حاجی مراد (ایرانی ادب سے منتخب افسانہ)

صادق ہدایت (مترجم: سنیا ظفر)

حاجی مراد نے اپنی دکان کے چبوترے سے نیچے چھلانگ لگائی، اپنے لباس کی سلوٹوں کو درست کرتے ہوئے چاندنی رنگ کا کمربند مضبوط کیا، مہندی لگی داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور اپنے شاگرد حسن کو آواز دی۔ پھر دونوں نے مل کر دکان بند کی۔ اس کے بعد حاجی مراد نے اپنی جیب سے چار ریال نکال کر حسن کو دیئے، جنہیں اس نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہجوم میں گم ہو گیا۔

حاجی نے زرد رنگ کا عبایا اپنے کندھے پر رکھا، ادھر اُدھر دیکھا اور آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ اس کے نئے جوتے ہر قدم کے ساتھ آواز پیدا کر رہے تھے۔ راستے میں چلتے ہوئے بہت سے دکانداروں نے اسے سلام کیا اور کہا ”سلام حاجی صاحب! کیسے ہیں آپ؟ کافی عرصہ سے آپ نظر نہیں آئے“ حاجی کو پہلے بھی اس قسم کے سلام سننے کی عادت تھی لیکن اس نے لفظ ’حاجی‘ پر خاص توجہ دی اور سلام کا جواب ایک مغرور مگر اطمینان بخش مسکراہٹ سے دیا۔

’حاجی‘ کا لفظ اس کے لیے ایک لقب کا درجہ رکھتا تھا کیونکہ حاجی جانتا تھا کہ وہ کبھی مکہ نہیں گیا۔ اس کا باپ اس کے بچپن میں ہی دنیا سے رخصت ہوگیا تھا اور اس کی ماں نے اپنے شوہر کی وصیت کے مطابق گھر اور ساری جائیداد سونے کے سِکّوں کے عوض فروخت کردی اور اپنے کنبے سمیت رہنے کے لیے کربلا چلی گئی۔ ایک دو سالوں میں تمام پیسہ خرچ کر دیا گیا اور سارا خاندان بھیک مانگنے پر مجبور ہو گیا۔ اس صورت حال میں صرف حاجی بمشکل اپنے چچا کے پاس ’ہمدان‘ پہنچنے میں کامیاب ہو سکا۔

اتفاق سے اس کے چچا کا انتقال ہو گیا، چونکہ چچا کی کوئی اولاد نہ تھی اس لیے اس کی تمام جائیداد حاجی کو مل گئی۔ اس کا چچا بازار میں ’حاجی‘ کے لقب سے مشہور تھا چنانچہ دکان کے ساتھ ساتھ اس کا لقب (حاجی) بھی اسے وراثت میں مل گیا۔

