سمندری طوفان بائپر جوائے کی تازہ ترین صورتحال: سمندری طوفانوں کے نام کیسے رکھے جاتے ہیں؟

ویب ڈیسک

کراچی کو اس بار ایک اور ممکنہ طوفان کا سامنا ہے۔ محکمۂ موسمیات کے مطابق ’بائپر جوائے‘ نامی طوفان کراچی کے جنوب سے 864 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے

چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز کے مطابق طوفان کا رُخ اب پاکستان اور بھارت کی ساحلی پٹی کی جانب ہے، تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ یہ طوفان کس ساحلی پٹی سے ٹکرائے گا

دوسری جانب کراچی عیدر اپڈیٹ کے مطابق بحیرہ عرب میں موجود سمندری طوفان "بائپر جوائے” گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران اتار چڑھاؤ کا شکار رہا ہے ورٹکیل ونڈ شئیر میں تیزی اور مشرق سے آنے والی خشک ہواؤں سے متاثر ہوتا "بائپر جوائے” کبھی کم شدت تو کبھی بڑھتی شدت کے ساتھ شمال – شمال مشرق کی جانب مسلسل حرکت کر رہا ہے اور کراچی سے 864 کلو میٹر قریب پہنچ چکا ہے۔ اس وقت سمندری طوفان کی شدت کیٹیگری تھری اسٹیج ہے، جس کے زیر اثر ہواؤں کی رفتار ایک سو تیس کلومیٹر فی گھنٹہ سے تجاوز کر رہی ہیں جبکہ مرکزی دباؤ 970 ملی بار تک گرچکا ہے۔ اس وقت بحیرہ عرب کے پانی کے درجہ حرارت 30 سے 32 ڈگری کے درمیان ہیں جبکہ اب ورٹیکل ونڈ شئیر میں بھی کمی آئی ہے۔ خط استوا سے نچلی سطع پر مسلسل مونسون ہوائیں بحیرہ عرب میں داخل ہورہی ہیں جبکہ ہائی پریشر رج اومان سے لے کر وسطی بھارت تک موجود ہے

چونکہ بحیرہ عرب میں صورتحال ایک بار پھر سازگار ہو رہی ہے اور سمندری طوفان "بائپر جوائے” شدت اختیار کر رہا ہے لہذا گجرات، سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی کو خطرہ برقرار ہے۔ اس وقت سمندری طوفان سات کلو میٹر کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے، جس کا رخ اگلے چوبیس گھنٹوں کے دوران مزید شمال کی جانب رہے گا جس کے باعث اس کا فاصلہ مزید کم ہوجائے گا جبکہ اس دوران سمندری طوفان سازگار صورتحال کے سبب شدت بھی اختیار کرے گا، جس کے باعث اتوار سے بھارتی صوبے گجرات کی ساحلی پٹی پر سمندری لہروں میں طغیانی میں اضافہ ہونا شروع ہوگا اور سندھ کی ساحلی پٹی خصوصاً کیٹی بندر اور کراچی کے ساحلی علاقوں میں بروز پیر سے سمندر کی لہروں میں اضافہ ہوگا، جبکہ منگل سے قدرے زیادہ طغیانی متوقع ہو سکتی ہے اور اس دوران سمندری لہریں آٹھ سے دس فٹ تک بلند ہونے کے خدشات لاحق ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر محکمہ سندھ کی جانب سے ساحلی پٹی پر دفعہ 144 نافذ کردی گئی ہے جس کے تحت سمندر میں نہانے اور گہرے پانی میں شکار کرنے پر سخت پابندی رہے گی

اس وقت سمندری طوفان "بائپر جوائے” کے گجرات اور سندھ کے بارڈر پر ٹکرانے کے امکانات کچھ حد تک روشن ہو رہے ہیں جس کی تین اہم وجوہات ہیں جو موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے پیش کی گئی ہیں

گجرات کے ساحلی پٹی پر ورٹیکل ونڈ شئیر اگلے ہفتے سندھ کی نسبتاً کم ہوگا، گجرات کی ساحلی پٹی پر سمندری درجہ حرارت سندھ کی نسبت قدرے زیادہ ہیں اور یہ دیکھا گیا ہے کہ سمندری طوفان کا گرم پانی کے درجہ حرارت کی طرف رجحان ہوتا ہے۔ اگلے ہفتے ایران سے آنے والے ہائی پریشر یعنی اینٹی سائیکلون کی توسیع بلوچستان اور سندھ کی جانب ہو سکتی ہے جو سمندری طوفان کی شدت میں رکاوٹ بنتے ہیں اور اپنی طرف بڑھنے سے روکتے ہیں۔

