ماحولیاتی اثرات کی منظوری کے بغیر ہی ملیر ایکسپریس وے پر کام کا آغاز کر دیا گیا

نیوز ڈیسک

کراچی – سندھ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی (ایس ای پی اے) سے ماحولیاتی اثرات کی تشخیص (ای آئی اے) کی منظوری اور دیگر شہری خدشات کے خاتمے کے بغیر ہی ملیر ایکسپریس وے پر کام کا آغاز کر دیا گیا ہے

ایکسپریس وے 6 لین پر مشتمل ایم9 سے جوڑنے والی 39 کلومیٹر طویل راہداری ہے، جو کورنگی ضلع میں ملیر ندی کے ساتھ اور ملیر میں زرعی زمینوں کو عبور کرے گی، اس کے لئے مضافاتی علاقوں میں کم از کم 447 مکانات کو مسمار کیا جائے گا

اس طرح سندھ حکومت قدیم گوٹھ یا دیہی بستیوں اور زرعی زمینوں کے تحفظ کے لئے راستہ تبدیل کرنے کے وعدے سے پیچھے ہٹ گئی ہے

ملیر ایکسپریس وے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نیاز سومرو نے تعمیراتی کام کے آغاز کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے کورنگی جام صادق پل کے ساتھ ساتھ ملیر ندی کے کنارے قائد آباد تک زمین ہموار کرنے کا کام شروع کر دیا ہے

جبکہ نیاز سومرو نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ ایکسپریس وے کے راستے میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور اسے ملیر ندی کے دائیں کنارے پر بنایا جائے گا

سرکاری ذرائع کے مطابق روٹ کی تبدیلی سے منصوبے کی لاگت میں اضافہ ہوتا اور اس کے لئے سندھ کابینہ سے نئی منظوری درکار ہوتی

نیاز سومرو کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے پرانے راستے کی اجازت دے دی ہے اور محکمے نے منصوبے کے مطابق کام شروع کردیا ہے

ایکسپریس وے کی تعمیر سے نہ صرف ملیر کے وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی زرعی زمین ختم ہو جائے گی، بلکہ ہزاروں نفوس پر مشتمل کئی گاؤں بھی متاثر ہونگے. کوریڈور پرانے ڈی ایچ اے سے قیوم آباد کے پی ٹی انٹرچینج پر فیز 8 کے قریب سے شروع ہوتا ہے

کراچی-حیدرآباد موٹروے ایم 9 کے ساتھ واقع نئے ڈی ایچ اے تک یہ پروجیکٹ ایم 9 کے ساتھ ساتھ کئی ہاؤسنگ اسکیموں بشمول بحریہ ٹاؤن تک پہنچے گا

اس طرح اس منصوبے کا فائدہ صرف ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن کو ہوگا، جس کی قیمت ایک بار پھر ملیر کے صدیوں سے آباد باشندوں اور آبادگاروں کو چکانی پڑے گی

نیاز سومرو نے دو دیگر پیشرفتوں کی تصدیق کی اور بتایا کہ قدیم گوٹھوں میں مکانات کو مسمار کردیا جائے گا اور ایکسپریس وے کی تعمیر کے لئے نجی زرعی اراضی حاصل کی جائے گی

انہوں نے کہا کہ ملیر کے ڈپٹی کمشنر آفس نے سروے رپورٹ کو حتمی شکل دے دی ہے

ڈپٹی کمشنر ملیر کی جانب سے تیار کردہ سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سمو گوٹھ، لاسی گوٹھ اور ملحقہ گوٹھوں میں 447 مکانات گرائے جائیں گے اور کم از کم 43 ایکڑ نجی زرعی اراضی واگزار کرائی جائے گی

واضح رہے کہ حقیقی طور پر زرعی اراضی اور انسانی آبادیوں کے متاثر ہونے کا خدشہ سرکاری اعداد و شمار کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے

نیاز سومرو کے مطابق 81.77 ایکڑ ریاستی اراضی بھی ایکسپریس وے کے لئے استعمال کی جارہی ہے

