گلگت بلتستان میں ’گلیشیئرز کی شادی‘

ویب ڈیسک

گلگت – بلند و بالا پہاڑوں اور قدرتی خوبصورتی سے بھرپور گلگت بلتستان میں مقامی افراد ایک ایسی انوکھی اور برسوں پرانی روایات سے جڑے ہیں، جو شاید دنیا میں کہیں اور نہیں پائی جاتی۔ اسے ’گلیشیئرز کی شادی‘ کہا جاتا ہے

گلگت بلتستان، بالخصوص بلتستان ڈویژن، میں اگر کسی مقامی باشندے سے پوچھا جائے کہ آپ کو سب سے بڑا مسئلہ کون سا درپیش ہے تو ممکنہ طور پر آپ کو جواب ملے گا ’پانی کی قلت‘

واضح رہے کہ یہاں کسی زمانے میں ’گلیشیئرز کی شادی‘ یعنی گلیشیئر گرافٹنگ کے عمل سے پانی کی ضرورت کو پورا کیا جاتا تھا۔ ان مصنوعی گلیشیئرز کی مدد سے پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے

اگرچہ گذشتہ برسوں کے دوران ’گلیشیئرز کی شادیاں‘ تو انتہائی کم ہو گئی ہیں، لیکن اب بلتستان ڈویژن میں ’برفانی اسٹوپا‘ کا تصور مقبولیت حاصل کر رہا ہے

برفانی اسٹوپا کا کامیاب تصور انڈیا کے علاقے لداخ میں سونم وانگ چک نے دیا تھا۔ یہ تصور بھی بنیادی طور پر گلیشیئر گرافٹنگ سے ہی اخذ کیا گیا ہے

بلتستان کے ضلع کھرمنگ کے گاؤں پاری کے رہائشیوں نے اب اس عمل کو اختیار کیا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ ”پاری گاؤں برفانی اسٹوپا کے فوائد کے لیے ایک مثال بن چکا ہے“

غلام حیدر پاری گاؤں کے رہائشی اور ایک سرکاری ملازم ہیں۔ وہ کہتے ہیں ”انہوں نے برفانی اسٹوپا بنا کر اپنے علاقے میں پانی کی قلت کو کسی حد تک دور کر لیا ہے۔“

غلام حیدر کے مطابق: سنہ 2017ع سے پہلے پانی کی کمی کے سبب سے ان کے علاقے میں درختوں پر سے پھل گر جاتا تھا اور فصل بھی کچھ خاص نہیں ہو پاتی تھی۔ شدید محنت اور تکلیف اٹھانے کے باوجود بھی پانی کی ضرورت پوری نہیں ہوتی تھی

انہوں نے بتایا کہ رواں برس لداخ خطے کے سونم وانگ چک کے برفانی اسٹوپا کی تکنیک کی کامیابی سے وہ متاثر ہوئے

”سونم وانگ چک کی تیار کردہ ویڈیوز سے ہم نے سیکھا کہ کس طرح برفانی سٹوپا مقامی وسائل، برف، پانی اور بے ضرر چیزوں سے بنا کر پانی کی ضرورت کو پورا کیا جا سکتا ہے۔“

غلام حیدر کہتے ہیں کہ اپنی مدد آپ کے تحت اپنے چند نوجوانوں کے ساتھ پہلے سال اس منصوبے کی بنیاد رکھی تو مقامی افراد نے ہی ان کا مذاق اڑایا

انہوں نے کہا ”مجھے کہا گیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس طرح پانی کی ضرورت پوری ہو جائے۔ مگر پہلے ہی سال ہمیں کسی حد تک پانی ملا۔ دوسرے سال ہم نے مزید سیکھا اور جو غلطیاں کیں تھیں ان پر قابو پایا جس کے نتیجے میں ہم تین ماہ کے دوران یعنی مارچ، اپریل اور مئی میں اپنی پانی کی ضرورت پورا کرنے کے قابل ہوئے“

