بھارت میں نیا امتحانی نظام، رٹّہ سسٹم کا خاتمہ؟

روہنی سنگھ

بھارت میں سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن یعنی سی بی ایس ای نے حال ہی میں ملک میں دہائیوں سے رائج امتحانی طریقہِ کار تبدیل کرتے ہوئے ’اوپن بک ایگزامینیشن سسٹم‘ متعارف کروانے کا اعلان کیا ہے۔

جب یہ معلوم ہوا کہ اس کا مطلب ہے کہ طالب علموں کو اب امتحانی مراکز میں کتابیں لے جانے کی اجازت ہوگی اور ایسا کرنا نقل مارنے کے زمرے میں بھی نہیں آئے گا، میری تو باچھیں کھل گئیں اور منہ سے بے اختیار نکلا، ارے بھئی سی بی ایس ای، اب تک کہاں تھے؟ ہمارے اسکول یا کالج کے زمانے میں ایسا فیصلہ کیا ہوتا، تو رٹّہ لگانے سے نجات مل گئی ہوتی، نیز آئے دن والدین کی ڈانٹ بھی نہ کھانی پڑتی۔
یہ نہ سمجھیں کہ میں کوئی کند ذہن طالب علم تھی مگر اب اس بے چارے چند اونس کے دماغ میں رٹّہ لگا کر کیا کیا اسٹور کیا جاتا، جو امتحانی مرکز میں فٹا فٹ باہر نکلنا شروع کر دیتا۔

اب ذرا غور فرمائیے کہ آپ کو پانی پت کی پہلی، دوسری یا تیسری جنگ کی تاریخ یاد نہ آ رہی ہو اور آپ کتاب دیکھ کر جواب لکھ دیں یا جیومیٹری کی کوئی الجھی ہوئی گُتھی سلجھانے میں مدد دینے کے لیے امتحانی ہال میں موجود ایگزامنر صاحب خود کتاب لا کر آپ کے سامنے رکھ دیں تو آپ کیسا محسوس کریں گے؟

ویسے امتحانات میں نقل کرنا بھی ایک فن مانا جاتا تھا۔ بازو پر، فراک یا قمیض کے کالروں پر یا سینے کے ابھاروں کے بیچ نقل کی پرچی چھپانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی تھی۔ امتحانی ہال، اسکول یا کالج سے بےدخل کر دیے جانے کی سزا کے خوف کی موجودگی میں بھی صرف ’فنکارانہ’ صلاحیتوں کے مالک طالبِ علم ہی نقل کرنے کی ہمت کر پاتے تھے۔ ویسے تو یہ اُن طالب علموں کے لیے ایک مشق ہی ہوا کرتی تھی، جنہیں مستقبل میں اسمگلر بننا ہوتا تھا۔ ہماری ہمت تو بس ارد گرد کن اکھیوں سے دیکھنے اور دیگر طالب علموں کے چہروں پر نظریں دوڑانے تک ہی محدود رہتی تھی۔

میں جب اخبار میں سی بی ایس ای کے اس اعلان کو پڑھ رہ رہی تھی تو اتفاق سے ساتھ ہی میں اپنے بیٹے کو اس کے سالانہ امتحانات کی تیاری میں بھی مدد کر رہی تھی۔ سات مختلف مضامین اور ہر مضمون میں کم از کم پانچ سے چھ ابواب، یہ سب کچھ اسے حفظ کرنا تھا تاکہ وہ ان ذہن نشین کیے گئے اسباق کو امتحان میں من و عن لکھ سکے۔ اب اسے ان مضامین میں سے کتنا سمجھ میں آیا اور کتنا اس نے صرف رٹّہ مارا، یہ اس کے پرچوں پر نمبر لگانے والے کو کبھی معلوم نہیں ہو پائے گا۔ وہ صرف اس کی یاداشت اور رٹّہ مارنے کی استعداد کو ہی نمبر دے سکے گا۔ ان اسباق میں سے چند دن بعد اس کو کتنا یاد رہے گا، اس کی کسی کو چنداں فکر نہیں ہے۔ میرے اور اس کے ٹیچروں کے لیے اہم یہ ہے کہ وہ امتحان میں اچھا اسکور کر سکے۔

