گوادر کے تاریخی احتجاج کے بارے میں معروف تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ کیا کہتی ہیں

نیوز ڈیسک

کراچی – اپنے بے باک موقف کی وجہ سے جانی جانے عالی معروف تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ عوامی تحریکیں متاثر کن اور امید پیدا کرنے والی ہوتی ہیں، جیسا کہ گوادر بلوچستان میں ہونے والا عوامی مظاہرہ تھا۔ ہزاروں لوگوں کا اپنے حقوق کے لیے مارچ اور آواز بلند کرنا بہت اچھی علامت ہے، لہکن اہم ترین مدعا یہ ہے کہ یہ ایک اہم واقعہ ہے مگر اسے پاکستانی میڈیا میں بہت کم کوریج دی گٸی۔ اس کا جاٸزہ نہیں لیا گیا

عائشہ صدیقہ نے گوادر کے حالیہ تاریخی احتجاج کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ”میں اسے مظاہرین کی نظر سے دیکھنے کے بجائے ریاست اور اس کے اداروں کی نظر سے اس کا جائزہ لینا چاہوں گی کہ جو کچھ ہماری نظر کے سامنے ہو رہا ہے وہ پاکستان میں حقیقی اختیارات ک منتقلی ہے؟ حتمی طاقت کے مساوات کی تشخیص اور ان کا جائزہ مستقبل کےلیے اہم اسباق ہونگے

وہ لکھتی ہیں ”16 دسمبر کو بلوچستان کے وزیراعلٰی اور مولانا ہدایت الرحمٰن کے درمیان ہونے والے معاہدے سے شاید لوگوں کو وقتی طور پر کچھ فاٸدہ ہو، لیکن میں یہ کہوں گی کہ اگرچہ معاہدہ عوامی طاقت کے متعلق کچھ امید فراہم کرتا ہے مگر یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ اس سے طاقت ور اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہٹ رہی ہے۔ سوشل میڈیا میں گوادر مظاہرے کے متعلق عام بحث و مباحثہ بہت سی چیزوں بشمول صوبے پر راج کرنے والوں کے مابین اسٹیبلشمنٹ آپسی چپلقش اور ریاست کے جیو پالٹیکل مقاصد میں ہم آہنگی کو بڑی نفاست سے چھپا رہی ہے

گوادر احتجاج کے رہنماؤں اور بلوچستان حکومت کے مابین معاہدے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کے مطابق گوادر کے ماہی گیروں سے وعدہ کیا گیا ہے کہ سمندری حدود میں غیر قانونی ٹرالرنگ کے خلاف کارروائی، چیک پوسٹوں کی تعداد میں کمی اور ایرانی سرحد پر تجارت کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں گی۔ عمران خان کی حکومت نے بھی طوفانوں سے متاثرہ ماہی گیروں کی امداد اور کشتیوں کو چھڑوانے کے لیے ایک طریقہ کار بنانے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ میں نے ایک شخص سے اس بابت گفتگو کی جو حکومت کی جانب سے معاہدے پر عملدر آمد کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں تھا۔ بے شک کچھ چیک پوسٹوں کو ہٹایا اور کچھ ٹرالرز کے خلاف کارروائی بھی عمل میں لائی جائے مگر تب بھی مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مقتدرہ قوتیں احتجاج کو جلد بازی میں سمیٹنے کے حق میں تھیں جیسا کہ انہوں نے 2017ء میں تحریک لبیک کے احتجاج کے ساتھ مظاہرین کو رشوت دے کر کیا۔ بلوچستان کے وزیراعلٰی کو بھی ایک ویڈیو میں پیسے تقسیم کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ حقیقت یہی ہے کہ گوادر کے مظاہرین اور ان کے مطالبات حقیقی تھے جن کا تحریک لبیک کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ گوادر کو پاکستان کے جیو پالیٹکل مقاصد اور سی پیک میں شاہی تاج میں جڑے ہیرے سے تشبیہ دی جا سکتی ہے اور وہاں کے عوام کا موازنہ محرومی اور غربت کے کیچڑ میں لتھڑے جواہر سے کیا جا سکتا ہے۔ گوادر کے مقامیوں کو جن کی اکثریت ماہی گیروں پر مشتمل ہے، معاشی مسائل درپیش ہونے کے ساتھ ساتھ گوادر میں بجلی کے شدید بحران کا بھی سامنا ہے۔ درحقیقت مظاہرین نے بجلی کے تین سو یونٹس ماہانہ مفت فراہمی کا بھی مطالبہ کیا تھا جسے تسلیم نہیں کیا گیا اور اس تناظر میں ایران بارڈر پر بغیر کسٹم ادائیگی کے گاڑیوں کی اجازت سے یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ مقامی لوگوں کے مطالبات اور اس اختیاراتی مفاد سے فائدہ اٹھانے والوں میں فرق کیا جانا چاہیے

