بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں!

محمد فرقان

گزشتہ کئی دہائیوں سے غزہ اور فلسطین میں جاری اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم کے پیش نظر حالیہ دنوں حماس کے ‘طوفان الاقصیٰ’ آپریشن کے بعد سے قبلۂ اول بیت المقدس اور فلسطین ایک مرتبہ پھر دنیا بھر کی نظروں کے سامنے آ گئے۔ بیت المقدس کی آزادی کے خواب سجائے ہوئے اہلِ فلسطین کی داستان تقریباً ایک صدی پر پھیلی ہوئی ہے، جس سے آج ہماری نئی نسل بالکل ناواقف ہے۔ اہلِ فلسطین کی کہانی روشنائی سے نہیں بلکہ ان کے خون سے لکھی گئی ہے۔ فلسطین کے چپہ چپہ پر قربانیوں کی ایسی لازوال داستانیں نقش ہیں، جن سے وہاں کے باشندوں کی جرأت، ہمت، غیرت اور استقامت کا پتہ چلتا ہے۔ فلسطین کے معصوم بچے، مائیں، بہنیں، جوان اور بوڑھے سب ہی جس ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں، اس کے بارے میں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو بزبانِ حال یہی کہہ سکتے ہیں:
تم شہرِ اماں کے رہنے والے! درد ہمارا کیا جانو!
ساحل کی ہوا! تم موجِ صبا طوفان کا دھارا کیا جانو!

اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطینی مسلمان اب تقریباً ایک صدی سے تکلیف اور آزمائش کی چکی میں پس رہے ہیں اور یہ دنیا کی وہ واحد قوم ہے، جو خود اپنے ہی علاقے اور اپنے وطن میں مہاجروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل اہلِ فلسطین کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ کسی بھی صورت اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ فلسطین کا غم امتِ مسلمہ کا مشترکہ غم ہے اور اہلِ فلسطین کا درد بھی سانجھا ہے۔۔ اور یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ بیت المقدس کا مسئلہ فقط اہلِ فلسطین کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری ملتِ اسلامیہ کا مسئلہ ہے۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو بیت المقدس اور فلسطین و غزہ کی مجاہدانہ تاریخ سے واقف کروائیں تاکہ ہماری نسلیں بیت المقدس کی حفاظت اور آزادی کے لئے ہمیشہ تیار رہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا:
اقصٰی کی زمین کو ہم سب مل کے چھڑائیں گے
تاریخ فلسطین ہم گھر گھر میں بتائیں گے

قارئین! ”القدس“ فلسطین کا شہر اور دارالحکومت ہے۔ یہ یہودیوں، مسیحیوں اور مسلمانوں تینوں کے نزدیک مقدس ہے۔ یہاں مسلمانوں کا قبلہِ اول مسجد اقصٰی اور گنبد الصخرہ واقع ہیں۔ مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریباً 1300 کلومیٹر ہے۔ شہر 31؍ درجے 45؍ دقیقے عرض بلد شمالی اور 35؍درجے 13؍ دقیقے طول بلد مشرقی پر واقع ہے۔ بیت اللحم اور الخلیل اس کے جنوب میں اور رام اللہ شمال میں واقع ہے۔ القدس کو یورپی زبانوں میں ”یروشلم“ کہتے ہیں۔ القدس پہاڑیوں پر آباد ہے اور انہی میں سے ایک پہاڑی کا نام ”کوہِ صیہون“ ہے جس پر ”مسجدِ اقصٰی“ اور ”گنبد الصخرہ“ واقع ہیں۔ مسجدِ اقصی کے اطراف 1600 میٹر لمبی پتھر کی دیوار ہے، اس کے اندر 09؍ دروازے ہیں، جو (1) باب رحمت (2) باب حطہ (3) باب فیصل (4) باب غواغہ (5) باب ناظر (6) باب حدید (7) باب قطانبین (8) باب سلسلہ (9) باب مغاربہ کے نام سے موسوم ہیں۔

مسجد اقصٰی کی بنیاد مکہ مکرمہ کی بنیاد ڈالنے کے چالیس سال بعد حضرت سیدنا آدم علیہ السلام یا ان کی اولاد میں سے کسی نے ڈالی۔ پھر اس کی تعمیر حضرت سیدنا سام بن نوح علیہ السلام نے کی۔ عرصۂ دراز کے بعد حضرت سیدنا داؤد علیہ السلام نے بیت المقدس کی بنیاد اس مقام پر رکھی، جہاں حضرتِ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا خیمہ نصب کیا گیا تھا۔ اس عمارت کے پورا ہونے سے قبل حضرت سیدنا داؤد علیہ السلام کی وفات کا وقت آگیا تو آپ نے اپنے فرزندِ ارجمند حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام کو اس کی تکمیل کی وصیّت فرمائی۔ چنانچہ حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام نے جنّوں کی ایک جماعت کے ساتھ مسجد اقصٰی کو تعمیر کیا۔

