سابق آئی ایس آئی سربراہ اسد درانی کیس کی مزید سماعت سےجسٹس کیانی نے معذرت کر لی

نیوز ڈیسک

سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کیس میں نیا موڑ آ گیا ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی مزید سماعت سے یہ کہہ کر معذرت کر لی ہے کہ کچھ ایسی وجوہات ہیں جو بتانا نہیں چاہتا

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ کیس کا سارا پس منظر جانتا ہوں، فیصلہ بھی لکھنے کے مرحلے میں تھا، میں یہ کیس چیف جسٹس اطہر من ﷲ کو بھیج رہا ہوں، یہ افسوسناک ہے لیکن کچھ ایسی وجوہات ہیں جو بتانا نہیں چاہتا ، چیف جسٹس ہی اس کیس پر سماعت کے لیے نئے بنچ کا فیصلہ کریں گے

گزشتہ سماعت پر وزارت دفاع کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں داخل کروائے گئے تحریری جواب میں کہا گیا تھا کہ سابق آئی ایس آئی سربراہ اسد درانی 2008ع سے دشمن عناصر بالخصوص بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے رابطوں میں رہے۔ ان کا نام ریاست مخالف سرگرمیوں کے باعث ایگزٹ کنٹرول لسٹ(ای سی ایل) میں شامل کیا گیا

اسد درانی نے انڈین خفیہ ادارے را کے سابق سربراہ اے ایس دلت کے ساتھ مل کر ایک کتاب لکھی ہے جس میں حساس مواد بھی شامل ہے

ﻭﺍﺿﺢ ﺭﮨﮯ 22 ﺟﻨﻮﺭﯼ ﮐﻮ ﺍﺳﻼﻡ ﺍٓﺑﺎﺩ ﮨﺎﺋﯿﮑﻮﺭﭦ ﻧﮯ ﺳﺎﺑﻖ ﮈﯼ ﺟﯽ ﺍٓﺋﯽ ﺍﯾﺲ ﺍٓﺋﯽ ﻟﯿﻔﭩﯿﻨﻨﭧ ﺟﻨﺮﻝ ﺭﯾﭩﺎﺋﺮﮈ ﺍﺳﺪ ﺩﺭﺍﻧﯽ ﮐﯽ ﺍﯼ ﺳﯽ ﺍﯾﻞ ﺳﮯ ﻧﺎﻡ ﻧﮑﻠﻮﺍﻧﮯ ﮐﯽ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﭘﺮ ﻓﺮﯾﻘﯿﻦ ﮐﻮ ﺍٓﺋﻨﺪﮦ ﺳﻤﺎﻋﺖ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺩﻻﺋﻞ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ، ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺳﻤﺎﻋﺖ ﺟﺴﭩﺲ ﻣﺤﺴﻦ ﺍﺧﺘﺮ ﮐﯿﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻟﻮﮒ ﯾﻮﭨﯿﻮﺏ ﭼﯿﻨﻞ ﭘﺮ ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ، ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﭽﮫ ﻣﻠﮏ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﭽﮫ ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﯿﮟ

ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻭﻓﺎﻗﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ، ﺍٓﺋﯽ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺍٓﺭ ﺗﻮ ﺟﮭﻮﭦ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ لیکن ﻋﺪﻟﯿﮧ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺩے ﺳﮑﺘﯽ ، ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﯾﮧ ﮐﭽﮫ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺭﯾﮕﻮﻟﯿﭩﺮ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺍٓ ﺭﮨﺎ، ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ، ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﻣﻔﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ، ﭘﺒﻠﮏ ﺍﻧﭩﺮﺳﭧ ﮐﻮ ﺭﯾﮕﻮﻟﯿﭧ ﮐﺮﻧﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ، ﻧﮧ ﺍﺧﺒﺎﺭ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻧﮧ ﺳﻮﺷﻞ ﻣﯿﮉﯾﺎ، ﺗﺎﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭی ﺭﺍﺋﮯ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺛﺮ نہ ﭘﮍﮮ، ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﺍﯾﮏ ﭘﺎﺭﭨﯽ ﮐﮯ ﺗﻮ ﺧﻼﻑ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮭﮍﺍﺱ ﻧﮑﺎﻟﯽ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ

ﺟﺴﭩﺲ ﻣﺤﺴﻦ ﺍﺧﺘﺮ ﮐﯿﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺟﻦ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺍٓﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﯾﻮﭨﯿﻮﺏ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﭨﮏ ﭨﺎﮎ ﭘﺮ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺑﮭﮍﺍﺱ ﻧﮑﺎﻟﺘﺎ ﮨﮯ، ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﻀﺤﯿﮏ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﭘﺮ کیا ﮔﺰﺭﺗﯽ ﮨﮯ؟ ﮐﺒﮭﯽ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﻟﮑﮫ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ،ﯾﮩﺎﮞ ﺗﻮ ﺳﺰﺍ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﻣﺠﺮﻡ ﺑﮭﯽ سزا پوری کیے بغیر ﺑﯿﺮﻭﻥ ﻣﻠﮏ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close