سندھ کی قوم پرست جماعتیں انتخابات میں کامیابی کیوں حاصل نہیں کر پاتیں؟

ویب ڈیسک

2018ء کے انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ سندھ میں طویل عرصے سے مسلسل برسرِ اقتدار رہنے والی پی پی پی کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے، اس لیے اس بار سندھ کے لوگ اسے اپنے ووٹ کے ذریعے مسترد کردیں گے اور اپنے لیے کسی نئے متبادل کو چنیں گے مگر زمینی حقائق اس کے برعکس نکلے اور وہ ایک بار پھر سندھ میں جیت گئی

واضح رہے کہ سندھ پاکستان کا وہ واحد صوبہ ہے، جہاں 2008 سے ایک ہی سیاسی جماعت یعنی پاکستان پیپلز پارٹی، برسراقتدار ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ متعدد بار صوبے کی حکمران پارٹی رہ چکی ہے۔ اس دوران کرپشن کے الزامات اور کارکردگی پر سوالات تو اٹھتے رہے لیکن گزشتہ تین انتخابات میں بھی ان کی اقتدار پر گرفت کو کمزور نہ کیا جا سکا تاہم انتخابی مہم کے دوران ایسے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں جہاں نوجوان ووٹر پیپلز پارٹی کے امیدواروں سے تلخ سوالات کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

مثال کے طور پر بدین کے گاؤں دودو گشکوری میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی کے امیدوار غلام علی تالپور اپنی انتخابی مہم کے لیے پہنچے تو ایک نوجوان نے سوال کیا ”جب لوگ ڈوب رہے تھے اس وقت آپ کہاں تھے؟اس وقت بھی ہمارا گاؤں ڈوبا ہوا ہے“

سوشل میڈیا پر وائرل اس وڈیو میں ایک نوجوان نے ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ”شہیدوں کا قرض اتارتے اتارتے ہمارے آباؤ اجداد مر گئے، اب یہ قرضہ اترے گا لیکن کارکردگی کی بنیاد پر۔“

ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا 2024 میں پیپلز پارٹی کسی موثر مخالف انتخابی اتحاد کی عدم موجودگی میں سندھ میں مسلسل چوتھی بار حکومت قائم کرنے کا ریکارڈ قائم کرے گی یا اس بار سندھ کا حکمران تبدیل ہو سکتا ہے

اگلے عام انتخابات 8 فروری کو ہونے جا رہے ہیں۔ سندھ میں پاکستان کی مرکزی سیاسی جماعتوں کے ساتھ کچھ سندھی قوم پرست جماعتیں بھی عام انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔

سندھ میں گذشتہ سولہ سالوں سے مسلسل حکمرانی کرنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کی کارکردگی پر صوبے میں ہمیشہ شدید تنقید کی جاتی ہے لیکن اس کے باجود قوم پرست جماعتیں انتخابات میں کیوں کامیاب نہیں ہو رہی ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے، جس پر عرصے سے بحث ہوتی رہی ہے

سندھ میں پانی کی قلت ہو، کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا معاملہ ہو، مالی وسائل کی تقسیم ہو، مردم شماری ہو یا تعلیمی نصاب پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں ایک ہارڈ لائن اختیار کرتی آئی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس طرح پی پی پی سندھ میں ایک قوم پرستانہ بیانیہ اور رویہ اختیار کر لیتی ہے۔

لاہور یونیورسٹی آف مینیجنمنٹ سائنسز کی اسسٹنٹ پروفیسر اور سندھ قوم پرستی پر کتاب ’ان سرچ آف لاس گلوری‘ کی مصنفہ اسما فیض کہتی ہیں ”پی پی پی کا ایک منظم تنظیمی ڈھانچہ ہے، جس کو پتا ہے کہ سیاست کیسے ہوتی ہے، اس کے پاس الیکٹیبلز اور کامیاب ہونے والے امیدوار بھی ہیں اس کے علاوہ کراچی سے باہر جو سندھی ووٹر ہے، اس کے پاس کوئی متبادل موجود نہیں“

ان کے مطابق ”جس طرح پنجاب میں دیکھتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں استحکام پاکستان پارٹی بنی، یہ کوششیں سندھ کے لیے بھی کی جاتی رہی ہیں لیکن موثر متبادل کھڑا نہیں کر سکے۔ تیسری چیز یہ کہ سندھ میں جو مسائل ہیں، پیپلز پارٹی ان پر سندھ کی پوزیشن لیتی ہے اور سندھی ووٹر کی جو خواہشات ہیں اس کا اظہار کرتی ہے۔ اس کے مخالف قوم پرست کچھ بھی کہیں کہ یہ سندھ فروخت کرتے ہیں لیکن ان سیاسی ایشوز کو دیکھ لیں، پی پی کا سندھ کی حمایت والا موقف موجود ہے۔“

