امتحانات کے خوف سے کیسے باہر آیا جائے؟

زین الملوک

انسانی زندگی کا امتحان اُس وقت سے ہی شروع ہو جاتا ہے، جب وہ اس دنیا میں شعور کی آنکھ کھولتا ہے۔ یہ سلسلہ اُس وقت تک چلتا رہتا ہے، جب تک وہ اس دنیا میں ہے۔ انسان مختلف امتحانات سے گزرتا ہے، جن میں سے ایک تعلیمی امتحان ہے۔ یہ امتحان طلبا کی ذہنی صلاحیت جانچنے کے لیے لیا جاتا ہے اور اِسی بنا پر (پاس ہونے کی صورت میں) وہ اگلے درجے پر پہنچنے کے مجاز ہوتے ہیں۔

معلوم تاریخ کے مطابق، امتحانات کا رواج قدیم چین سے ہے، جہاں شاہی عہدے داروں کا انتخاب سخت امتحانات کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ یورپ میں ابتدائی ریکارڈ شدہ امتحانات گیارہویں صدی میں بولوگنا یونیورسٹی (Bologna University) کے زیرِ انتظام لیے جاتے تھے۔ اس کے بعد سے امتحانات تعلیم اور روزگار کے حصول کا ایک عام حصہ بن گئے ہیں، جو علم، ہنر اور ذہانت کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

امتحان کا تصور کر کے یا یہ لفظ سن کر اکثر طلبا گھبرا جاتے ہیں۔ راقم الحروف کا اپنا بھی یہی حال ہوتا رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں امتحانات کو لے کر طلبا کی ذہنیت پر گہرا منفی اثر ڈالا گیا ہے۔ شاید طلبا کو امتحانات کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں۔ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’کیا امتحانات ضروری ہیں‘؟ جی ہاں! امتحانات بہت ہی اہم ہیں۔ مگر کیسے؟

امتحانات دنیا بھر کے تعلیمی نظام کا ایک بنیادی پہلو ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد طلبا کی ترقی، تعلیمی صلاحیتوں اور علم کا اندازہ لگانا اور جانچنا ہے۔ امتحانات طلبا کے سیکھنے، سمجھنے اور کورس کے مواد کو برقرار رکھنے کا ایک پیمانہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ طلبا کے علم کا تجزیہ کرنے کا بھی ایک مؤثر طریقہ فراہم کرتے ہیں۔ انہیں اس بات کا تعین کرنے کے لیے ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ آیا طلبا نے کسی مخصوص کورس یا نصاب کے دوران پڑھائے گئے تصورات کو سمجھ لیا ہے یا سیکھنے کے عمل میں مزید کچھ رکاوٹیں حائل ہیں۔

امتحانات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ طلبا کو مطالعہ اور سیکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ امتحانات جواب دہی اور ذمے داری کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ نیز امتحانات ایک طالبِ علم کی کارکردگی کا ایک معروضی پیمانہ فراہم کرتے ہیں، جس سے مختلف تعلیمی اداروں میں جانچ اور تشخیص کے عمل کو معیاری بنانے میں مدد ملتی ہے۔

امتحانات کالج اور یونیورسٹی کے داخلوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ زیادہ تر اداروں کے لیے داخلے کے عمل کے حصے کے طور پر SAT، ACT، ECAT، MDCAT، GRE یا GMAT جیسے معیاری ٹیسٹ اسکورز کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ امتحانی اسکور دیگر عوامل جیسے کہ تعلیمی اسناد، ہم نصابی سرگرمیوں اور ذاتی بیانات کے ساتھ اعلیٰ تعلیم میں کامیابی کے لیے طالبِ علم کی صلاحیت کا جائزہ لینے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

امتحانات میں کامیابی یا ناکامی ایک طالبِ علم کے مستقبل کے کیریئر کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اکثر ادارے پیشہ ورانہ سرٹیفیکیشنز یا لائسنسنگ امتحانات، کسی مخصوص شعبے میں امیدوار کی قابلیت اور علم کی پیمائش کے طور پر امتحانات کے نتائج کا استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح امتحانات ملازمت کے بعض مواقع اور کیریئر کے راستوں کو محفوظ بنانے میں بھی اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔ نیز امتحانات اسکالرشپ اور مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے دروازوں میں سے ایک ہے۔ کیوں کہ اچھے اداروں میں داخلہ اور اسکالرشپ دونوں کا تعلق امتحانات کے نمبروں سے ہے۔

اپنے ذہن کو پُرسکون کر کے کس طرح امتحانات کی تیاری کرنی چاہیے؟

پہلا نکتہ: امتحانات کی تیاری کے لیے ضروری ہے کہ امتحان کی تاریخ سے بہت پہلے ہی سے اچھی طرح منصوبہ بندی کر کے مطالعہ شروع کیا جائے۔

دوسرا نکتہ: نصابی کتب اور دورانِ تدریس لیے گیے نوٹس کا جائزہ لینا، کوئز اور سوالات کی مشق کرنا، ساتھی طلبا کے ساتھ گروہی مطالعہ (گروپ اسٹڈی) اور حسبِ ضرورت اپنے متعلقہ اساتذہ سے رہنمائی طلب کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ ہر گزرتے دن اور تیاری کے مراحل مثبت انداز میں طے کرنے کے بعد اپنے آپ کو سراہیے۔

تیسرا نکتہ: امتحانات کی تیاری پُرسکون طریقے سے کرنے کے لیے طلبا کو مطالعے کی صحت مند عادات کو اپنانا چاہیے۔ کچھ طریقے، مثلاً مطالعہ کے مواد کو قابلِ انتظام حصوں میں توڑنا اور پڑھے گئے مواد کو دوبارہ پڑھنے کے لیے حقیقت پسندانہ شیڈول بنانا سودمند ثابت ہو سکتے ہیں۔

