غزہ کی کڑی نگرانی کے باوجود اسرائیل کے جاسوس ادارے کیسے ناکام ہو گئے؟

ویب ڈیسک

غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں پر ہمیشہ اسرائیل کی نظر رہتی ہے۔ نگرانی کرنے والے ڈرونز کی آواز مسلسل آسمان سے آتی رہتی ہے۔ انتہائی محفوظ سرحد سکیورٹی کیمروں اور فوجیوں سے بھری ہوئی ہے۔ انٹیلیجنس ایجنسیاں معلومات حاصل کرنے کے لیے ذرائع اور سائبر صلاحیتوں سے کام لیتی ہیں

لیکن اس کے باوجود قابض اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والی عسکریت پسند تنظیم حماس نے غیرمعمولی حملہ کیا ہے۔ اس حملے کے دوران سینکڑوں عسکریت پسند اسرائیلی سرحدی رکاوٹیں توڑ اسرائیل میں داخل ہو گئے، جس میں سینکڑوں اسرائیلی مارے جا چکے ہیں اور خطہ ایک تنازع کا شکار ہو گیا ہے

اسرائیل کی خفت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حماس کے شدید حملوں کے بعد اسرائیل کے وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے غزہ کی مکمل ناکہ بندی، بجلی کاٹنے، کھانے پینے کی اشیاء اور ایندھن کی سپلائی روکنے کے بھی احکامات جاری کیے ہیں

جبکہ اسرائیلی وزیر توانائی اسرائیل کاٹز نے غزہ کا پانی بھی بند کرنے کا حکم دیے دیا ہے

اسرائیل کی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے کئی دہائیوں کے دوران کئی کامیابیوں کے باعث ناقابل تسخیر ہونے کا تاثر حاصل کیا ہے

اسرائیل نے مغربی کنارے میں مزاحمتی کاروائیوں کو ناکام بنایا، دبئی میں حماس کے کارکنوں کو مبینہ طور پر نشانہ بنایا۔ حتیٰ کہ جب ان کی کوششوں کو دھچکا لگا، تب بھی موساد، شین بیت اور ملٹری انٹیلیجنس جیسی ایجنسیوں نے اس وقت بھی اپنا اسرار برقرار رکھا ہے

لیکن اس ہفتے کے آخر میں ہونے والے اس حملے نے اسرائیل کو حیرت اور اس کی ساکھ کو شکوک و شبہات میں ڈال دیا ہے، جبکہ عددی اور اسلحہ کے لحاظ سے کمزور لیکن ہرعزم مزاحمت کاروں کے سامنے اسرائیلی تیاری کے بارے میں سوالات کھڑے کر دیے ہیں

چوبیس گھنٹے بعد بھی حماس کے عسکریت پسند اسرائیلی علاقے کے اندر اسرائیلی افواج سے لڑتے رہے اور درجنوں اسرائیلی غزہ میں حماس کی قید میں تھے

اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے قومی سلامتی کے سابق مشیر یاکوف ایمڈرور کے بقول، ”یہ ایک بڑی ناکامی ہے۔ یہ آپریشن دراصل ثابت کرتا ہے کہ غزہ میں انٹیلیجنس کی صلاحیتیں اچھی نہیں تھیں“

ایمڈرور نے ناکامی کی وضاحت پیش کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ دھول چھٹنے کے بعد سبق سیکھنا ضروری ہے

فوج کے چیف ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہاگری نے تسلیم کیا کہ فوج عوام کے سامنے وضاحت پیش کرنے کی ذمہ دار ہے۔ لیکن انہوں نے کہا ”یہ وقت ان باتوں کا نہیں ہے۔ پہلے ہم ’لڑیں‘ گے، پھر تحقیقات کریں گے“

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ صرف انٹیلیجنس کی غلطی کو مورد الزام ٹھہرانا قبل از وقت ہوگا۔ ان کا اشارہ مغربی کنارے میں تشدد کی لہر کی جانب ہے، جس سے کچھ فوجی وسائل وہاں منتقل ہوئے اور نتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کی عدلیہ پر چڑھائی کے اقدامات پر اسرائیل کو سیاسی انتشار میں دھکیل دیا

اس متنازع منصوبے نے ملک کی طاقتور فوج کے اتحاد کو خطرے میں ڈال دیا ہے

اسرائیل کا دعویٰ تھا کہ اس نے حماس کی قیادت کے درست ٹھکانوں کی نشان دہی کی ہے، اور بظاہر سرجیکل اسٹرائیکس میں عسکریت پسند رہنماؤں کے قتل کے ذریعے اس بات کو ثابت بھی کیا۔ بعض اوقات یہ قتل ایسے وقت ہوئے، جب اپنے بیڈرومز میں سو رہے ہوتے تھے

اسرائیل جانتا ہے کہ حماس کی سرنگوں کو کہاں نشانہ بنایا جائے جو جنگجوؤں اور اسلحے کی نقل و حمل کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اسرائیل نے کئی میلوں پر محیط خفیہ راہداریاں تباہ کی ہیں

ان صلاحیتوں کے باوجود حماس اپنے منصوبے کو پوشیدہ رکھنے میں کامیاب رہی۔ یہ حملہ، جس میں ممکنہ طور پر مہینوں کی منصوبہ بندی اور محتاط تربیت اور متعدد عسکریت پسند گروہوں کے درمیان ہم آہنگی شامل تھی، اسرائیل کے انٹیلیجنس ریڈار کے نیچے سے گزر گیا