غلام حيدر نے بتایا کہ فصلوں اور درختوں پر اچھے پھل لگے تو اس سے گاؤں کے دیگر لوگ بھی متاتر ہوئے اور انہوں نے مدد کرنا شروع کر دی اور اب حال یہ ہے کہ آس پاس کے گاؤں اور دیہات کے لوگ بھی برفانی سٹوپا بنانا چاہتے ہیں

ضلع کھرمنگ کے محکمہ زراعت کے ڈپٹی ڈائریکٹر موسیٰ علی ہاشمی کہتے ہیں کہ پاری گاؤں میں برفانی اسٹوپا موسمیاتی تبدیلیوں سے مقامی وسائل کے ساتھ لڑنے کی نہ صرف شاندار مثال ہے بلکہ یہ سمارٹ زراعت کی بھی ایک مثال ہے

انہوں نے بتایا ”اس منصوبے سے پاری گاؤں میں لگ بھگ چھ ہزار کنال زمین کو اب مناسب پانی مل رہا ہے۔ تیس سے چالیس ہزار پودے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جس میں پندرہ سے بیس ہزار پودے خوبانی اور سیب کے ہیں۔ اب ان لوگوں کا مال منڈیوں میں پہنچ رہا ہے اور وہ منافع کما رہے ہیں۔“

جہاں ایک جانب برفانی سٹوپا کی مقبولیت بڑھ رہی ہے، وہیں ساتھ ساتھ گلگت بلتستان میں برسوں پرانے مقامی طریقہ کار یعنی گلیشیئر گرافٹنگ پر بھی بات کی جا رہی ہے

گلیشیئرز کی شادی (گلیشیئر گرافٹنگ) کیا ہے؟

برفانی اسٹوپا کو صرف مختصر مدت کے لیے فائدہ مند سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس کو ہر سال بنانا پڑتا ہے جبکہ گلیشیئر گرافٹنگ کو دیرپا سمجھا جاتا ہے، جس کو ہر سال بنانا تو نہیں پڑتا مگر اس کو تیار ہونے میں کچھ سال ضرور لگتے ہیں

یونیورسٹی آف بلتستان نے ایک منصوبے کے تحت پانی کے مسائل حل کرنے کے لیے مقامی گلیشیئر گرافٹنگ اور برفانی اسٹوپا، جس کو انہوں نے آئس ٹاور یا مینارہٕ آب کا نام دیا ہے، شروع کر رکھا ہے

اس پراجیکٹ کے انچارج ڈاکٹر ذاکر حسین ذاکر اس امید کا اظہار کرتے ہیں کہ آئس ٹاورز یا اسٹوپا کے ساتھ ساتھ گلیشیئر گرافٹنگ کی روایات بھی دوبارہ زندہ ہونگیں، انہیں اس بات کی توقع ہے کیونکہ کئی مقامی روایات اس کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں

گلیشیئر گرافٹنگ یا مقامی طور پر گلیشیئر کی شادی کرنے کے عمل کے بارے میں ڈاکٹر ذاکر حسین ذاکر بتاتے ہیں کہ ”مقامی روایات کے مطابق گلیشیئر نر اور مادہ ہوتے ہیں“

نر گلیشیئر کا رنگ مٹیالا اور اس میں برف کے ساتھ مٹی اور کنکر ہوتے ہیں، جبکہ مادہ گلیشئر چمکیلا، دودھیا، نیلگوں رنگ یا پھر صاف ستھرا ہوتا ہے

”گلیشیئر اگانے کے لیے مختلف گلیشیئرز سے بڑے بڑے ٹکڑے، جن کا وزن بیس سے تیس کلو ہوتا ہے، لائے جاتے ہیں۔ پھر ان کو روکے بغیر برفانی کنویں تک لایا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ کوئلہ، گندم کا بھوسہ، خوبانی کی گیری کا چھلکا مختلف دریاؤں اور چشموں سے لائے گئے پانی کی مشکیزوں میں ڈال کر رکھی جاتی ہیں۔“