چوتھا نکتہ: اس بات کا اطمینان کر لیجیے گا کہ آپ نے جو پڑھا ہے، اسے سمجھ کر پڑھا ہے۔ نیز پڑھے ہوئے مواد کو لکھتے بھی جائیے تاکہ وہ سب آپ کو امتحان کے دن تک یاد بھی رہیں۔

پانچواں نکتہ: تناؤ اور تھکاوٹ کو کم کرنے کے لیے باقاعدگی سے وقفے لینے کے ساتھ ساتھ جسمانی سرگرمی کا مظاہرہ کرنا مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

چھٹا نکتہ: منظم رہنا، کافی آرام کرنا، اور اچھی طرح سے کھانا طلبا کو توجہ برقرار رکھنے اور پیداواری صلاحیت کو بڑھانے میں مدد کر سکتا ہے۔

آخری نکتہ: ان تمام امور کا خیال رکھنے کے بعد امتحان سے متعلقہ تمام ضروری سامان اور امتحان سے نمٹنے کے لیے ایک تازہ دماغ کے ساتھ امتحانی مرکز پہنچنا بھی بہت اہم ہے۔

اگر نتیجہ مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں …

اگر نتیجہ توقعات کے برعکس نکلا ہے تو اس موقع پر بھی پّرسکون رہ کر درج ذیل باتوں پر غور کرنا چاہیے:

● طلبا کو گھبرانے سے گریز کرتے ہوئے اپنی کارکردگی کا معروضی جائزہ لینا چاہیے۔

● اس بات کا تعین کرنا ضروری ہے کہ معاملات کہاں غلط ہوئے اور کم زوریوں کو دور کرنے کے لیے مناسب اقدامات کیجیے۔

● اساتذہ یا ٹیوٹرز سے مدد لینا، مواد پر نظرثانی کرنا اور ماضی کے امتحانی پرچوں کی مشق کارکردگی کو بہتر بنانے کے مؤثر طریقے ہیں۔

مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ کچھ طلبا امتحان میں اوسط کارکردگی دکھانے کے بعد اپنا ذہنی تناؤ اور سماجی دباؤ برداشت کرنے اور آنے والے امتحانات کی مزید بہتر تیاری کرنے کے بجائے انتہائی قدم کا سوچتے ہیں اور اپنے چاہنے والوں کو عمر بھر کا روگ دے جاتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ گھر کے بڑے، اساتذہ اور دوست ایسے حساس بچوں کے مسائل کو سمجھیں اور درست سمت کا تعین کرنے میں ان کی رہنمائی کریں۔

اگر کوئی امتحان کے نتائج کی وجہ سے اپنے اہداف حاصل کرنے سے قاصر ہے تو متبادل اختیارات پر غور کرنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر طلبا کالج یا یونیورسٹی میں دوبارہ درخواست دینے سے پہلے اضافی مہارت یا تجربہ حاصل کرنے کے لیے ایک سال کا وقفہ لینے پر غور کر سکتے ہیں۔ وہ مخصوص ہنر یا سرٹیفکیشن حاصل کرنے کے لیے پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرنے پر بھی غور کر سکتے ہیں۔

طلبا کیریئر کے متبادل راستے تلاش کر سکتے ہیں، جن کے لیے کالج کی ڈگری کی ضرورت نہیں یا ایسے روزگار کے مواقع تلاش کر سکتے ہیں، جو رسمی تعلیم سے زیادہ مہارتوں اور تجربے کو اہمیت دیتے ہیں۔

کیا امتحانات کے منفی پہلو بھی ہو سکتے ہیں؟

ہرگز نہیں، بلکہ طلبا مسابقت میں دباؤ کی وجہ سے کچھ مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے کارکردگی خراب ہو سکتی ہے۔ مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ امتحانات کے دباؤ میں آکر کچھ طلبا اپنے روزمرہ کے معاملات، جیسے کھانا، پینا اور سونا وغیرہ کو نظر انداز کر دیتے ہیں، جس سے نہ صرف اُن کی صحت خراب ہوتی ہے بلکہ امتحان والے دن اپنی صلاحیت کے برعکس کارکردگی دکھاتے ہیں۔۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ امتحانات کوئی منفی اثر ڈالتے ہیں بلکہ طلبا اپنے اوپر اس طرح کا دباؤ ڈال کر خود یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ امتحانات اُن کے اوپر منفی اثر ڈال رہے ہیں۔

امتحانات تعلیمی نظام کا ایک اہم پہلو ہیں، جو تعلیمی قابلیت کا ایک معروضی پیمانہ فراہم کرتے ہیں اور تعلیمی ترقی میں سہولت فراہم کرتے ہیں۔ امتحانات کو بوجھ نہ سمجھیے بلکہ انہیں ذہنی صحت کے لیے ایک مشق سمجھیے تاکہ یک سُو ہو کر کمرۂ امتحان میں جایا جائے اور جب وہاں سے اُٹھیں تو یہ امید رکھیے کہ جو آپ نے پیچھے محنت کی ہے اس کا صلہ ضرور ملے گا۔ چونکہ امتحانات کالج کے داخلوں اور مستقبل کے کیریئر کے مواقع کو متاثر کر سکتے ہیں، لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ وہ طالبِ علم کی صلاحیت کا صرف ایک پیمانہ ہیں۔ ایسے معاملات میں، جہاں امتحان کے نتائج کسی کو اپنے اہداف کو حاصل کرنے سے روکتے ہیں، متبادل اختیارات جیسے کہ سال کا وقفہ لینا یا کیریئر کے متبادل راستے تلاش کرنے پر غور کیا جانا چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close