کم از کم 39.14 ایکڑ جو کہ پاکستان آرمی کی کور 5 کی ہے اور 42.63 ایکڑ، جو پاک فضائیہ کی ملکیت ہے، بھی مجوزہ راستے کی راہ میں آتی ہے۔ دونوں مسلح افواج پہلے ہی این او سی جاری کر چکی ہیں اور سندھ حکومت کو تعمیراتی کام جاری رکھنے کی اجازت دے چکی ہے

ملیر ایکسپریس وے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نے نجی زرعی زمینوں کے حصول کے طریقۂ کار کی وضاحت کی۔ انہوں نے بتایا کہ اراضی قانون کی دفع 4 کے تحت حاصل کی جارہی ہے، ابتدائی عمل مکمل کرلیا گیا ہے اور سیکشن 5 اور سیکشن 6 کے تحت نجی زرعی اراضی کی جانچ جلد شروع ہونے والی ہے

نیاز سومرو نے دعویٰ کیا کہ ضلع کورنگی میں کوئی زرعی زمین موجود نہیں ہے

جب ان سے پوچھا گیا کہ ای آئی اے کی منظوری کے بغیر کام کیسے شروع ہوا، تو پراجیکٹ ڈائریکٹر ملیر ایکسپریس وے نے بتایا کہ مشینری کی نقل و حرکت کے لئے کورنگی جام صادق پل سے قائد آباد تک سروس روڈ بنائی جارہی ہے

انہوں نے کہا کہ نیشنل انجینئرنگ سروسز پاکستان (نیسپاک) نے منصوبے کی ای آئی اے اسٹڈی مکمل کے سیپا کو رپورٹ پیش کردی ہے۔ ای ایم سی پاکستان پرائیویٹ لمیٹڈ اس منصوبے کے کنسلٹنٹ کے طور پر کام کر رہی ہے

پراجیکٹ ڈائریکٹر نے تسلیم کیا کہ فی الحال ایس ای پی اے نے ای آئی اے کی منظوری نہیں دی ہے، کیونکہ اسے ابھی عوامی سماعت کی ضرورت ہے

انہوں نے کہا کہ عوامی سماعت ہونے والی ہے لیکن اومیکرون کے باعث نئی کوویڈ 19 لہر کی وجہ سے اس میں تاخیر ہورہی ہے، ہم اس وقت ضلع کورنگی میں کام کر رہے ہیں اور ضلع ملیر تک نہیں پہنچے، جہاں آبادی اور زرعی زمینیں واقع ہیں

نیاز سومرو نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ چونکہ کورنگی میں ملیر ریور بیڈ کے اندر ترقیاتی کام ہورہے تھے، اس لئے اس کے ماحولیاتی اثرات کا امکان نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی تو کورنگی ضلع میں ندی کے اندر کام ہورہا ہے اس سے میرے خیال میں ماحولیاتی آلودگی کا کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے

پراجیکٹ ڈائریکٹر کا خیال ہے کہ ہے ضلع ملیر میں تعمیراتی کام شروع ہوگا، تب ہی ای آئی اے پر عوامی سماعت کرنے کی ضرورت ہوگی

تاہم ایس ای پی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر (ٹیکنیکل) عمران صابر کی تاہم اس معاملے پر بالکل مختلف رائے ہے

ان کا کہنا ہے کہ اتھارٹی ملیر ایکسپریس وے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر کو خط لکھنے جا رہی ہے، جس میں ای آئی اے کی منظوری کے بغیر کام شروع کرنے پر وضاحت طلب کی جائے گی

عمران صابر نے تصدیق کی کہ نیسپاک کی جانب سے ملیر ایکسپریس وے انوائرمینٹل امپیکٹ اسیسمنٹ رپورٹ سیپا کو جمع کرادی گئی ہے، لیکن ابھی تک اس کی منظوری نہیں دی گئی

واضح رہے کہ ای آئی اے کی منظوری میں کئی مراحل شامل ہیں اور یہ راتوں رات نہیں دی جا سکتی