”یہ سب کچھ مقامی روایات کا حصہ ہوتا ہے اور روایت کے مطابق اس سے ان گلیشیئر کو بڑھنے میں مدد ملتی ہے۔“

انہوں نے بتایا کہ جب گلیشیئر گرافٹنگ کی جاتی ہے تو نر گلیشیئر پر مٹی وغیرہ بھی ڈالی جاتی ہے جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے اس گلیشیئر کی عمر بڑھ جاتی ہے

ڈاکٹر ذاکر حسین کہتے ہیں کہ گلیشیئر گرافٹنگ کے لیے عموماً ایسی جگہ کا انتخاب کیا جاتا ہے، جو پہلے کسی کام میں نہیں لائی گئی ہو۔ اس کام کے لیے جگہ کی بہت اہمیت ہوتی ہے

ان کے مطابق ’اس کے لیے پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک پتھریلا مقام، جہاں پر سورج کی دھوپ کم سے کم پڑتی ہو، سالانہ اوسط درجہ حرات کم از کم منفی دس ڈگری تک رہتا ہونا چاہیے۔ اسی طرح اس کے لیے گلیشیئر کے قریب کا علاقہ برفانی تودے گرتے رہنے والا علاقہ ہو تو زیادہ مفید ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس کا سب سے پہلا فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ وہ برفانی تودے جنھوں نے نیچے زمین پر جانا ہوتا ہے وہ رکاوٹ کی بنا پر رُک کر فائدہ مند ہو جاتے ہیں

انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے ساتھ جب برف یا گلیشیئر کے ٹکڑے کافی عرصے کے لیے موجود رہیں جہاں مخصوص منفی درجہ حرارت کے ساتھ برف باری ہوتی رہے تو کچھ وقت کے بعد برفانی تودے، برفباری اور محفوظ کیے گئے گلیشیئر مل کر بڑھنے لگتے ہیں

ڈاکٹر ذاکر حسین ذاکر کہتے ہیں کہ گلیشیئر گرافٹنگ کے ذریعے سے بڑھتے ہوئے گلیشیئر اپنے اردگرد کے ماحول کو بھی تبدیل کرتے ہیں

’جہاں پر یہ گلیشیئر موجود ہوں گے وہاں پر اپنے ارد گرد کے علاقوں بلکہ گلگت بلتستان کے ساتھ ملحق علاقوں میں بھی بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو کنٹرول میں رکھنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔‘

انیوں نے کہا کہ آئس ٹاور یعنی برفانی اسٹوپا کی تیاری اور گلیشیئر گرافٹنگ کی مدد سے نہ صرف پانی کی کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے بلکہ ماحولیات اور موسمی تبدیلی کے خلاف بھی جنگ لڑی جا سکتی ہے۔

گلیشیئر گرافٹنگ ایک بھلا دی جانے والی روایت ضرور ہے مگر بلتستان کے علاقے میں کئی سال پہلے مقامی لوگوں کی جانب سے کچھ اگائے گئے گلیشیئر کے نہ صرف اثرات موجود ہیں، بلکہ ان سے مقامی لوگ فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں

ایسی ہی ایک مثال ضلع گانچھے کے گاؤں مچولو کی ہے۔ یہاں 1995ع میں گلیشیئر گرافٹنگ کی گئی تھی

اس گاؤں کے سیاسی و سماجی کارکن شمشیر علی کہتے ہیں کہ اس گلیشیئر کی بدولت کئی سالوں سے پانی کی ضرورت کسی حد تک پوری ہو رہی ہے

شمشیر علی کا کہنا ہے کہ اس گلیشیئر کو بناتے وقت جو توقعات تھیں، وہ سو فیصد تو پوری نہیں ہوئی ہیں، مگر وہ پانی کی اس قلت کا شکار نہیں ہیں، جو اس گلیشئر کو بناتے وقت تھی

انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ اس گلیشیئر کی وہ دیکھ بھال نہیں ہو سکی جو ہونی چاہیے تھی