بیت المقدس مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے، ہجرت کے بعد 16؍ سے 17؍ ماہ تک نبی کریمﷺ بیت المقدس (مسجد اقصٰی) کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔ مسلمانوں کے نزدیک مسجد حرام اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام مسجد اقصٰی ہے۔ مقامی مسلمان اسے ”المسجد الاقصیٰ“ یا ”حرم قدسی شریف“ کہتے ہیں۔ یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے، جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں پانچ ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے، جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ سفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور بیت المقدس میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔ قرآن مجید کی سورہ الاسراء میں اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: ”پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصی لے گئی، جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے“ (سورہ الاسراء)۔ احادیث کے مطابق دنیا میں صرف تین مسجدوں کی جانب سفر کرنا باعثِ برکت ہے، جن میں مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی اور مسجدِ اقصٰی شامل ہیں۔ مسجدِ اقصٰی روئے زمین پر بنائی گئی دوسری مسجد ہے۔ جہاں ایک نماز کا ثواب ڈھائی سو اور بعض روایتوں کے مطابق 25؍ ہزار ملتا ہے۔

بیت المقدس انبیاء علیہم السلام کی سرزمین فلسطین میں واقع ہے، جب نبی کریمﷺ کی بعثت ہوئی تو اس وقت اس پر سلطنت روم کے عیسائیوں کا قبضہ تھا اور سلطنت روم اس وقت بہت طاقتور تھا، لیکن اسی وقت نبی کریمﷺ نے بیت المقدس کی آزادی کی خوشخبری سنائی اور اس کو قیامت کی نشانیوں میں سے قرار دیا۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت 16ھ مطابق سن 236ء میں بیت المقدس کو یہود و نصاری کے ہاتھوں سے آزاد کرایا تھا۔ اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغِ اسلام اور اشاعتِ دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ سن 66ھ اور 86ھ کے درمیان خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجدِ اقصٰی کی تعمیر شروع کرائی اور سن 86ھ اور 96ھ کے درمیان ان کے صاحبزادے خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی۔

بیت المقدس کی یہ مقدس سرزمین تقریباً عباسی دور تک مسلمانوں کے ماتحت رہی، پھر جیسے جیسے ان میں آپسی اختلاف و انتشار، خانہ جنگی، سیاسی فتنوں اور باطنی تحریکوں کی وجہ سے عباسی حکومت کمزور پڑنے لگی تو گھات میں بیٹھے ہوئے صلیبیوں کو موقع مل گیا۔ اور ادھر فاطمی حکومت نے بھی اپنی حکومت کی مضبوطی اور استحکام اور شام سے سلجوقیوں کے خاتمے کے لئے ان صلیبیوں سے مدد طلب کی اور انہیں کئی طرح کی سہولتیں فراہم کردیں اور بیت المقدس میں آنے جانے کی اجازت دے دی۔ بالآخر ان تمام باتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صلیبیوں نے بغاوت کردی اور اپنے فاطمی خلفاء کے ساتھ غداری اور دھوکہ کیا۔ اور القدس پر قبضہ کے لئے اپنی فوج کو تیار کرلیا اور پھر 70؍ ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کرتے ہوئے بالآخر 492ھ مطابق سن 1099ء کو صلیبیوں نے بیت المقدس کو مسلمانوں سے چھین لیا اور یروشلم پر اپنی مسیحی حکومت قائم کردی۔

پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہوگیا تو انہوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا۔ انہوں نے مسجد میں رہنے کے لیے کئی کمرے بنا لیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں۔ انہوں نے مسجد کے اندر اور مسجد کے ساتھ ساتھ گرجا بھی بنا لیا۔

پھر اس کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے قبلۂ اول کی آزادی کے لئے تقریبا 16؍ جنگیں لڑیں۔ اور بالآخر 538ھ مطابق سن 1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے پیہم معرکہ آرائیوں کے بعد بیت المقدس کو صلیبیوں سے آزاد کروا لیا اور مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا۔ اس طرح 88؍ سال بعد بیت المقدس دوبارہ مسلمانوں کے بازیابی میں آگیا اور ارضِ مقدسہ سے عیسائی حکومت کا صفایہ ہوگیا۔ اس طرح ارضِ مقدسہ پر تقریباً 761؍ برس مسلسل مسلمانوں کی سلطنت رہی۔