سب سے پہلے سیپا روزانہ اخبارات میں عوامی سماعت کے لئے اشتہارات جاری کرتا ہے، جس میں سماعت کی تاریخ، وقت اور مقام کی اطلاع دی جاتی ہے، عام طور پر سماعت منصوبے کی جگہ پر کی جاتی ہے

عوامی سماعت میں شرکاء منصوبے کے حوالے سے اپنے خدشات، اگر کوئی ہیں، کا اظہار کرتے ہیں

لوگوں کی طرف سے اٹھائے گئے مسائل کا ازالہ کرنا کلائنٹ یا پراجیکٹ منیجر کی ذمہ داری ہے

آخری مرحلے پر ماہرین کی کمیٹی کیس اور کمیونٹی کے تحفظات کا جائزہ لینے کے لئے بیٹھتی ہے، جس کے بعد حتمی منظوری کمیٹی کی سفارش پر دی جاتی ہے

جبکہ ملیر ایکسپریس وے کے معاملے میں ان سارے لوازمات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اس کی تعمیر کے کام کا آغاز کر دیا گیا ہے

اس حوالے سے شہری۔سی بی اے کی جنرل سیکریٹری امبر علی بھائی نے ای آئی اے کی منظوری کے بغیر تعمیراتی کام شروع کرنے کی مذمت کی ہے

انہوں نے کہا کہ حکام کسی بھی ترقیاتی منصوبے سے کراچی کی آب و ہوا اور اس کے ماحول پر چھوڑے جانے والے منفی اثرات پر غور نہیں کرتے

امبر علی بھائی کا مزید کہنا تھا کہ شہری-سی بی ای سندھ ہائی کورٹ میں صوبائی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کرنے جارہی ہے، ہم پہلے ہی کیس پر کام کر رہے ہیں

انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کے بارے میں بیس درخواستیں دائر کی گئی ہیں اور ہم جلد ہی سندھ حکومت کے خلاف عدالت میں جائیں گے

انڈیجینئس رائٹس الائنس کے جنرل سیکریٹری حنیف بلوچ نے کہا کہ سندھ حکومت سرسبز مقامات جگہوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتی، ترقی کے ماحولیاتی اثرات کو نظر انداز کرنے کا حکومت کا فیصلہ افسوسناک ہے

ان کا کہنا تھا کہ کبھی کبھی ہم ایسے اقدامات پر ماتم کرنے کے لئے ماتمی جلوس نکالنا چاہتے ہیں

حنیف بلوچ جو ملیر ایکسپریس وے ایکشن کمیٹی کے رکن ہیں، نے کہا کہ یہ منصوبہ کراچی کے لئے ایک ماحولیاتی آفت ثابت ہوگا

انہوں نے اس منصوبے کو حلقے میں ”پیپلزپارٹی کی سیاسی موت“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملیر ایکسپریس وے جیسے کسی بھی منصوبے کو شروع کرنے میں دانشمندی کا ہاتھ ہونا چاہئے

یاد رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے 2021ء کے اوائل میں قدیم گوٹھوں میں واقع انسانی آبادی کو مسمار ہونے سے بچانے کے لئے ملیر ایکسپریس وے کے راستے کو تبدیل کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن یہ صرف انتخابی چال ثابت ہوئی۔ فروری میں ملیر کے پی ایس 88 میں ضمنی انتخابات ہورہے تھے اور پیپلز پارٹی اس حلقے میں ووٹرز کی حمایت کھونے کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی

پیپلزپارٹی اپنی سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 88 ملیر کی نشست برقرار رکھنے میں کامیاب رہی، جب اس کے امیدوار یوسف بلوچ کو 24 ہزار 251 ووٹ حاصل کرکے کامیاب قرار پائے، تاہم اب اپنے وعدے سے مکرتے ہوئے سندھ حکومت نے پرانے روٹ برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے دسمبر 2020ء میں ملیر ایکسپریس وے کا سنگ بنیاد رکھا، 39 کلومیٹر طویل کوریڈور میں 6 انٹرچینجز ڈیفنس ویو کے قریب کورنگی روڈ پر، ای بی ایم کاز وے، شاہ فیصل، انور بلوچ ہوٹل کے قریب قائد آباد، میمن گوٹھ اور کاٹھور میں دمبہ گوٹھ پر ہوں گے