مجھے یاد آرہا ہے کہ ہمارے دورِ طالب علمی میں امتحانات کا تصور ہی تناؤ سے بھرپور ہوا کرتا تھا۔ حساب، جیومیٹری اور سائنس کے مضامین میں اتنے تصورات یاد رکھنے پڑتے تھے، جنہیں دماغ میں سمانے کے لیے جگہ کم پڑ جاتی تھی۔ کچھ اسباق تو سرے سے سمجھ ہی نہیں آتے تھے۔ بس رٹّہ لگا کسی طرح اگلی کلاس تک رسائی حاصل کرنی ہوتی تھی۔ مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ آخر جیومیٹری کی پائیتھاگورس تھیورم یا ٹرگنومیٹری نے آگے چل کر میری عملی زندگی میں کیا رول ادا کیا؟ میرے ذہنی تناؤ میں اضافے اور والدین یا ٹیچروں کو مجھے ڈانٹنے کا ایک ہتھیار فراہم کرنے کے علاوہ اس علم نے مجھے کیا فائدہ پہنچایا؟
اپنی مثال اور اب بیٹے کی صورت حال دیکھ کر میرے دماغ میں سوال اٹھتا ہے کہ سینکڑوں سالوں سے قائم اس امتحانی نظام میں اصلاحات کیوں نہیں کی جاتی ہیں؟ جنوبی ایشیاء میں خاص طور پر ہمارا تعلیمی نظام وہیں کھڑا ہے، جہاں ایک صدی قبل تھا۔ آج بھی بس اسباق کو رٹنے پر پر زور دیا جاتا ہے۔

اس خطے کے بعض ممالک میں آبادی میں اضافے اور وسائل کی کمی کی وجہ سے اب مسابقت اتنی سخت ہو گئی ہے کہ امتحانی اسکور حاصل کرنا زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا ہے۔ آئے دن طالب علموں کی خودکشیوں کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ان کے آخری میسجز یا والدین کے نام ان کے خطوط پڑھ کر کلیجہ پھٹنے کو آتا ہے۔

لگتا ہے کہ اس مسئلے کے تدارک کے لیے ہی سی بی ایس ای نے اوپن بک ایگزامینیشن متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بورڈ دسویں اور بارہویں جماعتوں تک کے امتحانات کے انتظامات اور نگرانی کا زمہ دار ہے۔ ان جماعتوں کے امتحانی نتائج ہی بھارت میں طالبِ علموں کی آئندہ کی زندگیوں کی ڈگر طے کرتے ہیں۔

اب اس نئے امتحانی نظام سے شاید طالب علموں کو کتابی رٹّہ لگانے سے نجات مل جائے۔ انہیں اب کسی سبق کو سمجھ کر اس کی تشریح کر کے اپنے دلائل پیش کرنے پڑیں گے۔ ہر طالبِ علم اپنی اپنی لیاقت کے لحاظ سے دلیل پیش کرے گا۔ یعنی یہ طالبِ علم کے تخلیقی ذہن کا امتحان ہوگا، نہ کہ اس کی یاداشت کا۔

بتایا جاتا ہے کہ یہ نیا نظام ابھی تجرباتی مراحل میں ہے۔ ہر نئے نظام کی طرح اس کو بھی مخالفت اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا، مگر اچھی بات ہے کہ اربابِ حل و عقد میں یہ خیال گھر کر گیا ہے کہ امتحانی نظام کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ دہلی یونیورسٹی اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی جیسے ادارے پہلی ہی کووڈ-19 کی عالمی وبا کے دوران لاک ڈاؤن میں اس نظام کا تجربہ کر چکے ہیں، جب پڑھائی آن لائن ہو رہی تھی۔ تعلیمی ماہرین نے بھی سی بی ایس ای کے اس اقدم کا خیر مقدم کیا ہے۔ اگر یہ کامیابی کے ساتھ لاگوہو جاتا ہے، تو میری نظر میں یہ کسی انقلاب سے کم نہیں ہوگا۔

اس نئے نظام کے اپنے چیلنج ہوں گے۔ اساتذہ، والدین و طالب علموں کو اس نئے نظام سے بہرہ ور ہونا پڑے گا۔ اساتذہ کو بھی تعلیمی ترویج کے نئے طریقے وضح کرنے پڑیں گے۔ طالبِ علموں کو اب ایسے پراجیکٹس کرنا پڑیں گے، جس سے ان کی تخلیقی قابلیت نکھر سکے۔ یہ امید کی جا سکتی ہے کہ نیا نظام کوچنگ انسٹیٹیوٹ مافیا کا خاتمہ بھی کرے گا، طلباء میں ذہنی تناؤ کم کرے گا اور علم حاصل کرنے کے ان کے سفر کو دلچسپ اور آسان بنانے میں مدد دے گا۔ تبدیلیوں کے اس سفر کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ امید کی جانی چاہیے کہ امتحانات کا یہ نیا نظام ، نئی امیدوں کے دیے روشن کرے گا اور ایک ایسی نسل سامنے آئے گی، جو سائنسی مزاج اور تخلیقی ذہن رکھتی ہوگی۔ بقول اقبال:
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

افکار کے جہان میں ہی نت نئے خیالات سے نئے جہان ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ یہ اینٹوں اور پتھروں کا جہان، جس میں ہم رہتے ہیں، اس میں تو اینٹ اور پتھر ہی کا نیا جہان بن سکتا ہے۔ لیکن ایسا جہان، جس میں نیا نظام اور نئے افکار ابھریں صرف انسانی خیالات اور فکر کے نئے پن سے ہی پیدا ہوتا ہے۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close