”اگر مجھے مرنا ہی ہے تو اسے ایک کہانی ہونے دو“ معروف فلسطینی شاعر رفعت العریر بھی اسرائیلی بمباری میں شہید

ویب ڈیسک

اگر مجھے مرنا ہی ہے،
آپ کو زندہ رہنا چاہئے۔
اپنی کہانی سنانے کے لیے
اپنی چیزیں بیچنے کے لیے
کپڑے کا ایک ٹکڑا خریدنے کے لیے
اور کچھ تار، (ایک لمبی دم سے اسے سفید بنائیں)
تاکہ ایک بچہ، کہیں غزہ میں
آنکھوں میں جنت دیکھتے ہوئے
اپنے والد کے انتظار میں اسے جو آگ میں چھوڑ گئے
اور کسی کو الوداع نہیں کہا
اس کے جسم کے لیے بھی نہیں، خود کو بھی نہیں
پتنگ دیکھتا ہے، میری پتنگ تم نے بنائی ہے، اوپر اڑ رہی ہے۔
اور ایک لمحے کے لیے سوچتا ہے کہ کوئی فرشتہ وہاں ہے،
جو محبت واپس لا رہا ہے۔

اگر مجھے مرنا ہی ہے،
تو امید زندہ رہنے دو،
اسے ایک کہانی بننے دو۔

یہ فلسطین کے معروف شاعر، پروفیسر اور کتاب ’غزہ رائیٹس بیک‘ کے مصنف رفعت العریر کی ایک نظم ہے، جو اس نظم کی تخلیق کے کچھ ہی روز بعد اسرائیل کی بمباری میں شہید ہو گئے ہیں

چوالیس سالہ العریر غزہ کی اسلامی یونیورسٹی (جو اب اسرائیلی بمباری سے تباہ ہو چکی ہے) میں انگریزی ادب کے ایک ممتاز پروفیسر اور انکلیو میں مصنفین کی نوجوان نسل کے رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ وہ بدھ کے روز غزہ شہر میں ایک فضائی حملے میں خاندان کے کئی افراد کے ساتھ شہید ہوئے۔ جس میں ان کے بھائی، ان کی بہن اور ان کے چار بچے بھی شامل تھے

رفعت العریر شاعر اور مصنف تھے، اُنہوں نے ’غزہ رائیٹس بیک‘ اور “Gaza Unsilenced” کے عنوان سے دو کتابیں بھی لکھیں

گزشتہ ماہ رفعت العریر نے انگریزی زبان میں ایک نظم لکھی تھی، جس کا عنوان تھا If I must die ۔ اس نظم کو سوشل میڈیا پر کافی مقبولیت ملی تھی اور اب رفعت کی شہادت کے بعد اُن کے دوست اور چاہنے والے بڑی تعداد میں اُن کی یہ نظم سوشل میڈیا پر شیئر کر رہے ہیں

العریر ’ہم نمبرز نہیں ہیں‘ (”We are not numbers“) نامی پروجیکٹ کے شریک بانیوں میں سے ایک تھے، جو انگریزی زبان میں نظمیں لکھ کر اپنی کہانیاں بڑے پیمانے پر لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ اس تنظیم کا آغاز 2015 میں ہوا اور اس کا مقصد خبروں میں بتائے جانے والے فلسطینی اعداد و شمار کے بیچھے کی کہانیاں بتانا ہے

نیوز ویب سائٹ الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کے شریک بانی پام بیلی نے ان کی شہادت کو ایک بہت بڑا نقصان قرار دیتے ہوئے کہا ”بہت سے لوگ رفعت کے بارے میں، ان کی کتابوں کے ذریعے، ان کی شاعری کے ذریعے جانتے تھے۔ اسی لیے آپ آج ان کے بارے میں سن رہے ہیں کیونکہ بہت سے لوگ اسی وجہ سے ان سے پیار کرتے تھے،‘‘ انہوں نے یہ بتاتے ہوئے کہا کہ العریر نے غزہ میں لوگوں کی جدوجہد کو کس طرح انسانی شکل دی تھی

جب سے اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی پر اپنی بے دریغ بمباری شروع کی ہے، العریر شمالی غزہ میں اپنے آبائی شہر شجاعیہ میں ہی رہے، جسے انہوں نے پہلے ’قیامت کا مظہر، جو اسرائیل کی بربریت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کرتا ہے‘ کے طور پر بیان کیا تھا۔

