کوانٹم تباہی: ’کوانٹم کمپیوٹر کے قہر‘ سے خوف کی وجہ کیا ہے؟

ویب ڈیسک

کراچی – ایک ایسی دنیا کا تصور کریں جہاں ’انکرپٹڈ‘ یا خفیہ اور حساس نوعیت کی فائلیں اچانک کھول لی جائیں، اور کوئی بھی کسی کے بھی راز پڑھ سکتا ہو!

ایسی ممکنہ صورتحال کو ‘کوانٹم اپوکلپس’ یعنی کوانٹم تباہی کہا جاتا ہے

دوسرے الفاظ میں کوانٹم کمپیوٹرز گذشتہ صدی میں تیار کیے گئے کمپیوٹرز سے بالکل مختلف طریقے سے کام کرتے ہیں۔ یہ کمپیوٹر موجودہ دور کے کمپیوٹروں سے کئی گنا تیز ہو سکتے ہیں

اس کا مطلب یہ ہے کہ آج کے کمپیوٹرز کی کسی لاک شدہ فائل کو کھولنے کے لیے عام کمپیوٹرز کو جہاں کئی سال لگتے ہیں، کوانٹم کمپیوٹرز یہ کام چند لمحوں میں کر پائیں گے

یہ تصور مکمل طور پر عدم تحفظ کے احساس سے بھرا ہوا ہے کہ اگر یہ کوانٹم کمپیوٹر آ جائے تو وہ دنیا کا کوئی بینک ہو یا فوج، کسی بھی خفیہ سسٹم میں داخل ہو سکے گا۔ اسی منظر کو کوانٹم تباہی کہتے ہیں

ایسے کمپیوٹر انسانیت کو درپیش ہر طرح کے مسائل کو حل کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ برطانیہ کی حکومت ہارویل، آکسفورڈ شائر میں ‘نیشنل کوانٹم کمپیوٹنگ’ سینٹر میں سرمایہ کاری کر رہی ہے، اور ایسا اسی امید کے ساتھ کیا جا رہا ہے کہ اس شعبے میں تحقیق سے انقلاب برپا ہو جائے گا

لیکن اس کا ایک تاریک پہلو بھی ہے

امریکا، چین، روس اور برطانیہ سمیت متعدد ممالک ایسے سپر فاسٹ کوانٹم کمپیوٹر تیار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور اس شعبے میں بھاری سرمایہ کاری بھی کر رہے ہیں تاکہ سائبر سکیورٹی کی دنیا میں اسٹریٹیجک یا دفاعی معاملات میں ایک دوسرے پر سبقت لے جا سکیں

ہر روز بڑی مقدار میں ’انکرپٹڈ ڈیٹا‘ خفیہ کوڈ میں درج شدہ معلومات جس میں ہم سب کے بارے میں معلومات بھی شامل ہیں، جو ہماری اجازت کے بغیر جمع کی جا رہی ہیں اور ڈیٹا بینکوں میں محفوظ کی جا رہی ہیں

یہ ساری معلومات اس دن کے لیے اکٹھی کی جا رہی ہیں، جب ڈیٹا چور کوانٹم کمپیوٹروں کے ذریعے اس کو ڈیکرپٹ کرنے یا ان معلومت کی گتھی سلجھانے کی صلاحیت حاصل کر لیں گے

کمپنی ’پوسٹ کوانٹم‘ کے چیف اسٹریٹیجی آفیسر، ہیری اوون کہتے ہیں ”آج ہم انٹرنیٹ پر جو کچھ بھی کرتے ہیں آن لائن خریداری سے لے کر بینکوں میں رقوم کی منتقلی، سوشل میڈیا پر تبصرے اور جو کچھ بھی ہم کرتے ہیں وہ سب انکرپٹڈ یا کمپیوٹر کی خفیہ زبان میں درج ہوتا ہے۔“

ہیری اوون کا کہنا ہے ”لیکن ایک بار جب ایک فعال کوانٹم کمپیوٹر بنا لیا گیا تو اس انکرپشن کو توڑنا ممکن ہو جائے گا. جس کسی نے بھی اسے بنایا اسے تقریباً فوری طور پر یہ صلاحیت حاصل ہو سکتی ہے کہ وہ بینک میں کھاتوں کا صفایا کر دے، حکومتی دفاعی نظام کو مکمل طور پر مفلوج بنا دے اور بٹ کوائن کے بٹوے جھاڑ لے۔“

کیمبرج اور کولوراڈو کی کمپنی کوانٹینیم کے چیف ایگزیکٹیو الیاس خان کی طرف سے ایک پیشگوئی کی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کوانٹم کمپیوٹرز آنے سے انکرپشن کے زیادہ تر موجودہ طریقے بیکار ہو جائیں گے

ان کا ماننا ہے کہ کوانٹم کمپیوٹرز ہمارے طرز زندگی کے لیے خطرہ ہیں

اس ضمن میں ایک اور اہم اصطلاح کوانٹم پروفنگ کی ہے. لیکن کیا یہ واقعی ممکن ہے؟ یہ تو ایک مکمل تباہی لگتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو ہم نے اس کے بارے میں زیادہ کیوں نہیں سنا؟

جواب یہ ہے کہ ہاں، اگر کوئی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی جاتیں تو واقعی سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے

اس بارے میں برطانوی وزارت دفاع کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اگر ہم اس سے بچنے کی تدبیر نہیں کرتے تو نقصان ہو سکتا ہے۔‘

عملی طور پر، اس صورتحال سے بچنے کی کوششیں پہلے ہی شروع کر دی گئی ہیں اور کئی برسوں سے جاری ہیں۔ برطانیہ میں ‘ٹاپ سیکرٹ’ کے زمرے میں آنے والے تمام سرکاری ڈیٹا یا ریکارڈ پہلے سے ہی ‘پوسٹ کوانٹم’ ہے

یعنی انہیں انکرپشن کی نئی شکلوں کا استعمال کرتے ہوئے درج کیا جا رہا ہے، جس کے بارے میں محققین کو توقع ہے کہ یہ طریقہ ’کوانٹم پروف‘ یعنی کوانٹم سے محفوظ ثابت ہوگا

گوگل، مائیکرو سافٹ، انٹیل اور آئی بی ایم جیسی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں بھی اس کے حل پر کام کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ کوانٹینوم اور پوسٹ کوانٹم جیسی مزید کمپنیاں بھی اس حوالے سے تحقیق کر رہی ہیں

اا حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس وقت واشنگٹن ڈی سی کے قریب ‘یو ایس نیشنل انسٹیٹیوٹ فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی’ (این آئی ایس ٹی) میں پوسٹ کوانٹم کرپٹوگرافی ’بیوٹی پریڈ‘ ہو رہی ہے

اس کا مقصد ایک معیاری دفاعی حکمت عملی وضع کرنا ہے، جو صنعت، حکومت، تعلیمی اداروں اور اہم قومی انفراسٹرکچر کو ’کوانٹم کے قہر‘ کے خطرات سے تحفظ فراہم کرے گی

کوانٹم کمپیوٹنگ مہنگا اور محنت طلب کام ہے اور یہ عمل بڑی مقدار میں حدت پیدا کرتا ہے۔ ‘کوانٹم سیف الگورتھم’ یا ایسے الگورتھم تیار کرنا، جو کوانٹم کمپیوٹر سے محفوظ ہوں، ہمارے دور کے بڑے سکیورٹی چیلنجز میں سے ایک ہے

لیکن ماہرین کا کہنا ہے ”اگر ان مشکلات کے ڈر سے ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہ سکتے، کیونکہ اس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا.“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close