پازیب (ہندی ادب سے منتخب افسانہ)

جینیندر کمار (اردو قالب: تصنیف حیدر)

بازار میں ایک نئی طرح کی پازیب چلی ہے۔ پیروں میں پڑ کر وہ بڑی اچھی معلوم ہوتی ہے۔ اس کی کڑیاں آپس میں لچک کے ساتھ جڑی رہتی ہیں کہ پازیب کی گویا اپنی شکل کچھ نہیں ہے، جس پاؤں میں پڑے، اسی کے مطابق رہتی ہے۔ پاس پڑوس میں تو سب ننھی بڑی کے پیروں میں آپ وہی پازیب دیکھ لیجیے۔ ایک نے پہنی کہ پھر دوسری نے بھی پہنی۔ دیکھادیکھی میں اس طرح ان کا نہ پہننا مشکل ہو گیا ہے۔

ہماری منی نے بھی کہا کہ بابوجی، ہم پازیب پہنیں گے۔ کہیے بھلا مشکل سے چار برس کی عمر اور پازیب پہنے گی۔

میں نے کہا، کیسی پازیب؟

بولی، وہی جیسی رُکمن پہنتی ہے، جیسی شیلا پہنتی ہے۔

میں نے کہا، اچھا اچھا۔

بولی، میں تو آج ہی منگا لوں گی۔

میں نے کہا، اچھا بھائی آج ہی سہی۔۔

اس وقت تو خیر منی کسی کام میں بہل گئی، لیکن جب دوپہر آئی منی کی بوا، تب وہ منی آسانی سے ماننے والی نہ تھی۔ بوا نے منی کو مٹھائی کھلائی اور گود میں لیا اور کہا کہ اچھا، تو تیری پازیب اب کے اتوار کو ضرور لیتی آؤں گی۔

اتوار کو بوا آئی اور پازیب لے آئی۔ منی پہن کر خوشی کے مارے یہاں سے وہاں ٹھمکتی پھری۔ رکمن کے پاس گئی اور کہا، دیکھ رکمن، میری پازیب۔ شیلا کو بھی اپنی پازیب دکھائی۔ سب نے پازیب پہنے دیکھ کر اسے پیار کیا اور تعریف کی۔ سچ مچ وہ چاندی کی سفید دو تین لڑیاں سی ٹخنوں کے چاروں اور لپٹ کر، چپ چاپ بچھی ہوئی، بہت ہی سگھڑ لگتی تھیں، اور بچی کی خوشی کا ٹھکانا نہ تھا۔ اور ہمارے مہاشے آشوتوش، جو منی کے بڑے بھائی تھے، پہلے تو منی کو سجی بجی دیکھ کر بڑے خوش ہوئے۔ وہ ہاتھ پکڑ کر اپنی پیاری منی کو پازیب سمیت دکھانے کے لیے آس پاس لے گئے۔ منی کا پازیب پر گمان انہیں اپنا بھی معلوم ہوتا تھا۔ وہ خوب ہنسے اور تالی پیٹی، لیکن تھوڑی دیر بعد وہ ٹھمکنے لگے کہ منی کو پازیب دی، سو ہم بھی بائیسکل لیں گے۔ بوا نے کہا کہ اچھا بیٹا، اب کے جنم دن کو تجھے بائیسکل دلوائیں گے۔

آشوتوش بابو نے کہا کہ ہم تو ابھی لیں گے۔

بوا نے کہا، چھی چھی، تو کوئی لڑکی ہے؟ ضد تو لڑکیاں کیا کرتی ہیں۔۔ اور لڑکیاں روتی ہیں۔ کہیں بابو صاحب لوگ روتے ہیں؟

آشوتوش بابو نے کہا کہ تو ہم بائیسکل ضرور لیں گے جنم دن والے روز ۔ بوا نے کہا کہ ہاں، یہ بات پکی رہی، جنم دن پر تم کو بائیسکل ملے گی۔

اس طرح وہ اتوار کا دن ہنسی خوشی پورا ہوا۔ شام ہونے پر بچوں کی بوا چلی گئی۔ پازیب کا شوق گھڑی بھر کا تھا۔ وہ پھر اتار کر رکھ رکھا دی گئی؛ جس سے کہیں کھو نہ جائے۔ پازیب وہ باریک اور سبک کام کی تھی اور خاصے دام لگ گئے تھے۔

شریمتی جی نے ہم سے کہا، کیوں جی، لگتی تو اچھی ہے، میں بھی اپنے لیے بنوا لوں؟

میں نے کہا کہ کیوں نہ بنواؤ! تم کون چار برس کی نہیں ہو؟

خیر، یہ ہوا۔ پر میں رات کو اپنی میز پر تھا کہ شریمتی نے آکر کہا کہ تم نے پازیب تو نہیں دیکھی؟

میں نے حیرت سے کہا کہ کیا مطلب؟

بولی کہ دیکھو، یہاں میز ویز پر تو نہیں ہے؟ ایک تو ہے پر دوسرے پیر کی ملتی نہیں ہے۔ جانے کہاں گئی؟

میں نے کہا کہ جائے گی کہاں؟ یہیں کہیں دیکھ لو۔ مل جائے گی۔

انہوں نے میری میز کے کاغذ اٹھانے دھرنے شروع کئے اور الماری کی کتابیں ٹٹول ڈالنے کا بھی منصوبہ بنایا۔

