آواز کی نقل کے ذریعے آن لائن فراڈ کیسے ہوتا ہے اور اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

ویب ڈیسک

ٹیکنالوجی کی دنیا میں جہاں آئے روز تیز رفتار تبدیلیاں سامنے آ رہی ہیں، وہیں لوگوں کو اس بات سے بھی خبردار کیا جا رہا ہے کہ ہر چیز اور ہر شخص پر بھروسہ نہ کیا جائے

سائبرسکیورٹی پر عبور رکھنے والے ماہرین نے یہ انتباہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے نوجوان اور بزرگ شہریوں کے ساتھ دھوکہ دہی کے بڑھتے واقعات کے تناظر میں کی ہے۔

واضح رہے کہ بڑے پیمانے پر کیے جانے والے یہ مالی فراڈ مصنوعی ذہانت کا استعمال کر کے کسی شخص کی ہو بہو نقل کر کے انجام دیے جا رہے ہیں اور اس دوران کہیں کوئی ثبوت بھی نہیں چھوڑا جاتا، جس کے باعث اس واقعے کی تفتیش بھی مشکل ہوتی ہے، لوٹی ہوئی رقم کی واپسی کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔

یہ فراڈ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اب لوگوں کو مشورہ دیا جا رہا ہے وہ کسی بھی نامعلوم نمبر یا اجنبی کی جانب سے آنے والی کال کو ہرگز نہ سنیں۔

حال ہی میں انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش میں ایسی ہی دھوکہ دہی کا ایک چونکا دینے والا معاملہ سامنے آیا ہے، جس میں ایک شخص سے فون کال پر مالی فراڈ کیا گیا۔

فراڈ کا شکار ہونے والے شخص کو ایک نامعلوم آدمی کی جانب سے فون کر کے بتایا گیا کہ اس کے نوجوان بیٹے نے اس کے ساتھ زیادتی کی ہے اور اب اس کو اس معاملے کو رفع دفع کرنے کے لیے پچاس ہزار روپے ادا کرنے ہوں گے۔

اس میں حقیقی رنگ بھرنے کے لیے فون کرنے والے شخص نے مصنوعی ذہانت کے ذریعے ان کے بیٹے کی آواز کی نقل تیار کی اور انہیں سنائی۔

یہ بات سنتے ہی اس شخص نے فوراً پچاس ہزار روپے منتقل کر دیے تاہم بعد میں پتہ چلا کہ ان کا بیٹا بالکل ٹھیک ہے اور یہ جعلی کال تھی۔

سائبر سکیورٹی کے شعبے کے ماہرین کا خیال ہے کہ ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے سوچ میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔

یہ کیس فراڈ کے ان کیسز سے ملتا جلتا ہے، جس میں دھوکہ باز کسی شخص کی ہو بہو نقل کر کے اپنے دوست کو فون کرکے بتاتا ہے کہ وہ کسی نامعلوم ملک میں پھنسا ہوا ہے اور اسے فوری طور پر رقم کی ضرورت ہے۔

کلاؤڈ سیک کے سی ای او راہول ششی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس نئی دنیا میں آپ ہر ایک شخص یا چیز پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ آپ کو خود کو ایسے شخص میں ڈھالنا ہوگا جو ہر چیز پر شک کرتا ہے اور کسی پر بھی بھروسہ نہیں کرتا۔‘

سیکیور آئی ٹی کنسلٹینسی سروسز کے سائبر سکیورٹی کے ماہر ششیدھر سی این کہتے ہیں، ’ایسا میرے ایک دوست کے ساتھ ہوا، جسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اپنے دوست کی آواز میں ایک پیغام موصول ہوا جس میں فوری مدد کی درخواست کی گئی تھی۔ اس پیغام میں کہا گیا تھا کہ اس کا سارا سامان گم ہوگیا ہے اور اسے فوری طور پررقم کی ضرورت ہے۔‘

ششیدھر سی این نے مزید بتایا کہ ’جب انڈیا میں موجود اس دوست نے فون کرکے اپنے دوست کی خیریت جاننا چاہی تو وہ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ ان کا دوست بالکل ٹھیک ہے۔ پھرانھوں نے اپنے دوست کو بتایا کہ کس طرح ان کو سوشل میڈیا اکاونٹ پر جو پیغام ملا تھا وہ ان کی آواز میں تھا۔ وہ مسیج سن کر ان کا دوست بھی دنگ رہ گیا کیونکہ وہ ہو بہو اس کی اپنی آواز تھی۔‘

اس طرح کے فراڈ کا نشانہ صرف کم پڑھے لکھے لوگ نہیں بن رہے بلکہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی اس جھانسے میں آ رہے ہیں۔

ایسی ہی ایک اور مثال دیتے ہوئے ششیدھر نے بتایا، ”کچھ دن پہلے مجھے ایک کال آئی کہا کہ وہ ٹیلی کام ڈپارٹمنٹ کی جانب سے بات کر رہے ہیں۔ انھوں نے مجھ سے کہا اگر میں انھیں اپنی شناخت کی تصدیق سے متعلق معلومات نہیں فراہم کروں گا تو شام تک میرے نام پر موجود تمام نمبر بند کر دیے جائیں گے، لہذا تفصیلات بتا کرآگے بڑھنے کے لیے ایک نمبر دبائیں۔۔۔ تو اس طرح کسی کو بھی بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔“

