دھند میں لپٹا پاکستان اور زراعت و صحت پر اس کے اثرات۔۔۔ حل کیا ہے؟

ویب ڈیسک

پاکستان کے بیشتر علاقے ان دنوں شدید سردی اور دھند کی لپیٹ میں ہیں۔ محکمۂ موسمیات کا کہنا ہے کہ سردیوں میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے دھند کا سلسلہ جنوری میں برقرار رہنے کا امکان ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ شدید سرد موسم میں درجۂ حرارت میں کمی سے دھند کی شدت میں اضافہ ہوگا۔

پاکستان میں عموماً موسمِ سرما میں پہلی بارش دسمبر کے آخری پندرہ دنوں میں ہوتی ہے لیکن سال 2023 میں دسمبر کے مہینے میں ملک بھر کے اکثر علاقوں میں بارش نہیں ہوئی اور اب محکمۂ موسمیات کے مطابق جنوری کے پہلے ہفتے میں بھی بارش کا امکان نہیں ہے۔

پاکستان میں گزشتہ چند برسوں سے دسمبر کے مہینے میں سردی کی شدت کم ہوئی ہے اور اب دسمبر اور جنوری کے مقابلے میں جنوری اور فروری میں سردی کی شدت زیادہ محسوس کی جاتی ہے۔

محکمۂ موسمیات کے مطابق ایک ہی طرح کے موسم کی وجہ سے ’فوگ شیٹ‘ (دھند کی چادر) بن چکی ہے جس کا پھیلاؤ اب پنجاب کے میدانی علاقوں، بالائی سندھ، پوٹھوہار ریجن سے ہوتے ہوئے اسلام آباد تک پھیل چکا ہے۔

محکمۂ موسمیات میں نیشنل ویدر فورکاسٹنگ سینٹر اسلام آباد کے ڈپٹی ڈائریکٹر عرفان ورک کہتے ہیں کہ آئندہ چند دنوں میں سردی کی شدت میں مزید اضافہ متوقع ہے اور پنجاب کے میدانی علاقوں میں فوگ شیٹ کی وجہ سے سورج نہ نکلنے کے سبب درجۂ حرارت مزید کم ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دنوں میں ملک میں کوئی خاص برف باری بھی نہیں ہوئی اور نہ ہی آنے والے دنوں میں زیادہ برف باری کا امکان ہے۔ تاہم اسکردو، گلگت اور چترال میں چند مقامات پر برف باری ہو سکتی ہے۔

ان کے بقول کھل کر بارش نہ ہونے کے باعث یہ فوگ شیٹ جنوری میں بھی برقرار رہنے کا امکان ہے۔

موسم کے دورانیے میں تبدیلی اور زراعت پر اثر

موسم کے دورانیے میں تبدیلی اور بارشوں میں تاخیر سے زراعت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ پاکستان میں گندم کی فصل ستمبر میں کاشت کی جاتی ہے اور مارچ میں فصل کی کٹائی ہوتی ہے۔

ماہرِ موسمیات ڈاکٹر قمر الزمان کے مطابق بارشیں بارانی علاقوں کے لیے ضروری ہوتی ہیں اور تقریباً دو ماہ سے گندم کی بوائی ہو چکی ہے لیکن ملک میں جاری خشک موسم سے گندم کی فصل بھی متاثر ہو رہی ہے۔

ڈاکٹر قمر الزمان کا کہنا ہے کہ ملک میں جاری حالیہ ویدر پیٹرن کا اگرچہ کوئی نام نہیں ہے، تاہم اسے ایک طویل خشک دورانیہ کہا جا سکتا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے ’ویدر پیٹرنز‘ یعنی موسموں کے آنے جانے کی ترتیب میں تبدیلی آئی ہے جس کی وجہ سے خشک سالی، شدید بارشیں اور ہیٹ ویوز جیسے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