میں نے کہا کہ یہ کیا کر رہی ہو؟ یہاں وہ کہاں سے آئے گی؟

جواب میں وہ مجھی سے پوچھنے لگی کہ پھر کہاں ہے؟

میں نے کہا، تمہیں نے تو رکھی تھی۔ کہاں رکھی تھی؟

بتلانے لگی کہ دوپہر کے بعد کوئی دو بجے اتار کر دونوں اچھی طرح سنبھال کر اس نیچے والے بکس میں رکھ دی تھیں۔ اب دیکھا تو ایک ہے، دوسری غائب ہے۔

میں نے کہا کہ تو چل کر وہ اس کمرے میں کیسے آ جائے گی؟ بھول ہو گئی ہوگی۔ ایک رکھی ہوگی، ایک وہیں کہیں فرش پر چھوٹ گئی ہوگی۔ دیکھو، مل جائے گی۔ کہیں جا نہیں سکتی۔

اس پر شریمتی کہا سنی کرنے لگیں کہ تم تو ایسے ہی ہو۔ خود لاپرواہ ہو، دوش الٹا مجھے دیتے ہو۔ کہہ تو رہی ہوں، کہ میں نے دونوں سنبھال کر رکھی تھیں۔

میں نے کہا کہ سنبھال کر رکھی تھیں، تو پھر یہاں وہاں کیوں دیکھ رہی تھیں؟ جہاں رکھی تھی، وہیں سے لے لو نا۔ وہاں نہیں ہے تو پھر کسی نے نکالی ہی ہوگی۔

شریمتی بولیں کہ میرا بھی یہی خیال ہو رہا ہے۔ ہو نہ ہو، بنسی نوکر نے نکالی ہوگی۔ میں نے رکھی، تب وہ وہاں موجود تھا۔

میں نے کہا، تو اس سے پوچھا؟

بولیں، وہ تو صاف انکار کر رہا ہے۔

میں نے کہا، تو پھر؟

شریمتی زور سے بولیں، تو پھر میں کیا بتاؤں؟ تمہیں تو کسی بات کی فکر ہے نہیں۔ ڈانٹ کر کہتے کیوں نہیں ہو،ل اس بنسی کو بلا کر؟ ضرور پازیب اسی نے لی ہے۔

میں نے کہا کہ اچھا، تو اسے کیا کہنا ہوگا؟ یہ کہوں کہ لا بھائی پازیب دے دے!

شریمتی جھلا کر بولیں کہ ہو چکا سب کچھ تم سے۔۔ تمہیں نے تو اس نوکر کی جات کو شہزور بنا رکھا ہے۔

ڈانٹ نہ پھٹکار، نوکر ایسے سر نہ چڑھے گا تو کیا ہوگا؟

بولیں کہ کہہ تو رہی ہوں، کہ کسی نے اسے بکس سے نکالا ہی ہے۔۔ اور سولہ میں پندرہ آنے یہ بنسی ہے۔ سنتے ہو نہ، وہی ہے۔

میں نے کہا کہ میں نے بنسی سے پوچھا تھا۔ معلوم ہوتا ہے اس نے نہیں لی۔

اس پر شریمتی نے کہا کہ تم نوکروں کو نہیں جانتے۔ وہ بڑے چھنٹے ہوتے ہیں۔ بنسی چور ضرور ہے۔ نہیں تو کیا فرشتے لینے آتے؟

میں نے کہا کہ تم نے آشوتوش سے بھی پوچھا؟

بولیں، پوچھا تھا۔ وہ تو خود ٹرنک اور بکس کے نیچے گھس گھس کر کھوج لگانے میں میری مدد کرتا رہا ہے۔ وہ نہیں لے سکتا۔

میں نے کہا، اسے پتنگ کا بڑا شوق ہے۔

بولیں کہ تم تو اسے بتاتے وتاتے کچھ ہو نہیں۔ عمر ہوتی جا رہی ہے۔ وہ یوں ہی رہ جائے گا۔ تمہیں ہو اسے پتنگ کی شہ دینے والے۔

میں نے کہا کہ جو کہیں پازیب ہی پڑی مل گئی ہو تو؟

بولیں، نہیں، نہیں! ملتی تو وہ بتا نہ دیتا؟

خیر۔۔ باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ اس شام آشوتوش پتنگ اور ڈور کا پِنّا نیا لایا ہے۔

شریمتی نے کہا کہ یہ تمہیں ہو، جس نے پتنگ کی اسے اجازت دی۔ بس سارے دن پتنگ پتنگ۔۔ یہ نہیں کہ کبھی اسے بٹھا کر سبق کی بھی کوئی بات پوچھو۔ میں سوچتی ہوں، کہ ایک دن توڑ تاڑ دوں اس کی سب ڈور اور پتنگ۔

میں نے کہا کہ خیر؛ چھوڑو۔ کل سویرے پوچھ تاچھ کریں گے۔

سویرے بلا کر میں نے گمبھیرتا سے اس سے پوچھا کہ کیوں بیٹا،ایک پازیب نہیں مل رہی ہے، تم نے تو نہیں دیکھی؟