سینٹر فار پیس اینڈ سوسائٹی کے ڈائریکٹر اور ادیب جامی چانڈیو کا کہنا ہے کہ سندھ میں دیگر صوبوں کی نسبت سیاسی شعور ہونے کے باجود ووٹ نظریاتی بنیاد پر دینے کے بجائے پاور کو دیا جاتا ہے ”پیپلز پارٹی گذشتہ کئی سالوں سے پاور میں ہے تو لوگوں کو لگتا ہے کل حکمرانی ان کو کرنی ہے تو یہ لوگ کچھ نہ کچھ حلقے کے لیے کریں گے۔ جب کہ پی پی پی کی نسبت عوام کو لگتا ہے کہ قوم پرست حکمرانی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، اس لیے نطریاتی طور پر قوم پرستوں کے ساتھ ہونے کے باجود ووٹ پی پی پی کو دیتے ہیں۔“

جامی چانڈیو کے مطابق ماضی میں قوم پرست الیکشن میں حصہ ہی نہیں لیتے تھے، اب کچھ قوم پرست انتخابات لڑ رہے ہیں، مگر انہیں اپنی جگہ بنانے میں وقت لگے گا۔ ”اس کے علاوہ تاحال ووٹ ذات، برادری یا قبیلے کی بنیاد پر بھی دیا جاتا ہے تو لوگ کسی قوم پرست کو ووٹ دینے کے بجائے اپنے برادری یا قبیلے کے امیدوار کو دیتے ہیں۔“

جامی چانڈیو کا کہنا ہے کہ کسی بھی حلقے میں امیدوار کی کامیابی کے لیے امیدوار مستقل بنیادوں پر اوطاق (مہمان خانہ) چلاتے ہیں، جہاں آنے والے حلقے کے لوگوں کی خاطر تواضع کے ساتھ ان کے مسائل سنے اور کچھ قدر حل بھی کیے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ انتخابات کے دوران انتخابی مہم کے لیے خطیر رقم درکار ہوتی ہے، جب کہ قوم پرستوں کی اکثریت کا تعلق متوسط طبقے سے ہے۔ یہ ایک اور بڑی وجہ ہے کہ لوگ نظریاتی طور پر قوم پرستوں کے ساتھ ہونے کے باجود انہیں ووٹ نہیں دیتے۔

سینیئر سیاسی تجزیہ نگار اور سندھی زبان کے ’آواز ٹی وی‘ کے میزبان اور تجزیہ نگار فیاض نائچ کہتے ہیں ”پپیلز پارٹی نے گورننس کا جو ماڈل اختیار کیا ہے، یہ ہی اس کی طاقت ہے کیونکہ اگر کسی کے پاس ملازمت نہیں، اگر کسی کا تبادلہ یا تقرری کرانی ہے تو ووٹر کو یہ ذہن نشین ہو گیا ہے کہ یہ سب پیپلز پارٹی کے بغیر ممکن نہیں، اس کے علاوہ سڑک کی تعمیر ڈرینج نظام کی تعمیر سب ان کے مرہون منت ہے۔ آپ یوں سمجھیں کہ ریاستی ادارے کام نہیں کرتے اور جو الیکٹیبلز ہیں ان کے ماتحت ہی سارا نظام ہے۔“

فیاض نائچ کا ماننا ہے کہ پیپلز پارٹی کے حریف کمزور ہیں۔ ان کے مطابق قوم پرست پیپلز پارٹی کے بیانیہ کی بنیاد پر مخالفت کرتے ہیں لیکن ان کی اپنی تنظیمی ساخت کمزور ہے۔ ”اس لیے وہ بیانیے کی حد تک تو پیپلز پارٹی کو پیچھے دھکیل دیتے ہیں لیکن تنظیمی ساخت مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے وہ الیکشن جیت نہیں پاتے۔“

ان کے مطابق ”دوسرا گروپ جو پیپلز پارٹی کی مخالفت کرتا ہے وہ ان الیکٹیبلز پر مشتمل ہے جو جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کے ساتھ رہے ہیں۔ ان کی اپنی کارکردگی پیپلز پارٹی سے زیادہ بدتر ہے اور وہ آپس میں اتحاد تو کرتے ہیں، کبھی ڈیمو کریٹک الائنس کی صورت میں، کبھی بارہ جماعتی اتحاد کی صورت میں لیکن ایک امیدوار اپنے حلقے سے باہر دوسرے اتحادی کی مدد نہیں کر پاتا کیونکہ اس کا اثرو سروخ اس کے حلقے تک محدود ہوتا ہے۔“

