیا گیا۔ 2019 میں بھی مقامی ہندو مذہبی رہنماؤں نے اسی طرح کے انتظامات کیے تھے تاہم اس کے لیے انہیں ایودھیا کے کمشنر سے خصوصی اجازت لینا پڑی تھی

جب کہ 2020 میں بھگوان رام کے لیے کمبل اور ہیٹر کے انتظام کرنے کے لیے کسی دفتری خانہ پری کی ضرورت پیش نہیں آئی کیونکہ گزشتہ سال نومبر میں بھارتی سپریم کورٹ نے منہدم بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کی اجازت دے دی تھی۔

تب ہندو شدت پسند جماعت وشو ہندو پریشد کے رہنما اور ترجمان شرد شرما نے بتایا کہ گزشتہ برس کے برخلاف اس سال ہمیں مقامی انتظامیہ سے کسی طرح کی اجازت لینے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ ”گزشتہ برس ہم نے ایودھیا کے کمشنر، جنہیں سپریم کورٹ نے عارضی مندر کا منتظم مقرر کیا تھا، سے ملاقات کی تھی اور انہیں بتایا تھا کہ رام للا ہماری عقیدت کی علامت ہیں۔ وہ سردی میں ٹھٹھر رہے ہیں لہٰذا ان کے کمرے کو گرم رکھنے کے لیے انتظامات کیے جائیں۔ ہم نے ایک روم ہیٹر اور کمبلوں کے لیے ان سے درخواست کی تھی اور انہوں نے ہمیں فوراً اس کی اجازت دے دی تھی۔“

اُس وقت رام مندر کے بڑے پجاری مہنت ستیندر داس نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا تھا ”ہم نے عارضی مندر میں ایک بلوور ہیٹر لگا دیا ہے تاکہ درجہ حرارت کنٹرول میں رکھا جا سکے اور ہمارے دیوتاؤں کو اس سردی میں کسی طرح کی پریشانی نہ ہو۔“ انہوں نے مزید بتایا تھا کہ ”ہیٹر نصب کرنے کے ساتھ ہی دیوتاؤں کو گرم کپڑے بھی پہنائے گئے ہیں اور انہیں کمبل سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ پہلے ہم وہاں گرمی پیدا کرنے کے لیے لکڑیاں بھی جلاتے تھے لیکن چونکہ عارضی مندر لکڑی اور شیشے سے بنایا گیا ہے، اس لیے اب وہاں آگ جلانا مناسب نہیں ہے۔ یہ انتظام سردی ختم ہونے تک برقرار رہے گا۔ لیکن اس دوران ہم اس بات پر بھی غور کررہے ہیں کہ ان دیوتاؤں کو مزید آرام فراہم کرنے کے لیے کیا انتظامات کیے جا سکتے ہیں۔“

مہنت ستیندر داس کا کہنا تھا کہ چونکہ مندر میں بھگوان رام ایک بچے کی صورت میں جلوہ افروز ہیں اس لیے موسم کی تکلیف سے بچانے کے لیے ان کی خصوصی دیکھ بھال کی ضرورت ہے اور”موسم کے لحاظ سے ہی انہیں چڑھاوے چڑھائے جا رہے ہیں۔“

مہنت ستیندر داس کا کہنا تھا کہ گرمیوں میں دیوتاؤں کو ٹھنڈک پہنچانے کے لیے پہلے سے ہی ایرکنڈیشنر کا انتظام ہے، لیکن ہم کوئی ایسا انتظام کرنے پر غور کررہے ہیں جس سے ہر موسم میں دیوتاؤں کو آرام ملے۔

رام للّا کا یہ عارضی مندر اس جگہ سے چند سو میٹر کے فاصلے پر ہے جہاں رام مندر تعمیرکیا جائے گا۔ اس عارضی مندر میں فی الحال بھگوان رام کے ساتھ ان کے بھائی لکشمن، بھرت اور شتروگھن کے علاوہ ان کے خاص بھکت ہنومان اور شالی گرام کی مورتیاں ہیں۔

انڈین سپریم کورٹ کا کردار

ہندو انتہا پسندوں نے 1992 میں شمالی ریاست اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں سولہویں صدی کی ایک مسجد کو یہ کہتے ہوئے مسمار کر دیا تھا کہ یہ اُس جگہ پر ایک قدیم مندر کے اوپر تعمیر کی گئی تھی، جہاں ہندوؤں کے بقول ’سات ہزار قبل بھگوان رام نے جنم لیا تھا۔‘

اس تنازعے نے کئی دہائیوں تک مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان تعلقات کو کشیدہ رکھا، جب کہ مسجد کی شہادت کے بعد پھوٹنے والے مسلم کش فسادات میں دو ہزار افراد جان سے گئے۔

انڈیا کی سپریم کورٹ نے 2019 میں ایک متنازع فیصلے میں بابری مسجد کی جگہ کو ہندوؤں کے حوالے کرنے اور اس کے متبادل مسجد کی تعمیر کے لیے شہر میں کسی اور جگہ زمین الاٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ بابری مسجد کو گرانا غیر قانونی تھا۔ عدالتی فیصلے کے بعد تقریباً 18 کروڑ ڈالر کی لاگت سے مندر کی تعمیر فوری شروع کر دی گئی

ادھر مسلم گروپس کو بابری مسجد کے مقام پر بنائے گئے رام مندر سے تقریباً 25 کلومیٹر دور ایک ویران جگہ پر مسجد کی تعمیر اور اس کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

آئی آئی سی ایف کے صدر ظفر احمد فاروقی نے روئٹرز کو بتایا: ’ہم نے فنڈز کے لیے کسی سے رابطہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی کوئی عوامی تحریک چلائی۔‘

اس کے برعکس وزیر اعظم مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس سے منسلک ہندو گروپوں نے تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ قبل رام مندر کے لیے عطیات جمع کرنا شروع کیے تھے اور انڈیا میں چار کروڑ افراد اس فنڈ میں سے 30 ارب روپے سے زیادہ رقم جمع کرا چکے ہیں۔

مودی کی جانب سے مندر کا افتتاح ایک بار پھر انہیں ہندو ’دھرم کے رکھشک‘ کے طور پر پیش کرے گا جو اپریل میں شروع ہونے والے عام انتخابات سے پہلے بظاہر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے۔رام مندر کے افتتاح اگلے سال ہونے والے عام انتخابات میں ہندو قوم پرست بی جے پی کی کامیابی کے امکانات کو بڑھا دے گا، جو اس کا بنیادی مقصد ہے

اخبار ’دی ہندو‘ کی پولیٹیکل ایڈیٹر نسٹولا ہیبر نے اے ایف پی کو بتایا ”افتتاحی تقریب حکمران جماعت کی ’مذہبی قوم پرستی‘ کو ظاہر کرے گی۔ افتتاح کے وقت کا تعلق اس حقیقت سے ہے کہ بی جے پی انتخابات میں جا رہی ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close