انہوں نے کہا کہ غیر قانونی ٹرالنگ واقعی میں ایک حقیقی مسئلہ ہے، جس کی بنیادیں 1990ء تک جاتی ہیں، جب صوبائی فشریز کے محکمے اور کچھ غیر مقامی ٹرالر مالکان کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ طے پایا تھا

عائشہ صدیقہ نے اپنے تازہ مضمون میں لکھا ہے کہ ”جب ٹرالر مالکان بالخصوص سندھ سے تعلق رکھنے والوں نے سرمایہ کاری کی اور سندھ اور بلوچستان کے حکام کو رشوت دینی شروع کی۔ تب سے ہی معاملہ مزید گھمبیر ہوتا چلا گیا۔ نامور صحافی شاہ میر بلوچ نے بلوچستان کے ساحل پر غیر قانونی شکار پر ایک تفصیلی رپورٹ لکھی تھی۔ 2002ء میں صوبائی حکومت کی طرف سے ٹرالرنگ کو روکنے کے لیے ایک الگ میرین لیویز کے قیام کی کاوشیں رائیگاں ثابت ہوئیں۔ یا پھر شاید غیر قانونی ٹرالرنگ سے رشوت سمیٹنے کے لیے ایک اور ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا۔ نئے قائم کردہ ادارے کو چینی ماہی گیری مفادات سے کوئی سروکار نہیں جو کہ 2016ء میں سی پیک کے باقاعدہ آغاز کے ساتھ ابھرا۔ بڑے چینی ٹرالرز ناصرف زیادہ مچھلی پکڑتے ہیں بلکہ وہ تو سفید چھوٹے پامفرٹ نامی مچھلی کو بھی نہیں بخشتے جس کی مناسبت سے علاقہ مشہور ہے کہ یہ فقط وہیں پائی جاتی ہیں۔“

وہ لکھتی ہیں”ماضی کی برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح چینی کمپنیوں اور ریئل اسٹیٹ کی تعمیراتی کمپنیوں کو مقامی ماہی گیروں سے کم ہی دلچسپی ہے جنہیں رئیل اسٹیٹ میں پاکستانی اور غیر ملکی سرمایہ کار بڑے تعمیراتی منصوبوں کی تکمیل میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔“

عائشہ صدیقہ کے مطابق ”مجھے لندن کے ایک مقامی سرمایہ کار کمپنی کے ایک سیلزمین نمائندے کی گفتگو یاد آرہی ہے جس میں اس نے مجھ سے کہا تھا کہ مقامی ماہی گیروں تعمیراتی منصوبے کے مقام سے کہیں اور منتقل کیا جائے گا۔ اس سیلزمین کی آواز میں اتنی عجلت تھی جیسے وہ بیزاری سے آوارہ کتوں کو کہیں بھگا رہا ہو۔ اور نہ ہی مقامی حکام کو ماہی گیروں سے کوئی ہمدردی ہے۔ حکومت بلوچستان یا پھر صوبے کے اصل حکمران، پاکستان کی عسکری اسٹیبلشمنٹ مظاہرین سے مذاکرات کی زحمت ہی نہیں کرتے۔ اگر یہ بطور ضرب المثل ”ملین مارچ“ والے نہیں ہوتے۔ مگر لگتا ہے کہ مظاہرین کو خوش کرنے کے عمل نے اسٹیبلشمنٹ کو چائنیز کو پیچھے دھکیلنے کا ایک موقع فراہم کیا ہے، جنہوں نے اپنی طاقت کا مظاہرہ مثال کے طور پر سی پیک اتھارٹی کے فوجی چیئرمین کو اس کے عہدے سے ہٹا کر کیا تھا