وہ باقاعدگی سے خطے سے اپ ڈیٹس پوسٹ کرتے تھے، جن میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح بھاری گولہ باری فلسطینیوں کے گھروں، کاروباروں اور زندگیوں کو تباہ کر رہی ہے

انہوں نے اسرائیلی آپریشن کے آغاز کے بعد شمالی غزہ سے جانے سے انکار کر دیا تھا اور شہادت سے دو دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک وڈیو پوسٹ کی تھی، جس میں متعدد دھماکوں کی آوازیں سنی جا سکتی تھیں۔ العریر اس وڈیو میں کہتے ہیں ”یہ بربریت ناقابل بیان ہے!“

انہوں نے اس وڈیو کے ساتھ لکھا تھا ”عمارت لرز رہی ہے۔ ملبہ اور بم کے ٹکڑے دیواروں کو لگ رہے ہیں اور گلیوں میں اڑ رہے ہیں“

انہوں نے کہا، ”اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ کتنے ٹویٹس یا لائیو اسٹریم دیکھتے ہیں، زمین پر حقیقت سوشل میڈیا سے کہیں زیادہ خوفناک ہے… ہم اس کے مستحق نہیں ہیں۔ ہم ایسے جانور نہیں ہیں جیسے اسرائیلی سوچتے ہیں۔ ہمارے بچے اچھے سلوک کے مستحق ہیں“

اکتوبر میں اسرائیل کی جانب سے زمینی کارروائی شروع کرنے کے چند بعد رفعت العریر نے انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ غزہ چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے

فلسطینی شاعر نے کہا تھا ”غزہ سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے، ہم کیا کریں، ڈوب جائیں؟ اجتماعی خودکشی کرلیں؟ کیا اسرائیل یہی چاہتا ہے؟ اور ہم ایسا نہیں کریں گے“

انہوں نے کہا تھا کہ اگر اسرائیلی افواج حملہ کرتی ہیں اور ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی ہے تو ہمیں مزاحمت کرنے کے لیے کچھ بھی کرنا پڑا، ہم کریں گے

شہید ہونے والے فلسطینی شاعر نے کہا تھا کہ یہ جذبہ کئی فلسطینیوں کے اندر پایا جاتا ہے، ہم خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں، ہمارے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے

رفعت العریر کے دوست احمد النوق نے ایکس پر ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’رفعت کا قتل المناک، دردناک اور اشتعال انگیز ہے، یہ ایک بہت بڑا نقصان ہے‘۔

فلسطینی شاعر کے جاں بحق ہونے پر ادبی مرکز کی ویب سائٹ نے بھی انہیں خراج تحسین پیش کیا

اپنی شہادت سے ہفتہ پہلے، العریر نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ اگر وہ مر گیا تو خبر ’ایک کہانی‘ بن جائے گی

بہت سے فلسطینی انہیں اس لیے یاد کرتے ہیں کہ العریر نے فلسطین کی آزادی کے بارے میں کیسے لکھا اور بولا اور اسرائیل کے قبضے کی مزاحمت کی

غزہ کے ممتاز ماہر تعلیم اور شاعر کے دوست اور سابق شاگرد احمد نہاد کہتے ہیں ”الاریر کی میراث ہمیشہ زندہ رہے گی“

نہاد نے الجزیرہ کو بتایا، ”اس نے غزہ کے ہزاروں نوجوانوں، مردوں اور عورتوں کو فلسطین کے بارے میں لکھنے کی تربیت دی۔“

یاد رہے کہ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے بے مثال حملوں کے بعد، رفعت العرير نے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں اس حملے کو جائز اور اخلاقی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ’بالکل وارسا گیٹو کی بغاوت کی طرح ہے۔‘ ان کے اس تبصرے پر اسرائیل نے شدید غصے کا اظہار کیا تھا

وارسا گیٹو بغاوت جرمنی کے زیر قبضہ پولینڈ میں 1943 میں ہوئی تھی، جس میں یہودیوں نے گیٹو میں اسلحہ اسمگل کر کے جرمن نازی آبادی کے خلاف انھیں حراستی کیمپس میں لے کر جانے کے منصوبے کے خلاف مزاحمت کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ بغاوت دوسری جنگ عظیم کے دوران مقبوضہ پولینڈ میں نازیوں کے خلاف یہودی مزاحمت کی سب سے بڑی کارروائی تھی

