سعودی میں قید عبدالرحیم کے لیے 34 کروڑ روپے جمع کرنے کی کہانی: دی کیرالہ اسٹوری سے ریئل کیرالہ اسٹوری تک!

ویب ڈیسک

مودی سرکار میں شاید ہی کوئی شعبہ ہندو انتہا پرستی کی ’زعفرانی‘ لہر سے محفوظ رہا ہو۔ ایسے میں مین اسٹریم ’گودی‘ میڈیا کے بعد بالی وڈ کا تیزی سے پروپیگنڈا مشین بننا قطعاً حیرت کا باعث نہیں ہے۔

گذشتہ چند برسوں میں سامنے آنے والی بڑے بجٹ اور باکس آفس سپر ہٹ فلموں کی اکثریت اپنی تمام توانائیاں ہندو انتہا پرستی کی نئی دیومالا تخلیق کرنے پر صرف کرتی نظر آتی ہے۔ ان میں سے بیشتر فلمیں ناقص اسکرپٹ، فارمولا کہانیوں، واہیات مکالموں اور تھکڑ ایکٹنگ کے سوا کچھ نہیں۔ یہ پروپیگنڈا تو ہیں ہی لیکن انتہائی بھونڈا پروپیگنڈا ہیں

فلم ساز انڈیا میں بڑھتے انتہا پسندانہ ہندوتوا رجحان کو کیش کر رہے ہیں اور مودی حکومت اپنی جڑیں گہری کرنا چاہتی ہے۔ سو بالی وڈ اس بھیانک گٹھ جوڑ میں آرٹ کی تذلیل اور اپنی رسوائی کی ایسی تاریخ رقم کر رہا ہے، جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔

بھونڈے پروپیگنڈا پر مبنی ایسی ہی ایک فلم ’دی کیرالہ اسٹوری‘ بھی ریلیز کے وقت سے تنازعے کا شکار ہے، لیکن جب گذشتہ ہفتے 5 اپریل کو اسے سرکاری ٹیلی ویژن دوردرشن پر پیش کیا گيا تو ایک بار پھر تنازع اٹھ کھڑا ہوا اور بعض حلقوں کی جانب سے اسے مسلمانوں اور کیرالہ کو بدنام کرنے والی فلم بھی کہا جاتا رہا ہے۔

یہ تو تھی ’دی کیرالہ اسٹوری‘ کی بات۔۔ لیکن دوسری جانب اسی دوران گذشتہ کئی دنوں سے ’دی ریئل کیرالہ اسٹوری‘ کے عنوان سے انڈین میڈیا میں دو خبریں گشت کر رہی ہیں، جن میں سے ایک میں انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ کے سیکولر کلچر کی جھلک نظر آتی ہے اور دوسرے میں انسان دوستی کی چمکتی مثال۔۔

ایک ایسا انڈیا، جہاں ایک طرف مودی سرکار کی سرپرستی میں تاریخی مساجد شہید کی جا رہی ہیں، وہاں کانگریس کے معروف رہنما اور رکن پارلیمان ششی تھرور نے کیرالہ کے چار سو سال پرانے درگا مندر کی تصویر ڈال کر لکھا ہے ”یہ ’ریئل کیرالہ اسٹوری‘ کی ایک اور مثال ہے، جس میں ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر چار سو سال پرانے ’درگا مندر‘ کی تعمیر نو اور تزئین کی۔“

فلم ’کیرالہ اسٹوری‘ کی ریلیز کے بعد سے اس طرح کی کئی
چیزیں سامنے آئی ہیں، جنہیں ’دی ریئل کیرالہ اسٹوری‘ کے نام سے پیش کیا جا رہا ہے، لیکن ہفتے کے روز انڈین میڈیا میں ایک ایسی خبر سامنے آئی، جس نے سب کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی

یہ کہانی دنیا بھر میں پھیلے کیرالہ والوں کی باہمی تعاون کی نشان دہی کرتی ہے، جس میں انہوں نے کیرالہ کے ایک شخص کو سزائے موت سے بچانے کے لیے محض چالیس دنوں میں چونتیس کروڑ انڈین روپے اکٹھے کیے

کیرالہ کے وزیر اعلٰی پنارائی وجین اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں لکھتے ہیں ‘’ملیالی (کیرالہ والوں کو ملیالم زبان بولنے کی وجہ سے ملیالی کہا جاتا ہے) انسان دوستی اور انسانیت سے محبت کی کہانیوں کے ذریعے اپنی پہچان بڑھا رہے ہیں، جبکہ نفرت پھیلانے والے ملک کے خلاف جھوٹی کہانیاں پھیلا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلے کیرالہ باشندے سعودی عرب میں سزائے موت کا سامنا کرنے والے کوزی کوڈ کے رہائشی عبدالرحیم کی رہائی کے لیے چونتیس کروڑ روپے جمع کرنے کے لیے متحد ہوئے۔“