گودار میں ابھرنے والی احتجاجی تحریک کے روح رواں ہدایت الرحمٰن کی سیاست کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے معروف تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ یہ بات انتہائی اہم ہے اور یہ بہت کچھ واضح بھی کرتا ہے کہ مولانا ہدایت الرحمٰن کو اتنے دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جنہوں نے گوادر میں موجود چینی شراب بنانے والی کمپنیوں اور ساحلی ریئل اسٹیٹ منصوبوں کی مسلسل مخالفت کی، جتنا کہ بلوچ علیحدگی پسندوں یا پھر قوم پرستوں کو کرنا پڑتا ہے

عائشہ صدیقہ کے بقول ”گوادر تحریک میں مولانا ہدایت الرحمٰن کے ملوث ہونے کے دو انتہائی اہم قابل غور تناظر پر فکرمند ہونا چاہیے۔ پہلا یہ کہ وہ ایک عام بندہ نہیں بلکہ جماعت اسلامی بلوچستان کا جنرل سیکرٹری ہے اور یہ جماعت بلوچستان میں لمبے عرصے سے فوج کی حمایتی اور شراکت دار رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بہت پراعتماد ہے کہ اسے استعمال کرکے مقامی لوگوں کو مجبوراً کوئی رعایت دینے کا خطرہ اٹھائے بغیر اپنے جیو پالیٹیکل مقاصد پر بات چیت اور مقاصد حاصل کر سکتی ہے۔“

وہ کہتی ہیں ”مذہبی ملاؤں کی تحریک یا پھر ان کی رہنمائی میں چلنے والی تحریک پرانی حکمت عملی کی یاد دلاتی ہے جو کہ امریکیوں کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا اور اب اسے چینیوں کے لیے آزمایا جا رہا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ چین اور پاکستان کی گہری شراکت داری پر زور دینے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ اس بات پر فکر مند ہے کہ بیجنگ کو مطلوبہ حد سے زیادہ ”اسپیس“ نہیں دینی چاہیے۔ یہ پاکستان کے لیے اہم ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کے ساتھ سری لنکا یا پھر چین کے افریقی گاہک ممالک جیسا برتاؤ نہ کیا جائے۔“

عائشہ صدیقہ کے مطابق ”دوسرا یہ کہ ہدایت الرحمٰن مقبولیت کے لیے ایک قوم پرستانہ بیانیے کا سہارا لے رہا ہے۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ جماعت اسلامی سے اپنے تعلقات ترک کر دے گا۔ اس کی جماعت وہ واحد جماعت ہے جس کی قیادت نے پچھلے چند ماہ میں گوادر کا دورہ کیا۔ قوم پرستانہ ڈھال طویل عرصے سے الیکشن جیتنے والی بی این پی جیسی قوتوں کو پیچھے دھکیلنے میں اس کا معاون ہوگا۔“

عائشہ صدیقہ نے لکھا ہے کہ ہدایت رحمان کو ڈاکٹر اللہ نذر جیسے آزادی پسند رہنماؤں سے بھی حمایت حاصل ہوئی۔ شاید اس لئے کہ انہیں اندازہ ہے مولانا تحریک کی رہنمائی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ٹارگٹ ہوئے بغیر کر سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آزادی پسند اپنی توانائیاں پاکستانی الیکشن کے عمل میں ضائع کرنے کے قاٸل نہیں۔ میری گفتگو علیحدگی پسندوں اور قومپرستوں سے ہوئی ، یہ اندازہ لگا سکتی ہوں کہ ان کے پاس مارچ کو لیڈ کرنے کا کوئی دوسرا متبادل منصوبہ یا حکمت عملی نہیں تھی۔ ھدایت الرحمٰن انتہائی ہوشیاری سے اپنی جماعت کے نظریے کے ذریعے لوگوں کی توجہ منتشر نہیں کرتا۔ وہ اب تک قوم پرست ہونے کا تاثر دیتا رہا ہے جیسا کہ اس نے ٹویٹر پر ایک گفتگو کے دوران افراسیاب خٹک سے کہا تھا کہ وہ بلوچ قوم پرستوں کو دوبارہ قوم پرستانہ سیاست میں دھکیلنے کا خواہش مند ہے اور وہ لوگوں کا نمائندہ ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہے۔“