 فضا کی دھند اور صحت

لاہور کی فضا کا حال تو انتہائی خراب ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اگر ایئر کوالٹی انڈیکس 300 ہے تو یہ مضرِ صحت ہے۔ لاہور میں حال ہی میں یہ 490 ریکارڈ کیا گیا۔ لاہور اکثر بدترین آب و ہوا والے شہروں کی فہرست میں سرِ فہرست رہتا ہے جبکہ دہلی اور ڈھاکا بھی اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے دیگر شہروں میں بھی ایئر کوالٹی انڈیکس 100 کے قریب نہیں۔ ہم زہریلی ہوا میں سانس لے رہے ہیں جو ہمیں آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر موت کے منہ میں لے جارہی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق فوسلز فیول سے ہونے والے اخراج سے ہرسال تقریباً 40 لاکھ لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔

2 عشاریہ 5 میکرومیٹرز قطر کے ذرات جنہیں پی ایم 2.5 بھی کہتے ہیں، جب ہمارے پھیپھڑوں میں داخل ہوتے ہیں تو سانس کی نالی میں موجود سیلیا کو متاثر کرتے ہیں جن کا کام پھیپھڑوں میں نقصان دہ مواد کو داخل ہونے سے روکنا ہے۔ یہ خون کی رگوں میں شامل ہوکر دل کے امراض، کینسر اور دیگر پیچیدہ امراض کا باعث بن سکتے ہیں۔ خاص طور پر موسمِ سرما میں گرم ہوائیں نہیں اٹھتیں جس کی وجہ سے یہ ذرات زمین کے قریب ہی فضا میں موجود رہتے ہیں۔

ماہرین امراضِ اطفال نے ماضی میں اسموگ کی صورتحال کے تناظر میں خدشات کا اظہار کیا کہ پاکستان کے لوگوں کی اوسط عمر میں 5 سال سے زائد کی کمی کا خدشہ ہے۔ بچوں اور بالخصوص حاملہ خواتین کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ کم عمر کے لوگ دمے کی بیماری کا شکار ہورہے ہیں جبکہ جس عمر میں دل کے امراض اور کینسر کے خدشات سنگین ہوتے ہیں، اس عمر میں بھی کمی واقع ہوگی۔

 کیا مصنوعی بارش اس کا حل ہے؟

گزشتہ دنوں لاہور میں فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے متحدہ عرب امارات سے حاصل کی گئی کلاؤڈ سیڈنگ ٹیکنالوجی سے پہلی بار مصنوعی بارش کی گئی لیکن تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ صرف طویل وقت کی موسلادھار بارش ہی فضائی آلودگی کو کم کرنے میں کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔

چھوٹے علاقوں میں صرف چند منٹ کی بونداباندی سے شاید چند ذرات یا سلفیٹ کے ذرات زمین پر بیٹھ جائیں لیکن نگران وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے 80 سال پرانی ٹیکنالوجی پر رقم خرچ کرنے کے باوجود شہر کے متعدد مقامات پر انڈر پاسز، فلائی اوورز اور نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی تعمیر کا کام بھی جاری ہے۔

اس حوالے سے حسیب آصف کا کہنا ہے کہ یہ تو درست ہے کہ پاکستان میں کاربن کا اتنا اخراج نہیں ہوتا جتنا ہم اس کے اثرات کا سامنا کرتے ہیں لیکن ہمارے اسموگ کے مسائل کا شہری منصوبہ بندی اور عوامی پالیسی سے گہرا تعلق ہے۔

کراچی میں ٹرانسپورٹ کا کوئی معقول نظام نہیں جبکہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے جڑواں شہروں میں بسوں سے زیادہ ایکسپریس ویز ہیں۔ بات کی جائے لاہور کی تو جب کورونا کی وبا اپنی انتہا پر تھی تب بھی حکومت شو رومز کو اجازت دے رہی تھی کہ وہ لگژری گاڑیوں کی فروخت کا کام جاری رکھیں۔ رنگ روڈ، اور سڑک چوڑی کرنے کے دیگر منصوبے، گرین بیلٹ تنگ کرنا، یہ سب نجی گاڑیوں کو مزید جگہ دینے کی کوششیں ہیں۔

