سکھر کے تیراک، جو جان خطرے میں ڈال کر بیراج کے گہرے پانی سے لاشیں نکالتے ہیں

ویب ڈیسک

عام طور پر کہیں کوئی لاش نظر آنے پر پولیس کو مطلع کیا جاتا ہے، لیکن سکھر بیراج کی پولیس کو بیراج میں پھنسی کسی لاش کے بارے میں آگاہ کیا جائے تو وہ سب سے پہلے محمد علی میرانی اور عبدالنبی میرانی کو آگاہ کرتی ہے

موہی گیری کے پیشے سے وابستہ محمد علی میرانی اور عبدالنبی میرانی دونوں انتہائی ماہر تیراک ہیں، وہ پولیس کی جانب سے آگاہ کیے جانے پر فوری طور پر موقع پر پہنچ کر بیراج کے دروازوں میں پھنسی ہوئی لاش نکال لاتے ہیں

سکھر میں دریائے سندھ کے کنارے لب مہران پر کشتی چلانے اور موسم کے اعتبار سے مچھلی کا شکار کرنے والے محمد علی میرانی اور عبدالنبی میرانی سکھر کی چھوہارا مارکیٹ کے علاقے میں رہتے ہیں

سکھر بیراج چوکی کے پولیس انچارج حبدار جتوئی کا کہنا ہے ”جیسے ہی انہیں کسی لاش کے حوالے سے مطلع کیا جاتا ہے تو وہ فوری طور پر ان دونوں سے رابطہ کرتے ہیں اور انہیں وہاں پہنچنے کی درخواست کرتے ہیں“

خود محمد علی میرانی اور عبدالنبی میرانی بتاتے ہیں کہ وہ سنہ 2009ع سے دریا سے لاشیں نکال رہے ہیں، محمد علی کی عمر پچیس سال اور عبدالنبی کی عمر تیس سال ہے

عبدالنبی میرانی کہتے ہیں ’دریائے سندھ پر سکھر بیراج کے اپ اسٹریم میں پانی کی سطح پچاس فٹ تک گہری ہوتی ہے، کبھی تو یہ بیراج کے دروازے سے بھی اوپر ہوتا ہے۔۔ پانی کا شدید دباؤ ہوتا ہے، جو بھنور بھی بناتا ہے اور اس میں اندر جا کر لاش کو نکالنا پڑتا ہے‘

وہ بتاتے ہیں ’ہم دونوں اوپر سے نیچے پانی میں چھلانگ لگاتے ہیں، لاش کے قریب جا کر اس کو پکڑ کر باہر لا کر ایک جھولے میں ڈالتے ہیں جو مچھلی کے جال کی مدد سے بنا ہوتا ہے۔۔پھر بیراج کے اوپر موجود لوگ اس کو کھینچتے ہیں اور یوں لاش اوپر پہنچ جاتی ہے اس عمل میں پندرہ سے بیس منٹ لگتے ہیں‘

عبدالنبی میرانی کہتے ہیں کہ وہ ثواب کی خاطر یہ کام کرتے ہیں ’ہم سوچتے ہیں کہ یہ بھی کسی کا باپ ہوگا، کسی کا بیٹا ہوگا، کسی کا بھائی یا کسی کی ماں و بہن ہوگی۔ ہم اپنی جان خطرے میں ڈال کر اتر جاتے ہیں‘

وہ کہتے ہیں ’میرے والد اور والدہ حیات ہیں لیکن والد اکثر بیمار رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بیٹا، ہمارا اور کوئی کمانے والا نہیں تم اتنا خطرہ کیوں مول لیتے ہو، کیوں اتنے گہرے پانی میں جاتے ہو تو میں انہیں یقین دہانی کرواتا ہوں کہ خدا محفوظ پناہ دے گا ہم انسانیت کے لیے یہ کر رہے ہیں‘

واضح رہے کہ دریائے سندھ سے گذشتہ دس روز میں چوبیس کے قریب لاشیں نکالی گئی ہیں، جن میں سے سات خواتین کی تھیں