وہ گم ہو گیا۔ جیسے ناراض ہو۔ اس نے سر ہلایا کہ اس نے نہیں لی۔ پر منہ نہیں کھولا۔

میں نے کہا کہ دیکھو بیٹے، لی ہو تو کوئی بات نہیں، سچ بتا دینا چاہیے۔ اس کا منہ اور بھی پھول گیا اور وہ گم سم بیٹھا رہا۔

میرے من میں اس سمے طرح طرح کے اصول آ بسے۔ میں نے اعادہ کیا کہ جرم کے تئیں رحمدلی سے کام لیا جانا چاہیے۔۔ غصے کا موقع نہیں ہے۔ پیار سے ہی مجرمانہ روش کوزیر کیا جا سکتا ہے۔ ڈر سے اسے دبانا ٹھیک نہیں ہے۔ بچے کا مزاج نازک ہوتا ہے اور اس سے ہمیشہ محبت سے ہی پیش آنا چاہیئے، وغیرہ وغیرہ۔

میں نے کہا کہ بیٹا آشوتوش، تم گھبراؤ نہیں۔ سچ کہنے میں گھبرانا نہیں چاہیے۔ لی ہو تو کھل کر کہہ دو، بیٹا! ہم کوئی سچ کہنے کی سزا تھوڑے ہی دے سکتے ہیں۔ بلکہ سچ بولنے پر تو انعام ملا کرتا ہے۔

آشوتوش تب بیٹھا سنتا رہا۔ اس کا منہ سوجا ہواتھا۔ وہ سامنے میری آنکھوں میں نہیں دیکھ رہا تھا۔ رہ رہ کر اس کے ماتھے پر بل پڑتے تھے۔

کیوں بیٹے، تم نے لی تو نہیں؟

اس نے سر ہلاکر غصے سے ٹھہری اور تیز آواز میں کہا کہ میں نے نہیں لی، نہیں لی، نہیں لی۔۔۔ یہ کہہ کر وہ روہانسا ہو گیا، پر رویا نہیں۔ آنکھوں میں آنسو روک لیے۔ اس وقت مجھے محسوس ہوا، کہ یہ درشتگی کی علامت ہے۔

میں نے کہا، دیکھو بیٹا، ڈرو نہیں؛ اچھا جاؤ، ڈھونڈو؛ شاید کہیں پڑی ہوئی وہ پازیب مل جائے۔ مل جائے گی تو ہم تمہیں انعام دیں گے۔

وہ چلا گیا اور دوسرے کمرے میں جاکر پہلے تو ایک کونے میں کھڑا ہو گیا۔ کچھ دیر چپ چاپ کھڑے رہ کر وہ پھر یہاں وہاں پازیب کی تلاش میں لگ گیا۔

شریمتی آ کر بولیں، آشو سے تم نے پوچھ لیا؟ کیا خیال ہے؟

میں نے کہا کہ شک تو مجھے ہوتا ہے۔۔ نوکر کا تو کام یہ ہے نہیں!

شریمتی نے کہا، نہیں جی، آشو بھلا کیوں لے گا؟

میں کچھ بولا نہیں۔ میرا من جانے کیسے گہرے محبت بھرے جذبے سے آشوتوش کے لیے امڈ رہا تھا۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس وقت آشوتوش کو ہمیں اپنی ہمدردی سے محروم نہیں کرنا چاہیئے۔ بلکہ کچھ مزید محبت اس وقت لڑکے کو ملنی چاہیئے۔ مجھے یہ ایک بھاری حادثہ معلوم ہوتا تھا۔ محسوس ہوتا تھا کہ اگر آشوتوش نے چوری کی ہے تو اس کا اتنا قصور نہیں ہے؛ بلکہ یہ ہمارے اوپر بڑا بھاری الزام ہے۔ بچے میں چوری کی عادت بھیانک ہو سکتی ہے، لیکن بچے کے سامنے ایسی مجبوری آئی، یہ اور بھی کہیں بھیانک ہے۔ یہ ہماری کمی ہے۔ ہم اس چوری سے بَری نہیں ہو سکتے۔

میں نے بلاکر کہا، اچھا سنو۔۔ دیکھو، میری طرف دیکھو، یہ بتاؤ کہ پازیب تم نے چھنو کو دی ہے نہ؟

وہ کچھ دیر کچھ نہیں بولا۔ اس کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور ایک گیا۔ میں ایک ایک رنگ تاڑنا چاہتا تھا۔

میں نے یقین دلاتے ہوئے کہا کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ ہاں، ہاں، بولو ڈرو نہیں۔ ٹھیک بتاؤ، بیٹے! کیسا ہمارا سچا بیٹا ہے!

بڑی کوششوں کے بعد اس نے اپنا سر ہلایا۔

میں نے بہت خوش ہو کر کہا کہ دی ہے نا چھنو کو؟

اس نے سر ہلا دیا۔

نہایت ہمدرانہ لہجے میں محبت سے میں نے کہا کہ منہ سے بولو۔ چھنو کو دی ہے؟

اس نے کہا، ہاں آں۔

میں نے نہایت خوشی کے ساتھ دونوں بانہوں میں لے کر اسے اٹھا لیا۔ کہا کہ ایسے ہی بول دیا کرتے ہیں اچھے لڑکے۔ آشو ہمارا راجا بیٹا ہے۔ ایک فخریہ انداز سے اسے گود میں لیے لیے میں اس کی ماں کی طرف گیا۔ جوشیلے لہجے میں بولا کہ دیکھو ہمارے بیٹے نے سچ قبول کیا ہے۔ پازیب اس نے چھنو کو دی ہے۔ سن کر ماں اس کی بہت خوش ہو گئیں۔ انہوں نے اسے چوما۔ بہت شاباشی دی اور اس کی بلائیں لینے لگیں!