ہمدان میں حاجی کا کوئی اور رشتہ دار نہ تھا، اس نے دو، تین مرتبہ اپنی ماں اور بہن کو، جوکہ کربلا میں بھیک مانگتی تھیں، تلاش کرنے کی کوشش کی، مگر فائدہ نہ ہوا۔ دوسال بعد حاجی نے شادی کر لی لیکن وہ اپنی بیوی کے ساتھ خوش نہیں تھا۔ کئی مرتبہ ان کی آپس میں لڑائی بھی ہوئی۔۔۔ حاجی سب کچھ برداشت کر سکتا تھا سوائے طنز کے، جو اس کی بیوی اس پر کرتی تھی۔ اس کے بدلے میں وہ اپنا رعب و مرتبہ اس پر ظاہر کرنے کے لیے اسے مارتا تھا۔ بعض اوقات وہ اسے مارنے پہ شرمندگی محسوس کرتا مگر ہر واقعہ کے بعد وہ جلد ہی بوس و کنار کر لیتے اور معاملہ حل ہو جاتا۔ جو بات حاجی کو زیادہ متشعل کرتی وہ یہ تھی کہ ابھی تک اس کی کوئی اولاد نہ تھی حاجی کے دوست اکثر اسے دوسری شادی کا مشورہ دیتے مگر وہ اس سے متفق نہ ہوتا۔ وہ سمجھتا تھا کہ دوسری بیوی اس کی بدقسمتی میں صرف اضافہ کرے گی۔ اس لیے وہ ان کی بات ایک کان سے سنتا اور دوسرے سے نکال دیتا۔ اس کی بیوی ابھی بھی جوان اور خوبصورت تھی اور کچھ سال اکٹھے رہنے کی وجہ سے ان میں ایک ذہنی ہم آہنگی پیدا ہو گئی تھی۔ لہٰذا اچھی یا بری، بہرحال زندگی گزر رہی تھی۔۔ اور جہاں تک حاجی کی بات تھی، تو وہ خود بھی ابھی جوان ہی تھا۔ وہ سوچا کرتا کہ اگر خدا نے چاہا تو اسے اولاد دے گا ۔۔ اس وجہ سے حاجی نہ تو اپنی بیوی کو طلاق دیتا اور نہ ہی اسے مارنے کی عادت کو چھوڑتا۔ دوسری طرف وہ جتنا اسے مارتا، وہ اتنی ہی ضدی اور خود سر ہوتی جا رہی تھی۔۔ خاص طور پر گزشتہ رات تو ان کے درمیان بہت سخت لڑائی ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حاجی منہ میں تربوز کے بیج چباتے اور ان کے چھلکے زمین پر پھینکتے ہوئے بازار سے باہر نکلا اور اس نے بہار کی تازہ ہوا میں لمبی سانس لیتے ہوئے اس سب کے بارے میں سوچا، جو گھر میں اس کا منتظر تھا ۔ ہمیشہ لڑائی کے آغاز میں وہ ایک بات کہتا اور اس کی بیوی جواب میں دو باتیں اسے سناتی اور آخر کار نوبت مار کٹائی تک پہنچ جاتی، پھر شام کا کھانا کھا کر دونوں آنکھیں بند کر لیتے اور سو جاتے۔

آج جمعہ تھا، جس کا مطلب تھا کہ آج اس کی بیوی نے سبزی پلاؤ بنایا ہوگا۔ حاجی کے ذہن میں اسی طرح کے خیالات آ رہے تھے اور وہ بے چینی سے ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔۔ اسے اپنی بیوی کے الفاظ یاد آئے: ”تم، تم نقلی حاجی، کیا تم ایک اصلی حاجی ہو؟ پھر کیوں تمہاری ماں اور بہن کربلا میں بھیک مانگتی ہیں؟ جب مشہدی حسین سنار نے میرا ہاتھ مانگا تو میں بےوقوف تھی جو اسے منع کر کے میں نے تم سے شادی کرلی۔۔ تم ایک نقلی حاجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔“

یہ سب سوچتے ہوئے حاجی نے غصے سے اپنے ہونٹ کاٹے، اس کی حالت ایسی ہو گئی کہ اگر اسی جگہ اسے اپنی بیوی مل جاتی تو وہ اسے مار ڈالتا۔ اتنے میں وہ بین النہرین کی سڑک پر پہنچا۔ اس نے سبز بید کے درختوں پر نظر ڈالی جو دریا کے کنارے لگے ہوئے تھے۔ اسے خیال آیا کہ کیا ہی اچھا ہو، اگر وہ کل کا دن اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ مراد بیک ویلی میں مزہ کرے، موسیقی بجائے اور تمام دن وہاں گزارے، تاکہ کم از کم اس طرح گھر رہنے سے اس کا اور اس کی بیوی کا موڈ خراب نہ ہو۔۔۔۔۔۔

