خفیہ اداروں پر عدلیہ معاملات میں مداخلت کا الزام۔۔ چھ ججوں نے اپنے خط میں کیا لکھا ہے؟

ویب ڈیسک

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی طرف سے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس فائز عیسٰی کو لکھے گئے خط میں پاکستان کی طاقتور خفیہ ایجنسی پر لگائے جانے والے الزامات کے حوالے سے تحقیقات کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ خط لکھنے کے بعد بار ایسوسی ایشنز نے ججوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے بھی ججوں کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔

پاکستان تحریکِ انصاف، بلوچستان بار کونسل، اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایسشن، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس خط کے حوالے سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جبکہ لاہور ہائی کورٹ بار کے کا ایک رکن نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے

حکومتی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایجنسیوں نہیں بلکہ ججوں کے احتساب کا فورم ہے۔ ان کے بقول ججوں نے اپنی شکایت غلط جگہ پہنچائی ہے۔

ن لیگی رہنما نے خفیہ اداروں کے دباؤ کی نشاندہی کرنے والے ججوں کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔

اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔ کل ایک اہم پیش رفت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ کا ایک اجلاس طلب کیا، جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے سیاسی کیسوں میں انٹیلیجنس ایجنسیوں کی مداخلت کے الزام پر مبنی خط پر غور کیا گیا۔

اجلاس تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہا، جس میں چیف جسٹس کے علاوہ 14 ججوں نے شرکت کی، تاہم اجلاس کے اختتام پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی جانب سے خفیہ ایجنسیوں کی عدالتی معاملات میں مداخلت، رشتہ داروں، دوستوں اور اہل خانہ کے ذریعے اثرانداز ہونے کی مبینہ کوششوں اور مختلف طریقوں سے ہراساں کرنے کے الزامات پر مبنی خط کے بعد صورتحال انتہائی سنجیدہ نوعیت اختیار کر گئی ہے۔
اس سلسلے میں وزیراعظم شہباز شریف اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے درمیان ملاقات جمعرات کو طے پا گئی ہے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر، جسٹس بابر ستار، طارق محمود جہانگیری، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی طرف سے 25 مارچ کو ایک خط میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے اہلکار عدالتی کارروائی اور فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ خط شوکت عزیز صدیقی کی نظرِ ثانی کی اپیل کے فیصلے کے دو دن بعد، یعنی منگل کو منظر عام پر آیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے بھی کچھ برسوں پہلے پاکستان کی خفیہ ایجنسی پر الزام لگایا تھا کہ وہ عدالتوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ان کے اس الزام کی وجہ سے انہیں نوکری سے برخاست کر دیا گیا تھا، جس کے خلاف انہوں نے نظر ثانی کی اپیل کی تھی۔ سپریم کورٹ نے ان کی برطرفی کو کچھ دنوں پہلے ہی ختم کیا ہے۔

اب چھ ججوں کے خط میں الزام لگایا گیا ہے کہ خفیہ ادارے کے اہلکار مبینہ طور پر ججوں کو دھمکیاں دیتے ہیں اور عدالتی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔ خط میں ایسی مداخلت کے سات واقعات ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ خط لکھنے والے ججز نے اپنے اوپر دباؤ کی کوششوں سے متعلق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو 2023 اور 2024 میں لکھے خطوط بھی شامل کیے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ عمران خان کے خلاف ٹیریان وائٹ کیس سے ججز کی رائے میں اختلاف کا آغاز ہوا. چیف جسٹس عامر فاروق نے ٹیریان وائٹ کیس قابلِ سماعت قرار دیا جبکہ کیس ناقابلِ سماعت قرار دینے والے ججوں پر آئی ایس آئی کے آپریٹو کی جانب سے رشتہ داروں اور دوستوں کے ذریعے بے حد پریشر ڈالا گیا۔

خط کے مطابق ”یہ معاملہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور پھر اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے رکھا گیا تو چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ انہوں نے آئی ایس آئی کے ڈی جی سی سے بات کر لی ہے، آئندہ ایسا نہیں ہوگا لیکن پھر بھی یہ سلسلہ رک نہیں سکا“