’ہم اب بھی سمجھتے ہیں کہ اگر اس کی دیکھ بھال کی جائے، گلیشیئر والے مقام پر کچھ درخت لگائے جائیں تو یہ بہت زیادہ کارآمد ہو سکتا ہے۔ موجودہ وقت میں تو ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے گلیشیئر بلتستان کے تقریباً سب مقامات ہی پر ہونے چاہیں۔‘

مچولو کے مقامی محمد خان ان لوگوں میں سے ہیں، جنہوں نے 1995ع میں اس گلیشیئر کی گرافٹنگ میں خود حصہ لیا تھا

محمد خان کے مطابق: عموماً مرد محنت مزدوری کے لیے گھروں میں نہیں ہوتے اور پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے وہاں کی عورتوں کو ہر وقت چشموں پر ہی رہنا پڑتا تھا

اس صورتحال کے بعد فیصلہ کیا گیا برسوں پہلے استعمال ہونے والے طریقے پر عمل کیا جائے

محمد خان بتاتے ہیں ”اس عمل میں کئی دن لگے تھے۔ تقریباً چالیس رضا کار ہمہ وقت کام کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ایک اونچے مقام پر چھ فٹ گڑھا کھودا گیا تھا جس کو برف کا کنواں کہا جاتا ہے۔ تین گاڑیوں میں قریب کے گاؤں سے نر اور مادہ گلیشیئر کو لایا تھا۔ پھر پانی کے تازہ چشمے سے پانی لا کر اس کو مشکیزوں میں بند کر کے گلیشیئر کے ساتھ رکھا گیا تھا۔ اس کے بعد اس پر کانٹے ڈالے گے تھے۔ کانٹوں کے ساتھ گندم کا بھوسہ رکھا تھا۔ جس کے ساتھ ساتھ کوئلے کی تہہ لگاتے گئے تھے۔“

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک محنت طلب کام تھا اور مکمل کرنے کے بعد کئی ماہ تک اس کی رکھوالی بھی کی گئی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ اس گلیشیئر کو بڑھنے میں بارہ سال کا عرصہ لگا تھا

انہوں نے کہا ”اس دوران ایسا بھی ہوا کہ ایک برفانی تودا جو گرنے والا تھا، ہمارے تیار ہونے والے گلیشیئر کے قریب رکھی ہوئی رکاوٹوں کی بدولت رک گیا اور کچھ عرصے بعد برفانی تودا ہمارے گلیشیئر کے ساتھ مل گیا تھا۔“

شمشیر علی کہتے ہیں کہ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ گلیشیئر گرافٹنگ ایک شاندار طریقہ ہے، مگر اس کو قابل استعمال ہونے کے لیے ایک لمبا عرصہ چاہیے اور اس طویل دورانیے کی وجہ سے عموماً لوگوں کی دلچسپی کم ہو جاتی ہے اور اس طرح دیکھ بھال نہیں ہو پاتی جس کی ضرورت ہوتی ہے

’میرا خیال ہے کہ گلیشیئر گرافٹنگ کے دیرپا طریقے کے ساتھ ساتھ برفانی سٹوپا کے طریقے کو بھی اختیار کیا جائے جس کے فوائد کم وقت میں حاصل کیے جا سکتے ہیں۔‘

برفانی اسٹوپا کیا ہے؟

برفانی اسٹوپا پانی سے بنایا جاتا ہے۔ غلام حیدر کہتے ہیں کہ ان کے گاؤں میں اسٹوپا تقریباً تین سو فٹ چوڑا اور تین سو فٹ لمبا ہے

’اس کو ہم ہر سال پندرہ نومبر سے بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ہمیں پندرہ مارچ سے پانی دینا شروع کر دیتا ہے اس کے بعد مئی کے آخر سے گلیشیئر سے برف پگھلنا شروع ہو جاتی ہے جس کے ساتھ ساتھ یہ سٹوپا بھی ہمیں پانی دے کر ختم ہو جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ برفانی سٹوپا گاؤں سے کوئی سولہ سو فٹ اوپر بنایا ہے جہاں سردیوں میں درجہ حرات منفی تیس تک پہنچ جاتا ہے