ان تمام دیئے گئے اہم نقطوں کے زیر اثر امکان ہے کہ یہ سمندری طوفان اگر اپنی شدت برقرار رکھتا ہے تو سندھ اور گجرات کے ساحلی سرحد کو کیٹیگری ون کی شدت سے 14 سے 16 جون کے درمیان ٹکراسکتا ہے جس کے نتیجے میں سندھ کے ساحلی پٹی، تھرپارکر اور جنوب مشرقی علاقوں میں شدید ترین بارشیں اور طوفانی ہوائیں متوقع ہو سکتی ہیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ کراچی میں بھی اس دوران پری مون سون بارشوں کے امکانات تیز ہواؤں کے ساتھ بن سکتے ہیں لیکن اگر یہ طوفان گجرات اور سندھ کے سرحدی حدود کے بجائے کراچی کے قریب غیر معمولی طور پر آتا ہے، جس کے امکانات فی الحال 40 فیصد ہیں، تو افغانستان سے آنے والی شمال کی خشک ہوائیں اس طوفان کو بدرتیج کمزور کرتی جائیں گی اور یہ طوفان زیادہ سے زیادہ ڈپریشن کی صورت میں کراچی کی ساحلی علاقوں کو متاثر کر سکتا ہے، جس کے سبب کراچی اور بلوچستان کی چند ساحلی پٹی پر موسلادھار بارشیں متوقع ہو سکتی ہیں یا پھر یہ ڈپریشن کراچی سے پہلے ہی سمندر میں ختم ہو جائے گا البتہ اس صورت میں شدید خطرناک صورتحال رونما نہیں ہوگی

سمندری طوفانوں کے نام کیسے رکھے جاتے ہیں؟

ماضی میں بھی بحیرۂ عرب اور بحرِ ہند میں اس طرح کے طوفان بنتے رہے ہیں اور انہیں باقاعدہ کوئی نہ کوئی نام دیا جاتا رہا ہے، ایسے میں عام طور پر لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال ضرور ابھرتا ہے کہ آخر سمندری طوفانوں کے نام کس طرح رکھے جاتے ہیں؟

سمندری طوفانوں کے نام رکھنے کے حوالے سے جنوبی ایشیائی ممالک کا ایک پینل ہے، جسے پینل اینڈ ٹروپیکل سائیکلون (پی ٹی سی) کہا جاتا ہے

اس پینل میں ابتدائی طور پر سات ممالک تھے، جن کی تعداد بڑھ کر اب تیرہ ہو گئی ہے، جن میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، میانمار، تھائی لینڈ، مالدیپ، سری لنکا، عمان، ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں

‘بائپر جوائے’ طوفان کو یہ نام بنگلہ دیش کی جانب سے دیا گیا ہے

سن 2004ع سے قبل طوفان کے اس طرح کے ناموں کی کوئی روایت نہیں تھی، جس طرح آج ان کے نام رکھے جاتے ہیں۔ ماضی میں سمندری طوفانوں کو ان کے نمبر سے یاد رکھا جاتا تھا

سن 1999ع میں ایک سائیکلون صوبہ سندھ کے شہروں بدین اور ٹھٹہ سے ٹکرایا تھا، تب اس کا نام Zero 2-A تھا، جو اس سیزن کا بحیرۂ عرب کا دوسرا طوفان تھا

بعد ازاں ’پی ٹی سی‘ میں تمام ممالک کے محکمۂ موسمیات کے درمیان یہ طے پایا کہ طوفانوں کے ایسے نام ہونے چاہئیں، جو یاد رکھنے اور ادا کرنے میں آسان ہوں

پی ٹی سی کے رکن ممالک کے درمیان یہ بھی طے پایا کہ ہر ملک باری باری سمندری طوفان کو ایک ایک نام دے گا۔ اس طرح 2004ع میں ایک فہرست بنانے کا سلسلہ شروع ہوا اور اس میں طوفانوں کے جو نام تجویز کیے گئے، ان تمام کو استعمال کیا گیا

پاکستان نے اس فہرست میں جن طوفانوں کے نام تجویز کیے تھے، ان میں فانوس، نرگس، لیلیٰ، نیلم، نیلوفر، وردہ، تتلی اور بلبل شامل ہیں

یاد رہے کہ طوفانوں کے نام رکھنے کے لیے پی ٹی سی میں شامل رکن ملکوں کے انگریزی حروفِ تہجی کی ترتیب سے ان ملکوں کی باری آتی ہے

پاکستان نے طوفانوں کے جو نام تجویز کیے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں۔ گلاب، اثنا، صاحب، افشاں، مناحل، شجانہ، پرواز، زناٹا، صرصر، بادبان، سراب، گلنار اور واثق۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close