آشوتوش بھی مسکرا دیا، اگرچہ ایک اداسی بھی اس کے چہرے سے دور نہیں ہوئی تھی۔

اس کے بعد الگ لے جاکر میں نے بڑے پیار سے پوچھا کہ پازیب چھنو کے پاس ہے نا؟ جاؤ، مانگ لا سکتے ہو اس سے؟

آشوتوش میری اور دیکھتا ہوا بیٹھا رہا۔ میں نے کہا کہ جاؤ بیٹے! لے آؤ۔ اس نے جواب میں منہ نہیں کھولا۔

میں نے اصرار کیا تو وہ بولا کہ چھنو کے پاس نہیں ہوئی تو وہ کہاں سے دے گا؟

میں نے کہا کہ تو جس کو اس نے دی ہوگی، اس کا نام بتا دے گا۔ سن کر وہ چپ ہو گیا۔ میرے بار بار کہنے پر وہ یہی کہتا رہا کہ پازیب چھنو کے پاس نہ ہوئی تو وہ دے گا کہاں سے؟

آخر میں ہار کر میں نے کہا کہ وہ کہیں تو ہوگی۔ اچھا، تم نے کہاں سے اٹھائی تھی؟

پڑی ملی تھی۔

اور پھر نیچے جا کر وہ تم نے چھنو کو دکھائی؟

ہاں!

پھر اسی نے کہا کہ اسے بیچیں گے!

ہاں!

کہاں بیچنے کو کہا؟ کہا مٹھائی لائیں گے؟ نہیں، پتنگ لائیں گے؟

ہاں!

سو پازیب چھنو کے پاس رہ گئی؟

ہاں!

تو اسی کے پاس ہونی چاہیئے نا! یا پتنگ والے کے پاس ہوگی! جاؤ بیٹا، اس سے لے آؤ۔۔ کہنا، ہمارے بابوجی تمہیں انعام دیں گے۔

وہ جانا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے پھر کہا کہ چھنو کے پاس نہیں ہوئی تو کہاں سے دے گا!

مجھے اس کی ضد بری معلوم ہوئی۔ میں نے کہا کہ تو کیا کہیں تم نے اسے گاڑ دیا ہے؟ کیا کیا ہے؟ بولتے کیوں نہیں؟

وہ میری طرف دیکھتا رہا، اور کچھ نہیں بولا۔

میں نے کہا، کچھ کہتے کیوں نہیں؟

وہ گم سم رہ گیا۔ اور نہیں بولا۔

میں نے ڈپٹ کر کہا کہ جاؤ، جہاں ہو وہیں سے پازیب لے کر آؤ۔

جب وہ اپنی جگہ سے نہیں اٹھا اور نہیں گیا تو میں نے اسے کان پکڑ کر اٹھایا۔ کہا کہ سنتے ہو؟ جاؤ، پازیب لے کر آؤ۔ نہیں تو گھر میں تمہارا کوئی کام نہیں ہے۔ اس طرح اٹھانے سے وہ اٹھ گیا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ نکل کر برآمدے کے ایک کونے میں روٹھا منہ بناکر کھڑا رہ گیا۔

مجھے بڑا عجیب محسوس ہو رہا تھا۔ یہ لڑکا سچ بول کر اب کس بات سے گھبرا رہا ہے، یہ میں کچھ سمجھ نہ سکا۔ میں نے باہر آکر دھیرے سے کہا کہ جاؤ بھائی، جا کر چھنو سے کہتے کیوں نہیں ہو؟

پہلے تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور جواب دیا تو بار بار کہنے لگا کہ چھنو کے پاس نہیں ہوئی تو وہ کہاں سے دے گا؟

میں نے کہا کہ جتنے میں اس نے بیچی ہوگی، وہ دام دے دیں گے۔ سمجھے نا! جاؤ، تم کہو تو۔۔

چھنو کی ماں تو کہہ رہی ہے کہ اس کا لڑکا ایسا کام نہیں کر سکتا۔ اس نے پازیب نہیں دیکھی۔

جس پر آشوتوش کی ماں نے کہا کہ نہیں تمہارا چھنو جھوٹ بولتا ہے۔ کیوں رے آشوتوش، تینے دی تھی نا؟

آشوتوش نے دھیرے سے کہا، ہاں، دی تھی۔

دوسری جانب سے چھنو بڑھ کر آیا اور ہاتھ پھٹکار کر بولا کہ مجھے نہیں دی۔ کیوں رے، مجھے کب دی تھی؟

آشوتوش نے ضد باندھ کر کہا کہ دی تو تھی۔ کہہ دو، نہیں دی تھی؟

نتیجہ یہ ہوا کہ چھنو کی ماں نے چھنو کو خوب پیٹا اور خود بھی رونے لگی۔ کہتی جاتی کہ ہائے رے، اب ہم چور ہو گئے۔ ایسی بری اولاد جانے کب مٹے گی؟

بات دور تک پھیل گئی۔ پڑوس کی عورتوں کو بھنک پڑنے لگی۔ اور شریمتی نے گھر لوٹ کر کہا کہ چھنو اور اس کی ماں دونوں ایک سے ہیں۔ میں نے کہا کہ تم نے تیزا تیزی کیوں کر ڈالی؟ ایسے کوئی بات بھلا سلجھتی ہے!

