بلوچ یکجہتی کمیٹی کی توانا احتجاجی تحریک اور بلوچستان کی روایتی قوم پرست جماعتوں کی داؤ پر لگی ساکھ۔۔

ویب ڈیسک

کوئٹہ کے جنوبی کنارے ہزار گنجی پر موجود ایک نیلے رنگ کی بس کے اردگرد لوگوں کی ایک کثیر تعداد فون اٹھائے اس تاریخی منظر کو فلم بند کرنے کی کوشش کر رہی ہے

کچھ ہی دیر میں یہ مجمع ایک ریلی کی صورت اختیار کرتے ہوئے یونیورسٹی آف بلوچستان کی جانب بڑھنے لگا۔ اس ریلی میں موجود افراد بظاہر خوش نظر آ رہے ہیں۔

یہ کسی فاتح اسپورٹس ٹیم کی وطن واپسی پر منایا جانے والا جشن نہیں بلکہ کوئٹہ پہنچنے پر ہزاروں افراد کی جانب سے ماہ رنگ بلوچ کی سربراہی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیرِ اہتمام ہونے والے لانگ مارچ کے استقبال کے مناظر تھے۔

ریلی کے دوران ماہ رنگ بلوچ کے سر پر بلوچی پگڑی (جسے مقامی زبان میں پاگ کہا جاتا ہے) باندھی گئی۔ بلوچ روایات میں اس پگڑی کو عزت و تکریم کی علامت سمجھا جاتا ہے اور روایتی طور پر یہ قبیلے کے سربراہ کے سر پر سجائی جاتی ہے۔

بلوچستان کے مقامی ذرائع ابلاغ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ بلوچستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی خاتون کے سر پر یہ پگڑی رکھی گئی ہو

کچھ ایسی ہی صورتحال بلوچستان کے شہر تربت میں موجود لوگوں کی بھی تھی۔ تربت مکران کا وہ علاقہ ہے، جہاں صوبہ بلوچستان کی کئی سیاسی و قوم پرست جماعتوں نے اپنی تحریکوں کی بنیاد رکھی۔

اس خطے میں تشکیل پانے والی چند معروف سیاسی و قوم پرست جماعتوں میں نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) اور بلوچستان نیشنل موومنٹ وغیرہ شامل ہیں۔

مقامی سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ماضی قریب میں بلوچستان سے ابھرنے والی سماجی تحریکوں (جیسا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی) کو دیکھ کر ایسا تاثر ملتا ہے کہ یہ قوم پرست جماعتیں شاید عوام میں آہستہ آہستہ اپنی ساکھ کھو رہی ہیں۔

اور یہ صورتحال ایک ایسے موقع پر سامنے آ رہی ہے، جب بلوچستان میں موجود عسکریت پسند گروہ پہلے ہی عوام کو مرکزی دھارے کی سیاست میں حصہ لینے اور انتخابات سے دور رہنے کی تنبیہ اور دھمکی دے رہے ہیں۔

تُربت سے تعلق رکھنے والے صحافی اسد بلوچ کہتے ہیں ”یہاں کے لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ماہ رنگ کی تحریک نے مکران اور بلوچستان میں وہ کر دکھایا ہے، جو آج تک کسی قوم پرست جماعت نے نہیں کیا“

انھوں وضاحت کرتے ہوئے کہا ”چاہے سب سے پسماندہ علاقہ آواران ہو یا گوادر، تُربت، پنجگور یا کوئٹہ، اتنی عوام کسی بھی سیاسی یا قوم پرست جماعت کے لیڈر کے لیے نہیں نکلی جتنا کہ ماہ رنگ بلوچ کی آواز پر گھروں سے اپنی مرضی سے نکلی ہے“

اسد بلوچ کے مطابق، اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہاں کے لوگ قوم پرست جماعتوں سے کسی حد تک مایوس ہیں۔

اس ضمن میں ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ بلوچستان کے عوام کو آخر روایتی سیاستدانوں یا جماعتوں سے کیا گِلہ ہے؟ بلوچستان کے عام لوگ اس بارے میں کیا سوچتے ہیں۔۔ پاکستان کے دیگر علاقوں میں رہنے والے شہریوں کے برعکس بلوچستان کے ان اضلاع کی عوام کے اپنے سیاستدانوں اور قوم پسند جماعتوں سے شکایات کی نوعیت تھوڑی مختلف ہے

کیچ ڈسٹرکٹ کے ابو بکر مّری کہتے ہیں ”کسی بھی سیاسی یا قوم پرست جماعت نے اُن مسائل کا حل ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی، جس کی ہمیں سامنا ہے۔ سیاستدانوں کا تعلق صرف بلوچستان کی معدنیات سے ہے، بلوچستان کے ساحل سے ہے، اُن کا تعلق عوام سے نہیں ہے۔“

جبکہ تُربت سے تعلق رکھنے والے طالبعلم ولید کا کہنا ہے ”یہاں اصل مسئلہ تو مسنگ پرسنز کا ہے، اس کے بعد تعلیم کا اور پھر بارڈر کے کاروبار کی عارضی حیثیت کا۔ یہاں بہت بے روزگاری ہے اور جن لوگوں کے پاس طاقت ہے، وہ کچھ نہیں کرنا چاہتے“

ابو بکّر کا کہنا ہے ”آپ عدالتوں سے رہا ہونے والوں کو بھی ماورائے عدالت قتل کر رہے ہو۔ آپ کیسے معاملہ حل کریں گے پھر؟ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے، جس کا حل بات چیت ہے۔ آپ ایک ٹیبل پر بیٹھ کر بات چیت کریں گے، تب ہی معاملات حل ہوں گے“