سائبر سکیورٹی کے ماہر ششیدھر سی این نے مزید کہا، ’میں سمجھ گیا تھا کہ یہ مشکوک معاملہ ہے جس میں وہ آپ کی شناخت سے متعلق معلومات لیتے ہیں اور پھر دھوکہ دہی کرتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’میں نے اس نمبر کو نمبروں کی شناخت کرنے والی ایک ایپ پر چیک کیا جس سے مجھے معلوم ہوا کہ یہ نمبر مدھیہ پردیش کا ہے۔ پھر میں نے وہ بلاک کر دیا اور ساتھ ہی اسے ایپ پر فراڈ کے نام سے اندراج کر دیا تاکہ اگر کسی اور کو اس نمبر سے کال آئے تو وہ جان سکے کہ یہ ایک فراڈ کال ہے۔‘

ششیدھر کا کہنا ہے کہ ایسے معاملات میں فون اٹھانے یا مسج وصول کرنے والے شخص کو ان پیغامات یا کالز پر اندھا اعتماد نہیں کرنا چاہیے ’انٹرنیٹ پر بہت سے ایسے ٹولز دستیاب ہیں جو کسی کی آواز کا نمونہ لے سکتے ہیں اور اس کی آواز اور انداز سے ایسی جعلی ویڈیوز یا کلپ بنا سکتے ہیں جن کا پتہ نہیں لگایا جا سکتا۔ ان ٹولز کو استعمال کر کے آپ حیران رہ جائیں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’میں آپ کو کال کر سکتا ہوں اور کال ریکارڈ کر سکتا ہوں تاکہ مجھے جعلی کال کرنے کے لیے کافی ڈیٹا ملے۔ کچھ الگورتھم کو بنیادی ڈیٹا ( SEED DATA) کی ضرورت ہوتی ہے ۔ میں ویڈیو یا عام کال کر کے ڈیٹا حاصل کر سکتا ہوں۔‘

’یہ بہت آسان ہے، آپ، میں یا کوئی بھی کال پر کسی نامعلوم شخص سے بات کر سکتا ہے۔ اس گفتگو کے دوران اس کی آواز ریکارڈ کی جا سکتی ہے جو فراڈ کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔‘

’ایسے زیادہ تر دھوکہ بازوں کے لیے، سوشل میڈیا ایک ایسےخزانے کی طرح ہے
دوسری جانب سائبر قانون کے ماہر نوی وجے شنکر کا کہنا ہے کہ ’ایسے زیادہ تر دھوکہ بازوں کے لیے سوشل میڈیا ایک ایسے خزانے کی طرح ہے جہاں سے وہ آوازوں کے ساتھ ساتھ ویڈیوز اور تصاویر بھی کاپی کر سکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی توجہ بچوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر مرکوز ہے۔ جہاں سے وہ زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔‘

فی الحال ڈیپ فیک (جعلسازی) بنانے کے لیے ٹیکنالوجی دستیاب ہے، لیکن اس کا مقابلہ کرنے یا بچنے کے لیے کوئی ٹیکنالوجی نہیں ہے۔

وجے شنکر کہتے ہیں، ’یہ ایک طرح سے آگاہی دینے کی طرح کا مسئلہ ہے۔ لوگ اس کا ردعمل گھبراہٹ کی صورت میں ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن بڑے پیمانے پر آگاہی مہم چلا کر اسے حل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور حل نہیں ہے۔‘

وجے شنکر نے یہ بھی تجویز کیا کہ بینکنگ سیکٹر کو ٹیکنالوجی کی مدد سے صارفین کی معلومات کی حفاظت کرنی چاہیے۔

وہ کہتے ہیں ’ایک شخص جب آن لائن ادائیگی کرتا ہے تب وہ اس طرح کے دھوکے کا شکار ہو جاتا ہے۔ چونکہ یہ ایک آفیشل ادائیگی ہوتی ہے اس لیے بینک اس پر توجہ نہیں دیتا۔ تاہم اگر یہ رقم بینک سے عام لین دین (ٹرانزکشن) میں نہ ہو تو جب ہی اکاؤنٹ ہولڈر اس کی شکایت اس کی بینک میں کر سکتا ہے۔ ‘

ان کے مطابق ’متاثرہ لوگ اس بینک سے رابطہ کرسکتے ہیں جس میں رقم جمع کرائی گئی ہے۔ ہمارے بینکنگ سسٹم میں ایک خامی یہ ہے کہ متاثرہ شخص کا بینک اس بینک سے رابطہ نہیں کرتا جہاں مجرم کا اکاؤنٹ ہے۔ یہ نظام خودکار ہو جانا چاہیے۔‘

یہ خبر بھی پڑھیں:

 

ہوشیار! فراڈیوں نے شہریوں کو لوٹنے کا انوکھا طریقہ اپنا لیا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close