خط میں کہا گیا ہے کہ خفیہ اداروں کی جانب سے ججز پر مسلسل دباؤ کا معاملہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے اٹھایا، جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ڈی جی سی سے ملاقات کی اور انہوں نے آئندہ ایسا نہ ہونے کی یقین دہانی کروائی، تاہم آئی ایس آئی کی جانب سے مداخلت جاری رہی۔

ججوں نے خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک جج کے بہنوئی کو مسلح افراد نے اغوا کیا اور اغواکاروں کا تعلق مبینہ طور پر آئی ایس آئی سے تھا، جبکہ جج کے بہنوئی کو بجلی کے شاکس بھی لگائے گئے۔ وڈیو بیان ریکارڈ کرانے کے لئے مجبور کیا. جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے اور میڈیا پر مہم چلوا کر استعفیٰ دینے کے لئے دباؤ ڈالا گیا۔ ان تمام معاملات کی اطلاع اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کو دی گئی۔

خط میں تحریر ہے کہ ایک جج کے بیڈ روم سے خفیہ کیمرہ ملا ہے، جس میں جج کی فیملی کی وڈیوز ریکارڈ کی گئی تھیں، وڈیوز دوسرے ججز کے سامنے بھی چلائی گئیں، لیکن اب تک اس پر کارروائی نہیں کی گئی۔ جب کہ ضلعی عدالتوں کے ججوں پر دباؤ بھی ڈالا گیا۔

ججز کی طرف سے انٹیلیجنس ادارے کے نمائندوں کی عدالتی امور میں مداخلت پر جوڈیشل کنونشن بلانے کی تجویز دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ جوڈیشل کنونشن سے پتہ چلے گا کہ کیا دیگر ہائی کورٹ کے ججز کو بھی اس صورتحال کا سامنا ہے؟

ان انکشافات نے نہ صرف پاکستان کے عدالتی بلکہ سیاسی حلقوں میں بھی ہلچل مچا دی ہے۔ پاکستان جوڈیشل کمیشن کے رکن راہب بلیدی نے اس حوالے سے بتایا، ”ہمیں ان انکشافات پر شدید تشویش ہے۔ پہلے بھی شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کی تحقیق نہیں ہوئی۔ اب سپریم کورٹ کو فوری طور پر اس کا نوٹس لینا چاہیے۔‘‘

راہب بلیدی کے مطابق وہ پاکستان بار کونسل سے بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ پورے ملک کے وکلا نمائندگان کی ایک کانفرنس بلائے۔

آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کا مطالبہ

لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایک عہدے دار ربیعہ باجوہ بھی اس خط پر تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ربیعہ باجوہ نے بتایا، ”ججز نے جو بھی انکشافات کیے ہیں، ان پر سپریم کورٹ میں کھلی عدالت میں کارروائی چلنی چاہیے تاکہ پوری قوم دیکھے کہ حقائق کیا ہیں۔‘‘

ربیعہ باجوہ کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی کو کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ اس طرح کسی بھی شہری کو بلیک میل کرے یا ان کو دھمکی دے، ”اس طرح عدالتی معاملات میں دخل اندازی کرنا یا ججوں کو محکوم بنانے کی کوشش کرنا آئین سے غداری کرنے کے مترادف ہے۔ جن لوگوں پر الزام ہیں، ان کے خلاف تحقیقات کر کے انہیں آرٹیکل چھ کے تحت سزا دی جائے۔‘‘

اس خط کے بارے میں پاکستان تحریک انصاف نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ کے ججز کے مراسلے نے خفیہ ایجنسیوں اور ریاستی اداروں کی غیرقانونی اور غیرآئینی سرگرمیوں کے حوالے سے بانی چیئرمین عمران خان اور تحریک انصاف کے مؤقف پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔

ایک طرف جہاں قانونی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس فائز عیسی کو لکھے گئے خط میں پاکستان کی طاقتور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر لگائے جانے والے الزامات کے حوالے سے تحقیقات کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے، وہیں دوسری طرف وکلا برادری کے کچھ اراکین اس خط کو ’ایک سوچی سمجھی سازش‘ قرار دیتے ہوئے ججوں کے ارادے بے نقاب کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