بولی کہ ہاں، میں تیز بولتی ہوں،۔ اب جاؤ نا، تمہیں ان کے پاس سے پازیب نکال کر لاتے کیوں نہیں؟ تب جانوں، جب پازیب نکلوا دو۔

میں نے کہا کہ پازیب سے بڑھ کر سکون ہے۔ اور ہنگامے سے تو پازیب مل نہیں جائے گی۔

شریمتی بدبداتی ہوئی ناراض ہو کر میرے سامنے سے چلی گئیں۔

تھوڑی دیر بعد چھنو کی ماں ہمارے گھر آئی۔ شریمتی انہیں لائی تھی۔ اب ان کے بیچ گرمی نہیں تھی، انہوں نے میرے سامنے آ کر کہا کہ چھنو تو پازیب کے لیے انکار کرتا ہے۔ وہ پازیب کتنے کی تھی، میں اس کے دام بھر سکتی ہوں۔

میں نے کہا، یہ آپ کیا کہتی ہیں! بچہ بچہ ہے۔ آپ نے چھنو سے اطمینان سے پوچھا بھی!

انہوں نے اسی لمحے چھنو کو بلا کر میرے سامنے کر دیا۔ کہا کہ کیوں رے، بتا کیوں نہیں دیتا جو تینے پازیب دیکھی ہو؟

چھنو نے زور سے سر ہلا کر انکار کیا اور بتایا کہ پازیب آشوتوش کے ہاتھ میں میں نے دیکھی تھی اور وہ پتنگ والوں کو دے آیا ہے۔ میں نے خوب دیکھی تھی، وہ چاندی کی تھی۔

تمہیں ٹھیک معلوم ہے؟

ہاں، وہ مجھ سے کہہ رہا تھا کہ تُو بھی چل۔ پتنگ لائیں گے۔

پازیب کتنی بڑی تھی؟ بتاؤ تو۔

چھنو نے اس کا سائز بتایا، جو ٹھیک ہی تھا۔

میں نے اس کی ماں کی طرف دیکھ کر کہا دیکھیے نا! پہلے یہی کہتا تھا کہ میں نے پازیب دیکھی تک نہیں۔ اب کہتا ہے کہ دیکھی ہے۔

ماں نے میرے سامنے چھنو کو کھینچ کر اسی وقت دھم دھم پیٹنا شروع کر دیا۔ کہا کہ کیوں رے، جھوٹ بولتا ہے؟تیری چمڑی نہ ادھیڑی تو میں نہیں۔

میں نے بیچ بچاؤ کر کے چھنو کو بچایا۔ وہ شہید کی طرح پٹتا رہا تھا۔ رویا بالکل نہیں اور ایک کونے میں کھڑے آشوتوش کو جانے کن نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

خیر، میں نے سب کو چھٹی دی۔ کہا، جاؤ بیٹا چھنو کھیلو۔ اس کی ماں کو کہا، آپ اسے ماریے گا نہیں۔۔ اور پازیب کوئی ایسی بڑی چیز نہیں ہے۔

چھنو چلا گیا۔ تب، اس کی ماں نے پوچھا کہ آپ اسے قصوروار سمجھتے ہیں؟

میں نے کہا کہ معلوم تو ہوتا ہے کہ اسے کچھ پتہ ہے۔۔ اور وہ معاملے میں شامل ہے۔

اس پر چھنو کی ماں نے پاس بیٹھی ہوئی میری پتنی سے کہا، چلو بہن جی، میں تمہیں اپنا سارا گھر دکھائے دیتی ہوں۔

ایک ایک چیز دیکھ لو۔ ہوگی پازیب تو جائے گی کہاں؟

میں نے کہا، چھوڑیئے بھی۔۔ بے بات کی بات بڑھانے سے کیا فائدہ۔

سو جوں توں میں نے انہیں دلاسہ دیا۔ نہیں تو وہ چھنو کو پیٹ پاٹ حال بےحال کر ڈالنے کا عہدہی کیے لے رہی تھیں۔

بدمعاش، آج اسی دھرتی میں نہیں گاڑ دیا تو، میرا نام نہیں۔

خیر، کسی نہ کسی طور بکھیڑا ٹالا۔ میں اس جھنجھٹ میں دفتر بھی وقت پر نہیں جا سکا۔ جاتے وقت شریمتی کو کہہ گیا کہ دیکھو، آشوتوش کو دھمکانا مت۔ پیار سے ساری باتیں پوچھنا۔ دھمکانے سے بچے بگڑ جاتے ہیں، اور ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ سمجِھیں نا؟

شام کو دفتر سے لوٹا تو شریمتی سے اطلاع دی کہ آشوتوش نے سب بتلا دیا ہے۔ گیارہ آنے پیسے میں وہ پازیب پتنگ والے کو دے دی ہے۔ پیسے اس نے تھوڑے تھوڑے کرکے دینے کو کہے ہیں۔ پانچ آنے جو دیے، وہ چھنو کے پاس ہیں۔

اس طرح رتی رتی بات اس نے کہہ دی ہے۔ کہنے لگی کہ میں نے بڑے پیار سے پوچھ پوچھ کر یہ سب اس کے پیٹ میں سے نکالا ہے۔ دو تین گھنٹے میں مغز مارتی رہی۔ ہائے رام، بچہ کا بھی کیا جی ہوتا ہے۔

میں سن کر خوش ہوا۔ میں نے کہا کہ چلو اچھا ہے، اب پانچ آنے بھیج کر پازیب منگوا لیں گے۔ لیکن یہ پتنگ والا بھی کتنا بدمعاش ہے، بچوں کے ہاتھ سے ایسی چیزیں لیتا ہے۔ اسے پولس میں دے دینا چاہیے۔ اُچکّا کہیں کا!