یہ منصوبہ اٹھائیس ارب روپے کی پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ہے جس میں تین کمپنیاں جے این کمپنی، حبیب کنسٹرکشن اور این کے بی کنسٹرکشن صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں

ملیر کے کاشتکاروں اور ہزاروں نفوس پر مشتمل صدیوں سے آباد گوٹھوں کے مکینوں کی جانب سے کئی بار اس منصوبے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج بھی کیا جاتا رہا ہے

اس منصوبے سے نہ صرف ضلع ملیر میں واقع کراچی کے مضافاتی علاقے کی انسانی آبادی بڑے پیمانے پر متاثر ہوگی ، بلکہ ملیر کا یہ گرین بیلٹ بھی تباہ ہو جائے گا، جو منفی ماحولیاتی اثرات کا باعث بنے گا

اس ضمن میں سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں زمین کے استعمال اور تزئین کے طریقوں کے تیزی سے تبدیل ہونے کے ساتھ ہی شہری منصوبہ بندی اور اس سے متعلقہ آگاہی کے ذرائع اب پیچیدہ سے پیچیدہ ہوگئے ہیں، خاص طور پر آب و ہوا میں تبدیلی اور اس کے بارے میں ارتقائی بصیرت کے ذریعہ سے زمین کے استعمال کو شہری منصوبہ بندی سے جوڑا جارہا ہے، تاہم پاکستان میں اب بھی یہ معاملہ اہم نہیں سمجھا جاتا اور ترقیاتی عمل کو آب و ہوا اور ماحولیاتی تبدیلیوں اور اس کے اثرات سے علیحدہ دیکھا جاتا ہے. خاص طور پر کراچی جیسے بڑے شہر میں جہاں مختلف ادوار میں پانچ ماسٹر پلان بنائے گئے، لیکن ان میں سے ایک کا بھی اطلاق نہ ہوسکا

ویسے بھی ہمارے ملک میں ترقیاتی منصوبوں کے اثرات اکثر معاشی لحاظ سے ناپے جاتے ہیں، جس میں ماحولیات، حیاتیاتی تنوع، زمینی استعمال اور غذائی نظام کو نظر انداز کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ہم اس ترقیاتی عمل کے دوران خطے کی ثقافت، تاریخ اور شہریوں کے طرز زندگی، روزگار اور رہائش کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور اس کے طویل المیعاد اثرات مرتب ہوتے ہیں

کراچی میں غیر منظم و بے ترتیب ترقیاتی منصوبے، جن میں بنیادی طور پر شہری منصوبہ بندی کے مروجہ طریقوں کو مد نظر نہیں رکھا جاتا، وہ پسماندہ طبقات کے معیار زندگی پربدترین اثرات ڈالتے ہیں

یاد رہے کہ اسی شہر کراچی میں بیشتر منصوبے ناکامی سے دو چار ہوئے، جیسا کہ لیاری ایکسپریس وے کے منصوبے میں ہوا کہ جس کا مقصد یہ تھا کہ بھاری ذرائع نقل وحمل کو ایک علیحدہ راہداری فراہم کی جاسکے، مگر اس کی تعمیر کے مکمل ہونے کے بعد اس کے بنیادی مقصد کے برعکس اس پر بھاری ذرائع نقل وحمل کی پابندی لگادی گئی اور نہ صرف شہر کے سنگ و خشت میں اضافہ کیا گیا بلکہ 77 ہزار خاندانوں کو ان کی رہائش اور روزگار سے بے دخل بھی کیا گیا، جن میں سے کچھ خاندان سموں گوٹھ ملیر میں جاکر آباد ہوگئے تھے، مگر اب ایک نئے ترقیاتی منصوبے ملیر ایکسپریس وے کی بدولت وہ اور دیگر کئی قدیم آبادیاں ایک بار پھر بے دخلی کے خطرے سے دوچار ہیں

