ہیروئن سے بھی 50 گنا زیادہ طاقتور اور سانس روک کر موت کا سبب بننے والی دوا

ویب ڈیسک

امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے طبی استعمال کے لیے فینٹینیل نامی ایک مصنوعی دوا (اوپیئڈز) کی منظوری دی ہے جو مورفین سے سو جبکہ ہیروئن سے پچاس گنا زیادہ طاقتور ہے

تاہم طبی ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ طبی مقاصد سے ہٹ کر نشے کے طور پر اس کا استعمال انتہائی مہلک اور خطرناک ہے۔ اس کی ہلاکت خیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سنہ 2021ع میں ستر ہزار چھ سو ایک امریکی اس دوا کی زیادہ مقدار استعمال کرنے سے ہلاک ہو گئے تھے

نیشنل انسٹیٹیوٹ آن ڈرگ ابیوز نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ”اس دوا کے زیادہ استعمال سے بہت سے امریکی شہریوں کی موت واقع ہوئی ہے۔ تاہم امریکی حکومت نے حال ہی میں اس مصنوعی اوپیئڈز کے اثر کو روکنے کے لیے نالوکسن نامی دوا کی ’اوور دی کاؤنٹر‘ فروخت کی منظوری دی ہے

لیکن سوال یہ ہے کہ فینٹینیل کا دماغ پر کیا اثر ہوتا ہے اور یہ اتنی خطرناک کیوں ہے؟

فینٹینیل پہلی بار سنہ 1959 میں تیار کی گئی تھی اور 1960 کی دہائی میں نس کے ذریعے درد سے نجات حاصل کرنے کے لیے متعارف کرائی گئی تھی۔ فینٹینیل کو اپنی مختلف شکلوں (گولیاں، پیچ، انجیکشن وغیرہ) میں ایک بے ہوشی کی دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور سرجری یا پیچیدہ صحت کی حالت کی وجہ سے ہونے والے شدید اور پرانے درد کو دور کرنے کے لیے طبی ماہرین کی نگرانی میں مناسب مقدار میں استعمال کیا جاتا ہے

ہیروئن یا مورفین جیسی دیگر اوپیئڈز کی طرح فینٹینیل دماغ کے ان حصوں میں پائے جانے والے ’اوپیئڈ ریسیپٹرز‘ کے ساتھ جا کر ایسے ملتا ہے، جو درد اور جذبات کو کنٹرول کرتے ہیں

یہ ریسیپٹرز عام طور پر ہمارے اپنے جسموں کی طرف سے جاری کیمیکلز کا جواب ہیں اور ہمیں ان سرگرمیوں میں انعام کے طور پر ملتا ہے، جو ہماری بقا میں حصہ ڈالتی ہیں، جیسے کہ کھانا، پینا، یا جنسی تعلق وغیرہ

اوپیئڈز کا اثر اس بات پر منحصر ہے کہ یہ مادہ دماغ میں کتنی جلدی داخل ہوتا ہے اور کتنی جلدی ایسا کرتا ہے

چونکہ یہ چھوٹی مقدار میں ایک انتہائی طاقتور دوا ہے، اس لیے اسے دماغ تک پہنچنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا اور فینٹینیل اس عمل میں مزید تیزی کا سبب بنتی ہے

ایک بار جب فینٹینیل دماغ میں داخل ہوتی ہے تو یہ اوپیئڈ ریسیپٹرز کے ساتھ تعامل کرتی ہے، ڈوپامائن کے اخراج میں سہولت فراہم کرتی ہے، درد کو ختم کرتی ہے، مریض کو اپنی حالت میں بہتری اور سکون کا احساس دیتی ہے اور اس کے اضطراب اور بے چینی کو کم کرتی ہے