پھر میں نے پوچھا کہ آشوتوش کہاں ہے؟

انہوں نے بتایا کہ باہر ہی کہیں کھیل کھال رہا ہوگا۔

میں نے کہا کہ بنسی، جا کر اسے بلا تو لاؤ۔

بنسی گیا اور اس نے آ کر کہا کہ وہ ابھی آتے ہیں۔

کیا کر رہا ہے؟

چھنو کے ساتھ گلی ڈنڈا کھیل رہے ہیں۔

تھوڑی دیر میں آشوتوش آیا۔ تب میں نے اسے گود میں لےکر پیار کیا۔ آتے آتے اس کا چہرہ اداس ہو گیا اور گود میں لینے پر بھی وہ کوئی خاص خوش معلوم نہیں ہوا۔ اس کی ماں نے خوش ہوکر کہا کہ آشوتوش نے سب باتیں اپنے آپ پوری پوری بتا دی ہیں۔ ہمارا آشوتوش بڑا سچا لڑکا ہے۔

آشوتوش میری گود میں ٹکا رہا، لیکن اپنی بڑائی سن کر بھی ایسا معلوم ہوتا تھا،اس کو کچھ خوشی نہیں ہوئی۔

میں نے کہا کہ آؤ چلو۔ اب کیا بات ہے۔ کیوں حضرت، تم کو پانچ ہی آنے تو ملے ہیں نا؟ ہم سے پانچ آنے مانگ لیتے تو کیا ہم نہ دیتے؟ سنو،اب سے ایسا مت کرنا، بیٹے!

کمرے میں جاکر میں نے اس سے پھر پوچھ تاچھ کی، کیوں بیٹا، پتنگ والے نے پانچ آنے تمہیں دیے، ہے نا؟

ہاں!

اور وہ چھنو کے پاس ہیں نا!

ہاں!

ابھی تو اس کے پاس ہو نگے نا!

نہیں۔

خرچ کر دیے!

نہیں۔

نہیں خرچ کیے؟

ہاں۔

خرچ کیے، کہ نہیں خرچ کیے؟

اس طرح سے سوال کرنے پر وہ میری طرف دیکھتا رہا، جواب نہیں دیا۔

بتاؤ! خرچ کر دیے، کہ ابھی ہیں؟

جواب میں اس نے ایک بار ’ہاں‘ کہا تو دوسری بار ’نہیں‘ کہا۔

میں نے کہا، تو یہ کیوں نہیں کہتے کہ تمہیں نہیں معلوم ہے؟

ہاں۔

بیٹا، معلوم ہے نا؟

ہاں۔

پتنگ والے سے پیسے چھنو نے لیے ہیں نا؟

ہاں۔

تم نے کیوں نہیں لیے؟

وہ چپ۔

اکنیاں کتنی تھیں، بولو؟

دو۔

باقی پیسے تھے؟

ہاں۔

دونی تھی!

ہاں۔

مجھے غصہ آنے لگا۔ ڈپٹ کر کہا کہ سچ کیوں نہیں بولتے؟ سچ بتاؤ کتنی اکنیاں تھی اور کتنا کیا تھا۔

وہ کھڑا رہا، نہیں بولا۔

بولتے کیوں نہیں؟

وہ نہیں بولا۔

سنتے ہو! بولو نہیں تو۔۔۔

آشوتوش ڈر گیا۔ اور کچھ نہیں بولا۔

سنتے نہیں، میں کیا کہہ رہا ہوں؟

اس بار بھی وہ نہیں بولا تو میں نے کان پکڑ کر اس کے کان کھینچ لیے۔ وہ بغیر آنسو بہائے گم سم کھڑا رہا۔

اب بھی نہیں بولو گے؟

وہ ڈر کے مارے زرد ہوگیا۔ لیکن بول نہیں سکا۔ میں نے زور سے بلایا۔ بنسی یہاں آؤ، ان کو لے جاکر کوٹھری میں بند کر دو۔

بنسی نوکر اسے اٹھا کر لے گیا اور کوٹھری میں بند کر دیا۔

دس منٹ بعد پھر اسے پاس بلوایا۔ اس کا منہ سوجا ہوا تھا۔ بنا کچھ بولے اس کے ہونٹ ہل رہے تھے۔ کوٹھری میں بند ہو کر بھی وہ رویا نہیں۔

میں نے کہا، کیوں رے، اب تو عقل آئی؟

وہ سنتا ہوا گم سم کھڑا رہا۔

اچھا، پتنگ والا کون سا؟ دائیں طرف کا چوراہے والا؟

اس نے کچھ منہ میں ہی بڑبڑا دیا، جسے میں کچھ سمجھ نہ سکا۔

وہ چوراہے والا؟ بولو!