حاجی اب اس گلی کے قریب پہنچ چکا تھا، جو اس کے گھر کی طرف جاتی تھی۔ اچانک اسے محسوس ہوا کہ اس کی بیوی اس کے پاس سے گزری ہے، لیکن اس نے نظر انداز کر دیا اور کوئی توجہ نہ دی۔۔۔۔۔۔ ہاں وہ اس کی بیوی ہی تھی۔ اگرچہ حاجی ان مردوں کی طرح نہیں تھا جو نقاب میں سے بھی عورتوں کو پہچان لیتے ہیں۔۔ مگر اس کی بیوی ایک مخصوص نشان رکھتی تھی، جس کی وجہ سے حاجی اسے ہزاروں عورتوں میں سے بھی باآسانی پہچان سکتا تھا۔ وہ اس کی بیوی ہی تھی۔ اس نے اس کے نقاب کا سفید کنارہ پہچان لیا تھا۔ اب شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی۔۔ لیکن وہ اس کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر کیوں نکلی؟ وہ حاجی کو دیکھنے دکان پر بھی نہیں جا سکتی تھی تو پھر وہ جا کہاں رہی تھی؟؟ حاجی نے اپنی رفتار تیز کر لی۔ وہ اس کی بیوی ہی تھی۔ اگر وہ گھر جا رہی تھی تو یہ راستہ اس کے گھر کا نہیں تھا۔۔۔ اس کا غصہ انتہا کو پہنچ گیا۔ وہ خود کو مزید نہ روک سکا، وہ اسے پکڑنا چاہتا تھا اور اس کا گلا گھونٹ دینا چاہتا تھا

وہ بے اختیار چلایا: ”شہر بانو!!!“

عورت نے مڑ کر دیکھا اور خوفزدہ ہوتے ہوئے اپنی رفتار تیز کر لی۔ حاجی کو آگ لگ گئی۔ وہ سر سے پاؤں تک غصے سے کانپ اٹھا۔ اس کی بیوی نہ صرف اس کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکلی تھی بلکہ اس کو پہچاننے سے بھی انکاری تھی۔ اس بات نے اسے اور بھی تپا دیا۔۔۔ وہ پھر سے چلایا: ”ارے رکو! میں تم سے مخاطب ہوں۔۔ تم دن کے اس وقت کہاں جا رہی ہو؟؟ رکو۔۔۔۔۔“

عورت رکی اور غصے سے بولی: ”تم سے مطلب؟ تم خود کو کیا سمجھتے ہو؟ ابھی لوگ میری مدد کو آئیں گے اور میں انہیں بتاؤں گی کہ یہ گھٹیا آدمی مجھ سے کیا چاہتا ہے۔ تمہیں لگتا ہے کہ اس علاقے میں کوئی قانون نہیں۔۔؟ میں تمہیں پولیس کے حوالے کر دوں گی۔۔ پولیس پولیس۔۔۔“

ایک ایک کر کے لوگوں کے گھروں کی کھڑکیاں، دروازے کھلنے لگے اور لوگ ان کے گرد جمع ہونے لگے۔ حاجی کا چہرہ سرخ ہو گیا اور ماتھے اور گردن کی رگیں تن گئیں، کیونکہ بازار میں ہر کوئی اسے جانتا تھا۔ وہ عورت اب بھی نقاب میں چھپی چلا رہی تھی۔۔۔۔ ”پولیس، پولیس“