فیاض نائچ کے مطابق ”الیکشن میں کامیابی کے لیے کسی بھی امیدوار کے پاس ایک مستقل حلقہ ہونا ضروری ہے، جہاں وہ اس حلقے کی عوام کے ساتھ جڑا ہوا ہو۔ حلقے کے عوام سے رابطے میں ہو۔ شادی، غمی اور دیگر تقریبات میں شرکت کے عوام سے رابطے میں ہو۔ پی پی پی کی نسبت سندھ کے قوم پرست رہنماؤں کے پاس کوئی مستقل حلقہ نہیں ہے۔ سوائے سندھ یونائیٹڈ پارٹی (ایس یو پی) کے رہنماؤں جلال محمود شاہ اور زین شاہ کے کسی بھی سندھ قوم پرست رہنما کے پاس کوئی مستقل حلقہ نہیں۔ مثال کے طور سندھ ترقی پسند پارٹی (آیس ٹی پی) کے سربراہ اور قوم پرست رہنما ڈاکٹر قادر مگسی کبھی حیدرآباد، کبھی ٹھٹہ اور کبھی نواب شاہ سے الیکشن لڑے۔“

فیاض نائچ کا کہنا ہے ”پی پی پی کے امیدواروں کی نسبت قوم پرست رہنما اسی حلقے میں عوام کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں رکھتے اور انتخابات میں فارم جمع کرانے کے بعد اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں حلقے کے عوام سے رجوع کرتے ہیں۔ ایسے میں عوام ان کو کیوں ووٹ دیں؟ یہ ایک اور بڑی وجہ ہے مقبولیت کے باجود سندھی قوم پرست الیکشن میں کامیاب نہیں ہوتے۔“

فیاض نائچ کے مطابق سندھی قوم پرست جماعتوں کے سربراہ کے علاوہ پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے امیدوار غیر مقبول ہوتے ہیں۔ جنہیں عوام نہیں جانتے۔ اس علاوہ قوم پرست جماعتیں چند نشستوں پر اپنے امیدوار نامزد کرتی ہیں۔

”سندھ ترقی پسند پارٹی (ایس ٹی پی) نے حالیہ الیکشن میں پورے صوبے میں صرف 11 امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ عوامی تحریک نے 10 حلقوں پر امیدوار کھڑے کیے ہیں“

قومی عوامی تحریک کے رہنما ایاز پلیجو پیپلز پارٹی کی کامیابی کی وجہ حلقے کی سیاست کو قرار دیتے ہیں۔ ”جس میں کسی تھانے سے ایس ایچ او سے بندہ چھڑوانا، تحصیل دار سے زمین کے کھاتے کی نقل کاپی دلوانا، ڈرینیج کی لائن بچھانے میں مدد شامل ہوتی ہے۔‘

ایاز لطیف پلیجو کے مطابق سندھ میں پیپلز پارٹی کا راج ہے، نام کی نگران حکومت ہے، سب فیصلے پیپلز پارٹی کر رہی ہے، وزیر اعلی ہاؤس کا عملہ وزیراعلیٰ باقر شاہ کی بات کم اور پیپلز پارٹی کے وزیروں کی بات زیادہ سنتا ہے۔

ایاز پلیجو قومی عوامی تحریک کے سربراہ ہیں جو گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کا حصہ ہے۔ وہ جی ڈی اے کے ٹکٹ پر سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کی تحصیل قاسم آباد سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔

ایاز پلیجو کہتے ہیں کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا سب سے بڑا مسئلہ سندھ میں ہے کیونکہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حکومتیں تبدیل ہوتی رہی ہیں لیکن صرف ایک ہی صوبہ ہے سندھ جہاں ایک ہی جماعت کی حکومت تسلسل کے ساتھ جاری ہے اس لیے لیول پلیئنگ فیلڈ یہاں نہیں

’ڈی سی، ایس ایس پی، آر اوز گذشتہ 15 سال سے ان کے ساتھ ہیں۔ وہ کسی کو ہلنے تک نہیں دیتے۔ اگر یہاں حکومتیں تبدیل ہوں، نئے لوگوں کو موقع ملے، مقتدر ادارے آخری مرحلے میں پلیٹ میں سجا کر پی پی کو حکومت نہ دیں تو دوسروں کے لیے بھی جگہ ہوگی۔‘

