ہڑتال یا ہٹ تال۔۔۔؟ بعض الفاظ کی دلچسپ اصل اور اشتقاق

ویب ڈیسک

لفظوں کی اصل اور ان کی تاریخ کا کھوج ایک دلچسپ علمی مشغلہ ہے۔ تاریخی لسانیات (historical linguistics) اور علمِ اشتقاقیات (etymology) وہ علوم ہیں، جن کی مدد سے لفظوں کی تاریخ، ان کی اصل اور تاریخ کے مختلف ادوار میں ان کی بدلتی ہوئی شکلوں کا سراغ لگایا جاتا ہے۔آئیے آج چند الفاظ کی اصل اور ان کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

٭ برباد:
فارسی کے دو الفاظ یعنی بر (پر، اوپر) اور باد (ہوا) سے مل کر ’’برباد‘‘ کی ترکیب بنی ہے۔ لفظی معنی ہیں: ہوا کے اوپر، مراد ہے تباہ، خراب، اُجاڑ۔

غالباً کسی زمانے میں مکمل ترکیب ’’خاک برباد‘‘ رہی ہوگی، یعنی جس کی خاک ہوا پر ہو۔ جب کوئی چیز بالکل تباہ ہوجاتی ہے تو اس کی خاک کو ہوا اڑائے پھرتی ہے۔ تو بتایئے کہ جس کی خاک بھی ہوا کے دوش پر اڑتی پھرتی ہو، اس کی تباہی اور ویرانی میں کیا شبہہ رہ جاتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ بسا اوقات چند الفاظ مکمل تصویر بلکہ تاریخ بیان کردیتے ہیں۔

٭ بھیڑچال :
چالبھیڑ ایک جانور ہے، جس کو پالتے ہیں اور چال یعنی چلنے کا انداز یا حرکت کرنے کا طریقہ، لیکن مجازاً بھیڑ چال کے معنی ہیں: دیکھا دیکھی کیا ہوا کوئی کام، بغیر سوچے سمجھے دوسروں کی تقلید، عام رواج یا دستور کے مطابق آنکھیں بند کر کے کیا گیا عمل۔ اس کی وجہِ تسمیہ یہ ہے کہ بھیڑوں کی عادت ہوتی ہے کہ جہاں ایک جائے گی، وہیں سب جائیں گی، ایک کے پیچھے ایک چلتی جائے گی۔ اگر بھیڑوں کا کوئی گلّہ کہیں سے گزر رہا ہو اور اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ مثلاً لکڑی کا گٹھا رکھ دیا جائے تو سب سے آگے چلنے والی بھیڑ اس مقام پر پہنچ کر ایک جست لگائے گی اور پار ہوجائے گی۔ اس کے بعد پیچھے آنے والی بھیڑیں بھی یہی کریں گی۔ پھر رکاوٹ ہٹا بھی دی جائے تب بھی پیچھے آنے والی بھیڑیں بغیر دیکھے ٹھیک اس مقام پر پہنچ کر اچھلتی ہوئی گزریں گی۔ اسی سے بھیڑ چال کی ترکیب اندھی تقلید کے معنوں میں رائج ہوگئی۔

٭ تہذیب :
عربی لفظ ’’تہذیب‘‘ کو ہم ثقافت یا تمدن کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں اور درست کرتے ہیں، لیکن اسٹین گاس کی لغت کے مطابق عربی میں لفظ تہذیب کا مادہ ہذب ہے، اور اس کے اصل معنی ہیں صاف کرنا، کسی چیز کی درستی کرنا یا اسے پاک کرنا یا اسے پالش سے چمکانا۔

احمد دین نے اپنی کتاب ’’سرگزشتِ الفاظ‘‘ میں لکھا ہے کہ تہذیب کے ایک معنی ہیں، کھجور کے درخت سے فالتو چھال کو الگ کرکے اسے صاف کرنا۔ چھال کو چھیلنے کا مقصد صاف ستھرا کرنا ہی ہوتا ہے اور جب انسان سے خرابیوں کو چھیل کر دور کر دیا جائے تو وہ تہذیب یافتہ یعنی مہذب ہوجاتا ہے۔

٭ ردیف :
ردیف عربی لفظ ہے اور اس کے لفظی معنی ہیں: گھوڑے پر سوار شخص کے پیچھے بیٹھنے والا۔ چونکہ شاعری میں ردیف وہ لفظ ہوتا ہے یا الفاظ ہوتے ہیں، جو قافیے کے پیچھے پیچھے آتے ہیں اس لیے یہ نام رکھاگیا۔

