لیگی رہنماؤں میں اختلافات: ناقص کارکردگی چھپانے کی کوشش؟

ویب ڈیسک

پاکستان میں رواں برس وفاقی حکومت کی تبدیلی کے بعد استحکام دکھائی نہیں دیتا جس کا ادراک خود حکومت کو بھی ہے۔ مسلسل بڑھتی مہنگائی اور تحریک انصاف کی جارحانہ سیاست نے پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے لیے دوہرا چیلنج پیدا کر رکھا ہے، جس کا توڑ تاحال اتحادی حکومت کے پاس نظر نہیں آتا

اب تو مسلم لیگ ن کے اپنے رہنماؤں کی جانب سے بھی شہباز شریف کی حکومت کی کارکردگی پر سوالات شروع ہو گئے ہیں

خاص طور پر میاں جاوید لطیف وفاقی وزیر ہونے کے باوجود تحریک انصاف کی قیادت کے خلاف کارروائی موثر بنانے جبکہ عابد شیر علی نے مہنگائی کے بے قابو ہونے کی میڈیا پر آکر شکایات کی ہیں

مریم نواز بھی متعدد بار حکومتی پالیسیوں پر ’عوام کے ساتھ کھڑے ہونے‘ کے ٹویٹ کر چکی ہیں

اس کے علاوہ میڈیا پر چلنے والے نواز شریف اور اسحاق ڈار کے حکومتی فیصلوں پر تحفظات کی خبروں پر نواز شریف کو خود وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا ہے

نیا تنازع اس وقت شروع ہوا جب سینیئر صحافی سہیل وڑائچ نے ایک نیوز شو میں تبصرہ کرتے ہوئے بتایا ”نواز شریف اس وقت وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت سے ’سخت نالاں‘ ہیں“

انہوں نے یہ بات ایسے وقت میں کہی جب وہ خود لندن میں میاں نواز شریف سے ایک طویل ملاقات کر کے آئے ہیں

ان کے اس بیان کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف نے ایک ٹویٹ کے ذریعے ان خبروں کی سختی سے تردید کی اور شہباز شریف حکومت کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی بیان بازی سے پارٹی کے اختلافات سنجیدہ نہیں سمجھے جاسکتے، بلکہ تمام فیصلوں پر پوری قیادت ذمہ دار ہے

بیان بازی کا مقصد حکومتی کارکردگی سے توجہ ہٹانے اور عوامی حمایت حاصل رکھنے کی کوشش ہے

دلچسپ بات یہ ہے ان اختلافات سے قبل ہی پاکستان تحریک انصاف رہنماؤں کی جانب سے اس بات کا عندیہ دیا جاتا رہا ہے کہ اتحادی حکومت اپنی ناقص کارکردگی اور مہنگائی سے توجہ ہٹانے کے لیے اس طرح کے حربے استعمال کرے گی

ایک اور دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ ”اختلافات“ کی خبر بریک کرنے والے صحافی سہیل وڑائچ ہیں، جن کی آصف زرداری سے قربت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے

اختلافات منظر عام پر لانے کا مقصد کیا ہے؟

اس حوالے سے سینیئر تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں ”حکومتی کارکردگی آئے روز ایکسپوز ہو رہی ہے، جو حالت انہوں نے عوام کی کر دی ہے اس سے لوگ متنفر ہوتے جارہے ہیں“

حسن عسکری نے کہا کہ معاشی حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ اب سنبھالنا مشکل ہوچکا ہے۔ بات صرف ن لیگ کی نہیں بلکہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں ملبہ دوسرے پر ڈالنے کی کوشش میں مصروف ہیں

حسن عسکری کا کہنا ہے ”ن لیگ کے رہنماؤں کی جانب سے جو اپنی ہی حکومت پر تنقید کی جارہی ہے، وہ سیاسی گیم ہے کیوں کہ یہ سب اندر سے ایک ہی ہیں“

انہوں نے کہا ”ن لیگ کی سیاست شروع سے ایسی ہے کہ اختلافات دکھا کر اپنے حامیوں کو ساتھ رکھا جائے۔ اب اگر شہباز شریف ڈلیور نہیں کر سکے تو یہ ناکامی کسی اور پر کیسے ڈالی جا سکتی ہے“

حسن عسکری کا کہنا تھا ”ملک کا معاشی ڈھانچہ تبدیل کیے بغیر کوئی بھی حکومت کامیاب نہیں ہوسکتی جو بھی حکومت آئے گی اسے آمدن سے زائد اخراجات اور دیگر معاملات کو چلانا مشکل ہوگا اس لیے ایسی بیان بازی غیر اہم ہے“

انہوں نے کہا کہ ایسے حالات پیدا کر کے اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اسحاق ڈار یا نواز شریف کی واپسی سے کوئی خوشحالی آجائے گی تو یہ غلط سوچ ہے کیوں کہ وہ پہلے بھی حکومت میں رہ چکے ہیں اور لوگ انہیں بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ بھی ذاتی مفادات کو عوامی مفادات پر ترجیح دیتے آئے ہیں