ہاں۔

دیکھو، اپنے چاچا کے ساتھ چلے جاؤ۔ بتا دینا کہ کون سا ہے۔ پھر اس سے وہ خود نمٹ لیں گے۔ سمجھتے ہو نا؟

یہ کہہ کر میں نے اپنے بھائی کو بلوایا۔ سب بات سمجھا کر کہا، دیکھو، پانچ آنے کے پیسے لے جاؤ۔ پہلے تم دور رہنا۔ آشوتوش پیسے لے جاکر اسے دے گا اور اپنی پازیب مانگے گا۔ اول تو وہ پازیب لوٹا ہی دے گا۔ نہیں تو اسے ڈانٹنا اور کہنا کہ تجھے پولس کے سپرد کر دوں گا۔ بچوں سے مال ٹھگتا ہے؟ سمجھے؟ نرمی کی ضرورت نہیں ہے۔

اور آشوتوش، اب جاؤ۔ اپنے چاچا کے ساتھ جاؤ۔ وہ اپنی جگہ پر کھڑا تھا۔ سن کر بھی ٹس سے مس ہوتا دکھائی نہیں دیا۔

نہیں جاؤ گے؟

اس نے سر ہلا دیا کہ نہیں جاؤں گا۔

میں نے تب اسے سمجھا کر کہا کہ بھیا گھر کی چیز ہے، دام لگے ہیں۔ بھلا پانچ آنے میں روپیوں کا مال کسی کے ہاتھ کھو دو گے! جاؤ، چاچا کے سنگ جاؤ۔ تمہیں کچھ نہیں کہنا ہوگا۔ ہاں، پیسے دے دینا اور اپنی چیز واپس مانگ لینا۔ دے تو دے، نہیں دے تو نہیں دے۔ تمہارا اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ٹھیک ہے نا بیٹے! اب جاؤ۔

پر وہ جانے کو تیار ہی نہیں دکھا۔ مجھے لڑکے کی گستاخی پر بڑا غصہ آیا۔ میں نے کہا، اس میں بات کیا ہے؟

اس میں مشکل کہاں ہے؟ سمجھا کر بات کر رہے ہیں تو سمجھتا ہی نہیں، سنتا ہی نہیں۔ میں نے کہا کہ، کیوں رے نہیں جائے گا؟

اس نے پھر سر ہلا دیا کہ نہیں جاؤں گا۔

میں نے اپنے چھوٹے بھائی پرکاش کو بلایا۔ کہا، پرکاش، اسے پکڑ کر لے جاؤ۔

پرکاش نے اسے پکڑا اور آشوتوش اپنے ہاتھ پیروں سے اس کی مزاحمت کرنے لگا۔ وہ ساتھ جانا نہیں چاہتا تھا۔ میں نے اپنے اوپر بہت جبر کر کے پھر آشوتوش کو پچکارا، کہ جاؤ بھائی! ڈرو نہیں۔ اپنی چیز گھر میں آئے گی۔

اتنی سی بات سمجھتے نہیں۔ پرکاش اسے گود میں اٹھاکر لے جاؤ اور جو چیز مانگے اسے بازار میں دلا دینا۔ جاؤ بھائی آشوتوش!

پر اس کا منہ پھولا ہوا تھا۔ جیسے تیسے بہت سمجھانے پر وہ پرکاش کے ساتھ چلا۔ ایسے چلا، گویا پیر اٹھانا اسے بھاری ہو رہا ہو۔ آٹھ برس کا یہ لڑکا ہونے کو آیا پھر بھی دیکھو نا کہ کسی بھی بات کی اس میں سمجھ نہیں ہے۔ مجھے جو غصہ آیا ، کیا بتلاؤں! لیکن یہ یاد کرکے کہ غصے سے بچے سنبھلنے کی جگہ بگڑتے ہیں، میں اپنے کو دباتا چلا گیا۔ خیر، وہ گیا تو میں نے چین کی سانس لی۔

لیکن دیکھتا کیا ہوں کہ کچھ دیر میں پرکاش لوٹ آیا ہے۔

میں نے پوچھا، کیوں؟

بولا کہ آشوتوش بھاگ آیا ہے۔

میں نے کہا کہ اب وہ کہاں ہے؟

وہ روٹھا کھڑا ہے، گھر میں نہیں آتا۔

جاؤ، پکڑ کر تو لاؤ۔

وہ پکڑا ہوا آیا۔ میں نے کہا، کیوں رے، تو شرارت سے باز نہیں آئے گا؟ بول، جائے گا کہ نہیں؟

وہ نہیں بولا تو میں نے کس کر اس کے دو چانٹے جڑ دیے۔ تھپڑ لگتے ہی وہ ایک دم چیخا، لیکن فوراً چپ ہو گیا۔ وہ ویسے ہی میرے سامنے کھڑا رہا۔

میں نے اسے دیکھ کر مارے غصے سے کہا کہ لے جاؤ اسے میرے سامنے سے۔۔ جا کر کوٹھری میں بند کر دو۔

’بدمعاش!‘ اس بار وہ آدھ ایک گھنٹے بند رہا۔ مجھے خیال آیا کہ میں ٹھیک نہیں کر رہا ہوں۔۔ لیکن جیسے کوئی دوسرا راستہ نہ دِکھتا تھا۔ مار پیٹ کر من کو دلاسہ دینے کی عادت پڑ گئی تھی، اور کچھ مشق نہ تھی۔

