ہیڈی لمار: ہالی وڈ کی وہ اداکارہ، جن کی وجہ سے وائی فائی، جی پی ایس اور بلوٹوتھ وجود میں آئے۔۔

ویب ڈیسک

حیرت انگیز فلم اسٹار ہیڈی لیمار 1940 کی آسکر نامزد فلموں ’الجیئرز‘ اور ’سیمپسن اینڈ ڈیلیلا‘ میں اپنے کرداروں کے لئے سب سے زیادہ مشہور ہو سکتی ہیں، لیکن یہ ان کا تکنیکی ذہن تھا، جو ان کی سب سے بڑی میراث تھا۔ ان کی زندگی پر بننے والی ایک دستاویزی فلم ’بمبشیل: دی ہیڈی لامر اسٹوری‘ اس پیٹنٹ کی تاریخ بیان کرتی ہے، جو لیمار نے 1941 میں فریکوئنسی ہاپنگ ٹیکنالوجی کے لیے دائر کیا تھا، جو محفوظ وائی فائی، جی پی ایس اور بلوٹوتھ کا پیش خیمہ بن گیا تھا، جسے اب دنیا بھر کے اربوں لوگ استعمال کرتے ہیں۔

لیمار کی زندگی کی کہانی واقعی قابل ذکر ہے۔ آسٹریا میں یہودی والدین کے ہاں پیدا ہونے والی، لیمار نے 1934 میں 19 سال کی عمر میں اپنے پہلے شوہر، ایک امیر، دبنگ جنگی سازو سامان بنانے والی کمپنی کے مالک، سے ناخوشی سے شادی کی، اور پھر ایک روز آدھی رات کو سائیکل پر اپنے گھر سے بھاگ گئیں

انہیں ایک وقت میں دنیا کی خوب صورت ترین عورت کے خطاب سے بھی نوازا گیا تھا۔ انہوں نے 1930 سے لے کر 1958 کے درمیان بے شمار فلموں میں کام کیا، جس میں 1949 میں ریلیز ہونے والی ’سیمسن اینڈ ڈیلیلا‘ ان کی سب سے کامیاب فلم ثابت ہوئی۔

لیکن کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ ایک کامیاب اداکارہ کے ساتھ ساتھ وہ ایک قابل موجد بھی تھیں، جنہوں نے ٹریفک سگنل میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی ٹیبلٹ ایجاد کی تھی، جسے اگر پانی میں ڈال دیا جائے تو وہ کاربونیٹڈ ڈرنک بن جاتی ہے۔

تاہم جس ایجاد کی وجہ سے ان کا نام آج بھی زندہ ہے اسے ’فریکوئنسی ہوپنگ اسپریڈ سسٹم‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس سسٹم کے ذریعے ریڈیو سگنلز صرف ایک فریکوئنسی تک محدود نہیں رہتے، جس کی وجہ سے انہیں جیم کرنا ناممکن ہوتا ہے

ہیڈی لمار نے دوسری جنگ عظیم کے دوران ساتھی موجد جارج اینتھائل کے ساتھ مل کر اتحادی فوج کے لیے ایک ایسا ریڈیو گائیڈنس سسٹم بنایا تھا، جس نے آگے جا کر اس مواصلاتی ٹیکنالوجی کی راہ ہموار کی، جس میں جی پی ایس، بلیوٹوتھ اور وائی فائی نیٹ ورک شامل ہیں

اگرچہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران تو ان کا یہ گائیڈنس سسٹم استعمال نہیں ہو سکا، البتہ 1962 میں کیوبن میزائل بحران کے دوران اس کے اپڈیٹڈ ورژن کو کام میں لایا گیا۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے نہ صرف سب میرین سے مارے گئے ٹورپیڈوز کو ٹرانسمیٹر کے ذریعے کنٹرول کرنے کا موقع ملا، بلکہ دشمن کے جیمرز کو بھی ایک حد تک ناکارہ کرنے میں مدد ملی۔