اسٹیبلشمنٹ کی آپسی رسہ کشی کے حوالے سے عائشہ صدیقہ لکھتی ہیں ”جہاں تک ریاستی دلچسپی کا معاملہ ہے تو وہ ہدایت الرحمان کی فضل الرحمٰن اور خادم رضوی کے ملاوٹ نما طرز سے خوش دکھائی دیتی ہے، جو کہ مستقبل میں گوادر کے سیاسی افق پر ابھر سکتا ہے۔ پیسے بنانے کا شوقین اور ایک بدزبان مولانا وہاں کے سیاسی معاملات کو سنبھالنے والا ہو تو یہ عسکری اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک مناسب ملاپ ہے۔ افغانستان سے لے کر پاکستان تک اسٹیبلشمنٹ مذہبی دائیں بازو کی حمایت اور حوصلہ افزائی کے موڈ میں دکھائی دیتی ہے

عائشہ صدیقہ کے خیال میں ”مولانا کو داخل کرنے اور مظاہرے کو سنبھالنے کا ایک اور پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے اندر ایک تقسیم ہے۔ طاقتور قوت ایف سی، آئی ایس آئی اور فوجی ہیڈ کوارٹرز کوئٹہ کے بیچ آپس میں بھی ایک طرح کی کھینچا تانی ہے۔ گوادر اور باقی بلوچستان کے لوگ اس حقیقت کی گواہی دیں گے کہ ایف سی ہی صوبے میں حقیقی طاقت ہے جیسا کہ ایک سابقہ سینئر بیوروکریٹ نے مجھے بتایا کہ ایف سی وہ طاقت ہے جو بلوچستان کو یکجا رکھتی ہے اور اس نے گزرے برسوں میں بادشاہت کی شکل اختیار کر لی ہے۔ حتیٰ کہ آئی ایس آئی بھی ایف سی پر انحصار کرتی ہے۔ یہ ظالم ایجنسی جبری گمشدگی کے اکثریتی کیسوں کی ذمہ دار، عام آدمی کی زندگی کے لیے ایک خطرہ اور کسی طرح کے احتساب اور پوچھ گچھ سے بالاتر ہے۔“

انہوں نے لکھا ہے کہ”آئی جی ایف سی کے سامنے وزیراعلیٰ بلوچستان کی بھی کوئی وقعت نہیں اور اس کے افسروں کو سول بیورو کریٹس کچھ کہنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ اس طاقت کو مزید دلچسپ بنانے والی جو بات ہے وہ یہ ہے کہ ایک بہت بڑی لوٹی ہوئی دولت اور اس کو فوج کے باقی اداروں میں تقسیم کرنے کا اختیار بھی آئی جی ایف سی کے پاس ہے۔ روزمرہ کے ٹریفک کا کنٹرول، پیٹرول ڈیزل کے غیر قانونی کاروبار کی دیکھ بھال، نان کسٹم گاڑیاں، قالین ہو کہ منشیات ایسی کوئی شے نہیں جس پر ایف سی کی گرفت نہ ہو یا پھر اسے اس کا معاوضہ نہ ملے۔ حتیٰ کہ سابقہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی ایجنسی کو صاف کرنے کی خاطر آرمی کے 11 افسران کو گرفتار کیا تھا جو کہ 2016ء میں بلوچستان ایف سی میں فرائض سر انجام دے رہے تھے مگر کام نہیں بنا۔ اسی لیے وزیر اعلیٰ کی جانب سے چند چیک پوسٹوں کے خاتمے کا اعلان حقیقی مطالبات ک پورا کرنے سے بڑھ کر ہے کیونکہ یہ ایف سی کو دوبارہ کنٹرول کرنے کے لیے کسی اور ریاستی ادارے کا حربہ بھی ہو سکتا ہے۔“

ان کا مزید کہنا ہے کہ ”بلاشبہ گوادر کے مظاہرین کا احتجاج ایک سنجیدہ سیاسی عمل تھا جو کوئی بڑی چیز حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ ایسا ناصرف ریاستی اداروں کا احتساب نہ ہونے کی وجہ سے ہوا، بلکہ سیاسی جماعتوں کی نااہلی بھی اس میں شامل تھی جو اتحاد واتفاق سے مل کر اس تحریک کی جانب مددگارانہ ہاتھ نہیں بڑھا سکے۔ جب تک اسٹیبلشمنٹ سیاسی عمل کو اس طرح روکنے کے خطرات سے آگاہ ہو، شاید اس وقت تک بہت دیر ہو جائے گی۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close