کراچی یونیورسٹی میں ”شہید بینظیر بھٹو چیئر“ کس حال میں ہے؟

ویب ڈیسک

کراچی – سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بینظیر بھٹو کی زندگی پر ریسرچ کرنے والے ادارے کے ملازمین کا کہنا ہے کہ انہیں ملازمتوں سے فارغ کر کے ادارے کو غیر فعال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، تاہم قائم مقام ڈائریکٹر نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے

واضح رہے کہ 2008ع میں پاکستان کے چار مختلف تعلیمی اداروں کراچی یونیورسٹی ، سندھ یونیورسٹی ، شاہ عبداللطیف بھٹائی یونیورسٹی خیر پور اور ویمن یونیورسٹی لاہور میں تحقیقاتی ادارے قائم کیے گئے تھے۔ ان تمام اداروں کو ’شہید محترمہ بے نظیر بھٹو چیئر‘ کہا جاتا ہے، جن کا منشور تحقیق، ایک بھرپور ریسورس سینٹر قائم کرنا، لائبریری بنانا اور عالمی طور پر بینظیر بھٹو کے جمہوری مقاصد کی ترویج کرنا تھا

کراچی یونیورسٹی کے پرانے کمپیوٹر سائنس ڈپارٹمنٹ کی عمارت میں قائم اس ادارے میں 2017ع سے مستقل چئیرپرسن تعینات نہیں ہیں، جس کی وجہ سے کراچی یونیورسٹی کے سوشل سائنسز ڈپارٹمنٹ کی ڈین پروفیسر ڈاکٹر نصرت ادریس ایڈیشنل ڈائریکٹر کے طور پر فرائض انجام دے رہی ہیں

ان دنوں شہید بے نظیر بھٹو چیئر کے عملے کی جانب سے لکھا گیا ایک خط سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ”کراچی یونیورسٹی میں قائم بینظیر بھٹو چیئر کے ملازمین کو 2016 اور 2018 میں سابقہ وائس چانسلر اور ایڈوائزری بورڈ کے فیصلوں کے مطابق ملازمتوں پر مستقل کیا گیا تھا۔“

خط کے مطابق ’ایڈیشنل ڈائریکٹر نے چارج سنبھالتے ہی تمام اسٹاف کو تنخواہوں میں کٹوتی، ملازمتوں سے فارغ کرنے اور اشتہارات کے ذریعے نئے ملازمین رکھنے کا کہہ دیا ہے۔ اس کے باعث بینظیر بھٹو چیئر کا تمام عملہ شدید ذہنی تناؤ اور اذیت کا شکار ہے۔‘

اس معاملے پر جب بے نظیر بھٹو چیئر کے عملے سے رابطہ کیا گیا تو ادارے کے ایک ملازم نے نام نہ ظاہر نے کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اس خط کی تمام باتیں درست ہیں۔ ہم نے ایک عشرے تک بینظیر بھٹو کی زندگی پر اعلیٰ تحقیق کی، مگر اب انہیں ہماری کوئی ضروت نہیں۔ ہمیں کہہ دیا گیا ہے کہ ہماری اس ادارے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہم سرکاری ملازم ہیں مگر ہمارا رہائشی الاؤنس بھی بند کر دیا گیا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’کراچی یونیورسٹی کی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو چیئر میں کل چھ ملازمین ہیں۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر صاحبہ نے نومبر 2021 میں اس ادارے کا چارج سنبھالا ہے اور تب سے وہ ہمیں کہہ رہی ہیں کہ وہ ہماری تقرری کو نہیں مانتیں اور جلد ہمیں نوکریوں سے فارغ کر دیا جائے گا۔ 2017ع میں بھی اس ادارے کی سابقہ ڈائریکٹر سحر گل بھٹی کو زبردستی عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ہم نے تمام معاملات کراچی یونیورسٹی کے اعلیٰ حکام کے سامنے رکھے ہیں اور پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے، مگر ابھی تک کوئی خاطر خواہ جواب نہیں ملا، بلکہ یہ معاملہ اٹھانے پر اسٹاف کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے

انہوں نے بتایا کہ یہ تمام کام شہید محترمہ بے نظیر بھٹو چیئر کو بند کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کا ایک مخصوص طبقہ اس ادارے اور اس میں ہونے والے کام کو پسند نہیں کرتا، جس کی بنیاد پر یہ سب کیا جا رہا ہے

واضح رہے کہ 2016ع میں کراچی یونیورسٹی میں بینظیر بھٹو چیئر اور بینظیر بھٹو کنوینشن سینٹر کے قیام کے لیے حکومت سندھ کی جانب سے 44 کروڑ روپے کی رقم جاری کی گئی تھی، تاہم دونوں منصوبے تاحال نامکمل ہیں

آٹھ دسمبر 2020ع کو ممبر صوبائی اسمبلی سندھ اور پاکستان پیپلزپارٹی کے خواتین ونگ کی انفارمیشن سیکرٹری سعدیہ جاوید نے کراچی یونیورسٹی میں بے نظیر بھٹو کنوینشن سینٹر کی زیر تعمیر عمارت کا دورہ کیا تھا۔ جس کی تصاویر سے یہ واضح ہے کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو چیئر اور کنوینشن سینٹر کی عمارت تاحال مکمل نہیں ہوئی ہے

بے نظیر بھٹو چیئر کے ملازم کا کہنا تھا کہ ’2016 اور 2018 میں ہمیں ایڈوائزری بورڈ کے فیصلوں کے مطابق مستقل کیا گیا تھا جس کا ریگیولرآئزڈ آفس آرڈر بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ اس وقت بینظیر بھٹو چیئر کے مستقل اسٹاف کو اس لیے ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ آئندہ جب صوبے میں پیپلزپارٹی کی حکومت نہیں ہوگی، تو کانٹریکٹ پر رکھے گئے ملازمین کو ہٹانا، مستقل ملازمین کو ہٹانے کے نسبتاً زیادہ آسان ہوگا۔‘

اس معاملے پر جب بے نظیر بھٹو چیئر کی ایڈیشنل ڈائریکٹر اور کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سوشل سائنسز کی ڈین پروفیسر ڈاکٹر نصرت ادریس سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر آنے والی تمام خبریں درست نہیں ہوتیں، یہ بات بالکل غلط ہے کہ بے نظیر بھٹو چیئر کے ملازمین کو ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے

اس حوالے سے کراچی یونیورسٹی کے ترجمان محمد فاروق کا کہنا تھا کہ ’مجھے اس معاملے کا کوئی علم نہیں ہے، یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔‘

جب ڈاکٹر خالد محمود عراقی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کا موقف جاننے کے لیے سندھ کے وزیر تعلیم سردار شاہ سے بھی رابطہ کیا گیا، مگر ان کی جانب سے بھی کوئی جواب نہیں ملا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close