سن 1942ع میں متعارف ہونے والے اس ’سیکریٹ کمیونیکیشن سسٹم‘ کی وجہ سے ہیڈی لمار اور جارج اینتھائل نے سن 2014 میں نیشنل انوینٹرز کے لیے مختص ’ہال آف فیم‘ میں جگہ حاصل کی

اس طرح ہیڈی لمار دنیا کی وہ واحد اداکارہ بنی، جو ہالی وڈ ’والک آف فیم‘ کے ساتھ ساتھ سائنسدانوں کے ’ہال آف فیم‘ میں بھی موجود ہیں۔ 19 جنوری 2000 کو وفات پانے والی اداکارہ کی ایجاد آج بھی دنیا بھر میں اربوں افراد کے کام آ رہی ہے۔

ہیڈی لمار متنازع اداکارہ سے عالمی شہرت یافتہ اسٹار کیسے بنیں؟

سن 1914 میں ویانا میں پیدا ہونے والی ہیڈویگ ایوا ماریہ کیسلر کو بچپن سے ہی اداکاری کا شوق تھا۔ 12 سال کی عمر میں ایک مقامی مقابلہ حسن جیتنے کے بعد انہوں نے فلموں کا رخ کیا اور 1930ع میں بننے والی آسٹرین جرمن فلم ’منی آن دی اسٹریٹ‘ سے اپنا کریئر شروع کیا۔

انہیں 1933 میں ایک متنازع فلم سے شہرت ملی، لیکن بعد میں انہوں نے ہدایت کار پر الزام لگایا کہ انہوں نے ٹیلی فوٹو لینس لگا کر ان کا سیکس سین شوٹ کر کے انہیں دھوکہ دیا۔

اس فلم کی کامیابی کے بعد انہوں نے آسٹریا کے تیسرے امیر ترین شخص فریڈریک مینڈل سے شادی کر لی، جنہوں نے ان پر فلموں میں اداکاری پر پابندی لگا کر انہیں شوبز سے دور کر دیا

فلموں سے یہی دوری انہیں اپنے شوہر کے بزنس سے قریب لے آئی، جو ملٹری کو اسلحہ فراہم کرتے تھے۔ لمار میں اپلائیڈ سائنس کا شوق یہاں سے پیدا ہوا جو آگے جا کر انہیں موجد بنانے میں اہم ثابت ہوا۔

سن 1937 میں وہ اپنے شوہر کو چھوڑ کر پہلے لندن اور پھر امریکہ گئیں، جہاں انہوں نے ’ایم جی ایم اسٹوڈیو‘ کے مالک کے کہنے پر اپنا نام تبدیل کرکے ہیڈی لمار رکھا تاکہ ان پر سے ان کی متنازع فلم کی ہیروئن والی چھاپ مٹ سکے۔

سن 1938 میں ’الجیئر‘ سے انہوں نے بطور اداکارہ اپنی دوسری اننگز کا آغاز کیا، جو پندرہ سال تک جاری رہا۔ 1949 کی ’سیمسن اینڈ ڈیلائلا‘ میں ان کی اداکاری کے ساتھ ساتھ پُرکشش شخصیت کو بھی سب نے پسند کیا۔

اپنے کرئیر کے دوران ہیڈی لمار نے نامور اداکاروں کے ساتھ کام کیا۔ ان کی خوب صورتی کے چرچے بھی ہوئے اور انہیں کئی میگزین کے سرورق پر بھی جگہ ملی، تاہم آج ان کی فلموں سے زیادہ ان کی سائنسی خدمات کی وجہ سے انہیں یاد کیا جاتا ہے، جس میں ایک ایسا سسٹم تخلیق کرنا شامل ہے، جس کے بغیر انٹرنیٹ، بلیو ٹوتھ اور وائی فائی کا قیام بھی مشکل ہے۔