ایک ریٹائرڈ اسرائیلی جنرل عامر ایویوی نے کہا کہ غزہ کے اندر انسانی موجودگی کے بغیر، اسرائیل کی سکیورٹی سروسز انٹیلیجنس حاصل کرنے کے لیے تکنیکی ذرائع پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرنے لگی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں عسکریت پسندوں نے تکنیکی انٹیلیجنس جمع کرنے سے بچنے کے طریقے سیکھ لیے ہیں، جس سے اسرائیل کو ان کے عزائم کی نامکمل تصویر ملتی ہے

سابق فوجی چیف آف اسٹاف کے دور میں انٹیلیجنس مواد کے ذرائع کے طور پر کام کرنے والے ایووی نے کہا، ”دوسرے فریق نے ہماری تکنیکی بالادستی سے نمٹنا سیکھا اور انہوں نے ایسی ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا بند کر دیا، جو اسے منظرعام پر لا سکتی ہے“

ایویوی اسرائیل ڈیفنس اینڈ سکیورٹی فورم کے صدر اور بانی ہیں، جو سابق فوجی کمانڈروں کا ایک سخت گیر گروپ ہے۔ ان کا کہنا ہے ”وہ دوبارہ پتھر کے زمانے میں چلے گئے ہیں“ انہوں نے وضاحت کی کہ عسکریت پسند فون یا کمپیوٹر استعمال نہیں کرتے اور وہ اپنے حساس کام ان کمروں میں کر رہے ہیں، جو خاص طور پر تکنیکی جاسوسی سے محفوظ یا زیر زمین ہیں

لیکن ایویوی نے کہا کہ یہ ناکامی صرف انٹیلیجنس اکٹھا کرنے تک محدود نہیں، اس سے آگے تک ہے اور اسرائیل کی سکیورٹی سروسز ان معلومات سے درست تصویر بنانے میں ناکام رہیں، جو انہیں موصول ہو رہی تھیں، جس کی وجہ ان کے خیال میں اسرائیل کی حماس کے ارادوں کے متعلق غلط فہمی تھی

ایویوی اور دیگر کے بقول حقیقت یہ ہے کہ حماس، جو اسرائیل کے خاتمے کا مطالبہ کرتی ہے، اب بھی اس مقصد کو اپنی ترجیح کے طور پر دیکھتی ہے

اسرائیلی روزنامہ ہاریٹز میں دفاعی مبصر آموس ہریل نے لکھا، ”عملی طور پر حماس کے ہزاروں نہیں تو سینکڑوں افراد معلومات افشا کیے بغیر کئی ماہ سے اچانک حملے کی تیاری کر رہے تھے، جس کے نتائج تباہ کن ہیں“

اسرائیل کے ساتھ انٹیلیجنس معلومات شیئر کرنے والے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی ایجنسیاں حقیقت کو ٹھیک طریقے سے نہیں سمجھ رہی تھیں

مصری انٹیلیجنس کے ایک عہدیدار نے کہا کہ مصر، جو اکثر اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرتا ہے، نے اسرائیلیوں کے ساتھ ’کسی بڑی چیز‘ کے بارے میں بار بار بات کی تھی

انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکام کی توجہ مغربی کنارے پر مرکوز تھی اور انہوں نے غزہ کے خطرے کو نظر انداز کیا

عہدیدار چونکہ میڈیا کے ساتھ حساس انٹیلیجنس مباحثوں کے مواد پر تبادلہ خیال کرنے کے مجاز نہیں تھے، لہٰذا انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا: ”ہم نے انہیں متنبہ کیا کہ ایک دھماکہ خیز صورت حال آنے والی ہے، اور بہت جلد، اور یہ بہت بڑی ہوگی، لیکن انہوں نے اس طرح کے انتباہوں کو نظر انداز کیا“

تاہم جب وقت آیا تو اسرائیل کا سکیورٹی نظام ناکام ہوتا دکھائی دیا۔ حماس کے مسلح لوگوں پر مشتمل فورس جس کے بارے میں اسرائیلی فوج کا اندازہ ہے کہ اس میں سینکڑوں افراد شامل تھے، سکیورٹی رکاوٹیں توڑ کر قصبوں میں پھیل گئی

مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی حکومت کے سابق ڈپٹی نیشنل انٹیلی جنس افسر جوناتھن پینی کوف جو اب اٹلانٹک کونسل تھنک ٹینک میں ہیں، نے کہا ”یہ انٹیلیجنس کی ناکامی تھی۔ یہ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا. اسرائیل کا خیال تھا کہ اس کے پاس غزہ کے لیے مضبوط اور موثر سکیورٹی پلان موجود ہے۔ تاہم حالیہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا یہ منصوبہ ناکام ہو گیا“

حماس کے حملے میں اسرائیلی فوج کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ فلسطینی عسکریت پسند گروپوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے درجنوں اسرائیلی فوجیوں کو گرفتار کر لیا ہے

مسلح افراد نے جنوبی قصبے سدروت میں ایک تھانے سمیت سکیورٹی چوکیوں پر بھی قبضہ کر لیا اور اسرائیل اور غزہ کے درمیان موجود ایریز کراسنگ پار کر لی۔ اس جگہ سکیورٹی بہت سخت ہے جہاں لوگوں کو بہت سخت جانچ پڑتال کے بعد آنے جانے دیا جاتا ہے

ہفتے کو حماس کے ذرائع ابلاغ نے فوٹیج چلائی جس میں جنگجوؤں کو خالی دفاتر سے گزرتے ہوئے اور کنکریٹ کی اونچی دیواریں پھلانگتے دکھایا گیا

اسرائیل کے قومی سلامتی کے سابق مشیر ایال حلاتا کا کہنا ہے ”وہ (حماس والے) طویل عرصے سے اس کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بہت مربوط حملہ ہے اور بدقسمتی سے وہ ہمیں حکمت عملی کے لحاظ سے حیران کرنے اور تباہ کن نقصان پہنچانے میں کامیاب رہے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close