پھر پہلی جنگِ عظیم دسمبر 1917ء کے دوران میں انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کرکے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود و نصاریٰ کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا۔ یہاں تک کہ 14؍ مئی 1948ء میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی سازشوں سے ارض فلسطین کے خطہ میں صیہونی سلطنت قائم کی گئی اور جب 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا، تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی، فلسطین کے 78؍ فیصد رقبے پر قابض ہوگئے۔ تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آگئے۔ پھر تیسری عرب اسرائیل جنگ جون 1967ء میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ اور اس طرح سن 1967ء سے بیت المقدس پر یہودیوں نے قبضہ کرلیا اور اب پوری طرح انکے قبضہ میں ہے۔

اسلام اور ملت اسلامیہ کے خلاف یہودیوں کی دشمنی تاریخ کا ایک مستقل باب ہے۔ یہودِ مدینہ نے عہد رسالت مآبؐ میں جو شورشیں اور سازشیں کیں ان سے تاریخ اسلام کا ہر طالب علم آگاہ ہے۔ گزشتہ چودہ صدیوں سے یہود نے مسلمانوں کیخلاف بالخصوص اور دیگر انسانیت کے خلاف بالعموم معادانہ رویہ اپنا رکھا ہے۔ بیسویں صدی کے حادثات وسانحات میں سب سے بڑا سانحہ مسئلہ فلسطین ہے۔ یہود و نصاریٰ نے یہ مسئلہ پیدا کرکے گویا اسلام کے دل میں خنجر گھونپ رکھا ہے۔ سن 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد یورپ سے آئے ہوئے غاصب یہودیوں نے ہزاروں سال سے فلسطین میں آباد فلسطینیوں کو ان کی زمینوں اور جائدادوں سے بے دخل کرکے انہیں کمیپوں میں نہایت ابتر حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور کردیا ہے۔21؍ اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلۂ اول کو آگ لگادی، جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا۔ محراب میں موجود منبر بھی نذرِ آتش ہوگیا، جسے سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے فتحِ بیت المقدس کے بعد نصب کیا تھا۔ دراصل یہودی اس مسجد کو ہیکلِ سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور اسے گرا کر دوبارہ ہیکلِ سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ کبھی بھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کر سکے کہ ہیکلِ سلیمانی یہیں تعمیر تھا۔

گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ کے دوران اسرائیلی یہودیوں کی جارحانہ کاروائیوں اور جنگوں میں ہزاروں لاکھوں فلسطینی مسلمان شہید، زخمی یا بے گھر ہو چکے ہیں اور لاکھوں افراد مقبوضہ فلسطین کے اندر یا آس پاس کے ملکوں میں کیمپوں کے اندر قابلِ رحم حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں بلکہ غزہ تو مکمل ایک زندان بن چکی ہے۔ اسرائیل مسلسل فلسطین میں ظلم و بربریت کا ننگا ناچ کر رہا ہے مگر تمام نام نہاد انسانیت دوست ممالک، حقوق انسانی کی محافظ تنظیمیں اور مظلوموں کے علم بردار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں بلکہ اقوام متحدہ اور اس کے کرتا دھرتا امریکہ اور یورپ کے ممالک یہودیوں کے سرپرست اور پشتیبان بنے ہوئے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ بعض نام نہاد مسلم ممالک اپنی ذاتی حقیر مفادات اور اپنی چند روزہ شان و شوکت اور عارضی کرسی کی بقا کی خاطر یا تو ان دشمنانِ اسلام کی حمایت کر رہی ہے یا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر عالمِ اسلام اسرائیلی مظالم اور جارحیت کے خلاف متحد ہوکر مقاومت کی کوشش کرتا تو آج نوبت یہاں تک نہیں پہونچتی۔ مگر عالم اسلام کی بے حسی، استعماری طاقتوں کی تملق پرستی اور امت مسلمہ کے مشترکہ مفادات سے چشم پوشی کرتے ہوئے صہیونی سازشوں اور منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہونچانے میں ان کی معاونت نے قبلۂ اول، مفادات امت اور فلسطینی مظلوم عوام کے حقوق کو دشمن کے ہاتھوں نیلام کر دیا۔ ’صدی معاہدہ‘ کی آمادگی اور اس کے نفاذ میں متعدد اسلامی ملکوں کی شمولیت اور کچھ عرصے قبل عالمِ عرب کی اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں توسیع نے یہ ثابت کر دیا کہ عالمِ عرب ’القدس‘ کی بازیابی کے لیے سنجید ہ نہیں ہے۔ وہ دشمن کے عزائم کی کامیابی میں حصہ دار اور مسلمانوں کی لاشوں کے ڈھیر پر بیٹھ کر اپنے مفادات کے لیے سمجھوتہ کرنے والی قوم ہے۔ ورنہ اگر مسلمان ممالک متحد ہو کر القدس کی بازیابی کے لیے جدوجہد کریں تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ بیت المقدس صہیونی طاقتوں کے قبضے سے آزاد نہ ہو۔ فلسطینی مظلوموں کی زبانی حمایت اور درپردہ صہیونیت نوازی نے اسرائیل کو مکمل ریاست کا درجہ دے دیا۔ آج یمن، شام، عراق اور فلسطین کے ناگفتہ بہ حالات دشمن کی سازشوں اور منصوبہ بندیوں کا نتیجہ کم، عالمِ اسلام کی غلامی اور بے حسی کا نتیجہ زیادہ ہے۔ عرب قوم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بہت ہی غیرت مند قوم ہوتی ہے لیکن پے درپے جنگوں میں اسرائیل کے ہاتھوں شکست، امریکی غلامی اور عیاشی نے اسے بزدل قوم میں تبدیل کردیا ہے۔ اسی کا فائدہ اسرائیل اٹھا رہا ہے کہ وہ جب چاہتا ہے فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کر دیتا ہے۔ اگر خطے کے ممالک فلسطین کی مدد و معاونت، فنڈ اور اسلحہ فراہم کرتے تو آج یہ حالت نہ ہوتی اور فلسطینی جانباز اپنے دم پر ہی اسرائیل کا ناطقہ بند کر دیتے۔ عرب ممالک نے ہمیشہ ضابطوں کا حوالہ دے کر فلسطینی کی مدد سے گریز کیا جب کہ امریکہ اور مغربی ممالک نے تمام ضابطوں کی دھجیاں اڑاکر اسرائیل کو نہ صرف عرب ممالک سے بچایا ہے بلکہ اقوام متحدہ (امریکہ کا رکھیل) کو استعمال کرکے اسے تمام کارروائیوں سے محفوظ رکھا۔ لیکن سلام ہو ان نہتے فلسطینیوں پر کہ وہ بیت المقدس کے تقدس کے لئے اور اپنے حق کے خاطر مسلسل قربانیاں پیش کر رہے ہیں لیکن اپنے موقف سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں، کیونکہ یہ مسئلہ فقط زمین کا نہیں اپنے ایمان کا مسئلہ ہے، حق و باطل کا معرکہ ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسلام کے ابتدائے آفرینش ہی سے حق اور باطل ہمیشہ برسرِ پیکار رہے ہیں۔ یہ دراصل نور و ظلمت اور ایمان و کفر کی قوتوں کے درمیان ایسا تصادم اور ٹکراؤ ہے جو ازل سے چلی آ رہی ہے اور یہ واضح ہے کہ ابد تک کسی نہ کسی شکل میں اس جنگ کا سلسلہ جاری رہے گا۔ لیکن ہر دو میں باطل پر حق غالب آیا ہے اور باطل کو ہمیشہ مٹنا ہی پڑا ہے۔ ظالم اگر وقتی یا ظاہری طور پر کامیاب بھی نظر آئے لیکن ہمیشہ مظلوم کی ہی حقیقی فتح اور کامیابی ہوئی ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے مظلوم ہی کا نام ہمیشہ روشن کیا ہے۔ ہر دور میں حق اور باطل کی معرکہ آرائی ہوتی رہی ہے اور ہمیشہ جیت حق اور اہل حق کی ہی ہوئی ہے۔ تاریخِ اسلامی میں ہزاروں واقعات درج ہیں، جس سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ باطل مٹنے کے لئے اور حق غالب آنے کے لئے آیا ہے۔ اور ان شاء اللہ ثم ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب یہودیوں پر مسلمان غالب آئیں گے اور کفر کی تاریکی رات ختم ہوکر اسلام کی صبح روشن ہوگی۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا:
لاکھ جلے دشمن لیکن، مٹ جائے حق ناممکن
سارے عالم میں اک دن، پرچمِ حق لہرائے گا
باطل تو مٹ جائے گا، حق ہی غالب آئے گا