دوسری جنگِ عظیم کے دوران جس طرح متعدد مرد اداکاروں نے اپنے ملک کی فوج میں شمولیت اختیار کی، ویسے ہی ہیڈی لمار نے ایجادات کر کے اپنا حصہ ڈالا

اس سے پہلے بہت کم لوگوں کو اندازہ تھا کہ ایک کامیاب اداکارہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک سیلف ٹاٹ یعنی خود سے سیکھنے والی کمیونیکیشن انجنیئر بھی ہیں

آسٹریا کے لہجے والی لیمار نے ’بم شیل‘ میں کہا، ”میرے لیے ایجادات کرنا آسان ہیں۔ مجھے خیالات پر کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے، وہ قدرتی طور پر آتے ہیں۔“

9 نومبر کو ان کی سالگرہ کے دن کو ان کے آبائی ملک آسٹریا، سوئٹزرلینڈ اور جرمنی میں بطور ’انوینٹرز ڈے‘ یعنی موجدوں کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے

ہیڈی لمار نے زندگی میں چھ شادیاں کیں، لیکن سب ہی ناکام ثابت ہوئیں۔ بطور اداکارہ بھی انہوں نے کوئی بڑا ایوارڈ نہیں جیتا البتہ انہیں امریکی الیکٹرانک فرنٹیئر فاؤنڈیشن نے 1997 میں ’پائینیئر ایوارڈ‘ سے نوازا تھا، جب کہ آسٹریا میں انہیں ’وکٹر کیپلن میڈل‘ دیا گیا، جو پیٹنٹ ہولڈرز اور موجدوں کو دیا جاتا ہے۔

ایجاد کی سند کو رینیو نہ کرنے اور کلیم فائل نہ کرنے کی وجہ سے ہیڈی لمار اپنی ہی ایجاد سے کوئی مالی فائدہ نہ حاصل کر سکیں اور آخری ایام کسمپرسی میں گزارے۔

ایجادات کے لیے قدرتی صلاحیت کی حامل لیمار کو جو چیز نہیں ملی، وہ نام اور معاوضہ تھی، جن کے لیے وہ اپنے خیالات کی وجہ سے مستحق تھیں۔ انہوں نے شریک موجد جارج اینتھیل کے ساتھ جو پیٹنٹ دائر کیا تھا اس کا مقصد ریڈیو مواصلات کے لیے ان کی جنگ کے وقت کی ایجاد کو ایک فریکوئنسی سے دوسری فریکوئنسی تک ‘ہاپ’ کرنے کے لیے محفوظ کرنا تھا، تاکہ نازیوں کے ذریعے اتحادی ٹارپیڈو کا پتہ نہ چل سکے۔ لیمار نے اربوں ڈالر کی صنعت سے ایک فیصد بھی فائدہ نہیں دیکھا، حالانکہ امریکی فوج نے ان کے فریکوئنسی ہاپنگ پیٹنٹ اور ٹیکنالوجی میں شراکت کو عوامی طور پر تسلیم بھی کیا۔

پچاس کی دہائی کے آخر میں فلموں کو خیرباد کہنے والی اداکارہ اور حیرت انگیز موجود کو متعدد مرتبہ شاپس سے چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا۔

سن 2019 میں ایک ایسٹروائیڈ 32730 لمار کا نام ان کے نام پر رکھا گیا۔

یہی نہیں سن 2013 میں انسٹیٹیوٹ آف کوانٹم آپٹکس اینڈ کوانٹم انفارمیشن نے یونیورسٹی آف ویانا میں ایک کوانٹم ٹیلی اسکوپ نصب کیا، جسے ہیڈی لمار کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔

کہا جاتا ہے کہ مشہور کامک بک کردار کیٹ وومن بھی اداکارہ سے متاثر ہو کر تخلیق کیا گیا تھا، جب کہ ڈزنی کی اینیمیٹڈ فلم ’اسنو وائٹ‘ کے مرکزی کردار میں بھی انہی کی مشابہت نظر آتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close