انہوں نے لکھا ”ایک انسانی جان بچانے کے لیے، ایک خاندان کے آنسو پونچھنے کے لیے، کیرالہ نے محبت کی ایک اعلٰی مثال قائم کی ہے۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ کیرالہ بھائی چارے کا قلعہ ہے، جسے فرقہ واریت ختم نہیں کر سکتی۔ ان تمام نیک دلوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد جو دنیا کے سامنے کیرالہ کے فخر کو بلند کرنے کے اس مقصد کے لیے اکٹھے ہوئے۔ اس اقدام کے پیچھے غیر ملکی ملیالیوں کا کردار قابل ستائش ہے۔ آئیے اس اتحاد کو مزید طاقت دے کر ایک ذہن کے ساتھ آگے بڑھیں۔“

اس سے قبل جب بھونڈے پروپیگنڈا پر مبنی فلم ’دی کیرالہ اسٹوری‘ کو دور درشن پر دکھانے کا فیصلہ کیا گیا تھا تو پنارائی وجین نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر اپنے احتجاج میں کہا کہ ’نیشنل ٹیلی ویژن کو یہ فلم دکھا کر بی جے پی کے پروپیگنڈا کا ہتھکنڈہ نہیں بننا چاہیے جو انتخابات سے قبل فرقہ وارانہ کشیدگی کا باعث بنتی ہے۔‘

دوسری جانب کیرالہ کانگریس نے عبالرحیم کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کے حوالے سے اپنی ٹویٹ میں اسے دی ’ریئل کیرالہ اسٹوری‘ قرار دیتے ہوئے لکھا ”کیرالہ کی اصلی کہانی! مسلسل نفرت انگیز مہم کا سامنا کرنے کے باوجود کیرالہ میں ملیالیوں کی غیر متزلزل ابھرنے کی خاصیت اور ہمدردی غالب ہے، جو کیرالہ کی روح کو برقرار رکھنے کے لیے متحد ہیں۔“

ٹویٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں اٹھارہ سال سے قید اور سزائے موت کا سامنا کرنے والے کوزیکوڈ کے عبدالرحیم کی رہائی کے لیے تقریباً چونتیس کروڑ روپے جمع کیے گئے۔ ہزاروں لوگ اس ماں کی مدد کے لیے متحد ہو گئے، جو اپنے بیٹے کی زندگی بچانے کے لیے درکار بڑی رقم جمع کرنے کی کوشش میں تھیں۔ ان تمام لوگوں کا تہہ دل سے شکریہ جنھوں نے اس انسانی کوشش میں تعاون کیا!“

عبدالرحیم کون ہیں؟

انگریزی روزنامہ دی ٹیلیگراف کے مطابق کوزیکوڈ کے اکتالیس سالہ رہائشی عبدالرحیم پہلے آٹو رکشہ چلاتے تھے، جبکہ انڈیا ٹوڈے کی ویب سائٹ کے مطابق وہ سنہ 2006 میں ہاؤس ڈرائیونگ ویزے پر ریاض پہنچے تھے، جہاں ڈرائیونگ کے علاوہ انہیں ایک معذور بچے کی نگرانی کام ملا تھا لیکن ایک دن ایک حادثے میں اس بچے کی موت ہو گئی

عبدالرحیم کو اپنے اسپانسر کے پندرہ سالہ فالج زدہ بیٹے کی موت کا سبب بننے کا مجرم ٹھہرایا گيا اور انہیں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔

عبدالرحیم کا کام لڑکے کی دیکھ بھال کرنا اور اسے جہاں بھی جانے کی خواہش ہو، اسے گاڑی سے لے کر جانا تھا۔ لیکن رحیم نے غلطی سے لڑکے کی گردن سے منسلک طبی آلے کو نیچے گرا دیا، جس سے اسے سانس لینے میں مدد ملتی تھی۔ اس کی وجہ سے لڑکا بے ہوش ہوا اور بعد ازاں اس کی موت واقع ہوئی

عبدالرحیم گذشتہ اٹھارہ سال سے جیل میں تھے، جبکہ سنہ 2012 میں انہیں موت کی سزا سنائی گئی تھی کہ اسی دوران کیرالہ کی برادری نے ان کے لیے قانونی چارہ جوئی کی مہم شروع کی اور خاندان والوں کو ’دیت‘ یعنی خوں بہا پر راضی کر لیا۔