٭ رقیب :
رقیب عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے لفظی معنی ہیں: محافظ، نگہبان، نگران۔ یہ اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں شامل ہے کیونکہ بے شک اللہ تعالیٰ ہر وقت ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ اسی لیے لڑکوں کا نام عبدالرقیب رکھا جاتا ہے، لیکن رقیب کا لفظ اردو میں ایک دوسرے معنی میں بھی مستعمل ہے اور وہ معنی ہیں: حریف یا مخالف، خاص طور پر وہ شخص جو آپ کے محبوب پر عاشق ہو، آپ کا رقیب کہلاتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ آپ کا رقیب ہر وقت آپ پر نظر رکھتا ہے اور نگرانی کرتا ہے کہ کہیں آپ محبوب کے کوچے میں تو نہیں جا رہے۔ غالباً اسی نگرانی کی وجہ سے اس کا نام رقیب پڑ گیا۔

٭ روح و رواں:
اردو میں اس ترکیب کو عام طور پر ’’روحِ رواں‘‘ لکھا جاتا ہے، مثلاً فلاں صاحب اس ادارے کے روحِ رواں ہیں، لیکن یہ درست نہیں ہے، کیونکہ یہاں ’’رواں‘‘ کے معنی جاری یا چلتا ہوا نہیں ہیں، بلکہ ترکیب میں فارسی لفظ رواں ’’جان ، روح ، نفس‘‘ کے معنوں میں آتا ہے۔

فارسی زبان میں علمِ نفسیات یعنی سائیکولوجی (psychology) کو روان شناسی کہتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اردو والے بعض اوقات فارسی الفاظ کے آخر میں آنے والے نون کو نون کی بجاے نون غنہ بنا دیتے ہیں (خاص کر مرکبات میں) اور ’روان‘ (نون کے ساتھ) کو ’رواں‘ (نون غنے کے ساتھ) لکھتے اور بولتے ہیں۔ حالانکہ جدید فارسی میں نون غنہ استعمال نہیں ہوتا اور فارسی کے کلاسیکل شعرا کا جو کلام ایران میں مدوّن ہو کر شائع ہوا ہے، اس میں ہر جگہ نون غنے کی بجاے نون لکھا گیا ہے۔

خیر یہ تو دوسری بحث نکل آئی، کہنا یہ ہے کہ روحِ رواں اردو میں رائج ہوگیا ہے لیکن بہتر ہے کہ اسے ’روح و رواں‘ لکھا جائے، یعنی روح اور جان۔ البتہ یہ وضاحت ضروری ہے کہ اسٹین گاس نے اپنی لغت میں لفظ ’روح‘ کے جو ذیلی مرکبات درج کیے ہیں، ان میں روحِ روان بھی شامل ہیں اور اس کے معنی اس نے ’’زندہ روح‘‘ لکھے ہیں۔ اسٹین گاس کی اس سند کی بنیاد پر بعض لوگ کہتے ہیں کہ ”فلاں صاحب اس ادارے کے روحِ رواں (یعنی زندہ روح) ہیں“ بولنا درست ہے۔

بہرحال، یہ تو ایک الگ بحث ہے۔ کہنا صرف یہ تھا کہ اس ترکیب میں ’’رواں‘‘ دراصل جان یا نفس کے معنی میں ہے۔

٭ رُومال:
یہ لفظ فارسی کے دو الفاظ ’رُو‘ اور ’مال‘ سے مل کر بنا ہے۔ ’رو‘ (واوِ معروف) یعنی چہرہ اور ‘مال‘ دراصل فارسی کے مصدر مالیدن سے ہے اور مطلب ہے مَلنا۔ گویا ’رومال‘ کے لفظی معنی ہوئے: جسے چہرے پر مَلا جائے۔ جدید فارسی میں اسے ’’دست مال‘‘ کہتے ہیں اور کبھی ملا کر ’’دستمال‘‘ بھی لکھتے ہیں۔ دست کے معنی ہیں ہاتھ۔ گویا بظاہر وہ اس سے ہاتھ ملتے ہیں اور ہم چہرہ۔ لیکن ظاہر ہے کہ رومال کا استعمال اتنامحدود بھی نہیں ہے۔

مال سے یاد آیا کہ ایک ترکیب ’’ریگ مال‘‘ بھی ہے۔ ریگ کہتے ہیں ریت کو۔ ریگ مال ایک طرح کا کھردرا کاغذ ہوتا ہے، جس سے کسی چیز کی سطح کو رگڑ کر صاف کرتے ہیں۔ چونکہ اس کاغذ یعنی ریگ مال پر ریت جیسے دانے ابھرے ہوتے ہیں اور اس کاغذ کو کسی چیز پر مَلتے یا رگڑتے ہیں، اس لیے اس کا نام ریگ مال ہوا۔

’مالیدن‘ کے ’’مال‘‘ سے بنی ہوئی ایک ترکیب گوش مالی بھی ہے، جسے بعض لوگ ملا کر یعنی ’گوشمالی‘ بھی لکھتے ہیں۔ گوش یعنی کان۔جب کسی کے کان مَلے جائیں یا اینٹھے جائیں تو یہ عمل گوش مالی ہے۔ گوش مالی مجازاً ڈانٹ ڈپٹ اور تنبیہ کے معنی میں آتا ہے۔

