اقوامِ متحدہ کے عہدیداروں کا عثمان کاکڑ کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ

ویب ڈیسک

اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے چار خصوصی نمائندوں نے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ ’سابق سینیٹر عثمان کاکڑ کی غیر واضح حالات میں موت‘ کے ساتھ ساتھ مبینہ طور پر قتل کی فہرست میں ان کی موجودگی کی تحقیقات کرے

گزشتہ سال 27 دسمبر کو لکھے گئے ایک مشترکہ خط کو رواں ہفتے منظرِ عام پر لایا گیا ہے، جس میں نمائندوں نے حکومت کو ساٹھ دنوں کے اندر جواب دینے کی تاکید کی تھی

مقررہ مدت میں جواب دینے میں ناکامی پر انہوں نے کہا تھا کہ یہ خط و کتابت اور حکومت کی جانب سے موصول ہونے والے کسی بھی ردعمل کو عوامی سطح پر کیا جائے گا اور انسانی حقوق کونسل کو رپورٹ میں بھی دستیاب کرایا جائے گا

خیال رہے کہ پشتون رکن، سابق سینیٹر اور قوم پرست پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے علاقائی رہنما عثمان کاکڑ 17 جون 2021ع کو کوئٹہ بلوچستان میں اپنے گھر میں زخمی پائے گئے تھے، جن کے سر سے خون بہہ رہا تھا

خط میں کہا گیا ہے کہ سر پر چوٹ لگنے کی وجہ معلوم نہیں، تاہم اس بات کے خدشات ہیں کہ ان پر حملہ ہوا ہو

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ عثمان کاکڑ کو پہلے بھی جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوئی تھیں اور پارلیمنٹ میں اپنی آخری تقریر میں انہوں نے انٹیلیجنس ایجنسیوں کی جانب سے دھمکیاں ملنے کا ذکر کیا تھا

خط پر دستخط کرنے والے اقوامِ متحدہ کے حکام میں ماورائے عدالت قتل یا من مانی سزاؤں، جبری یا غیر رضاکارانہ گمشدگیوں اور اقلیتی امور پر پر ورکنگ گروپ کے اراکین اور خصوصی خصوصی نمائندے شامل ہیں

مبینہ ’قتل کی فہرست‘ کے بارے میں خصوصی نمائندوں نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان کی جانب سے کم از کم دس افراد کی فہرست فیسبک پوسٹ میں شائع کی گئی تھی

کالعدم ٹی ٹی پی کے ترجمان احسان اللہ احسان نے جون/جولائی 2021ع میں ایک فیسبک پوسٹ میں الزام لگایا تھا کہ قید کے دوران انہیں تقریباً دس افراد کی فہرست دی گئی تھی، جنہیں ان کی ’ریاست مخالف سرگرمیوں‘ کے لیے ختم کرنا ضروری تھا

احسان اللہ احسان کے مطابق اس فہرست میں سابق سینیٹرز افراسیاب خٹک اور فرحت اللہ بابر، خیبر پختونخوا کے سیاسی کارکن سید عالم محسود اور مفتی کفایت اللہ شامل ہیں۔ احسان اللہ احسان نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس نے قتل کے احکامات پر عمل درآمد سے انکار کر دیا تھا

احسان اللہ احسان کی سوشل میڈیا پوسٹس کے فوراً بعد فرحت اللہ بابر اور افراسیاب خٹک دونوں نے اس معاملے کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹیوں کے ساتھ ساتھ ایف آئی اے کے سامنے بھی اٹھایا تھا تاہم اس سے کچھ نہیں نکلا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close