بات صرف بے دخلی تک ہی محدود نہیں، بلکہ سنجیدہ حلقوں میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ ملیر ایکسپریس وے منصوبہ ٹریفک کے مسئلے کا حل ہے یا پھر ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنے گا؟

سندھ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ 39 کلو میٹر طویل ملیر ایکسپریس وے کا بڑا حصہ شہر کے اُس مقام پر تعمیر ہوگا، جو ہریالی سے بھرپور اور زرعی پیداوار کی فراہمی کے ساتھ شہر کے ماحول کو معتدل رکھنے میں کلیدی کردار بھی ادا کرتا ہے

ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سبزے کی جگہ سنگ و خشت نے لی تو کراچی کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو گا۔ ماحولیاتی اعتبار سے دیکھیں تو ملیر کراچی کا آکسیجن حب ہے ساتھ ہی ملیر کی زرخیز مٹی، میٹھا پانی، منفرد ذائقہ دار پھلوں اور سبزیوں کی ساکھ سے انکار ناممکن ہے

عمومی طور پر پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں اور شہری منصوبہ بندی سے متعلق روابط اور انسانی زندگیوں پر پڑنے والے اثرات سے لے کر دیگر عوامل پر غور کرنے کا فقدان نظر آتا ہے، جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں کو دنیا بھر میں ایک بڑے چیلنج کے طور پر دیکھا جارہا ہے اور اس چیلنج سے نمٹنے اور ماحول کی حفاظت کے لئے بڑے پیمانے پر اقدامات اٹھائے جارہے ہیں، لیکن پاکستان میں اجتماعی سوچ کی کمی کی وجہ سے ایسا کچھ نظر نہیں آتا اور موسمیاتی تبدیلی کے پہلوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے شہری منصوبہ بندی کی بدولت ہم اپنے ہاتھوں سے ماحول کو تباہ کرنے پر تلے ہیں

کچھ ایسی ہی صورتحال ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر میں نظر آرہی ہے کہ یہ منصوبہ سبزے، درختوں، کھلی جگہوں، زرعی اراضی کو کم کرنے اور پہلے سے ہی بھاری تعمیر شدہ شہر میں بجری اور سیمنٹ میں اضافے کے مترادف ہے، جس کے نتیجے میں شہر میں گرمی کی لہر، خوراک کی قلت جیسے خراب موسمی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں

سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ شہر کے لئے تجویز کردہ تمام ترقیاتی منصوبوں کو آب و ہوا کی تبدیلی اور ماحولیات کے بنیادی خدشات پر غور کرنا چاہئے، خاص طور پر گرمی، کھلی جگہوں کے ساتھ ساتھ غذائی اجناس کی حفاظت کے حوالے سے ان پر توجہ ضروری ہے۔ عوامی نقل و حمل کے ساتھ ساتھ ماحول دوست فن تعمیر اور کھلیان لازمی پہلو ہیں، جن کو زیادہ تر ترقیاتی منصوبوں میں نظرانداز کیا جاتا ہے، جیسا کہ ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر میں دیکھا جا سکتا ہے

ان ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ قومی اور صوبائی موسمیاتی تبدیلی کے عملی منصوبوں کے مطابق کوئی بھی دستاویز اور اس پر عمل درآمد کہیں نظر نہیں آتا۔ اگرچہ پاکستان اقوام متحدہ کے ایجنڈا 2030 (پائیدار ترقیاتی اہداف SDGs-) ، اور پیرس آب و ہوا کے معاہدے پر دستخط کنندہ ہے، جو اس طرح کی صورتحال کو حل کرنے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ اسی طرح پاکستان ماحولیاتی حفاظتی قانون 1997 موجود ہے، جس کے مطابق تمام بڑے منصوبوں کے بارے میں عوامی مشاورت کی ضرورت ہے، مگر اکثر اوقات ان منصوبوں کی جائزہ رپورٹ تک کو عوام کے سامنے نہیں لایا جاتا، جیسا کہ ملیر ایکسپریس وے منصوبے میں کیا گیا ہے.

مذید خبریں:



Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close