اس مقام تک چشمے سے پائپ کے ذریعے پانی پہنچایا جاتا ہے اور جس مقام پر سٹوپا بنانا مقصود ہوتا ہے وہاں پائپ پر نوزل لگائے جاتے ہیں تاکہ پانی فوارہ کی صورت میں خارج ہو

اس مقام پر مختلف کانٹے وغیرہ رکھ دیے جاتے ہیں، جب منفی ڈگری میں پانی فوارہ کی صورت میں کانٹوں پر خارج ہوتا ہے تو وہ کانٹوں پر گر کر برف بن جاتا ہے

غلام حیدر کہتے ہیں کہ سال میں یہ سارا عمل چھ ماہ کا ہوتا ہے۔ اس دوران اس کی باقاعدہ حفاظت اور اردگرد صفائی کی جاتی ہے۔ نوجوان رضاکاروں کی ٹولیاں ہر ہفتے جا کر دورہ کرتی ہیں۔ نوزل وغیرہ کے مسائل ہوں تو حل کرتے ہیں۔ اس طرح محنت کر کے کسی حد تک پانی میں خود کفیل ہو چکے ہیں

گلگت بلتستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات

ناصر محمود وزارت موسمیاتی تبدیلی میں سابق آئی جی فاریسٹ کی خدمات انجام دے چکے ہیں

وہ کہتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے دور میں گلگت بلتستان کو ماحولیاتی اعتبار سے اب بھی بہتر سمجھا جاتا ہے

ناصر محمود کا کہنا تھا کہ برفباری معمول کے مطابق ہو یا کم زیادہ، اس کے باوجود پاکستان پانی کے لیے زیادہ تر گلگت بلتستان ہی پر انحصار کرتا ہے

’مگر اب اس وقت بلتستان کے علاقے میں پانی کا مسئلہ گھمبیر صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ جس وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ خود متاثر ہونے کے باوجود گلگت بلتستان اب بھی پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔‘

ڈپٹی ڈائریکٹر موسیٰ علی ہاشمی کہتے ہیں کہ بلتستان ڈویژن میں بارشیں نہ ہونے کے برابر ہیں

‘میرا خیال ہے کہ سال میں شاید دو، تین ملی میڑ بارشیں ہوتی ہوں گی، اس لیے بلتستان ڈویژن کا پانی کے حصول کے لیے تمام تر انحصار برفباری ہی پر ہوتا ہے لیکن گذشتہ کئی برسوں سے موسمی تبدیلیوں کے باعث برفباری پر بہت زیادہ اثرات مرتب ہوئے ہیں۔’

ان کا کہنا تھا کہ 1996 اور 1997 سے پہلے برفباری کا سیزن اکتوبر سے شروع ہو کر مارچ تک جاتا تھا لیکن اب کئی برسوں سے یہ سیزن کم ہو کر جنوری، فروری تک محدود ہو چکا ہے۔

’پہلے جب اکتوبر سے برف باری شروع ہوتی تھی تو وہ برفباری فائدہ مند ہوتی تھی کہ برف کو زیادہ سرد موسم کا دورانیہ ملتا تھا جس وجہ سے وہ جم جایا کرتی تھی۔ اب جنوری فروری میں ہونے والی برفباری زیادہ جمتی نہیں ہے کیونکہ اس کو زیادہ سردی کا موسم نہیں ملتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ بلتستان میں مارچ، اپریل اور مئی کے شروع کے دن زراعت کے لیے اہم ہوتے ہیں۔ گذشتہ برسوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ مارچ، اپریل اور مئی کے شروع کے دونوں میں زیادہ دھوپ بھی میسر نہیں ہوتی ہے

موسیٰ ہاشمی کہتے ہیں”اس صورتحال میں پانی کی قلت پوری کرنے کے لیے گلیشیئر گرافٹنگ، جبکہ لداخ سے شروع ہونے والا برفانی اسٹوپا کے طریقے ہی ہیں، جن پر توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے.“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close