حاجی کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ وہ ایک قدم پیچھے ہٹا، پھر آگے بڑھا اور عورت کے منہ پر زور سے طمانچہ مارا۔ اور چلایا: ”آواز تبدیل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ میں نے تمہیں پہچان لیا ہے۔ کل۔۔۔۔ ہاں کل ہی میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔ تم میرے لیے گھر سے باہر نکلی؟؟ تم, بے شرم عورت! میری اتنی مشکل سے کمائی گئی عزت خاک میں ملانا چاہتی ہو؟ مجھے مجبور مت کرو کہ میں لوگوں کو سب کچھ بتادوں۔۔ لوگوں! میرے گواہ رہنا، میں کل ہی اسے طلاق دوں گا۔ مجھے بہت پہلے ہی اس پر شک ہو گیا تھا مگر میں نے شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود پہ قابو کیے رکھا۔۔۔ لیکن اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔ لوگوں! گواہ رہنا کہ میری بیوی ایک بدکردار عورت ہے۔ کل۔۔۔۔ ہاں لوگوں کل۔۔۔!“
وہ عورت تماشائیوں کی طرف مڑی اور بولی ”بزدلوں!کیا تم لوگ خاموش تماشائی بنے رہو گے اور اس گھٹیا آدمی کو ایک شریف عورت کو یوں گلی میں بدنام کرنے دو گے؟ اگر مشہدی حسین سنار یہاں ہوتا تو وہ تمہیں سبق سکھاتا۔۔ یاد رکھنا میں تم لوگوں سے اپنا بدلہ ضرور لوں گی چاہے یہ میری زندگی کا آخری دن ہی کیوں نہ ہو۔۔ لوگوں میں سے کوئی بھی اس گھٹیا آدمی سے مجھے بدنام کرنے کی وجہ نہیں پوچھے گا؟ کوئی ہے، جو آدمی بن کے انصاف کرے۔۔ جاؤ۔۔۔۔۔۔۔ میں ابھی تمہیں بتاتی ہوں۔۔۔۔پولیس، پولیس“

لوگوں میں سے دو، چار آدمی صلح کروانے کے لیے حاجی کو ایک طرف لے گئے۔ اسی دوران ایک پولیس والا آ گیا۔ لوگ پیچھے ہٹ گئے۔ حاجی اور سفید حاشیہ والی چادر میں لپٹی عورت کو دو، تین گواہوں کے ساتھ پولیس اسٹیشن لایا گیا۔ راستے میں ہر ایک نے پولیس والے کو اپنے لفظوں میں داستان سنائی۔ متجسس ہجوم بھی ان کے پیچھے پولیس اسٹیشن آ گیا تاکہ معاملہ حل ہوتے دیکھ سکے۔

حاجی پسینے سے شرابور تھا۔وہ لوگوں کے ہجوم سے نکل کر پولیس والے سے جا ملا۔ اب وہ خود بھی اپنے حوالے سے مشکوک ہو گیا۔ مزید برآں جب اس نے ایک محتاط نظر ڈالی تو دیکھا کہ عورت کے بند جوتے اور اس کی جرابیں، جو اس نے پہنی ہوئی تھیں، وہ اس سے بہت مختلف تھیں جو اس کی بیوی پہنتی تھی۔اور وہ تمام تعلقات اور حوالے، جو وہ عورت دے رہی تھی، وہ بھی اس عورت کے صحیح ہونے کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ وہ مشہدی حسین سنار کی بیوی تھی۔۔ حاجی کو احساس ہوا کہ اس سے غلطی ہو گئی ہے۔ مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اب کیا ہوگا۔

حاجی اور اس عورت کو پولیس والا ایک کمرے میں لے گیا، جہاں دو اعلیٰ افسران اپنی نشستوں پر براجمان تھے۔ پولیس والے نے انہیں سلام کیا اور سارا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا، پھر وہ باہر جا کر دروازے کے پاس کھڑا ہو گیا۔

پولیس آفیسر حاجی کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا ”آپ کا نام؟“

”جناب میں آپ کا تابعدار ہوں، میں ناچیز۔۔۔ میرا نام حاجی مراد ہے۔ بازار میں ہر کوئی مجھے جانتا ہے“

”آ پ کا پیشہ؟“

”میں ایک چاول فروش ہوں۔بازار میں میری دکان ہے۔ میں آپ کا ہر حکم بجا لاؤں گا۔“

حاجی کے جواب پر پولیس آفیسر نے اگلا سوال کیا، ”کیا یہ سچ ہے کہ تم نے اس خاتون کے ساتھ بدتمیزی کی اور گلی میں اسے پریشان کرنے کی کوشش کی ہے؟“