خیر، میں نے اس بیچ پرکاش کو کہا کہ تم دونوں پتنگ والے کے پاس جاؤ۔ معلوم کرنا کہ کس نے پازیب لی ہے۔ ہوشیاری سے معلوم کرنا۔ معلوم ہونے پر سختی کرنا۔ مروت کی ضرورت نہیں۔ سمجھے۔

پرکاش گیا اور لوٹنے پر بتایا کہ اس کے پاس پازیب نہیں ہے۔

سن کر میں جھلّا گیا، کہا کہ تم سے کچھ کام نہیں ہو سکتا۔ ذرا سی بات نہیں ہوئی،تم سے کیا امید رکھی جائے؟ وہ اپنی صفائی دینے لگا۔ میں نے کہا، بس، تم جاؤ۔

پرکاش میرا بہت لحاظ کرتا تھا۔ وہ منہ لٹکا کر چلا گیا۔ کوٹھری کھلوانے پر آشوتوش کو فرش پر سوتا پایا۔ اس کے چہرے پر اب بھی آنسو نہیں تھے۔ سچ پوچھو تو مجھے اس وقت لڑکے پر بڑا ترس آیا۔ لیکن آدمی میں ایک ہی ساتھ جانے کیا کیا متضاد جذبات سر اٹھاتے ہیں! میں نے اسے جگایا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھا۔ میں نے کہا، کہو، کیا حالت ہے؟

تھوڑی دیر تک وہ سمجھا ہی نہیں۔ پھر شاید پچھلا سلسلہ یاد آیا۔ جھٹ اس کے چہرے پر وہیں ضِد، اکڑ اور بغاوت کے آثار دکھائی دینے لگے۔

میں نے کہا کہ یا تو راضی راضی چلے جاؤ، نہیں تو اس کوٹھری میں پھر بند کیے دیتے ہیں۔ آشوتوش پر اس کا خاص اثر ہوتا معلوم نہیں ہوا۔

خیر، اسے پکڑ کر لایا اور سمجھانے لگا۔ میں نے نکال کر اسے ایک روپیہ دیا اور کہا، بیٹا، اسے پتنگ والے کو دے دینا اور پازیب مانگ لینا۔کوئی گھبرانے کی بات نہیں۔ تم سمجھدار لڑکے ہو۔

اس نے کہا کہ جو پازیب اس کے پاس نہیں ہوئی تو وہ کہاں سے دے گا؟

اس کا کیا مطلب، تم نے کہا نا کہ پانچ آنے میں پازیب دی ہے۔ نہ ہو تو چھنو کو بھی ساتھ لے لینا۔ سمجھے؟ وہ چپ ہو گیا۔ آخر سمجھانے پر جانے کو تیار ہوا۔ میں نے پیار سے اسے پرکاش کے ساتھ جانے کو کہا۔

اس کا منہ بھاری دیکھ کر ڈانٹنے والا ہی تھا کہ اتنے میں سامنے اس کی بوا دکھائی دی۔ بوا نے آشوتوش کے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو، میں تو تمہارے لیے کیلے اور مٹھائی لائی ہوں۔ آشوتوش کا چہرہ روٹھا ہی رہا۔ میں نے بوا سے کہا کہ اسے روکو مت، جانے دو۔

آشوتوش رکنے کو تیار تھا۔ وہ چلنے میں آناکانی دکھانے لگا۔ بوا نے پوچھا، کیا بات ہے؟

میں نے کہا، کوئی بات نہیں، جانے دو نا اسے۔

پر آشوتوش مچلنے پر آ گیا تھا۔ میں نے ڈانٹ کر کہا، پرکاش، اسے لے کیوں نہیں جاتے ہو؟

بوا نے کہا کہ بات کیا ہے؟ کیا بات ہے؟

میں نے پکارا، بنسی، تو بھی ساتھ جا۔ بیچ سے لوٹنے نہ پائے۔ سو میرے حکم پر دونوں آشوتوش کو زبردستی اٹھا کر سامنے سے لے گئے۔

بوا نے کہا، کیوں اسے ستا رہے ہو؟ میں نے کہا کہ کچھ نہیں، ذرا یوں ہی۔۔

پھر میں ان کے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں لے بیٹھا۔ سیاست ملک کی ہی نہیں ہوتی، محلے میں بھی سیاست ہوتی ہے۔ یہ بوجھ عورتوں پر لدا ہوتا ہے۔ کہاں کیا ہوا، کیا ہونا چاہیے وغیرہ کی چرچا عورتوں کو لے کر رنگ پھیلاتی ہے۔ اسی طرح کی کچھ باتیں ہوئیں، پھر چھوٹا سا بکسا سرکا کر وہ بولی، ان میں وہ کاغذ ہیں جو تم نے مانگے تھے۔ اور یہاں— یہ کہہ کر اس نے اپنی باسکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر پازیب نکال کر سامنے کی۔

جیسے سامنے بچھو ہوں۔ میں خوف زدہ سا ہو کر کہہ اٹھا کہ یہ کیا؟

بولی کہ اس روز بھول سے یہ ایک پازیب میرے ساتھ چلی گئی تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close