٭ریشِ قاضی :
’ریِشِ‘ کہتے ہیں فارسی میں داڑھی کو، گویا ریشِ قاضی کے لفظی معنی تو ہوئے قاضی کی داڑھی۔ لیکن کنایۃً شراب کی بوتل کے ڈاٹ کو ’ریشِ قاضی‘ کہا جاتا ہے، شاید اس لیے کہ شراب اور شرابی کے درمیان قاضی اسی طرح حائل ہوتا ہے، جیسے بوتل کا ڈاٹ۔ ’ریشِ قاضی‘ کا ایک اور مطلب بھی ہے اور وہ ہے شراب کی صافی، یعنی شراب کو چھاننے کے لیے جو کپڑا استعمال ہوتا ہے، اسے بھی ’ریشِ قاضی‘ کہتے ہیں۔ بہرحال، یہ نام شرارت اور شوخی ہی ہے۔

٭ سہل :
اردو میں لفظ ’سہل‘ کو ہم آسان کے معنی میں لیتے ہیں اور یہ بالکل درست ہے۔ عربی میں بھی ’سہل‘ کا لفظ آسان کے معنی میں آتا ہے، لیکن عربی میں ’سہل‘ کے لفظی معنی ہیں: ہموار میدان، نرم مٹی، نرم چیز۔ چونکہ ہموار اور نرم زمین پر چلنا آسان ہوتا ہے، لہٰذا یہ آسان کے معنی میں بھی آگیا۔

٭ غریب :
عربی میں ’غریب‘ کے لفظی معنی ہیں اجنبی، وہ جو کسی مقام پر نیا آیا ہو۔ اسی لیے لفظ غریب کو ’’عجیب و غریب‘‘ کی ترکیب میں اجنبی، نادر یا انوکھا کے مفہوم میں استعمال کرتے ہیں، مگر اردو میں ’غریب‘ کا لفظ مفلس کے معنی میں بولتے ہیں ۔ یعنی امیر کی ضد، لیجیے ایک اور جھگڑا کھڑا ہو گیا کیونکہ ’’امیر‘‘ عربی میں پیسے والے کو نہیں سربراہ یا سردار کو کہتے ہیں۔ ’’غریبِ شہر‘‘ کی ترکیب میں غریب کا لفظ اجنبی یا نووارد کے معنوں ہی میں آتا ہے۔مسافر کہہ لیجیے۔ ’’امیرِ شہر‘‘ کا مطلب ہے: شہر کا بڑا یا حاکم۔

٭ قحبہ :
’قحبہ‘ کا لفظ عربی سے اردو میں آیا ہے اور اس کے معنی ہیں بُرا پیشہ کرنے والی عورت، طوائف۔ لفظ قحبہ کی اصل عربی لفظ ’’قحب‘‘ ہے اور اسٹین گاس کے مطابق اس کے معنی ہیں: کھانسی یا کھانسنا۔ دراصل کسی زمانے میں عرب میں طوائفیں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے کھانسا کرتی تھیں اور اسی سے ان کا یہ نام پڑ گیا۔ اسٹین گاس نے ’قحبہ‘ کی عربی جمع بھی لکھی ہے اور وہ ہے ’’قِحاب‘‘ (ق کے نیچے زیر، اور یہ فِعال کے وزن پر ہے) اور معنی لکھے ہیں whores یعنی طوائفیں۔

اس پر یاد آیا کہ انگریزی میں طوائفوں کے علاقے کو کنایۃً ’’ریڈ لائٹ ایریا‘‘ (red light area) یعنی سرخ بتیوں کا علاقہ کہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں کسی زمانے میں طوائفیں اپنے گھر کے باہر سرخ رنگ کی بتی روشن کرنے کی پابند تھیں تاکہ انھیں شریف گھرانوں سے الگ کیا جاسکے۔

٭ کھٹمل :
’کھٹمل‘ دو الفاظ کا مجموعہ ہے، کھٹ یعنی کھاٹ یا چارپائی اور ’مَل‘ یعنی پہلوان۔ جی جناب، جسے آپ معمولی کیڑا سمجھتے ہیں، وہ واقعی پہلوان ہے، لیکن کھاٹ کا۔

٭ ہڑتال:
یہ اصل میں ’ہَٹ تال‘ تھا۔ ہَٹ یا ہاٹ یعنی دُکان ، جسے ہٹی بھی کہتے ہیں، اور ’تال‘ یعنی تالا۔ جب ہڑتال ہوئی تو دکان پر تالا تو پڑ ہی گیا نا۔۔

٭ ہمالہ :
ہمالہ یا ہمالیہ ایک پہاڑ ہے اور اسی سلسلۂ کوہ میں دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ واقع ہے، لیکن ہمالہ کے لفظی معنی ہیں: برف کا گھر۔ اور واقعی جس پہاڑ پر سال کے بارہ مہینے برف جمی رہتی ہو اور جہاں اکثر برفانی طوفان آتے ہوں، اس کو برف کا گھر ہی کہنا چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close