لاہور بلکہ پورے ملک میں اسموگ کے حوالے سے پاکستان کے اقدامات کی مثال ایسی ہی ہے جیسے فائر بریگیڈ میں کام کرنے والا خود ہی آتش زنی کا ارتکاب بھی کرے۔ کوئلہ جلانے والے اینٹوں کے بھٹوں بھی یہاں موجود ہیں حالانکہ اگر آپ تعمیراتی کام کو کچھ وقت کے لیے روک دیں تو آپ کو اینٹوں کے اتنے بھٹوں کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ فصل جلانے پر بھاری جرمانہ عائد کیا جا رہا ہے، بھارت سے آنے والے کاربن اخراج کے معاملے کو سفارتی سطح پر اٹھایا گیا ہے لیکن لگتا ہے کہ معاملات بہتر نہیں بلکہ بدتر ہورہے ہیں۔

حسیب آصف کہتے ہیں کہ کسی نہ کسی وقت ہمیں یہ حقیقت قبول کرنا ہوگی کہ ہم شہر کی حدود میں کافی آلودگی خارج کررہے ہیں جوکہ ہمیں موت کے منہ میں لے جارہی ہے جبکہ سڑکوں کی تعمیر اور لگژری گاڑیوں کے ساتھ یہ سفر ذرا تیزی سے طے ہو رہا ہے۔

اسکول اور مارکٹیں بند کرنا کوئی پائیدار حل نہیں ہے اور نہ ہی ہر مہینے اسموگ ایمرجنسی کا نفاذ کوئی حل ہے۔ دو روز گھروں سے کام کرنے کی پالیسی کا اطلاق اور این 95 ماسک شاید کچھ مددگار ثابت ہوں لیکن اب تک کی سب سے معقول بات ہائی کورٹ کے ایک جج کی جانب سے حکومت کو مشورہ تھا کہ وہ اپنے عملے کو الیکٹرک موٹرسائیکلیں فراہم کرے تاکہ کچھ حد تک کاربن کے اخراج کو کم کیا جاسکے۔

25 سال پہلے 1998ء میں چین کے شہر بیجنگ میں فضائی آلودگی کے خلاف اعلانِ جنگ کیا گیا۔ اس وقت شہر میں کوئلے کا استعمال بہت ہوتا تھا گاڑیاں بھی بہت تھیں۔ اس وقت بیجنگ نے کوئلے سے چلنے والی ٹیکنالوجی سے چھٹکارا حاصل کرنے اور بہتر بائیو آرگینک ایندھن، صنعتی ری زوننگ اور کاربن مونو آکسائیڈ اور سلفر ڈائی آکسائیڈ جیسی آلودگیوں کو کم کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ یہ اقدامات ایک جامع فضائی انتظام اور سخت ماحولیاتی قانون کے نفاذ کے بغیر ممکن نہیں تھے۔

یہاں تک کہ دہلی نے نومبر میں تعمیراتی کاموں پر پابندی لگا دی۔ چین، بھارت، بنگلہ دیش نے سبسڈی والی الیکٹرک گاڑیوں، زیادہ پبلک ٹرانسپورٹ، اینٹوں کے بھٹوں کی نئی ٹیکنالوجیز اور تعمیراتی مقامات کو ریگولیٹ کرنے پر غور کیا۔ یہ سارے وہ پالیسی معاملات ہیں جو ساختی مسائل کو حل کرنے کے لیے ضروری ہیں۔

مصنوعی بارش سے کچھ حد تک فضائی آلودگی تو کم کی جاسکتی ہے لیکن خراب شہری منصوبہ بندی پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close