اس سے قبل عبدالرحیم کی سزائے موت کے خلاف پے در پے اپیلیں ہوتی رہیں اور ٹرائل کورٹ نے ہر بار 2012، 2017 اور 2022 میں پھانسی کی سزا کو برقرار رکھا۔

سعودی عرب میں مقیم کیرالہ کے تاجر اشرف وینگھٹ کے مطابق ”کئی سالوں تک معافی دینے سے انکار کرنے کے بعد لڑکے کے خاندان نے پچھلے سال (2023 میں) 15 ملین ریال دیت کے بدلے میں جان بخشی پر رضامندی ظاہر کی۔“

اشرف وینگھٹ بتاتے ہیں ”متاثرہ کے خاندان کی طرف سے خوں بہا کی رقم کے بدلے معافی دینے کے لیے 16 اکتوبر سنہ 2023 کو معاہدے پر دستخط کرنے کے چھ ماہ کے اندر ادا کیے جانے کے تحریری وعدے کے پیش نظر پھانسی کے حکم کو عارضی طور پر روک دیا گیا تھا۔“

دی ہندوستان ٹائمز کے مطابق اس اقدام کا آغاز عبدالرحیم کی رہائی کے لیے سنہ 2021 میں قائم کی گئی ’عبدالرحیم قانونی ایکشن کمیٹی‘ نے کیا۔

انڈین یونین مسلم لیگ کے ساتھ منسلک تنظیم کیرالہ مسلم کلچرل سینٹر کی سعودی یونٹ کے جنرل سکریٹری اشرف وینگھٹ حال ہی میں کیرالہ میں تمام سیاسی جماعتوں کی مدد سے چندہ کی مہم کو آگے بڑھانے کے لیے کوزی کوڈ پہنچے تھے۔

اشرف نے کہا، ”رحیم کی جان بچانے کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں ہندو اور مسلمان اور بی جے پی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے ارکان شامل ہیں۔“

انہوں نے بتایا ”ہم اس کی رہائی کو حاصل کرنے کے لیے درکار چونتیس کروڑ کے ہدف تک پہنچ گئے ہیں۔ براہ کرم ہمیں مزید رقم نہ بھیجیں۔ ہمارے پاس 34.45 کروڑ روپے اکٹھے ہو گئے ہیں، اور اضافی فنڈز کا آڈٹ کیا جائے گا اور اچھے مقصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ عالمی ملیالی کمیونٹی نے ایک بار پھر اپنا جادو دکھایا ہے اور ہمارے سیاسی، ذات پات اور مذہبی اختلافات سے قطع نظر ہاتھ بڑھایا ہے۔ یہ کیرالہ کی اصل کہانی ہے۔“

انہوں نے مزید کہا کہ ٹرسٹ اب ریاض میں انڈین سفارت خانے سے رابطہ کرے گا تاکہ متاثرہ خاندان کے ساتھ مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھایا جا سکے اور عبدالرحیم کی رہائی کو یقینی بنایا جا سکے۔ یہ رقم متاثرہ کے خاندان کو ’بلڈ منی‘ کے طور پر دے دی جائے گی تاکہ رقم حوالے کرنے کی 15 اپریل کی آخری تاریخ سے کچھ دن پہلے عبدالرحیم کو معاف کیا جا سکے۔

عبدالرحیم کو بچانے میں جہاں سعودی عرب میں کیرالہ کے باشندوں کی تنظیم نے اہم کردار ادا کیا ہے، وہیں قانونی امداد کمیٹی کے چیئرمین سریش نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے 3 مارچ کو کوزی کوڈ میں ’سیو عبدالرحیم‘ موبائل ایپ لانچ کی تھی۔

پندرہ ملین سعودی ریال یعنی تقریباً چونتیس کروڑ انڈین روپے جمع کرنے کی مہم میں اس وقت تیزی آئی، جب اس کی تشہیر کرنے والے کاروباریوں اور بلاگرز نے اس میں شرکت کی۔

دی ٹیلیگراف کے مطابق عبدالرحیم کی والدہ پاتھو نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ”کیرالہ کے لوگوں کی مدد پر اپنی خوشی کو بیان کرنے کے لیے اان کے پاس لفاظ نہیں ہیں۔ یہاں کے لوگوں کے درمیان موجود فرقہ وارانہ ہم آہنگی نے اتنی جلدی اتنی بڑی رقم جمع کرنے میں مدد کی۔ میں سب کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close