عبدالنبی میرانی کے مطابق ’عام دنوں میں بھی لاشیں آتی ہیں لیکن سیلاب کے دنوں میں ان کی آمد زیادہ ہوتی ہے۔۔ زیادہ تر لاشیں گل سڑ چکی ہوتی ہیں، کسی کی ٹانگیں، کسی کے بازو نہیں ہوتے، کسی کے جسم پر گوشت تک نہیں ہوتا۔۔ جو تازہ لاشیں ہوتی ہیں جنھیں ڈوبے ہوئے زیادہ سے زیادہ ہفتہ ہوا ہوتا ہے ان کے جسم پر کپڑے ہوتے ہیں باقی جو پندرہ روز یا اس سے زیادہ پرانی لاشیں ہوتی ہیں تو ان کے تن پر کوئی بھی کپڑا نہیں ہوتا۔۔ ہاتھ ڈالنے سے اعضا الگ ہو جاتے ہیں بدبو بھی بھی آتی ہے لیکن ہم بغیر ماسک اور دستانوں کے انہیں باہر نکالتے ہیں۔‘

عبدالنبی میرانی کے مطابق دریا کے کچے میں درخت اور پتھر ہیں اور لاشیں اس سے بھی رگڑ جاتی ہیں، اس لیے یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے کہ چوٹ کیسے لگی ہے

عام طور پر یہ لاشیں نکال کر پولیس کے حوالے کی جاتی ہیں اور وہ ایدھی ویلفیئر کو دے دیتی ہے

وہ کہتے ہیں ’کچھ لاشیں ہندوؤں کی ہوتی ہیں جن میں سے کچھ کے ہاتھوں پر اوم تحریر ہوتا ہے یا نام لکھا ہوتا ہے یا کچھ پر کچھ اور تحریر ہوتا ہے۔ ایسی بھی لاشیں ہوتی ہیں کہ وہ چادروں اور رسے باندھ کر دریا میں چھوڑی جاتی ہیں‘

واضح رہے کہ دریائے سندھ پر سندھ میں گڈو، سکھر اور جام شورو کے مقام پر تین بیراج بنے ہوئے ہیں۔ گڈو بیراج اور سکھر بیراج کے درمیان تقریباً ڈیڑھ سو کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور دونوں اطراف میں کچے کا علاقہ ہے

گذشتہ دس روز میں صرف سکھر بیراج سے چوبیس لاشیں ملی ہیں، جن میں سے ایدھی فاؤنڈیشن نے چودہ کی تدفین کر دی ہے

ایس ایس پی سکھر سنگھار ملک کے مطابق ’دریائے سندھ میں نچلے درجے کا سیلاب ہے، جب ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو مبینہ طور پر ہر جگہ لاشیں ملتی ہیں۔۔ چند لاشیں ہندو اور سکھ برادری سے تعلق رکھنے والوں کی ہوتی ہیں جنہیں اپنے مذہبی رواج کے طور پر پانی برد کیا جاتا ہے تاہم اکثر لاشیں بوسیدہ اور ناقابل شناخت ہوتی ہیں۔‘

عرفان سموں تین سال سکھر میں ایس ایس پی تعینات رہے ہیں اور ان کے نزدیک سیلابی پانی آنے پر لاشوں کی آمد کی تین وجوہات ہیں

وہ کہتے ہیں ’کچھ جو حادثاتی یا اتفاقی طور پر دریا میں ڈوب جاتے ہیں، ان کی لاشیں کچے میں جھاڑیوں میں پھنسی رہتی ہیں۔ جب پانی کا دباؤ آتا ہے وہ انھیں بہا کر لے آتا ہے۔۔دوسری لاشیں ان خواتین یا مردوں کی ہوتی ہیں جن کو غیرت کے نام پر یا دشمنی میں قتل کر کے دریا میں پھینکا جاتا ہے اور تیسری لاشیں ہندو کمیونٹی کی ہوتی ہیں جو انھیں دریا برد کرتے ہیں۔‘

ایس ایس پی عرفان کے مطابق ان لاشوں کی شناخت ممکن نہیں رہتی اور بعض اوقات ان کے ڈی این اے وغیرہ بھی کیے جاتے ہیں

سکھر کے سینیئر صحافی ممتاز بخاری کا کہنا ہے ’حالیہ شدید بارشوں کی وجہ سے گڈو بیراج کے دروازے کھلے رہے تھے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جنوبی پنجاب سے بھی بعض لاشیں پانی کے بہاؤ کے ساتھ یہاں پہنچی ہوں۔‘

سکھر بیراج سے لاشوں کی برآمدگی کے بعد محمد علی میرانی کی سوشل میڈیا پر تصویر وائرل ہوئی، جن کو صوبائی وزیر اریگیشن جام خان شورو نے عارضی ملازمت پر بھرتی کیا ہے، تاہم عبدالنبی کا کہنا ہے کہ انہیں بھی ایسی ملازمت ملنی چاہیے تاکہ وہ بھی یہ خدمات سر انجام دیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close