یوں سمجھیں کہ اپنے اثر کے لحاظ سے یہ تھوڑا سا کوکین کی طرح کی ہے۔ جب لوگ اسے پہلی بار استعمال کرتے ہیں تو انہیں عمدگی اور سرشاری کا احساس ہوتا ہے، لیکن جب وہ اسے دوبارہ لیتے ہیں تو وہ کبھی بھی وہ سکون حاصل نہیں کرتے جو انہوں نے پہلی بار حاصل کیا تھا اور نتیجہ اس دوا کے مقدار کو بڑھانے کی صورت میں نکلتا ہے

کینیڈا میں مینیٹوبا یونیورسٹی کی فیکلٹی آف ہیلتھ سائنسز کے پروفیسر ایمریٹس ڈینیئل ستار اس دوا کی مقدار بڑھانے کے حوالے سے بتاتے ہیں ”یہ احساس فینٹینیل کو طاقتور لت بناتا ہے، تاہم دماغ پر اس کا ایک اور طرح کا اثر مرتب ہوتا ہے اور یہی چیز اسے مہلک بناتی ہے، یہ وہ اثر ہے کہ اس کی وجہ سے انسان سانس لینا بند کر دیتا ہے اور ہائپوکسیا سے مر جاتا ہے“

ڈینیئل ستار کا کہنا ہے ”سانس کے افعال کو کنٹرول کرنے والے دماغی خلیہ میں اوپیئڈ ریسیپٹرز بھی ہوتے ہیں، جب وہ فینٹینیل سے بھر جاتے ہیں تو ایسے میں آپ سانس روک سکتے ہیں، چاہے آپ ہوش میں ہوں“

ہارورڈ یونیورسٹی سے منسلک میساچوسٹس جنرل ہسپتال کے محققین کی جانب سے کی گئی ایک حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دوا دیگر تبدیلیوں سے پیشتر اور ہوش کھونے سے پہلے سانس روک دیتی ہے

تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا کہ فینٹینیل نظام تنفس کی خرابی کا باعث بننا شروع کر دیتی ہے۔ اعضا کے چوکنا ہونے کے عمل کے چار منٹ پہلے اور نیند یا سکون دینے والی دوسری دوائیوں سے اس کی ’کانسنٹریشن‘ سترہ سو گنا کم ہوتی ہے

اس مقالے کے سرکردہ مصنف اور محقق پیٹرک ایل پرڈن کا کہنا ہے ”اس تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ فینٹینیل اتنی مہلک کیوں ہے۔۔ یہ لوگوں کو اس کے علم ہونے سے پہلے ہی ان کا سانس لینا بند کر دیتی ہے“

ڈینئیل ستار کے مطابق ”طبی وجوہات سے ہٹ کر جب اسے آپریشن کے دوران زیادہ مقدار میں اینستھیزیا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو سانس کو دبانا حقیقت میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، کیونکہ پھیپھڑوں کو ٹیوب کے ذریعے آکسیجن فراہم کی جاتی ہے“

ہارورڈ یونیورسٹی کے مطالعہ کے نتائج یہ واضح کرتے ہیں کہ جب تک کہ اسے ایک خاص مہارت سے طبی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے، فینٹینیل کا کسی بھی مقدار میں استعمال خطرے سے خالی نہیں ہے

ڈینئیل ستار کہتے ہیں ”دوسری طرف جب فینٹینیل کو تفریحی طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو لوگ عام طور پر یہ نہیں جانتے کہ وہ اس کی کتنی مقدار لے رہے ہوتے ہیں۔ دوائی میں عام طور پر دوسرے کیمیائی مادوں کے ساتھ ملاوٹ ہوتی ہے، جو اس کے اثرات کو غیرمتوقع بناتی ہے کیونکہ وہ مرکب کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔ بعض اوقات اسے محرکات کے ساتھ ملایا جاتا ہے کیونکہ یہ ’ریوارڈ‘ کے اجزا کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ ڈوپامائن کے اخراج کو تیز کرتی ہے اور سانس کے نظام کو متاثر کرتی ہے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close