سینیئر سیاسی تجزیہ کار نے کہا ”شہباز شریف پہلے بھی وزیر اعلیٰ رہے ہیں تو اب وزیر اعظم بننے کے بعد ان کی پالیسیوں سے اختلاف سنجیدہ کیسے ہوسکتا ہے یہ مہنگائی میں پسے عوام کی ہمدردیاں اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے“

مسلم لیگ ن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی سلمان غنی کا کہنا ہے ’یہ بیان بازی کرنے والے رہنما پارٹی میں فیصلہ کن کردار نہیں رکھتے۔ ہو سکتا ہے کسی کے کہنے پر بیان بازی کی ہو۔‘

سلمان غنی کے بقول: ’میاں نواز شریف نے اپنے ٹویٹ کے ذریعے شہباز حکومت پر اعتماد کا اظہار کر کے پارٹی رہنماؤں کے بیانات نہیں بلکہ میڈیا پر چلنے والی خبروں کی تردید کی ہے جن میں دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ نواز شریف حکومتی کارکردگی سے ناخوش ہیں اور فیصلہ سازی سے الگ ہو گئے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار واپس آکر معیشت سنبھالنا چاہتے ہیں جس کا وہ تجربہ بھی رکھتے ہیں مگر حکومت میں موجود بعض وزرا ان کا فیصلہ سازی میں غیر معمولی کردار برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں

سلمان غنی نے بتایا کہ ن لیگ کی قیادت ضرور سوچ رہی ہے کہ پارٹی کی ساکھ بچانے کے لیے معاشی فیصلوں کے لیے اسحاق ڈارکو حکومت کا حصہ بنایا جائے

سلمان غنی نے کہا کہ سب کو معلوم ہے کہ نواز شریف کے نام پر ہی پارٹی کھڑی ہے اور عوام بھی ان حالات میں ان کی طرف دیکھ رہی ہے کہ وہ انہیں مسائل سے نکالنے کے لیے کیا کردار ادا کرتے ہیں

مسلم لیگ ن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی سلمان غنی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس وقت اصل مسئلہ مفتاح اسماعیل کا بنا ہوا ہے۔ خواجہ آصف اور شاہد خاقان عباسی ان کے بہت قریب ہیں اور یہ ایک ٹیم کی طرح کام کر رہے ہیں۔ اور یہ اس بات کے مخالف ہیں کہ اسحاق ڈار واپس آئیں۔‘

’میرے خیال میں اس وقت پارٹی کے اندر دو مختلف معاشی نظریات کا بھی تصادم ہے۔ شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کے خیال میں جو ہو رہا ہے اس سے بہتر نہیں ہو سکتا، تاہم اسحاق ڈار یہ سمجھتے ہیں کہ معاشی اصلاحات کے ساتھ ساتھ ریلیف دینا بھی ممکن ہے۔ اور میں یہ تجزیہ نہیں دے رہا بلکہ میرے پاس فرسٹ ہینڈ انفارمیشن ہے اور یہ بات سب کو پتا ہے۔‘

دوسری جانب مسلم لیگ ن کے ایک اہم رہنما نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’صورتحال اس سے بھی ایک درجے آگے کی ہے۔آپ کو یاد ہے نا کہ مریم بی بی نے ایک ٹویٹ کی تھی کہ نواز شریف وہ میٹنگ چھوڑ کر چلے گئے تھے جس میں بجلی پر مزید ٹیکسوں اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کی تجاویز سامنے رکھی گئی تھیں۔ اس حد تک تو بات ٹھیک ہے کہ نواز شریف اٹھ گئے تھے لیکن وہ اٹھے اس بات پر تھے جب شاہد خاقان عباسی نے انہیں یہ کہہ دیا کہ میاں صاحب اگر فیصلے ایسے کرنے ہیں تو آپ سے گزارش ہے کہ آپ واپس آجائیں۔ شاہد خاقان عباسی اس وقت مفتاح اسماعیل کی ترجمانی کر رہے تھے۔‘

تاہم بعض تجزیہ کار مسلم لیگ ن کے اندرونی اختلاف کو معمول کی کارروائی سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایک دھڑا جو اس وقت حکومت چلا رہا ہے، ان کی حقیقت اس دھڑے سے مختلف نہیں، جو حکومت سے باہر بیٹھا ہے

سیاسی تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی سمجھتے ہیں کہ حقائق بدل چکے ہیں۔ اس وقت جس معاشی صورت حال کا سامنا ہے اسے شہباز شریف اور مفتاح اسماعیل چلا رہے ہیں۔
’میرا نہیں خیال کہ اسحاق ڈار اگر آ بھی جاتے تو اس دفعہ حالات ان کے موافق ہوتے۔ وہ باہر بیٹھے ہیں اور نواز شریف بھی سسٹم سے آؤٹ ہیں۔ بلکہ یوں کہہ لیں کہ وہ اپنا سیاسی برزخ کاٹ رہے ہیں۔ ان کو ویسا ادراک نہیں ہوگا جو سسٹم کے اندر بیٹھے افراد کو ہے۔ اس لیے بھی میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف کی ٹویٹ کے بعد اس بات کی حیثیت محض ایک سیاسی اختلاف کی رہ گئی ہے۔ یہ کوئی منظم گروپ بندی نہیں ہے بلکہ کچھ زیادہ اونچی آواز میں بولنے والے اپنی بس حاضری ہی لگوا رہے ہیں۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close