”جناب میں کیا کہہ سکتا ہوں۔۔۔ میں نے غلطی سے انہیں اپنی بیوی سمجھ لیا تھا“ حاجی نے شرمندہ ہوتے ہوئے جواب دیا

”کس بنا پر؟“

”ان کی چادر کا سرا سفید ہے۔۔“

”بڑی حیرت کی بات ہے۔۔ کیا تم اپنی بیوی کی آواز نہیں پہچانتے؟“

حاجی نے آہ بھری: ”سر آپ نہیں جانتے کہ میری بیوی کتنی بڑی مصیبت ہے۔ وہ سب جانوروں کی آوازیں نکال لیتی ہے۔ جب وہ نہا کر حمام سے واپس آتی ہے تو وہاں موجود سب عورتوں کی آوازیں نکالتی ہے۔ وہ ہر ایک کی نقل اتارتی ہے۔ مجھے لگا وہ آواز بدل کر مجھے بےوقوف بنا رہی ہے“

وہ عورت بولی: ”پولیس آفیسر! آپ نے دیکھا کہ اس نے لوگوں کے ہجوم کے سامنے مجھے تھپڑ مارا تھا اور اب دیکھیں کیسا انجان بن رہا ہے۔ کس قدر بدتمیزی ہے۔۔ تمہارے خیال میں یہ کوئی جنگل ہے، جہاں کوئی قانون نہیں؟ اگر مشہدی حسین کو پتہ چلا تو وہ تمہیں ایسا سبق سکھائے گا، جس کے تم لائق ہو۔۔ تم نے اس کی بیوی کے ساتھ ایسا سلوک کیا۔۔۔۔۔“

پولیس آفیسر خاتون سے مخاطب ہوا: ”آپ صبر رکھئیے محترمہ۔ آپ کے ساتھ مزید کچھ غلط نہیں ہوگا۔ آپ مہربانی کر کے باہر تشریف لے جائیں۔ ہم دیکھ لیتے ہیں کہ حاجی کے ساتھ کیا کرنا ہے۔“

حاجی بولا: ”خدا کی قسم، میں شرمندہ ہوں۔۔ میں نے انہیں پہچاننے میں غلطی کی۔۔ میرا یقین کریں۔۔۔ میری عزت داؤ پر لگی ہے“

آفیسر نے ایک صفحہ پر کچھ لکھا اور سپاہی کو تھما دیا۔پھر اس نے حاجی کو دوسری میز پر جانے کا کہا، جہاں حاجی نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ کچھ بلوں کو گِنا اور انہیں میز پر رکھ دیا، وہ سب جرمانے کے بل تھے۔۔

اب حاجی کو پولیس اسٹیشن کے باہر لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا۔ لوگ وہاں کھڑے آپس میں سرگوشیاں کر رہے تھے۔ حاجی کا زرد عبایا اس کے کندھوں پر سے ہٹا لیا گیا اور ایک آدمی ہاتھ میں کوڑا لیے اس کے پاس کھڑا ہو گیا۔ حاجی نے شرم سے اپنا سر جھکا لیا۔ لوگوں کے سامنے اسے پچاس ضربیں لگائی گئیں۔۔ مگر اس نے ایک مرتبہ بھی اپنی بھویں نہ اچکائیں۔ جب یہ سلسلہ تمام ہوا تو حاجی نے ایک بڑا رومال اپنی جیب سے نکالا اور اپنے ماتھے سے پسینہ پونچھا اور اپنا زرد عبایا اٹھا کر اپنے کندھوں پر پھیلا لیا۔۔

اب وہ گھر کی طرف روانہ تھا۔ اس کے لباس کا سرا زمین پر گھسیٹا جا رہا تھا۔ اس کا سر جھکا ہوا تھا اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اس نے کوشش کی کہ اس کی جوتی سے نکلنے والی آواز پیدا نہ ہو۔۔

دو دن بعد حاجی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close