قارئین کرام! ارض فلسطین یقیناً آج پھر کراہ رہا ہے۔ ہزاروں نہتے فلسطینی بیت المقدس کی حفاظت کے لئے تنِ تنہا اسرائیلی دہشت گردی کا مقابلہ کر رہے ہیں اور جام شہادت نوش فرما رہے ہیں۔ اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور دنیا خاموش ہے۔ صرف کچھ ممالک کے دبے سُر میں مذمت کے چند الفاظ بہ مشکل نکل رہے ہیں۔ امریکہ تو کھلم کھلا اسرائیلی جارحیت کی حمایت کر رہا ہے اور اسرائیلی وحشی پن کو حق دفاع قرار دے رہا ہے۔ اب تو پوری دنیا میں یہ بات عیاں ہے کہ دہشت گرد کون ہے؟ دہشت گردی یا بدی کا محور کون ہے؟ اسرائیلی حملے میں اب تک سیکڑوں فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں اور اسرائیل ہلاکت خیز حملے پے درپے کرتا جا رہا ہے۔ حملے میں عام عمارتوں، میڈیا کے دفاتر، ہسپتالوں، اسکول کالجز اور دیگر بنیادی سہولتوں کی عمارت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ شہداء کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کر چکی ہے۔ لیکن یہ یہود اور اس کے حواریں یاد رکھیں کہ ”شام“ جو زمانہ قدیم میں لبنان، فلسطین، اردن اور شام کی سرزمین پر مشتمل تھا، جہاں آج یہ یہود قابض ہیں، احادیث کے مطابق قرب قیامت میں وہاں اسلام کا غلبہ ہوگا اور ایمان اور اہل ایمان فتنوں کے اس دور میں زیادہ تر شام کے علاقوں میں ہی ہونگے۔ فتنوں کے اس زمانے میں اہل اسلام کی مختلف علاقوں میں مختلف جماعتیں اور لشکر ہونگے اس دور میں آپؐ نے شام اور اہل شام کے لشکر کو اختیار کرنے کی ترغیب دلائی کیونکہ اس دور میں ان کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لی ہوگی۔ یہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا لشکر ہوگا۔ اور آخری وقت زمانہ قرب قیامت میں خلافت اسلامیہ کا مرکز ومحور ارض مقدسہ ہوگی۔ قیامت سے قبل مدینہ منورہ ویران ہوجائے گا اور بیت المقدس آباد ہوگا، تو یہ زمانہ بڑی لڑائیوں اور فتنوں کا ہوگا، اس کے بعد دجال کا خروج ہوگا۔ دجال شام اور عراق کے درمیان میں سے نکلے گا۔ دجال کا فتنہ اس امت کا بہت بڑا فتنہ ہے اس سے ہر نبی نے اپنی قوم کو ڈرایا۔ مگر دجال مکہ، مدینہ، بیت المقدس اور کوہ طور میں داخل نہیں ہوسکے گا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بھی ان ہی علاقوں دمشق کے جامع مسجد کے مشرقی سفید مینار پر ہوگا۔ اور وہ دجال کو ”باب لد“ کے پاس قتل کریں گے۔ باب لد فلسطین کے علاقے میں بیت المقدس کے قریب ہے، جس پر اسرائیل غاصب نے قبضہ کر رکھا ہے۔ اور اسی طرح فتنہ یا جوج و ماجوج کی ہلاکت اور انتہاء بھی بیت المقدس کے قریب ”جبل الخمر“ کے پاس ہوگی۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیکہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی کہ جب تک یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا نہ دیا جائے، آج پوری دنیا سے یہودی اپنے مقتل ”اسرائیل“ میں جمع ہورہے ہیں، قیامت سے پہلے یہ وقت ضرور آئے گا کہ مسلمان یہودیوں کو چن چن کر قتل کریں گے اور ایک بار پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے قیامت کے قریب حضرت امام مہدی اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ظہور کے بعد ایک مومن جماعت کے ہاتھوں بزور شمشیر مسلمانوں کا قبلۂ اول بیت المقدس فتح ہوگا۔ بیت المقدس اور فلسطین کے موجودہ حالات سے یہ بات واضح ہے کہ وہ وقت اب قریب ہے، لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قبلہ اول کی حفاظت اور آزادی کے لئے ہمہ وقت تیار رہیں اور اپنی نسلوں کو اس کی تاریخ سے واقف کرواتے ہوئے اسکی بازیابی کے لئے تیار کریں!

اٹھ باندھ کمر مرد مجاہد کا جگر لے
مومن ہے تو پھر مسجد اقصٰی کی خبر لے

بشکریہ: لازوال

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close