ایاز لطیف پلیجو نے کہا کہ جب تک سندھ کے تمام حلقوں سے ڈی سیز، اسسٹنٹ کمشنرز اور ایجوکیشن آفیسرز کو نہیں ہٹایا جاتا، صاف شفاف الیکشن نہیں ہوں گے، الیکشن کمیشن صاف شفاف الیکشن چاہتا ہے تو اقتدار اور مفادات سے جڑے ہوئے ان لوگوں کو ہٹائے ورنہ الیکشن ڈرامہ اور ڈھکوسلا ہوگا۔

سندھی قوم پرست جماعت سندھ ترقی پسند پارٹی (ایس ٹی پی) کے سربراہ اور قوم پرست رہنما ڈاکٹر قادر مگسی تسلیم کرتے ہیں کہ سندھ میں انتہائی مقبولیت کے باجود قوم پرست الیکشن میں کامیاب نہیں ہوتے۔ ان کے مطابق ”سندھ کے لوگ قوم پرستوں کو ووٹ دینا چاہتے ہیں، مگر روایتی سیاست دان لوگوں کو قوم پرستوں کے بجائے زبردستی خود ووٹ لیتے ہیں۔“

ڈاکٹر قادر مگسی نے کہا ”آپ جب دیہات کی سطح پر جا کر صورت حال دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ سندھ کے ہر حلقے میں کئی سالوں سے کامیاب ہونے والے سیاست دان کتنے بااثر اور طاقت ور ہیں“

ڈاکٹر قادر مگسی کی جماعت سندھ ترقی پسند پارٹی (آیس ٹی پی) کے ٹکٹ پر سندھ اسمبلی کی 130 جنرل نشستوں پر صرف گیارہ امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔

ڈاکٹر قاسر مگسی گذشتہ سالوں کے دوران تین بار الیکشن لڑے۔ جس میں پہلی مرتبہ حیدرآباد شہر کے قاسم آباد، دوسری بار ٹھٹہ، تیسری بار نواب شاہ اور 2024 کے عام انتخابات کے دوران وہ ٹنڈو محمد خان کے شاہ کریم سے الیکشن لڑ رہے ہیں

کیا مسلسل حلقے تبدیل کرنے سے الیکشن میں کامیابی ممکن ہے؟ کے جواب میں ڈاکٹر قادر مسگی نے کہا ”میں نے نواب شاہ سے اس لیے الیکشن لڑا کہ وہاں سے ہمیشہ آصف زرداری بغیر مقابلے جیت جاتے تھے۔ تو میں نے سوچا کہ کم از کم ان کا کسی کے ساتھ مقابلہ تو ہو۔ اس لیے وہاں سے الیکشن لڑا۔ اس بار جہاں سے الیکشن لڑ رہا ہوں وہاں مجھے مثبت ردعمل مل رہا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس بار میں الیکش ضرور جیتوں گا۔“

واضح رہے کہ سندھ میں قوم پرست جماعتیں سندھ کے وسائل، پانی اور دیگر اشیا کو وفاق یا کسی صووبے کی جانب سے استعمال کرنے کی مخالفت کا موقف رکھتی ہیں اور وسائل کو سندھ کی خوشحالی کے لیے استعمال کرنے کی بات کرتی ہیں

یہ جماعتیں صوبے کی زمین کو وفاق کی جانب سے کسی مقصد کے لیے استعمال کرنے اور صوبے میں دیگر صوبوں یا غیر ملکی تارکین وطن کی آمد کے بھی شدید مخالف ہیں۔ ان کی سیاست کا دائرہ سندھ تک محدود ہے

سندھ میں قوم پرست سیاسی جماعتیں دو اقسام کی ہیں۔ ایک جو علحیدگی پسند ہیں اور وہ انتخابات میں حصہ نہیں لیتیں دوسری وہ قوم پرست جماعتیں جو علیحدگی میں یقین نہیں رکھتیں اور وہ پاکستان میں رہتے ہوئے خوشحال سندھ کی بات کرتی ہیں۔ یہ جماعتیں پارلیمانی سیاست میں یقین بھی رکھتی ہیں اور الیکشن میں بھی حصہ لیتی ہیں۔

ان میں معروف سندھی سیاستدان مرحوم رسول بخش پلیجو کی عوامی تحریک، ان کے بیٹے ایاز لطیف پلیجو کی قومی عوامی تحریک، ڈاکٹر قادر مگسی کی سندھ ترقی پسند پارٹی اور جی ایم سید کے پوتے جلال محمود شاہ کی سندھ یونائیٹڈ پارٹی شامل ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close