آواران سے تعلق رکھنے والے ایاز احمد کہتے ہیں ”میں اگر اپنی بات کروں تو میں اس بار کسی سیاسی جماعت کو ووٹ نہیں دوں گا۔ میں کیوں ووٹ دوں۔ جب مجھے پتا ہے کہ لوگوں کو لایا جا رہا ہے“

ایک اور شہری نے شکایت کی کہ ’یہاں لوگ اپنا پیٹ بھرنے آتے ہیں، ہمیں کوئی امید نہیں ہے۔ یہ سب ڈرامہ رچایا جاتا ہے۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’سب سے بڑا مسئلہ مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا ہے۔ آئے دن کئی لوگوں کو اٹھایا جاتا ہے۔ بیروزگاری ہے۔ ہماری بات کہاں سنی جاتی ہے۔‘

بلوچوں کی اکثریت نے دیگر مسائل کی بات کرنے کے علاوہ مسنگ پرسنز کو بلوچستان کا ایک بڑا مسئلہ ضرور قرار دیا۔

مکران بلوچستان کا وہ واحد علاقہ یا خطہ ہے، جہاں سرداری نظام نہیں چلتا۔ اسد کہتے ہیں ”یہاں پر پڑھنے لکھنے کا اور سوال کرنے کا رواج ہے۔ یہاں اسٹڈی سرکل ہوتے ہیں، جن میں جو شخص بھی کوئی نئی کتاب پڑھتا ہے، وہ اپنے دوستوں سے شیئر کرتا ہے۔ اس کا خلاصہ ہوتا ہے اور بحث ہوتی ہے۔ یہاں کے لوگ کسی کے تابع نہیں رہے ہیں۔ اسی لیے یہاں قوم پرست جماعتوں کو بھی تنقید کا نشانے بنایا جاتا ہے اور اندھا دھند ان کی کوئی بھی بات نہیں مانی جاتی“

جبکہ قوم پرست جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی سیاست کی بنیاد بلوچ اکثریتی علاقوں میں عوام کو بنیادی حقوق دلانے کے گِرد گھومتی ہے۔

انہیں جماعتوں میں سے ایک نیشنل پارٹی بھی ہے۔ اسی پارٹی سے اس سے پہلے عبدالمالک بلوچ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہے تھے۔

نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر اور الیکشن کمیشن کے سابق رکن جسٹس ریٹائرڈ شکیل احمد بلوچ ایک بار پھر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ شکیل بلوچ لوگوں کی باتوں سے کسی قدر اتفاق کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے ”ایسا اسی لیے ہو رہا ہے کیونکہ الیکشن میں ایسے لوگوں کو لا کر عوام پر مسلط کیا جاتا رہا ہے، جن کا سیاست سے دور دور تک کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا بلکہ یہ کریمنل بیک گراؤنڈ کے لوگ ہوتے ہیں“

انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال میں ’عام سیاست دان کیا کرے؟ آپ جب تک ہماری سیاست میں رخنا ڈالیں گے تب تک یہ مسائل رہیں گے۔‘

تُربت میں لوگ شاید کسی قوم پرست جماعت کے سربراہ کا نام نہ جانتے ہوں، لیکن ماہ رنگ بلوچ کا نام یہاں سب جانتے ہیں۔ بلوچستان کے دیگر شہروں کی صورتحال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ یہ صورت حال اس سوال کو جنم دیتی ہے کہ کیا سیاسی و قوم پرست جماعتوں کی ساکھ کو سماجی تحریکوں سے خطرہ ہے؟

نیشنل پارٹی کے شکیل بلوچ کہتے ہیں ”یہ بات اپنی جگہ ہے کہ لوگ چُپ کر کے نہیں بیٹھیں گے۔ آپ جتنا لوگوں کو دبائیں گے، وہ اتنی مزاحمت کریں گے۔ وہ اپنا غم و غصہ بیان کر رہے ہیں اور ایسا کرنے کے لیے انھیں اب قوم پرست جماعتوں کی شاید اتنی ضرورت نہیں رہی۔۔ لیکن اصل غصہ زیادہ تر لوگوں کو ان سے ہے، جو نقلی ہیں۔ جو جرائم پیشہ بیک گراؤنڈ رکھتے ہیں اور عوام پر مسلط کیے جاتے ہیں۔ ہم جیسے سیاستدان اب بلوچستان کی سیاست میں ہونے والی مداخلت سے نمٹ رہے ہیں“

بلوچستان سے ہی تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے بتایا کہ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ یعقوب بزنجو نے حالیہ دنوں میں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کا ٹکٹ رد کر کے بطور آزاد امیدوار کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور فروری میں ہونے والے انتخابات میں وہ گوادر اور کیچ کی سیٹ سے الیکشن لڑیں گے۔

یہاں کے لوگوں کی شکایت ہے کہ بیروزگاری اور بنیادی سہولیات کی کمی کے علاوہ انھیں ایک بڑا مسئلہ جبری گمشدگیوں سے ہے اور اس مسئلے کا حل ان قوم پرست جماعتوں کے پاس نہیں ہے۔

کیچ ڈسٹرکٹ کے ابو بکر مّری نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا ”دہشت کو ختم کریں۔ آج خوف ہمارے دلوں میں نہیں ہے۔ بلوچستان نے اتنی لاشیں اٹھائی ہیں کہ اب ہم برملا بات کرتے ہیں۔ دھماکوں میں ہمارے پیاروں کی جانیں گئی ہیں۔ تو اب ہم کُھل کر بولیں گے کہ اس علاقے کے حالات کو ٹھیک کریں۔ بے شک ہم مر جائیں، لیکن اچھا ہے کہ یہ سب کچھ کر کہہ کر مریں۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close