اس مسئلے پر سپریم کورٹ میں پٹیشن لے کر پہنچنے والے وکیل میاں داؤد ایڈوکیٹ کے مطابق ”اس تحقیقات میں یہ معلوم کیا جانا چاہیے کہ ان ججز کے کیا ارادے ہیں، کیونکہ عمران خان کے خلاف سائفر اپیل اپنے اختتامی مراحل پر پہنچ رہی ہے اور ایسے میں اچانک یہ خط آ جاتا ہے، جو جسٹس عامر فاروق کو ٹارگٹ کرتا ہے۔‘‘

میاں داؤد ایڈوکیٹ کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف نے پہلے جسٹس عامر فاروق سے کئی مقدمات میں یہ درخواست کی کہ وہ اپنے آپ کو بینچ سے علیحدہ کر لیں، اور جب انہوں نے اپنے آپ کو بینچ سے علیحدہ نہیں کیا تو پہلے ان کے خلاف مہم شروع کی گئی اور پھر یہ خط آگیا اور اب وہ مہم ایک بار پھر زور پکڑ گئی ہے۔‘‘

تاہم انسانی حقوق کی کارکن اور معروف وکیل ایمان زینب مزاری خط لکھنے والے ججوں پر ایسے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے ”ججوں کے خلاف الزامات انتہائی گھٹیا ہیں، جو ن لیگ کے کچھ لوگوں کی طرف سے لگائے جا رہے ہیں۔ ان ججوں کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔‘‘

ربیعہ باجوہ بھی اس تاثر کی سختی سے تردید کرتی ہیں کہ ان ججوں کا کوئی ایجنڈا ہے، ”ان ججوں نے پہلے بھی خط لکھ کر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا، تو یہاں اس خط کی ٹائمنگ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اصل مسئلہ مداخلت کا ہے۔‘‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی طرف سے خفیہ اداروں پر الزام کے جواب میں سوشل میڈیا پر مخصوص اکاؤنٹ سرگرم ہو گئے ہیں اور انہی ججز کے خلاف الزامات بھی عائد کیے جارہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی جانب سے لکھے گئے خط کو پاکستان کے انتطامی امور پر ایک ’چارج شیٹ‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے اس معاملے پر لارجر بینچ تشکیل دینے اور اس کی فوری سماعت کی استدعا کی ہے۔

بدھ کو اسلام آباد میں دیگر رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ ’کوئی ایک، دو یا تین نہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ جج اس دباؤ سے متاثر ہوئے۔

’ایک جج نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ کہ میرے بچے کہاں ہیں، ایک جج نے کہا کہ میرے بیٹے کا ولیمہ ملتوی کروایا گیا، اس قسم کے فیصلے دیے گئے، جس کے ٹرائل کے درمیان جرح کی اجازت نہیں تھی، شواہد پیش کرنے کا حق نہیں دیا گیا۔ ہم دلائل کے لیے گئے لکن جج نے فیصلہ سنا دیا۔ ابھی فیصلہ بھی نہیں آیا کہ عمران خان کو گرفتار کرکے اڈیالہ جیل پہنچا دیا دیا گیا۔‘

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ’ہم باضابطہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ججوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے، جن ججوں نے خط لکھا، ان کے اہل خانہ کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ جوڈیشل کمیشن کے تحت اس کی انکوائری فوری شروع کی جائے۔‘

پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ ’جو منصف بیٹھے ہیں، وہ خود اپنی داستان سنا رہے ہیں کہ وہ انصاف کے طلب گار ہیں، اگر اس خط پر کارروائی نہ ہوئی تو لوگوں کا عدلیہ پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔‘

بیرسٹر گوہر نے مزید کہا کہ ’سپریم کورٹ آج ہی لارجر بینچ تشکیل دے اور کل سے اس کی سماعت شروع کرے۔‘

دوسری جانب پریس کانفرنس کے دوران پی ٹی آئی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان نے کہا کہ 25 مارچ کو لکھا گیا خط پاکستان کے انتظامی امور پر ایک چارج شیٹ ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس معاملے کو قومی وصوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں اٹھائیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close