غیر سرکاری تنظیم یونائیٹڈ وائسز فار امریکہ سے احمد بیدیر نے کہا کہ الاریر کے ٹیلی ویژن اسٹیشنوں اور ریڈیو شوز پر باقاعدگی سے انٹرویوز، جہاں انہوں نے غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ مغربی سامعین کے سامنے بیان کیا، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اسرائیلی فوج انہیں خاموش کرنا چاہتی تھی“

بیدیر نے الجزیرہ کو بتایا کہ بین الاقوامی جذبات اسرائیل کے خلاف بدلنا شروع ہو گئے ہیں۔ ”لہٰذا وہ ان کے علاوہ کسی اور بیانیے کو خاموش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔“

رفعت العریری کے بارے میں سوشل میڈیا پر ان کے رفقا، شاگرد اور دوست بات کر رہے ہیں۔

ان کے ایک شاگرد اور قریبی رفیق جہاد ابو سلیم نے انھیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’انگریزی زبان ان کا جنون تھا لیکن انھوں نے اسے سماج سے لاتعلق ہونے کے لیے نہیں سکھایا، یہ رجحان تیسری دنیا میں انگریزی بولنے والے اپر اور مڈل کلام میں بہت عام ہے۔

’رفعت کے لیے انگریزی زبان آلۂ آزادی تھی، غزہ کے لمبے محاصرے سے آزاد ہونے کا طریقہ، ایک ٹیلی پورٹیشن ڈیوائس جسے غزہ کے فکری، علمی اور ثقافتی ناکہ بندی اور اسرائیل کی جانب سے کھڑی کی گئی فصیلوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔‘

ایلکس کرارفورڈ نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’غزہ کے مشہور ماہر تعلیم اور شاعروں میں سے ایک اسرائیلی فضائی حملے میں اپنے گھروالوں سمیت مارے گئے ہیں۔

’رفعت العریر کے الفاظ ’ہم ناامید ہیں، ہمارے پاس کھونے کو کچھ نہیں‘ پریشان کن ہیں۔‘

ایک صارف نے رفعت کی تصویر شائع کر کے لکھا کہ ’ہمیں کوئی خاموش نہیں کر سکے گا۔ کوئی چیز ہمیں توڑ نہیں سکے گی۔ اور جب ہم مریں گے، ہم اپنے پیچھے کہانیاں اور وراثت چھوڑیں گے، جو ہمارے بچوں کو اسی راہ کی طرف رہنمائی کریں گے: آزادی اور اس کے سوا کچھ نہیں۔‘

ایک صارف ڈین کوہن نے لکھا کہ ’وہ انگریزی ادب اور شاعری کا استعمال کر کے اپنے طالب علموں کو صیہونیت اور یہودی مذہب میں فرق کی تعلیم دیتے تھے اور لوگوں کو سوچ اور فکر سے آراستہ کرتے تھے۔‘

ان کے ایک دوست معصب نے ابو طحہٰ نے لکھا کہ ’میرا دل ٹوٹ گیا ہے میرے دوست اور رفیق رفعت العرعیر چند منٹ قبل اپنے خاندان سمیت ہلاک ہو گئے ہیں۔ میں اس کا یقین نہیں کرنا چاہتا۔ ہم دونوں مل کر سٹرابیریز چنا کرتے تھے۔‘

یاد رہے کہ اکتوبر میں غزہ پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں معروف مصنفہ، شاعرہ اور ناول نگار حبا ابوندا بھی شہید ہوگئی تھیں۔

حبا ابوندا نے اپنی شہادت سے ایک روز قبل سوشل میڈیا پر پیغام جاری کیا تھا، جس میں اُنہوں نے کہا تھا کہ ”اگر ہم مرجائیں تو جان لیں کہ ہم ثابت قدم ہیں اور ہم سچے ہیں“

واضح رہے کہ غزہ میں 7 اکتوبر سے جاری اسرائیلی حملوں میں اب تک 17 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں معصوم بچے، خواتین، شاعر، مصنف اور صحافی بھی شامل ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close